ہفتہ، 10 اکتوبر، 2015

پٹوارکلچرالوداع

گئے دنوں کی بات ہے فیصل آباد میں ایک ڈپٹی ڈائریکٹر ڈی جی پی آر عابد کمالوی تعینات تھے۔ جن کی اپنے ماتحت موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر سبحان ملک سے ایسی دوستی تھی جسے ہم جیسے دوست لڑائی سمجھتے تھے ۔۔ اس سرد جنگ کا بھانڈا ۔قمر بخاری پی آ ر او ۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے پھوڑا تھا۔۔ ایک بار عابد کمالوی علیل ہو گئے اور قمر بخاری عیادت کے لئے پہنچ گئے ۔
قمر بخاری:کمالوی صاحب کیسی طبیعت ہے ۔؟
کمالوی:بس ۔بخاری صاحب کسی پل چین نہیں پڑتا۔
بخاری :دوائی وغیرہ لی۔ ؟
کمالوی:جی روزانہ پھکا مارتا ہوں۔۔پھربھی فرق نہیں۔
بخاری : آپ صبح شام ’’یاسبحان‘‘ کی تسبیح کیا کریں
قمر بخاری کے اس غیر طبی مشور ے پر کمالوی صاحب کی جو کیفیت تھی وہ مزید بیان نہیں کی جا سکتی ۔۔ کیونکہ قمر بخاری کےیا سبحان کا مطلب ۔۔ سبحان ملک تھا۔
 سبحان ملک آج کل ڈپٹی ڈائریکٹر ڈی جی پی آر ہیں۔میری ان سے گاڑھی لیکن ضرورتی ۔دوستی ہے ۔۔جب کام پڑے رابطہ کر لیا۔ غیر ضروری رابطہ کم ہی ہوتا ہے۔ وہ مونا لیزا کی طرح مسکراتا چہرہ ہیں۔۔ کچھ عرصہ پہلے تک ان کے چہرے پر صرف خوشی ہوتی تھی لیکن آج کل داڑھی بھی ہے۔یہ دوہری خوشی ہے ۔ پتہ نہیں یہ داڑھی کی خوشی ہے یا خوشی کی داڑھی ہے وہ ہمیشہ ہشاش باش دکھتے ہیں۔سرکار کی خبریں اور سرکاری ترقی پسند کالم لکھنا ان کی ذمہ درای ہے۔حال ہی میں انہوں نے اپنا ایک کالم ’’پٹوار کلچر۔ الوداع‘‘بذریعہ ای میل ارسال کیا ہے۔۔
بخدا میں نے یہ عنوان خالصتا اُسی پیرائے میں لیا ہے ۔ جس تناظر میں انہوں نے لکھا ہے لیکن تحریک انصاف کی سیاست کی وجہ سے پٹواری کا لفظ چونکہ غیر پارلیمانی سا لگنے لگا ہے اس لئے ۔ مجھے کالم کا عنوان ۔۔عمران خان کی امنگوں کا ترجمانی لگنے لگا ہے۔۔
پٹواری یوں تو محکمہ مال کا اہلکار ہو تا ہے لیکن وہ دو ۔ جمع دو برابر بائیس کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ قیام پاکستان سے آج تک ہرحاکم نے پٹواری کو ٹشو پیپر بنائے رکھا۔آمریت کے دور میں پٹواری ہمیشہ آلہ کار بنائے گئے۔تازہ ترین پرویزی آمریت کا تو میں خود عینی شاہد ہوں ۔جب جلسوں کا انتظام، ٹرانسپورٹ ، کھانا پینا اور بندے لا کر انہیں بھرنے تک ۔سب کچھ پٹواری کے ذمہ تھا ۔ اسی سیاسی کرپشن نے پٹواری کو مالی کرپشن کی راہ دکھائی۔۔ظاہر ہے تنخواہوں سے صرف چولہے جلتے تھے۔انہیں فری ہینڈ ملا تو کلف لگی شلوار قمیض اور تلے والے کھسے پہننا شروع کر دئیے۔پبلک ٹرانسپورٹ سے وہ موٹر سائیکلوں اور پھر وڈی ۔گڈیوں کے مالک بن گئے ۔ بچے کھوتی سکولوں سے انگلش میڈیم پڑھنے لگے ۔حتی کہ بیرون ممالک سے اعلی تعلیم بھی حاصل کر لی۔ ۔ شہر کے ہر خالی پڑے پلاٹ کو دیکھ کر ان کی رال ٹپکی۔ قبضہ مافیا کو ساتھ ملا کر کالونیاں کاٹیں۔اور بڑے بڑے رقبوں کے مالک بن گئے۔ اور حکمرانوں کا اقتدار مضبوط ہوتا رہا۔۔ ایک بیٹے نے اپنی ماں کوکہا
بیٹا:۔اماں۔ مجھے نوکری مل گئی ہے۔۔ میں اسسٹنٹ کمشنر لگ گیا ہوں ۔
اماں: (دعا دیتے ہوئے) اچھا بیٹا اللہ تجھے پٹواری بھی بنائے
اماں نے جس بیٹے کو اسسٹنٹ کمشنر کے بڑے عہدے سے چھوٹے رتبے کا پٹواری بننے کی دُعا دی تھی۔۔ اس ماں نے شائد محلے میں کسی پٹواری کا وہ سماجی رتبہ دیکھ لیا ہو گا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے ۔ ایسے ہی پٹواریوں کا ذکر گذرے کئی سال سے ملکی سیاست میں گالی کے طور پر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں آج بھی زمینوں کی نشاندہی اور شناخت کپڑے پر بنائے گئے ایک شجرہ سے ہوتی ہے۔ جسے پٹواری لٹھا کہتے ہیں۔ جسے دیکھ لینا عام آدمی کے لئے جنت کے نظارے سے کم نہیں ہوتا ۔ ۔زمین کی فرد لینے ہو تو فیس نما رشوت دینا پڑتی ہے ۔ جو سرکارکے بجائے ذاتی خزانے میں جاتی ہے۔لٹھے پر جو کچھ لکھ دیا جائے وہ نوشتہ دیوار جیسا ہوتا ہے۔بالکل پنجابی ٹپے کی طرح
کوٹھے اُتوں اُڈ۔ کاواں
سد پٹواری نوں
جند ماہی دے نان لاواں
پٹواری کے لکھے کوصرف اعلی عدلیہ ہی بدل سکتی ہے ۔وہ اعلی حکام کی غیر ضروری۔ ضروریات پوری کرنے میں مصروف رہتا ہے۔تعیناتی کے لئے سفارش اور بولیا ں لگائی جاتی ہیں۔۔
ایک سردار جی کو کتے نے کاٹ لیا۔اسپتال میں ٹیکے لگنے شروع ہوئے۔اور ایک دوست عیادت کوپہنچ گیا۔
دوست: کیوں سردار جی اب کیا حال ہے۔؟
سردار:حال تو ٹھیک ہے بس کبھی کبھی بھونکنے کو جی چاہتا ہے۔
بعض حرکات اور احکامات انسان کوغیر حلالی کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
 سُنا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان اکثر شکار کھیلنے چکوال کےعلاقہ خان پور جاتے تو انتظامات محکمہ مال چکوال کے زمہ ہوتے ۔ چوہدری شاہ نواز پٹواری کئی کئی دن تک جنگل میں منگل کا اہتمام کرتے۔کھانے کراچی سے آتے۔۔چم چماتا فرنیچر، پتھر کی کراکری،سرخ قالین، پاپوش صوفے اور بہت کچھ ۔۔انہی دنوں میں پاکستانی فلم ’’دبئی چلو ‘‘ کا گانا ’’دوروں۔دوروں اکھیاں مارے، مُنڈا پٹواری دا۔ پُٹھے سیدھے کردا اشارے ، مُنڈا پٹواری دا۔‘‘ کافی ہٹ تھا۔۔ رشوت لینا جس کا کام ۔ذلیل کمینہ اس کانام ۔۔ کا سیاسی نعرہ بھی ہٹ تھا۔
تب سابق صدر ایوب خان نے بھی ۔انسداد کرپشن کاسیل قائم کر دیا۔جوملک بھر میں کھلی کچہریاں لگا تا لگاتا ایک دن شکار پورپہنچ گیا۔تو شاہ نواز پٹواری نے بریگیڈئیر مظفر کو کہا کہ
’’صدرایوب کےخلاف شکایت کرنی ہے۔وہ بدعنوان ہیں۔بل نہیں دیتے۔یہاں 12مرتبہ شکار کیا ہے۔ایک بارسردارخضر حیات نے کھانا کھلایا۔جس کا خرچہ 8ہزار روپے آیا۔ باقی11دفعہ کا 88 ہزار کہاں سے آئے گا؟ لوگ پیسے مانگ رہے تھے تو یہ اخراجات بدعنوان پٹواریوں نے برداشت کیے۔پٹواری چھوٹے چور ہیں تو آپ بڑے۔پٹواری تھوڑی تھوڑی رشوت اکھٹی کرتے ہیں اور صدر ایک ہی جست میں آ کر ساری چٹ کر جاتا ہے۔‘‘
پھر شاہ نوازی پٹواری کےساتھ جو کچھ ہوا وہ بیان سےباہرہے۔ایوب خان نے 2بارپھروہیں شکار کھیلا لیکن پٹواری کودونوں بارنظربندکردیا گیا ۔
ملک سبحان لکھتے ہیں۔۔ کہ پٹواری سسٹم نے 16ویں صدی میں شیر شاہ سوری اور جلال الدین اکبر کے دور عمل میں جنم لیا۔ جوانگریز دور میں بھی برقرار رہا اور اب بھی قائم تھا۔ پٹواری محکمہ مال کا چھوٹا سا اہلکار ہوتا ہے لیکن وہ زمینوں کی ماں سمجھا جاتا ہے ۔پنجاب میں لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم وزیر اعلی پنجاب کا لاجواب کا رنامہ ہے۔ اور پٹوار کلچر پر کاری ضرب ہے۔ اب اراضی مالکان کو زمینوں کے ریکارڈ کی مکمل معلومات با آسانی دستیاب ہو ں گی۔پنجاب کے 22 ہزار سے زائد دیہاتوں میں 5 کروڑ سے زائد مالکان کی اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر لیا گیاہے اور فرد کے اجرا و انتقال اراضی کی دستاویزات اب چند منٹوں میں دستیاب ہیں۔‘‘
سبحان ملک کی تحریرایک پٹواری کی تحریرہرگزنہیں ہے۔۔مجھےبھی لگتا ہےکہ یہ پٹوار کلچر کو الوداع کہنے کا وقت ہے۔پٹواری کلچرکے خاتمے سے شائد پنجاب میں اگلے انتخابات شفاف ہو جائیں لیکن میں اس کا کریڈٹ شہباز شریف کے ساتھ ساتھ۔عمران خان کوبھی دوں گا۔ !
پٹواری کا کیابنے گا کالیا۔۔؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں