منگل، 4 اگست، 2015

یہاں ایک یار مرید دفن ہے۔۔۔


 مرد عام طور پر رن مرید ہوتے ہیں لیکن میرا شوہر وحید ماں مرید ہے۔۔جب یہ مرے گا تو میں اس کے کتبے پر لکھواں گی یہاں ایک ماں کا یار دفن ہے۔۔ اور اگر پہلے میں مر گئی تو ۔۔۔ یہ عاشقی معشوقی جو ماں بیٹے میں چلتی ہے اس سے چُھٹی ملے گی، رج رج کے جھپیاں ڈالیں ایک دوسرے کو۔۔’’بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ سے اقتباس‘‘
اب مجھےکیا پتہ کہ ماں مرید ہونا۔شوہروں کی کونسی نسل ہے۔لیکن رن مرید اور ماں مریدکےعلاوہ بھی مریدوں کی کئی نسلیں ہوتی ہیں۔جیسےیار مرید، افسر مرید، دھن مرید اور اقتدار مرید وغیرہ۔میرا تعلق مریدین کی اُس قبل الذکرجاتی سے ہے۔جن کےبارےمیں یہ واقعہ مشہور ہے۔
ایک دوست نے دوسرے سے پوچھا: آپ کس کے مرید ہیں ....؟
 پہلا دوست:باوضو ہو کر۔۔۔
انتہائی عاجزی انکساری سے بولا: میں رن مرید ہو۔۔۔!
دوسرا دوست: سبحان اللہ ......آپ تو اپنے ہی پیر بھائی نکلے.......
پیر بھائی کی طرح بھائیوں کی اوربھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔جیسےسگا بھائی، منہ بولا،سوتیلا، رضائی، بجرنگی بھائی، مُنا بھائی،الطاف بھائی اورسمدھی بھائی۔وزیراعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈارسمدھی بھائی ہیں۔میاں صاحب کی چھوٹی بیٹی اسماء۔ ڈار صاحب کے بیٹے علی کی اہلیہ ہیں۔جون 2015 میں ان کے ہاں بیٹا پیدا ہواہے۔سمدھی بھائی کا رشتہ اب نانا اور دادا کے نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔یہ رشتہ اندرون سندھ میں قائم ایک سیمنٹ فیکٹری دادا بھائی کی طرح انوکھا سا ہے۔نانا دادا بھائی۔بلکہ نانا دادا بھائی بھائی۔!
جون 2015 میں حاکم نئےرشتوں میں داخل ہوئے اورجولائی 2015 میں ریونیو محاصل نئے دورمیں داخل ہوگئے۔کیونکہحکومت نے 2015-16کے بجٹ میں253 ارب روپے کےنئےٹیکس لگا دئیے۔بنکوں سے لین دین پر صفر اشاریہ 6 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس بھی ان میں شامل ہے۔ٹیکس وصولی کے لئےتاجروں کی جیب میں ہاتھ ڈالاگیا تھا۔۔فرنٹ، سائیڈ پاکٹ حتی کہ شلوار کی جبیب میں بھی۔۔جیب میں ڈالا گیا یہ ہاتھ گریبان میں ڈالے جیسا تھا۔
ایک جیب کترے نےبھری بس میں مسافرکی جیب میں ہاتھ ڈالا۔۔تومسافر غصےسے:کیا کر رہے ہو۔۔؟
جیب کترا: میں بی اےکررہا ہوں
یکم جولائی سے1لاکھ پر 6 سو روپے کی کٹوتی نافذ ہو چکی ہے۔معاشی اشارعیے بہتری کی ٹن ٹن بجانے لگے ہیں۔۔لیکن یہ ٹن ٹن خطرے کا سائرن بن گئی ہے۔۔حکومت نے ابھی بغلیں بجائی بھی نہ تھیں کہ تاجروں نے پیپے بجادئیے۔بالکل ویسےہی پیپے۔جیسے’’روزے دارو۔سحری کا وقت ہوگیاہے‘‘ کا ہوکا لگا کربجائے جاتے ہیں۔لیکن جہاں پیپےنہیں بجتے وہاں ڈھول بجتے ہیں۔ہم نے تو سن رکھا ہے کہ’’گلے پڑا ڈھول بجانا پڑتا ہے‘‘۔
2013کےعام انتخابات میں فیصل آبادکےتاجروں نے ن لیگ کو ووٹ دےکرشائد۔اپنےگلےمیں ڈھول لٹکا لیا تھا۔اب وہ مسلسل ڈگےلگا رہے ہیں لیکن حکومت۔روزہ خوروں کی طرح کھسیانی ہوکرسوگئی ہے۔بنکوں سے ایک لاکھ کا کاروبار کریں تو 6 سو روپےسرکارکے ہیں۔یہ ٹیکس نافذ ہوا توتاجروں نے چیک منسوخ کروا دئیے اور اکاونٹ فریز۔ہُنڈی اورحوالہ نیا کاروباری ٹول بن گیا۔تاجروں نے احتجاج کیا تو سمدھی بھائی نےاسلام آبادبلا لیا۔مذاکرات میں بحث تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ اس فقیر جیسا ہوا جو4 منزلہ پلازےکےباہر مانگنےگیا تھا۔فقیر نے مالک کوچوتھی منزل سے نیچے بلوایا اورکہا۔" اللہ کےنام پرخیرات دیجئے۔"مالک:"اوپر آجاؤ۔"
چوتھےفلورپرپہنچ کر:ما لک بولا۔بابا معاف کرو۔!
تاجرچوتھےفلورسے واپس لوٹے تھے۔۔انہوں نےپھر پیپے اورڈھول اکھٹے بجائے۔۔لیکن جاگنے والوں کےگھوڑے بک چکے تھے۔یکم اگست 2015 کو تاجروں نے ہٹ تال کی کال دےدی۔ہفتے کےروزفیصل آباد پورا بندتھا۔دکانیں کھولنے والوں کو مارا پیٹا گیا۔ووٹ دینے والے اب عدم اعتمادکر چکے تھے۔محبت اچانک جنگ میں بدل گئی۔کہتے ہیں جنگ اورمحبت میں سب کچھ جائزہوتا ہے۔جنگ میں حکومتی پہل کے بعد تاجر اپنے ہتھیارچلا رہے تھے۔تاجروں نے گھنٹہ گھرکےتمام 8 بازار بند کر دئیے  ۔سیز فائرہوا تو کچہری بازارمیں وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی علامتی قبر موجودتھیاس جھوٹی قبر پرتاجروں نےہاتھ اٹھا کرسچی دعائیں بھی مانگیں۔۔
قبر کے کتبے پر لکھا تھا۔۔’’تربت مبارک۔۔حضرت منشی اسحاق ڈار مرحوم مغفور۔۔
تاریخ وفات: یکم اگست 2015۔۔۔ جگہ انتقال: منشی ہاؤس پاکستان۔۔۔وجہ انتقال: ٹیکس لگاتے ہوئے قوم کی بددعا سے انتقال کرگئے۔۔
نوٹ: نواز شریف نے اگرمنشی اسحاق ڈار کے مشورے مانے تو اگلی تربت ان کی بنے گی۔امید ہے وہ ایسا نہیں کریں گے۔دعا گو:پاکستانی قوم اور تاجر۔
یہ ایک سمدھی کی علامتی قبر ہے۔۔۔نانا کےقریبی دوست دادا کی قبر۔۔۔یارکی قبر۔۔ یارمریدکی قبر۔۔۔وہی یارجس کا شکوہ عابدہ نے راجہ گدھ میں کیا تھا اس اقتباس کو شائد دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔۔
مردعام طورپررن مریدہوتے ہیں لیکن میرا شوہروحید ماں مرید ہے۔۔جب یہ مرےگاتومیں اس کے کتبےپرلکھواں گی یہاں ایک ماں کا یاردفن ہے۔۔
گلی محلوں میں ترقیاتی کاموں کی افتتاحی تختیاں مجھے اکثر قبروں کےکتبے جیسی لگتی ہیں۔۔ان میں قدرمشترک یہ ہے کہ دونوں قبرستانوں میں ہی تیارہوتی ہیں۔اگلی قدر مشترک یہ ہے کہ کتبہ مردہ کےساتھ دفن ہوتا ہے افتتاحی تختی ۔۔ناقص تعمیراتی میٹریل کے ساتھ دفن ہو جاتی ہے۔دفن خالصتا قبری اصطلاح ہے۔۔کچہری بازار کی قبرمیں تدفین بھی علامتی تھی۔۔اندرسے خالی قبر۔۔ایسی قبرجس کا مردہ اسلام آبادمیں تھا۔۔بقول بے خود دہلوی
شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا تم جس پہ رو رہے تھے یہ کس کا مزار تھا
قبرکےاطراف میں سوگوار کھڑے لوگ۔جس روح کےقفس عنصری سےنکال کرعالم ارواح میں پہنچ جانےکی خواہش رکھتے تھے۔وہ روح تو عالم دنیا میں وزیراعظم ہاوس کےآس پاس کھٹک رہی تھی۔منکر نکیر کےپاس۔کچہری بازار میں جو یار مرید دفن تھا وہ اسلام آباد میں زندہ پایا گیا تھا۔اسلام آباد کو تو اسحاق ڈار کے زندہ ثابت کرنے کے لئےwords worth کی نظمwe are seven کی little maid کی بھی ضرورت نہیں تھی۔وہی little maid جو قبروں میں سوئے اپنے بھائیوں کو زندہ محسوس کرتی ہے۔سمدھی بھائی اگر زندہ تھے پھر لوگ علامتی قبر پر سوگوار کیوں کھڑے تھے۔۔؟وہ فاتحہ خوانی کے لئے ہاتھ اٹھائے مانگ کیا رہے تھے۔؟یہ علامتی قبر 2013کے ان اپنوں نے بنائی تھی جو2015 کےبجٹ کےبعدغیرہوگئے۔ویسے ہی غیر۔جیسے اسلام آباد دھرنے میں تھے۔اقتدار کی قبریں کھودنے والے۔ کفن پوش علامہ طاہر القادری اورعمران خان۔بھائی۔بھائی۔
نانا۔اور۔دادا کےاقتدار سمیت چالیس ہزارلوگوں کی قبریں کھودنے والے بھائی۔لیکن آج کل وہ ساری قبریں بیٹھ چکی ہیں۔ان کےمکین آج بھی زندہ ہیں۔احتجاج کرنے والےلوٹ چکے ہیں۔معروف کالم نگار اثر چوہان لکھتے ہیں کہ
’’صوفیوں کا ایک طبقہ جودینی اوردنیاوی تعلقات سےآزاد ہوتا ہےاورعبادت کو چھپانےکی کوشش کرتا اور اسرارالہی ظاہرکرتاہے۔ ’’ملامتی صوفی‘‘ کہلاتا ہے‘‘۔اسحاق ڈار۔۔شکل و صورت سے بھی اپنی طرزکے’’ملامتی صُوفی‘‘لگتے ہیں۔اس لئےکہ غریب غُربا انہیں تیسرے پیش کردہ بجٹ کےبعدملامت کررہے ہیں۔اس لحاظ سے اُن کےبجٹ کو’’ملامتی صُوفی کا بجٹ‘‘ ہی کہا جائے گا۔ 
صوفی کی ایک قسم بابا محمد یحییٰ خان بھی ہیں۔۔انہوں نے اپنی کتاب’’پیا رنگ کالا‘‘میں لکھا ہے یا ۔۔کاجل کوٹھا میں۔۔کچھ پکا یاد نہیں۔۔وہ کہتے ہیں کہ
’’قبرستان میں تین طرح کے لوگ رہ سکتے ہیں وہ جومرگیا ہویا وہ جوکسی کےمرنے کا منتظر ہویا پھرجس نےاپنے اندرکوختم کردیا ہو‘‘یہ جملہ تاجروں اوروزیرخزانہ پر کیسے ایپلائی ہوتا ہے۔نتیجہ آپ خوداخذ کر لیں۔۔ وگرنہ یہ لطیفہ ضرور پڑھیں۔۔۔
ایک آدمی کی ایک ٹانگ اچانک نیلی ہوگئی تووہ کسی نیم حکیم کےپاس گیا حکیم:زہرپھیل گیا ہے،ٹانگ کاٹنی پڑےگی۔اور ٹانگ کاٹ دی کچھ دنوں بعد۔۔دوسری ٹانگ بھی نیلی ہو گئی۔ حکیم صاحب نےوہ بھی کاٹ کر پلاسٹک کی ٹانگیں لگا دیں اورپھروہ بھی نیلی ہو گئیں تو معذور پھر حکیم کے پاس گیا حکیم:یار تیری بیماری سمجھ آ گئی ہے تیری دھوتی کا رنگ اترتا ہے۔

9 تبصرے:

  1. تاجر حضرات ریٹرن فائل ان سے مجوزہ ٹیکس نہیں لیا جائے گا- لیکن اس بات کی بھی تک نہیں کمائیں تو لاکھوں اور ٹیکس فائل کرتے موت پڑھ جائے! یہ سرا سر تاجر برادری کی بد نیتی اور بددیانیتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ابو عبداللہ ۔۔۔۔ بھائی آپ نے بجا لکھا کہ تاجر ریٹرن فائل نہیں کرتے۔۔۔ ایسے تاجروں کی تعداد بھی کافی ہے جو ایسا کرتے ہیں۔۔ میرا خیال ہے ساری بھینسوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنا ٹھیک نہیں

      حذف کریں
  2. پھر کیا پچھتاےہوت...جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کے مصداق اب تاجر برادری کو یہ احساس ہو رہا ہوگا کہ 11 مئی کو جو شیر وہ لے کے آئے تھے وہ اب انکی اپنی ہی ہڈیاں تک نوچنے پہ تُل گیا ہوا. لیکن سانپ کے گزر جانے پہ اب لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ..

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. Ahmed Bilal۔۔۔۔ ڈئیر مجھے لگتا ہے تاجر برادری اب وہی کچھ سوچ رہی ہے جو رائے آپ نے دی ہے

      حذف کریں
  3. کیا بات ہے جناب کی
    پہلی دفعہ آپ کے بلاگ پر مصطفےٰ ملک صاحب چھوڑ گئے ہیں
    بہت خوب لکھا ہے ماشاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. Aness Ansari بھائی شکریہ آپ نے حوصلہ افزائی فرمائی۔۔۔ مجھے مزید لکھنے کے لئے تقویت ملی ہے۔۔۔

      حذف کریں
  4. its nice article but its too long my dear ajmal

    جواب دیںحذف کریں
  5. Sattar Rind Sb اگر آپ نے یکسانیت محسوس کی ہے تو میں اسے چھوٹا کر لوں گا۔۔۔ پلیز رائے ضرور دیں۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. no my dear .just it was my advise as i felt it .though i read it complete and enjoyed . i think it was OK up to bekhods' two line poem . but you are the writer you have more rights then any readers. it was not boring at all rather interesting one.

      حذف کریں