جمعرات، 5 نومبر، 2015

سیاسی گفتگو منع ہے۔۔!

نصیبو کی شادی مئی 2013 میں ہوئی۔۔ وہ اچھی خاصی تیز طرار تھی۔۔منجھی پر بیٹھے بیٹھے اچانک کلاٹی مار لیتی۔یوگا ۔کا ۔۔متسی۔۔ بھوجنگ۔اور پہیہ۔۔سمیت بہت سے آسن کی  مشق  وہ با آسانی کرلیتی تھی۔لیکن اس کی کزنز’’ ٹوٹلی‘‘ ان پڑھ تھیں۔کورس میں گڑوی  بجانے والی ۔۔  انہیں  گمنامی سےشہرت تک پہنچنےکےلئے مرحوم سلیم گیلانی جیسے براڈ کاسٹر کی تلاش  ہے۔  وہ روزانہ انگلیوں میں سکہ پھساکر گڑوی کا تھلہ نئے نئے ڈھنگ سے  بجانے کی ریہرسل کرتی ہیں لیکن  آج کل  خاصی پریشان  ہیں کیونکہ ٹی وی چینلز کا فوکس انہی کی جاتی سے تعلق رکھنے والی  شادرا۔ لاہور کی رہائشی جسٹن گرلز ہیں ۔۔ گڑوی کزنز کو بھی سکہ گری کا ہر فن آتا تھا  ۔بلکہ  وہ تان توڑ کر جب کوئی نئی  لے  پکڑتی تو    کانوں میں لٹکے چاندی کے جھمکے چھمکیں مارتے ، ہلکے ہلکے ہلکورے لیتے  اور ساتھ  نِمے نِمے کولہے بھی مٹکتے۔۔ گڑوی،  سُر، جھمکے اور کولہے  یہ نئی  صنف انہی کزنز نے متعارف کروائی تھی۔ سننے والوں پر سحر یوں طاری ہو جاتا گویا کسی سنپولئے نے بین ناچتے دیکھ لی ہو۔

نصیبو کے دن رکھے گئے تو   کوئی پریشانی نہ تھی۔۔ گانے والیاں گھر کی تھیں۔۔ ’’ چٹیاں کلائیاں‘‘ کا انہوں نے نیا فیوژن تیار کیا تھا ۔’’مجھ کو رانا جی معاف کرنا ‘‘۔۔ ان کی فیورٹ بیٹ تھی۔اور۔ ’’ میں میرے تیرے کڑے دی مچھی آں‘‘ ۔۔ اُن  خاص خواتین کے لئے  تیار کیا گیا تھا جنہیں ٹھمکنے کا شوق ہو تا۔ ۔یہ گھڑولی نما خواتین ہرگانے پر ایک سا ناچتیں اور  نچ نچ کے دھرتی ہلا چھوڑتیں   ۔ ڈانس کا یہ سلسلہ گھڑولی بھرنے تک جاری رہتا ۔۔ مہندی کے چھابے چھٹ چکے تھے۔۔ گھر کی ساری خرگوشنیاں  ناچ رہی تھیں لیکن   نصیبو نگوڑی  کی چال میں شائد کچھوا اتر آیا تھا۔۔اس  کا سسٹم آج  تھوڑا slow  چل رہاتھا۔۔
2015 کی آخری  سہہ ماہی ختم ہونے کو ہے۔۔ نصیبو کی   چال آج بھی  کچھوی ہے ۔اڑھائی سال میں اُس کے شوہر مرید کی  توبینڈ  ہی بج چکی ہے۔کیونکہ  نصیبو  پچھلے چودہ مہینے سے pregnant  ہے ۔۔یہ اس کی پہلی زچگی ہے اور  گھر میں ایک غیر فطری معرکہ  ہونے والا ہے۔لیکن کب ۔۔ ؟۔ کچھ پتہ نہیں۔۔ مرید کے کزن  علاقے میں ’’جوڑے‘‘ مشہور ہیں۔۔ جوڑا خاندان کی ساری بہویں  ہر ڈلیوری پر کم از کم  دو بچے پیدا کرتی ہیں۔ مرید کوشک تھا کہ  کچھ ہفتوں کے بعد وہ بھی کم از کم  دو بچوں کا باپ ہو گا لیکن وہ الٹر ا ساونڈ کروا بیٹھا تھا اورنتیجہ ایک ہی تھا اورstatus   مسلسل اپ  لوڈنگ پر تھا۔ آخرمرید کو  کسی دوست نے  ریڈ زون  کے حکیم  صاحب سے مشورہ کرنے کا مشورہ دیا ۔
ہم ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں پر بیماروں کے پاس اپنی دوائی خود لینے کا وقت نہیں۔ماسی گوگل جب بھی بیمار ہوتی ہے تو حکیم کے پاس جانے سے پہلے سارے محلے کا دورہ کرتی ہے اور اسی میل میلاپ کے دوران اُسے میداں، پھتو، سرداراں اور ماسی چھانو اپنے مرض کی علامات بتا کردوائی بھی  بُک کروا لیتی ہیں اور یہ ساری ماسیاں شُکر کرتیں کہ جوئیں نکالنے کا ٹائم مل گیا وگرنہ حکیم صاحب کے پاس تین گھنٹے لگ جانے تھے۔ ہمارے محلوں میں یہ پریکٹس عام ہے اور حکیم صاحب کی زیادہ بِکری  نہ آنے والے  مریضوں سے ہوتی ہے۔ ۔ ماسی میداں نے پیٹ کے لئےگیس کی پھکی۔۔ ماسی پھتو کے کھٹے ڈکاروں کے لئے کاسنی کے بیج ، ماسی سرداراں کا خمیرہ گاؤ زبان اور ماسی چھانو کے اعصابی تناو  کے لئے  مگھاں کا پاوڈر۔۔ ماسی گوگل  ہردفعہ سارے بیماروں کی دوائی لےکرآتی ہے۔میداں کی دوائی، پھتوکومل جاتی ہے اور سرداراں  کی چھانو۔کو۔۔پھرجو کچھ ہوتا ہےاس کے لئے حکیم اور نیم بہرے مریض کی گفتگو۔۔۔  
حکیم : طبیعت کیسی ہے؟؟۔۔۔مریض: پہلے سے بھی  خراب ہے۔
حکیم ؛ دوا  کھا لی تھی؟۔۔۔مریض :خالی نہیں ۔ بھری ہوئی تھی
حکیم تھوڑا زور سے : دوا لے لی تھی۔؟۔مریض : جناب  آپ سے ہی تو لی تھی
حکیم : بے وقوف دوا پی لی تھی؟۔۔مریض: نہیں جی دوا تو  نیلی تھی
حکیم : ابے دوائی   کو پی لیا تھا؟۔۔۔مریض : جی نہیں  پیلیا تو مجھے تھا
حکیم :پاگل  دوائی کو منہ میں رکھ لیا تھا کیا؟۔مر یض : نہیں آپ نے  تو کہا تھا کہ فریج میں رکھنا 
حکیم : نکل یہاں سے تو مجھے بھی پاگل کر دے گا
 نصیبو اور مرید جب   زیرو پوائنٹ پر حکیم صاحب کے پاس پہنچے تو وہاںبڑے بڑے بورڈ لگے تھے ۔یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔۔ دو ۔  درجن بھرایسے لوگ بیٹھے تھے جنہوں نے  میداں اور سرداراں کی طرح  سُن سُن کر دوائیاں لی تھیں۔۔ انہیں 35 پنکچر کا عارضہ لاحق تھا۔این اے 144 اوکاڑا، این اے 154  لودھراں ،  این اے 122 اور  این اے 125 لاہور سے بھی لوگ  مرض شناسی کے لئے آئے تھے۔۔ 10 مئی  2013 کےبعد سے یہ بیماری چھوت  بن چکی تھی ۔ ۔گڑوی کزنز کے ہلکورے کھاتے جھمکوں کی طرح یہ  بیماری بالکل نئی تھی۔۔ اچانک پھوٹ پڑی تھی۔۔منہ میں پانی  مسلسل آرہا تھا۔رال  مسلسل بہتی رہتی تھی۔ ۔اعلان کرکے ان سے پھر نے یا واپس لینے کو دل مچلتا تھا۔یا دداشت  کمزور ہو چکی  تھی۔۔سارے مریضوں کا سر دن بھر  نِما نِما  مٹکتا رہتا تھا۔۔ بیماروں کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے والے  ’’براڈ کاسٹر سلیم گیلانی‘‘ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ مطب میں رش کی وجہ سے نصیبو اور مرید نے ہر مریض کی باتیں سُنیں ۔ سب کی  علامتیں یکساں تھیں۔۔ مئی 2013 سے ان کا  دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔پیٹ میں مروڑ اٹھتے تھے۔معدے میں اپھارا۔ تھا۔ حکیم صاحب نبض  شناس بھی تھے اور مردم شناس بھی۔۔ انہیں فورا پتہ چل گیا کہ  تمام مریضوں کو ۔ کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہے۔سارے  بیمار ایسی سیٹوں پر بیٹھنا چاہتے ہیں جن پر عوام   پہلے ہی کسی اور کو بھجوا چکی ہے۔ حکیم صاحب کہتے ہیں  کہ تین پاگل ایک بیڈ پر تنگ تنگ  سور ہے تھے ۔۔ایک  پاگل نیچے اتر گیا  تو جگہ زیادہ ہوگئی 
بیڈ کے او پر سے دوسرا  پاگل بولا۔۔آجاؤ اب جگہ کھل گئی ہے۔دوائی سےنصیبو  کو خاصا  افاقہ ہوا تھا۔۔status  اپ لوڈ ہو چکا تھا۔۔۔مرید اب ایک بیٹے کا باپ تھا۔۔لیکن اسےاپنے جوڑےکزنز کے طعنے سننے پڑتے تھے۔ جوڑا خاندان سے ہونے کے باوجود وہ ۔ جوڑے سے محروم تھا۔۔نصیبو پھر سے کلاٹیاں مارنے لگی تھی۔۔کچھ دنوں بعد وہ مرید کے ہمراہ  پھر حکیم صاحب کے پاس پہنچ گئی۔۔وہاں نئے  اور پرانے بہت سےمریض بیٹھے تھے۔۔نئے مریض پارلیمینٹ کے قریب سے آئے تھے وہ  2014 سے یکساں بیماری میں مبتلا تھے۔۔ ایک ہی بات سُن سُن کر ان کے سر میں درد۔ر ہنے لگا تھا۔گانوں سے انہیں الرجی ہونے لگی تھی۔ناچ  دیکھ دیکھ کر وہ پریشان تھے۔۔ وہ دماغ سے تبخیر گیس چاہتے تھے۔۔ ڈپریشن اور ٹینشن انہیں لے ڈوبی تھی۔۔ ہائی بلڈ پریشر  انہیں رہنے لگا تھا۔۔۔2013 کے  مریضوں نے جب ریڈ زون پر حملہ کیا تھا تب تو 2014 کے مریضوں کا دل ہتھیلی پر اتر آیا تھا۔۔ جان لبوں پر تھی۔۔ لیکن بستر مرگ پر ہونے کے باوجود ۔۔جان بخشی ہو گئی تھی۔۔۔2014 کے مریضوں کاعارضہ بھی  مشترکہ تھا۔۔مردم شناس حکیم صاحب نے انہیں بتایا کہ آپ سب کے مسائل کا ایک ہی علاج ہے کہ ٹی وی دیکھنا اور اخبار پڑھنا بند کریں۔۔ اسی دوران پرانے مریضوں کی بار ی آگئی ۔۔ این اے 144، این اے 122 اور این اے 125کو شفا نہ ملی تھی۔ انہوں نے حکیم صاحب کو بتایا کہ بہت محنت کی تھی لیکن مس کیرج ہو گیا ہے۔۔حکیم صاحب پھر سے طب یونانی میں لگ گئے ہیں۔۔ اس باراین اے 154 لودھراں  امید سے ہے۔۔مرید خوش ہے کیونکہ اس کا شمار ۔اب  جوڑا خاندان میں ہونے لگے گا۔۔ الٹر ا ساونڈ ۔جُڑواں کی گواہی دے رہا ہے۔لیکن پریشانی یہ ہے کہ نصیبو نے 14 ماہ میں 1 بچہ پیدا کیا تھا۔۔اس بار twins کی اُمید ہے۔اوراُس  کی  چال  میں پھر کچھوا اُتر آیا ہے ۔حکیم صاحب نے اگلی ڈلیوری کی تاریخ 2018 مقرر کی ہے۔۔

1 تبصرہ:

  1. Literature me prha tha k shakespear characterization n personification ka baap ha bcz agar wo woman ka character likh raha hota to parhne wale ko aesa mehsus hota k shakespear us character ki life qareeb se dekh chuka ha and so on... n the same i feel upon reading blogs...its just marvellous sir g!!!

    جواب دیںحذف کریں