گلوں میں رنگ بھرے باد نو
بہارچلے۔۔ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
مہندی حسن کی گائی یہ غزل
خاصی مقبول تھی۔۔وہ کسی نئے کلام کے الاپ تیار کر رہے تھے اور غزل کے خالق جنابِ فیض
احمد فیض بیروت میں تھے۔
1980 کی بات ہےجب فیض صاحب پی ایل او کےجریدے
لوٹس کے ایڈیٹر بنے۔فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی درخواست پر۔ان کی نوکری بیروت میں
تھی۔
فیض صاحب اس سے قبل بھی ضیائی
مارشل لا کی وجہ سے کئی سال پاکستان سے باہر رہے۔۔
فیض صاحب بیروت پر اسرائیلی
یلغار کی وجہ سے پریشان تھے اور ان کے دوست۔۔ پاکستان میں عدم دستیابی کی وجہ سے پریشان
تھے
شائد مرحوم حمید اختر صاحب
نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ذکر کیا تھا کہ فیض صاحب جب بیروت میں تھے تو
’’میں نے انہیں خط لکھا کہ پاکستان واپس آجائیں
ایک تو مارشل ختم ہوگیا ہے اور دوسرا گلوں میں رنگ بھرے ہیرا منڈی میں ہٹ ہو گئی ہے۔۔‘‘
ایک سردار جی موٹر سائیکل
پر جارہے تھے کہ ٹریفک پولیس نے روک لیا۔
سردار کے ہاتھ میں ٹفن تھا۔وہ
ٹفن کو کبھی کھولتے اور کبھی بند کرتے۔
سڑک پر کھڑےدوسرےسردار نے
تجسس سے پوچھا کہ
سردار جی! یہ آپ کیا کررہے
ہیں؟ کبھی ٹفن کھولتے ہیں اور کبھی بند کرتے ہیں۔
سردار جی بولے ! میں یہ دیکھ
رہا ہوں کہ میں دفتر سے آیا ہوں یا دفتر جارہا ہوں
یقین مانئیے مجھے تو سمجھ
نہیں آرہا کہ آج کے بلاگ کے لئے
سردار جی کے بار بار ٹفن
کھولنے اور بند کرنے کا حوالہ لکھوں یا پھر
گلوں میں رنگ بھرے ہیرا منڈی
میں ہٹ ہوگئی ہے کا تذکرہ کروں
قصہ کچھ یوں ہے کہ
2002 میں شیخ اعجاز یہاں ایم پی اے تھے۔کیونکہ
اسمبلی گرایجویٹ تھی۔خواجہ اسلام بی اے کرکے2008 میں خود ایم پی اے بن گئے۔۔پی پی72 شہر کا وہ بے وفا
حلقہ ہے جہاں سے گذرے کئی الیکشن سے ہر بار نیا ایم پی اے منتخب ہوتا آرہا ہے۔۔۔کبھی گرایجویٹ اسمبلی کی
وجہ سے کبھی جعلی ڈگری کی وجہ سے اور کبھی تنظیمی اختلافات کی وجہ سے۔
تعلیم شعور اور لاشعور کے
درمیان لائن آف کنٹرول جیسا کام کرتی ہے۔تعلیم کے نتیجہ میں ڈگری
ملتی ہے وگرنہ انسان سابق وزیر اعلی بلوچستان اسلیم رئیسانی جیسی باتیں کرتا ہے ڈگری ۔۔۔ڈگری ہوتی ہے اصلی
ہو یا نقلی۔
اسلم رئیسانی نے جن ڈگریوں
کی طرف اشارہ کیا ہے انہی میں سے ایک ڈگری خواجہ اسلام کے پاس تھی
لیکن پھر ایک دعوی ڈگری ہو
گیا۔۔۔خواجہ اسلام فیصل آباد کے
وہ لیگی رہنما ہیں جن کا ماڈل ٹاون میں ڈیرہ تب بھی آباد تھا
جب 1999 میں پرویز مشرف کے
خوف سے شہر کے سارے ڈیرے بند تھے۔۔ رمضان المبارک میں طوائف کے اڈے کی طرح۔۔
ماڈل ٹاون میں تب فوج کے
اہلکار اور خواجہ اسلام کوکلا چھپاکی کھیلا کرتے تھے
لیگی کارکن وہاں چھپ چھپا
کر آتے تھے۔۔اور خواجہ اسلام کھلم کھلا گھر کی چھت پر نواز شریف زندہ باد کے نعرے
لگاتے اورتقریب ختم ہوتی تو کارکن
کبھی چھپ کر اور کبھی چھپکا کر واپس چلے جاتے۔۔
کئی بار پولیس اور حساس اداروں
کے اہلکار ان کے پیچھے لگ جاتے جس کے نتیجہ میں کارکنوں کو چھوٹی موٹی چھپاکیاں بھی
نکل آتیں۔۔
خواجہ اسلام 1999 میں خون
آلود گنڈاسے والے پنجابی فلمی ہیرو لگتے تھے۔۔ اور کچھ لوگ خواجہ سرا بن کر آس پاس
ٹھمکتے پھرتےتھے۔۔
اور قرضے معاف کروانے والے۔۔۔خواجہ
سرا
جب خواجہ اسلام ۔۔ میاں نواز
شریف زندہ باد پکار رہے تھے تب چوہدری صفدر الرحمن ۔۔ نگینہ
سیمنا میں آمریت مردہ باد پکار رہے تھے۔ان کیlook پوری فلمی تھی۔سلطان راہی
والی۔ قمیض کے سارے بٹن کھلے۔آستینیں چڑھی ہوئی۔مونچھوں کو تاؤ اور ہاتھ میں
سگریٹ
آج کی خاتون اول بیگم کلثوم
نواز کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر چوہدری صدر الرحمن نے پورے پاکستان میں نواز شریف کی
رہائی تحریک چلائی۔۔
ملک کے ہر ضلع میں چوہدری
صفدر الرحمن کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا۔۔
2001 کے بلدیاتی الیکشن میں جب ن لیگ کے الیکشن
لڑنے پر غیر اعلانیہ پابندی تھی توخواجہ اسلام اور چوہدری صفدرالرحمن اخباروں میں جابر سلطان کے
سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے۔۔۔ کے اشتہار چھپوا رہے تھے۔۔۔جمہوریت بحالی کی تحریک عدلیہ
بحالی تحریک سے زیادہ بڑی تھی۔۔کیونکہ آمریت تازہ تازہ
نمو پا رہی تھی۔۔1999 میں بعض لیگی رہنما گرفتاریوں سے بچنے کے
لئے نظر بند ہونے پر تیار تھےاور عدلیہ بحالی کے وقت آمریت
بھی لولی لنگڑی ہو چکی تھی۔۔چھاپوں سے بچنے کے لئے خود
تھانوں میں پیش ہو رہے تھے۔۔
فورتھ شیڈول میں شامل نہ
ہونے کے باوجود ایس ایچ او کو ازخود بتا کر۔۔ آ۔۔ اور۔۔۔ جا رہے تھے۔۔آج جب کہ ملک میں جمہوریت
نما طرز حکومت ہے لیکن قربانیاں دینے والے کئی رہنما پیچھے رہ گئے ہیں۔۔۔آمریت میں جنہیں قربان ہونے
کے ڈر سے چھریاں نظر آتی رہیں وہ آج اسیر جمہوریت ہیں۔۔اور دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔۔کیونکہ وہ جہاں کھڑے ہو جائیں
لائن وہیں سے شروع ہوتی ہے۔۔
جنہوں نے سرخ سیاہی کو خون
بنا کر ملمع کاری کی وہ غازی جمہوریت ہیں۔۔۔سیاسی جماعتوں میں جمہوریت
کے پروان چڑھنے کا فارمولہ ایک ہی ہے۔۔۔جماعت کا سربراہ بادشاہ ہوگا۔۔۔
اور نیچے کارکن۔۔بادشاہ کا اقبال ہمیشہ بلند
سے بلند تر اور کارکن مسلسل گڑھے میں۔۔جماعت کا بادشاہ اگر وزیراعظم
بن جائے تو پھر کارکن۔۔ رعایا ہوں گے۔۔۔کیونکہ ریاست کی حدود بڑھ
جائیں گی۔۔۔امیر المومنین بننے کی خواہش
سیاسی وفاداریاں آندھی میں
اڑنے والے شاپر کی طرح ہوتی ہیں۔۔جس جماعت کے اقتدار میں آنے
کا امکان ہو۔۔۔اس میں شامل ہوجائیں۔۔۔اور اگر بوٹوں والے آجائیں
تو تلوے چاٹیں۔۔۔مجھے تو ابھی بھی سمجھ نہیں
آرہی کہ
سردار جی کے بار بار ٹفن
کھولنے اور بند کرنے کا حوالہ لکھوں یا پھر
گلوں میں رنگ بھرے ہیرا منڈی
میں ہٹ ہوگئی ہے کا تذکرہ کروں
لیکن اسی غزل میں فیض صاحب
کا ایک اور شعر بھی ہے۔۔۔
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل
غریب سہی۔۔۔ تمہارے نام پر آئیں گے غم گسار چلے
شیخ اعجاز احمد 3 جولائی
کو عمرہ کرنے چلے گئے۔۔اور گلوں میں رنگ بھرے کی
طرح خواجہ اسلام پھر سے ہٹ ہو گئے
آج کل ان کا طوطی بول رہا
ہے۔۔شیر علی نے خواجہ اسلام سے
صلح کر لی ہے۔۔ کچہری بازار ڈیرے پر جاکر۔۔۔۔صلح کا عملی مظاہرہ۔۔خواجہ اسلام کے ڈیرے
پر ہوا۔۔دونوں نے تاج پہنے۔۔۔بالکل بُڈھے مور دکھتے تھے۔۔
شیخ اعجاز کو یہ صلح ویسی
ہی محسوس ہوئی ہو گی جیسی ۔۔۔ شیر علی کو محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
شیخ اعجاز اور رانا ثنا اللہ
کی صلح
شیخ اعجاز کو سٹی صدر بھی
تو شیر علی نے ہی بنوایا تھا۔۔۔؟
لیکن شیخ اعجاز سادہ آدمی
ہیں۔۔؟ میرے دوست بھی ہیں
مجھےان سے ایک ہی شکوہ ہےلوگ
ایان علی کے ساتھ دبئی جاتے ہیں شیخ اعجاز۔۔ الیاس انصاری کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔۔
پھر اچانک میاں عبدالمنان
بھی شیرعلی کو چھوڑ کر رانا ثنااللہ سدھار لئے۔۔۔یہ اچانک ویسے ہی تھا
جیسے عابد شیر علی ایک دن
اچانک واسا آفس پہنچ گئے اور پریس کانفرنس کردی۔۔اور میاں عرفان منان اچانک
واسا سے غائب ہوگئے۔۔۔
اب دونوں دھڑے اپنے اتحادکومزید
طاقتور کرنے اور جو بچ گئے ہیں انہیں ساتھ جوڑے رکھنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔۔
یہ منصوبہ بندی درحقیقت اس
فارورڈ بلاک کو ناکام کرنے کے لئے ہے جو مسلم لیگ ن فیصل آباد میں متوقع تھا۔۔
یہ راجپوت ویلفئیر سوسائٹی
جیسا بھی ہو سکتا تھا۔۔۔؟
مُنا میرا دوست ہے وہ کہتا
ہے کہ
شیر علی اور رانا ثنا اللہ
میں سے ایک مفتی منیب ہے اور ایک مفتی پوپلزئی
روئیت ہلال کمیٹی کی طرح
دونوں چاند پر متفق ہیں لیکن اپنے اپنے چاند پر۔۔۔ اپنے اپنے طریقے سے
مفتی منیب اور پوپلزئی قوم
کو متحد کرسکے اور نہ ہی۔۔۔رانا ثنا اللہ اور شیر علی
کارکنوں کو ایک چھتری تلے لا سکے۔۔مفتی اور پوپلزئی نے ایک
دوسرے کو نیچا دکھانے کی کافی کوشش کی
اور شیر علی اور رانا ثنا
اللہ نے ایک دوسرے کو ہرانے کی پوری کوشش کی۔۔مفتی صاحب اور پوپلزئی میں
بھی کئی بار رابطہ ہوا
شیر علی اور رانا ثنااللہ
کی صلح بھی کئی بار ہوئی۔۔ لیکن بے سود۔۔۔
مُنا کہتا ہےاس بار شیرعلی
اور رانا ثنااللہ نے دوہری وابستگی رکھنے والے ممران اسمبلی کو واضح پیغام بھجوا دیاہے۔کہ کوہ پیمائی بند کرکے کیمپ
کسی ایک جگہ پر لگا لیں۔۔
اِدھر یا پھر اُدھر ۔۔۔ ایک
گھر چن لو۔۔۔بلی کی طرح سو گھر دیکھنا بند کرو۔۔۔
یہ ایسا ہی جیسے ۔۔۔اُدھر
تم ۔۔۔ اِدھر ہمیہ جملہ منسوب تو بھٹو مرحوم
سے ہے لیکن اس کے اثرات آج کل ن لیگ فیصل آباد پر ہیں۔۔۔عید کے بعد نئی صف بندی ہونے
والی ہے۔۔
شیر علی گروپ سے ڈاکٹر نثار
احمد جٹ ۔۔۔کو بندے توڑ سپہ سالار بنا دیا گیا ہے
سالار اعظم نے راقم کو بتایا
کہ رمضان المبارک میں خون ریزی منع ہے۔۔۔عید الفطر کے بعد معرکہ شروع ہوگا۔۔
آج کل افطاریوں کا زور ہے۔۔۔ایک افطاری پر لیگی رہنماووں
نے میاں فاروق کو اصرار کیا کہ آپ ضلعی صدر بن گئے ہیں دعوت نہیں کھلائی۔۔ڈاکٹر نثار نے مجھے بتایا
کہ میں نے وہ افطاری کینسل کروا دی۔۔ کیونکہ ہمارے کٹے چوری ہوجانے کا خدشہ تھا۔۔۔مجھے تو نہیں پتہ کٹے چوری
ہونے سے کیا مراد ہے۔۔۔؟
یہ صورتحال پنجابی کلام بُکل
دے وچ چور ۔۔۔ جیسی ہے۔۔۔
کنہوں کُوک سناواں اڑی۔۔او
نی میری بکل دے وچ چور چوری
چوری نکل گیا
جگ وچ پے گیا شور نی میری
بکل دے وچ چور
مجھے تو لگتا ہے کہ چور بُکل
سے نکل کر دل تک جا پہنچا ہے۔۔۔
بہت سے لوگوں کے دل میں چور
ہے اور وہ منتظر ہیں۔۔۔
جیسے ماں نے مُنے سے پوچھا
مُنے: اگر تمہارے پاس دو
سیب ہوں اور دو مہمان آجائیں تو تم کیا کروگے۔؟ بیٹا:مہمانوں کے جانے کا انتظار
کچھ لوگ انتظار میں ہیں کہ
مزید کوئی دوست اِدھر ، اُدھر ہو جائے تو ہم بھی فیصلہ کریں
لوگ ہجوم میں کھڑے ہیں۔۔
انہیں لائن بننے کا انتظار
تھا۔۔۔خواجہ اسلام آگے بڑھ کر وہاں کھڑے ہو گئے ہیں لائن جہاں سے شروع ہوتی ہے۔۔
مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں
آرہا
سردار جی کے بار بار ٹفن
کھولنے اور بند کرنے کا حوالہ لکھوں یا پھر
گلوں میں رنگ بھرے ہیرا منڈی
میں ہٹ ہوگئی ہے کا تذکرہ کروں
البتہ فیض صاحب نے غزل کا
جو آخری شعر لکھا تھا وہ مجھے خاصا سمجھ آ رہا ہے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا
ہی نہیں ۔۔۔جوکوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں