نصیبو آج پھر اپنےشوہر شیخ مرید سے روٹھ کر میکے چلی آئی۔کچھڑ میں دو ما ہ کا مُنا شیخ تھا۔ ماں اُسے جب بھی
ناراضی کی وجہ پوچھتی تو نصیبو کے روٹھنے کا جوازانتہائی دلچسپ ہوتا۔یہ جواب نصیبو کےلئےدکھ بھراتوہوتاتھا لیکن سننےوالےکی بکھیاں ہس ہس دوہری ہوجاتیں۔ اس
بارکا جواب توانتہائی۔ لاجواب تھا۔جسے سن کرروٹھا توجا سکتا تھا لیکن ہنسی روکنا
ناممکن تھا۔
نصیبو:اماں کیا بتاؤں۔۔
اماں:اچھا ۔؟چل پھر
رہنے دے ۔!
نصیبو:اماں تُوبھی کہیں۔ اُس نگوڑے کے ساتھ تو نہیں مل گئی۔؟
اماں:ہائے اللہ رحم کرے۔تیرا نصیب اچھا کرے۔اچھا اب بتا
بھی دے ۔؟
نصیبو:یہ پاجی۔بہت ستاتا ہے۔گجنی کےسنجےسنگھانیا کی
طرح اس کا حافظہ اچانک گُم ہو جاتا ہے ۔۔
انسان اور جانورکی تمیز بھول جاتی ہے۔ابھی کل کی
بات ہے۔ بچوں نے ضدیں کرکر کےقربانی کا
بیل خریدا۔اوربیل کی سجاوٹی
چیزیں بھی ساتھ لے آئے۔اب یہ
مغز بریدہ شخص ۔!مجھے کہتا ہے کہ ساری چیزیں تم پہن کر دکھاؤ۔
۔بھئی اماں کیا میں جانور ہوں۔
ڈیڑھ سو بندہ لے کر مجھے بیاہنے آیا تھا۔بھینسوں کی باراتیں کب آتی ہیں۔۔؟ میں
نے ناں کی تو لگا اول فول بکنے۔ رات بھر منہ سُوجا کے بیٹھا رہا۔ روٹی رسوئی میں
پڑی ۔ پاپڑ بن گئی۔سالن پوری ریجھ سے پکایاتھا لیکن تری ۔کاڑھے دودھ پرموٹی
ملائی کی طرح جم گئی۔میں نے سب کچھ سمیٹا
کر چھکُو میں رکھا اور لمبی تان لی۔اس موئے کو لگتا تھا میں برتن مانجھ کےسجا سجایا بیل بن کر اسے دکھاو ں گی۔۔بھلا میں یہ پٹہ، گانی، جپو، نتھ اور جھانجھریں
کیوں پہنوں۔؟ یاد ہے اماں اتنا کچھ تو ۔تُونے مجھے بِدائی پربھی نہیں پہنایا تھا۔۔
اماں:ارے تیرے نصیب
تو نہیں پھوٹ گئے۔ تو۔ اپنے زخموں پر پھاہے رکھنے کے لئے ہمیں پھٹ کیوں لگا رہی ہے۔؟
نصیبو پتہ نہیں شیخ مرید کو گائےجیسی لگتی تھی یا نہیں۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ مرد شادی سے پہلے ہمیشہ حُور ڈھونڈتے ہیں اور شادی کے بعدہور۔
ڈھونڈھتے ہیں۔ ۔فیصل آباد کی ایک مشہور صابن کمپنی نے کچھ عرصہ قبل کمرشل بنوایا تھا۔جس میں گائے درہ خیبر پر چڑھی ہوتی ہے مجھے شک ہے مرید کو اس گائے میں
نصیبو نظر آتی تھی۔ لیکن نصیبو کا عقیدہ
تو اس شعر جیساتھا۔
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
آج کل اُسی صابن کمپنی
نے گھی بنانا بھی شروع کر رکھا ہے۔گھی کا کمرشل بھی ٹی وی پرخاصا مشہور ہے۔ جوہی چاولہ جب سکرین پر آکر ’’ہر
کوئی گائے کے گُن گائے۔‘‘ کہتی ہے تو مریدنصیبو کےگُن گاتا ہے۔واری واری جاتا
ہے۔لیکن جب۔میں صابن فیکٹری کے گھی بنانے کا سوچتا ہوں تو۔۔منہ میں جھاگ بننے لگتی ہے۔
آجکل نصیبو ناراض
ہوکر میکے میں ہے لیکن مریدکو کوئی فکر
نہیں کیونکہ وہ گائے خرید لایا ہے۔۔گائے تو قربانی کی وجہ سے تقریبا ہر گھر میں
ہے۔عیدقرباں میں صرف چند دن ہی باقی ہیں۔۔گائیوں کا سیزن عروج پر ہے۔۔ منڈیوں میں جہاں چلے جائیں
، گائیں ہی گائیں، چکوالکی،تلہ گنگ کی،
پوٹھوہار ی، ساہیوال اورہریانہ نسل کی
کہیں کہیں فارمی بھی ۔شہر شہر قربانی کے جانوروں کی منڈیاں سجی ہیں۔لیکن مہنگائی نے عام آدمی کی قربانی کے لئے
قوت خرید خاصی متاثر کی ہے۔۔مینگو مین انفرادی قربانی سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔۔ایک
بکرا لے کر ایک قربانی کرنے کے نسبت گائے کی
سات قربانیوں میں سے ایک یا دو حصے لینے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔۔دو تین لوگ مل کر
ایک گائے خریدلیں تو گوشت بھی زیادہ اور قربانی کا مقصد بھی پورا ہو رہا ہے۔ اس
اسی وجہ سے ہر کوئی گائے کے گُن گا رہا ہے۔۔
لیکن مرید نے تو
اپنا جانورسالم خریدا ہے ۔چھ قربانیاں کرے گا۔ساتھ میں چھوٹے کا عقیقہ بھی رکھا
ہے۔ مُنا عید الفطر سے پہلے پیدا ہو ا توموا ۔!مرید خاصا پریشان تھا۔میں نے کہا اللہکا شکر ادا کرو۔بیٹا ہوا ہے۔لیکن کلینا۔
کہنے لگا دو دن بعد پیدا ہوتا تو فطرانہ بچ جاتا۔
اماں:نصیبو مجھے تو وہ کھسکا ہوا لگتا ہے۔؟
نصیبو:جا۔اماں۔کھسکا کہاں ۔مجھے تو ناٹھا (جس کا رشتہ دار نہ ہو)
لگتا ہے ۔پچھلی بڑی عید پر میں نے کہا
مرید قربانی نہیں کرنی ۔ ؟ جانور
خرید لاؤ۔ گھر سے بچھڑا لینے نکلا اور
فریج لے کر آگیا۔ میں پوچھا یہ کیا۔۔؟تو
کہنے لگا۔ گوشت کہاں رکھیں گے۔؟اماں۔جب
وہ فریج لے کرآیا تومیں سوچ رہی
تھی جتنے ٹھاٹ سے گھر سے گیا تھا مجھے تو لگتا تھا وہ چمڑا منڈی گراونڈ فیصل آباد سے کوئی فاتح بکرا، بچھڑا یا دنبہ خرید لائے گا۔ یہ وہی گراونڈ ہے جہاں ہر سال عید قربان سے پہلےآل پاکستان بکرا، چھترا اور
بچھڑا کےمقابلے ہوتے ہیں۔
12ستمبرکو فیصل آباد میں قربانی کے جانوروں کا کل
پاکستان مقابلہ ہوا۔جس میں جانوروں کا وزن اور خوبصورتی دونوں کو پرکھا گیا تھا۔
اس مقابلے میں 293 کلو وزنی بکرے۔شیر لاہور نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔دوسری کیٹگری میں فیصل آبادکے 1120 کلو
وزنی بچھڑے۔پنجاب دا شیرنے پہلی اور
تیسری کیٹگری میں کامونکی کا 243 کلو وزنی
چھترا۔ جھولے لال۔پہلےنمبرپرآیا تھا۔جانوروں کو دودھ، مکھن، بادام کھلا
کھلاکر ان کے مالکان نے اتنا صحت مند کر دیا تھا کہ ان سےچلا بھی نہیں جا رہا
تھا۔پنجرےمیں کھڑا کرکے ان کا وزن کیا گیا ۔پی پی کراتنے چوڑے ہو گئے تھے کہ
پنجروں میں گھسنا بھی مشکل تھا۔
نصیبوبھی شادی کےبعدمسلسل ویسی ہی ہوتی جا رہی تھی۔پنجرے
والے جانور وں جیسی۔نصیبوکا نصیب تو سب کے سامنے تھے لیکن مرید تو اچھا خاصا رن
مرید ہے۔وہ گھروالوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا۔۔یہ راز نصیبوکے علاوہ اس کی اماں
بھی جانتی تھی تبھی تو اماں نے اسے مشورہ دیا تھا۔
اماں:نصیبو عید سر ہے ۔۔ اگر مریدکی خواہش ہے تو چلو ہار
کی جگہ پرگانی، سگی پھول کی جگہ پرپٹہ، کوکے کی جگہ پرنتھ اورجھانجھرپہن کر
دکھا دے۔اُس کو۔۔تمہارا کیا جائے گا۔۔ گھڑی برابرمیں گھر دوبارہ بس جائےگا۔؟
نصیبو:اچھااماں چلی تو میں جاتی ہوں لیکن ۔مجھے لگتا ہے
میری عید میکے میں ہی ہوگی۔
اماں:اللہ خیر رکھے ۔۔! وہ کیوں
نصیبو:اماں ۔۔میں جب اسےبچھڑے کے لئے لائی ہوئی سجاوٹی
چیزیں لگا لگا کر دکھاووں گی ناں ۔؟ تو وہ اصرار کرے گا کہ اب تُوڑی ونڈا ۔اورکھل
بنولا بھی کھا کے دکھاؤ۔گجنی کا سنجے
سنگھانیا بنتے اُسےدیرہی کتنی لگتی ہے ۔۔؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں