بدھ، 9 ستمبر، 2015

اردو ۔اب مطلوب بھی ہے یا نہیں۔؟


تحریکیں جب ناکام ہو جائیں تو سازش  کہلاتی  ہیں اور کامیاب ہو جائیں تو انقلاب ۔۔پاکستان میں تازہ ترین انقلاب اگست 2014 میں لانے کی کوشش کی گئی ۔۔انقلاب مارچ کے ذریعے ۔۔ اسلام آباد فتح نہ ہوا تو ۔۔۔ اسے  سازش قرار  دے دیا گیا۔۔اسی انقلاب کے دوران قوم نے ملک کے اعلی ترین ادارے  کی دیوراوں پر شلواریں بال کھولے سوتے دیکھیں۔۔ملکی سیاست سے آگاہی رکھنے والوں نے ایک عدالتی اصطلاح سنی ہوگی ۔۔نظریہ ضرورت ۔۔یہ قصہ ملک کی پہلی اسمبلی کو توڑنے کا ہے۔۔جس کے سپیکر مولوی تمیز الدین تھے۔۔عدالت عظمی کے اس فیصلے کے بعد ملک میں عوام کا منتخب ہاوس  ہار گیا تھا۔ ۔انصاف نظریہ ضرورت  کو جنم دیا تھا ۔۔ریاست آدھا تیتر اور آدھا بٹیر میں بٹ گئی تھی۔ تب  اعلی ترین ادارے کی دیواروں پر شلواریں تو نہیں لٹکائی گئی تھیں لیکن منٹو کا افسانہ کالی شلوار۔ ہٹ ہو چکا تھا ۔۔۔
ضرورت ہمیشہ  رشتہ کی طرح ہوتی ہے۔کبھی پوری بھی ہو جاتی ہیں اور کبھی ڈھونڈتے ۔ڈھونڈتے  چراغ   بجھ جاتے ہیں ۔بعض ضرورتیں ۔۔اُجلت میں  کئے ہوئے رشتوں کی طرح ہوتی ہیں۔۔ جن سے فوری ریلیف تو مل جاتا ہے لیکن  اثرات بُرے نکلتے ہیں۔۔ پھر  بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں ۔۔رشتے ٹوٹتے ہیں۔۔ نئی ترامیم آتی ہیں ۔ رشتہ داروں کی کُل اسمبلی بیٹھتی ہے۔۔ اور اتفاق رائے سے ترمیم کرکے   ضرورت کو حذف کر دیا جاتا ہے اور نظریہ  پھر سے زندہ کر لیا جاتا ہے۔یہ نظریہ ہی تو ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملک میں اردو  رائج کرنے کا فیصلہ سنایا۔۔3 ماہ  کے اندر۔۔نفاذ اردو ۔درحقیقت نفاذ آئین  کی  کوشش ہے۔۔ کیونکہ 1973 کے آئین کے  آرٹیکل 251 کے تناظر میں اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔۔ جس  میں لکھا گیا ہے کہ
’’پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے 15 برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے ۔۔ انگریزی  اس وقت تک  استعمال کی جا سکے گی۔ جب تک اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں ۔‘‘
ہم  رشتے اور کاروبار۔۔زبان سےکرتے ہیں۔لیکن ہماری کوئی زبان نہیں۔۔  مادری زبان پنجابی  ہے۔۔قرآن عربی میں ہے۔۔کزنز سے اردو بولتے ہیں۔۔  اورسکولوں میں انگریزی ۔۔ بلکہ بچے انڈین کارٹون دیکھ کراب  سنسکرت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔۔ ہم  کاٹھے انگریز ہیں۔۔ پنجابی میں اردو۔ ۔اردو میں انگریزی ۔۔انگریزی میں عربی۔۔۔عربی میں فارسی۔۔بولنےو الے۔ ۔ہماری ایک زبان نہیں۔۔ بھانت بھانت کی بولی۔۔ اور بھی اپنی اپنی ۔۔ہر زبان کی ابتدا بولی ٹھولی سے ہوتی ہے۔تب بولنے والے بھی  گونگے  بن کر اشارے ساتھ کرتے ہیں۔۔زبانوں کا ابتدائی ادب لوک گیت ہوتے ہیں۔۔جب گیت  زبان زد عام ہو جائیں تو  زبان جنم لیتی ہے اور پھر ادب تخلیق پاکر۔۔ زبان کی لاج رکھ لیتا ہے۔ہر زبان ۔۔کے ارتقا میں کم از کم دو زبانوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔ہندوستان پر آریہ، بدھ اور انگریز۔۔تین قوموں نے قبضہ کیا۔محمد بن قاسم آئے تو سندھی اور عربی  جبکہ محمود غزنوی آئے تو فارسی اور پنجابی  کا میلاپ ہوا۔قطب الدین ایبک نے دہلی فتح کی تو وہاں کی زبان  کھڑی بولی تھی۔۔ کھڑی بولی میں نکھار کا زمانہ اردو کا ابتدائی زمانہ ہے۔(بشکریہ مسعود حسین خاں)۔مغل  دور میں برصغیر کی سرکاری زبان فارسی ہو گئی۔ انگریزوں آئے تو انگریزی  آگئی۔ شمالی ہند میں اردو مسلمان حملہ آوروں کی وجہ سے پھیلی اور جنوبی ہند میں اردو۔درباروں کی وجہ سے۔۔اسی لئے زیادہ تر شعرا اور ادیبوں کا تعلق دہلی سے  ہے۔۔
ملا نصیر ہاشمی کا دعوی ہے کہ اردو دکن میں بنی کیونکہ وہاں ہندوستان کے تین ساحل ہیں۔جہاں عربوں نے بستیاں آباد کیں اور ہندوستانیوں سے رشتہ داریاں و تجارت کی۔۔
 خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ
’’اردو جب پیدا ہوئی تو اس کے جنم استھان میں کئی گیت گائے جاتے تھے۔ترکی آمیز ہندی گیت۔۔ عربی فارسی کے الفاظ برج بھاشا میں۔۔یہ رنگا رنگ بولیاں درحقیقت اردو کے زچہ خانہ کے گیت تھے۔اردو جب مدارس میں داخل ہوئی تو عربی آمیز ہو گئی۔۔اردو فارسی نما بھی رہی۔جس کے بعد آج کل اردو انگریزی نما ہے۔‘‘
مغلیہ دور میں ہندو اور مسلمان سبھی اردو بولے تھے۔۔انگریزوں نے فورٹ ولیم کالج میں مشن پر آنے والوں کو  اردو کی تعلیم دلوائی۔بنارس میں  سرکاری زبان ہندی کو رائج کرنے کا مطالبہ ہو اتو اردو ہندی تنازعے نے جنم لیا ۔ہندووں کا اردو پر یہ پہلا حملہ تھا۔۔اردو سے اسلامی الفاظ نکال کر سنسکرت  کے شامل  کئے گئے تو نئی زبان ہندی نے جنم لیا تھا ۔ اردو قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ہندووں نے دیوناگری کا مطالبہ کر دیا تو اردو کو فرقہ واریت  کا شکار ہو گئی۔
دنیا  بھر میں 21 فروری کو مادری زبان کا دن منایا جاتا ہے ۔زبانیں قوم پرستی کی بنیاد بھی ہوتی ہے۔۔جرمن اور بنگالی سب سے بڑے قوم پرست ہیں۔ہماری قوم  پرستی کی بنیاد دین ہے۔ایک جرمن پادری مارٹن لوتھر نے کہا تھا کہ’’زبان اہم نہیں ہوتی اس کا پیغام اہم ہوتا ہے۔‘‘جس کے بعد مارٹن لوتھر نے انجیل کا ترجمہ جرمن زبان میں کرکے چرچ کی اجارہ داری ختم کردی۔بالکل اِسی طرح محدث دہلوی شاہ ولی اللہ نے جب قرآن پاک کا ترجمہ فارسی زبان میں کیاتو علما روٹھ گئے۔بنگالیوں سے دین کے علاوہ ہماری کو ئی چیز مشترک نہیں۔۔ زبان کا مسئلہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں ہمیشہ زبان زد عام رہا۔حتی کہ پاکستان ٹوٹنے میں بھی زبان کا کرادر ہے۔قیام پاکستان کے وقت ہم ساڑھے 7 کروڑ تھے۔56 فیصد بنگلہ بولتے تھے اور 7 فیصد اردو۔۔اقتداریوں کی زبان اردو تھی۔انہوں نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تو بنگالی روٹھ گئے۔۔انہیں اردو  پسند تو تھی لیکن سمجھ نہیں آتی تھی۔۔کرنسی نوٹ، منی آرڈر، اسٹامپ پیپر،خط و کتابت اور درخواستیں سب کچھ اردو میں تھا۔نومبر1947 میں پاکستان کی  پہلی تعلیمی کانفرنس کے دوران اردو کو قومی زبان قرار دے دیا گیا ۔وزیرتعلیم مشرقی پاکستان فضل الرحمن بھی یہیں موجود  تھے۔اسی دوران بابائے اردو مولوی فضل الحق نے کہہ دیا کہ بنگالی کا رسم الخط (دیوناگری)غیر اسلامی ہے۔۔ بنگالی مزید بھڑک اٹھے۔
1949 میں بیسک پرنسپل کمیٹی(آئین ساز) نے بھی بنگلہ  زبان کو نظر انداز کیا۔۔ حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور  شیخ مجیب الرحمٰن وغیرہ  نے مسلم لیگ  چھوڑ کر آل پاکستان عوامی مسلم لیگ بنا لی۔شیر بنگال  مولوی فضل الحق بھی بنگالی زبان کے حامی تھے۔۔وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اردو کے حق میں فیصلہ دیا تو طلبا نے ڈھاکہ میں  احتجاج کیا ۔ ان پر گولیاں برسائی گئیں تو  4 مارے گئے۔بنگالیوں  کی تحریک کو خون مل گیا انہوں نے یاد گار شہدا  بنائی اور ہرسال 21 فروری کو یوم شہدا منانے لگے۔اقوام متحدہ نے  بھی ان کی حمایت کر دی ۔ 1956کے آئین میں بنگلہ کو بھی اردو کے ساتھ قومی زبان بنا دیا گیا۔ بنگالیوں کا مطالبہ 7 سال بعد سنا جا چکا تھا۔1962کے آئین میں بھی دونوں زبانیں شامل تھیں۔بنگالی  رابندر ناتھ ٹیگور کو پوجتے تھے۔۔لیکن ہم نے اقبال اکیڈمی بنا کرعلامہ اقبال کا فارسی کلام اردومیں ترجمہ کردیا ۔ بنگلہ زبان میں ترجمہ کیا اور نہ ہی ٹیگور صاحب کو پوچھا ۔۔16دسمبر1971 کو بنگالی جیت گئے۔زبان کی تحریک چلانے و الوں کو  الگ وطن مل چکا تھا۔ راستے صاف تھے۔1973 کو باقی ملک کی زبان اردو رہ گئی۔اس بار بنگلہ زبان کی آواز اٹھانے والا کوئی نہ تھا لیکن ہم نے 68 سال اردو سے وہی سلوک کیا جو بنگلہ سے کیا تھا۔
اردو اب قومی زبان ہو چکی ہے لیکن ہم نے انگریزی میں فیل کا مطلب فُل فیل متعارف  کروا رکھا ہے۔۔۔ہمارا۔اردو  شعور ابھی بلوغت کی ان بلندیوں  تک نہیں پہنچا جہاں ایوارڈ ز کی تقریبات میں انگریزی بولنے والوں کا پہنچ چکا ہے۔۔اردو کے نفاذ کا خواب ہنو ز شرمندہ تعبیر ہے۔۔لیکن صورتحال ابھی تک ہاتھ سے باہر ہے کیوں کہ ملک کے اشرافیہ طبقے کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ بطور قومی زبان اردو ۔اب مطلوب بھی ہے یا نہیں۔۔
ملک کے اعلی ادارے نے شلواروں والا داغ دھو دیا ہے۔۔۔اب ایک زبان ہو گی۔۔ اسلامی رسم الخط ہوگا۔کیونکہ یہ  آئینی تقاضا ہے وگرنہ 2015 تک تو ہماری زبان غیر آئینی   تھی۔۔ چیف جسٹس نے کئی دن تک اردو کیس کا فیصلہ محفوظ کئے رکھا۔۔۔ لیکن فیصلہ جب غیر محفوظ ہوا تو اردو محفوظ ہوگئی ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں