بدھ، 26 اگست، 2015

کھانے میں کچھ میٹھا ہے۔۔۔ ؟


 اگرچے میں کبھی بھی سیاسی نہیں رہا لیکن  ۔۔ رونا اور گانا جس طرح ہر شخص کو آتا ہے ۔اسی طرح سیاست بھی ہر پاکستانی کے بس کی بات ہے۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ وہ سیاست کے اسرار۔ و۔رموز سے  بخوبی واقف ہو یا نہ ہو ۔۔۔پاکستان وہ ملک ہے جس کی آبادی کئی سالوں سے شمار میں نہیں ہے  لیکن ہم جتنے  بھی ہیں ۔سب کے سب سیاستدان  ہیں۔۔۔چونکہ میں  بھی پاکستانی ہوں ۔۔سو مجھے بھی  کبھی کبھار سیاسی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ لوگ سن کر سیکھتے ہیں۔۔میں نے ان سیاسی  باتوں سے جھوٹ، مکاری، دھوکہ بازی اور قرضہ نوشی  وغیرہ سیکھی ہیں ۔یہی کچھ ہمارے بڑوں نے سیکھا تھا اور آج ہمارے بچے بھی وہی کچھ سن رہے ہیں۔
بحثیت مجموعی  ہم گاڑ یاں  وہاں پارک کرتے ہیں جہاں  نو پارکنگ کا بورڈ ہو۔۔ اور کوڑا بھی وہیں پھینکتے ہیں جہاں  ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہو۔۔حتی کہ ہم حاجت کے لئے بھی وہاں جاتے ہیں۔ جہاں ۔۔حاجت رفعائی منع ہو۔۔
سیاسی بحثیں بھی عین وہیں ہوتی ہے جہاں پر۔۔’’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔۔کا بورڈ نصب ہوتا ہے۔ وہاں پر مختلف سیاسی  ورکرز ٹی وی ٹاکرے کی طرز پر گتھم گتھا ہونے کو بے قرار ہوتے ہیں۔۔
حجام کی دکان پر بحثیں اکثر جاری رہتی ہیں۔وہاں بیٹھے بیشتر افراد کے بال  پہلے ہی ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کرلگتا ہے کہ یہاں پر بحث ہو چکی ہو۔۔اور ان کی داڑھیاں یوں بڑھی ہوتی ہے۔جیسے وہ سالوں سے الیکشن ٹربیونل کے فیصلہ کے منتظر ہوں ۔۔۔
گنجان آباد محلوں  کی بڑی نکڑوں اور دیہاتوں کے چوراہوں میں پڑے من من پکے پائیوں والے منجے بھی اکثر سیاسی گفتگو کی وجہ کسی ٹی وی ٹاک شو کا سٹوڈیو بنے رہتے ہیں۔۔یہاں کھوکھوں ، ڈھابوں اور نائیوں کی دکانوں کی طرز پر’’سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘ کے بورڈز بھی نصب نہیں ہوتے۔ وہاں سیاسی باتیں۔ غیر سیاسی انداز میں ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔۔سنسر کے خوف سے  آزاد۔سکھوں، پٹھانوں سے منسوب لطیفے۔مخالف جماعتوں کے سیاستدانوں سے منسوب کرکے دل پشاوری کیا جاتا ہے۔۔
منجا شہر میں ہو یا گاوں میں اس کا انجام سیاسی ہوتا ہے اور اس کے کردار بھی سیاسی ۔۔انہی منجوں پر ایک بابو ۔۔ شابو ہوا کرتا تھا۔۔۔ جو روزگار پر جانے سے پہلے اور آنے کے بعد۔۔ اخبار پڑھتا اور چھپنے والی مختلف خبروں، تبصروں کے بارے میں منجے پر بیٹھے۔۔پھجے، پھتے، خیرےاور بشیرے کو آگاہ کرتا۔ کہ کل پاکستان میں کیا ہوا تھا۔۔؟
ایک منجے پر بیٹھے ان پڑھ بوڑھے نے بابو سے کہا
بوڑھا آدمی: بابو یہ خبر پڑھنا ٹرک  کہاں پر الٹا ہے۔۔؟
بابو:چاچا۔۔ اخبار سیدھا کر لیں ٹرک سیدھا ہی ہے ۔۔
میں سوچا کرتا تھا کہ گھروں اور گھر گرستی سے آزاد۔۔ بچوں کو بیاہ کر قبیل داری چکا لینے والے۔۔اور کاروبار اولاد کے حوالے کر دینے والے۔کچھ رنڈوے۔۔کچھ گھروں سے نکالے ہوئے۔۔بوڑھے ۔آخر ملکی سیاست پر بات چیت کرنے کے لئے اتنے بے چین کیوں رہتے ہیں۔۔ بھٹو، بے نظیر، نواز، شہباز، زرداری، الطاف اور عمران  نے اس قوم کو کیا دیا ہے۔۔۔؟
میں سوچتا کہ ۔۔۔سارا پِنڈ۔۔ وی مر جائے تو۔۔ماچھیوں کا مُنڈا چوہدری کیسےبنے گا۔۔؟۔ یہ آٹے چینی، دال، گھی، پیاز کی باتیں کیوں نہیں سوچتے۔۔۔ ؟
بابو ۔۔دن بھر دفتر میں جھک مار کے لوٹتا ہے تو اسے روک کر بوڑھے پھر اخبار سننا کیوں شروع کر دیتے ہیں۔ان کا تجسس کیوں ختم نہیں ہوتا۔تشنگی کب بجھے گی۔۔انہیں اتنی دلچسپی کیوں ہے۔۔؟۔ یہ کیوں جاننا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرویز مشرف نے کتنے اڈے امریکہ کے حوالے کئے۔۔ ؟
بے نظیر بھٹو کے قتل میں کون کون ملوث ہے۔۔۔؟
نواز شریف معافی نامہ لکھ کر باہر کیوں گئے۔۔۔؟
 زرداری نے بلاول کو سیاست کھیلنے۔۔کیوں نہیں دی ۔۔۔؟
 پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں برقرار کیوں ہیں۔۔۔؟
افغانستان طالبان کی حمایت کیوں کر رہا ہے۔۔۔؟
ملکی دہشت  گردی میں انڈیا کا کتنا ہاتھ ہے۔۔؟
آخر یہ۔۔پھجے، پھتے، خیرے اور  بشیرے۔۔ دن بھر نتھو کیوں بنے رہتے ہیں۔۔۔؟
لیکن مجھ پر اب سب کچھ آشکارہو چکا ہے کیونکہ۔
بابو۔ آج کل خاصا اداس ہے۔محلے کے منجے جو ختم ہو گئے ہیں۔پھجےاور پھتے گھروں میں دُبک گئے ہیں۔ وہ شدید گرمی میں بھی منجے پر نہیں آتے۔ان کے ہڈوں میں جانے کون سی ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔؟
ان گھر بے زاروں کو۔۔اندر کون سا پاپی چولو دیکھنے کا مل گیا ہے۔۔بابو کی پزیرائی اب کیوں نہیں کرتے۔۔ وہ ہر وقت  سردیوں کی شاموں  کی طرح اداس کیوں رہتا ہے۔؟
بابو کہتا ہے کہ ۔۔!
پاکستان کے خیرے آج خیر سے سب کچھ جانتے ہیں وہ اب نتھو نہیں رہے۔وہ اب بہت کچھ جانتے ہیں۔ ٹی وی ٹاکروں کے ذریعے۔ تبدیلی اور انقلاب مارچ کے ذریعے۔۔ لیکن وہ نائیوں کی دکانوں پر آج بھی جاتے ہیں ۔۔ وہاں سے سیاسی گفتگو کرنا منع ہے کہ بورڈز ہٹا دئیے گئے ہیں۔۔کیونکہ بوڑھے سیاسی ہو گئے ہیں۔ اور سیاستدان سے سیاست پر بات نہ ہو تو نائی کی شیو اور حجامت درست نہیں ہوتی۔۔
نائی کو آج کل اعلی کوالٹی کے سیاسی تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔۔وہ بھی کئی بابووں پر سیاسی دانائی کا رعب  جھاڑنے لگا ہے۔۔ اسے چوٹی کے۔۔سیاسی مبصرین کے حوالے بھی یاد ہوتے  ہیں۔۔اب بابو کو کون پوچھے۔۔؟۔۔ یہ  بوڑھے جب  بولتے  ہیں تو لوگ رک کر انہیں دیکھتے اور سنتے ہیں کہ وہ۔۔ سیاست دانوں کے بارے میں کیسا سوچتا  ہیں۔۔
یہ تبدیلی کی واضح علامت  ہے۔۔۔ شائد  وہی تبدیلی ۔۔۔ جس کا اشارہ عمران خان نے دیا ہے۔تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔ جس تبدیلی کے لئے میڈیا کو ٹول  بنایا گیا۔۔
1970 میں ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے۔جس میں  پہلی بار ایک آدمی ۔۔ایک ووٹ کا حق دیا گیا۔ یہ وہی الیکشن ہیں جنہیں عمران خان سمیت بہت سے سیاستدان شفاف قرار دیتے ہیں۔۔اللہ کرے ایسا ہو۔۔۔!
2013 کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے ملک میں انتخابی دھاندلی بے نقاب کرنےکی تحریک چلائی ۔۔ عمران خان چاہتے تھے۔۔تھیلے کھول کر بلیاں (غلطیاں) باہر نکال لی جایئں اور ملکی انتخابی نظام کو بہتر کر لیا جائے۔۔ لیکن ان کا مطالبہ مانا نہیں گیا۔دھاندلی اگر ن لیگ نے کی نہیں تھی تو پھر خوفزدہ کیوں تھے؟ ۔۔عمران خان جب 4 حلقے کھولنے کی بات کر رہے تھے۔۔ تب یو یو ہنی سنگھ 4 بوتل ووڈکا ۔۔۔ گا رہے تھے۔۔ بہت سے لوگوں نے 4 حلقوں اور 4 بوتلوں کو جوڑ کر نئی نئی تُک بند یاں بھی کیں۔۔ عمران خان نے اگست 2014 میں آزادی مارچ کیا اور اگست 2015 میں انہیں خوشخبری ملی۔۔ ڈھول بجنے لگا۔۔ماحول سجنے لگا۔۔ اگست آزادی کا مہینہ ہے لیکن  ن لیگی مجھے آج غلام  غلام سے لگ رہے ہیں۔۔ان کے بارے میں  سوچ کر مجھے۔۔4 بوتل ووڈکا ۔۔ یاد آتا ہے۔۔۔ کیونکہ
جن 4 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ عمران کر رہےتھے۔۔ان میں سے 3 کھل چکے ہیں۔۔۔اور۔۔ نتیجہ پی ٹی آئی کے حق میں نکلا ہے۔۔ ن لیگ خواہ اسے عمران خان کے موقف کی جیت نہ سمجھے لیکن تھیلے چاک ہونے سے ان کی 3 بڑی شخصیات اوندھے منہ گر گئی ہیں۔۔ تحریک انصاف کے کارکن جو پہلے ہی ناچ گانے کے لئے مشہور ہیں۔۔ انہوں نے  نہال ہو کر خوشیاں منائی ہیں۔۔ ! مٹھائیاں بانٹی ہیں۔۔ شرلیاں اڑائی ہیں ۔۔ پٹاخے پھوڑے ہیں۔۔ اور جب آئے گا عمران ۔۔۔ بنے گا نیا پاکستان کے گیت گائے ہیں۔۔!
میٹھا ہمیشہ خوشی سے مشروط ہوتا ہے۔۔مٹھائی کی دکانیں جب زیادہ عام نہیں تھیں۔ تب گھروں میں میٹھا مانگنے پر کھانے کو گُڑ ملتا تھا۔۔ کبھی سادہ اور کبھی میوے والا۔۔ بہت سےلوگ مٹھائی تب کھایا کرتے تھے۔۔ جب نرس آکر خوشخبری سناتی تھی۔۔اب مٹھائی کی دکانیں جگہ جگہ ہیں۔۔کیوں نرسوں کے اطلاع دینے کی شرح خاصی بڑھ گئی ہے ۔۔
میں چونکہ غیر سیاسی ہوں۔۔۔ اس لئے مجھے تو صرف  نرس کی اطلاع۔۔ والا میٹھا پسند ہے۔۔ لیکن میں ہمیشہ حیران ضرور ۔رہتا کہ بچہ پیدا ہمارے گھر ہوا ہے کھُسر محلے اطلاع کیسے پہنچ گئی۔ کیا تبدیلی وہاں پہلے سے موجود تھی۔ وہ ناچ ناچ کر نہال کیوں ہو رہے ہیں۔۔ کیا واقعی تبدیلی آگئی ہے۔۔ ؟
میں اب پھجےاور پھتے کی طرح گھروں میں رہنا پسند کرتا ہوں۔۔تبھی تو میں جانتا ہوں کہ خوشیاں کیا ہوتی ہیں۔۔؟
خوشیاں ۔۔ابتدا میں تھوڑی کھٹی ہوتی ہیں۔۔ جب کھٹی مٹھی ، املی اور اچار کھانے کو دل  مچلتا ہے۔۔اور پھر یہ کھٹاس ۔۔مٹھاس لانے کا سبب بنتی ہے۔۔
شادی شدہ افراد۔۔ اس کھٹاس اور مٹھاس سے بخوبی واقف ہیں۔۔۔ اور اب تو تحریک انصاف کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ انہوں نے پہلے کیسے کھٹے گھونٹ بھرے اب مٹھائیاں چل رہی ہیں۔۔  
الیکشن ٹربیونل کے فیصلوں نے تحریک انصاف کو تیسری خوشی دکھائی ہے۔۔این اے154 ، این اے 122اور این اے125 لیبر روم سے نکل آئے ہیں۔این اے110 سیالکوٹ کے دن بھی  پورے ہو رہے ہیں۔۔حکومت کے پاؤں پہلے ہی بھاری ہیں۔۔ مجھے لگتا ہے تحریک انصاف نے  کسی کرماں والے بابا جی کا ہاتھ تھام لیا ہے۔
بابا جی ایک گاوں سے گذرے تو انہیں فریاد ہوئی
عورت:بابا جی۔ میری شادی کو کئی سال ہو گئے ہیں اولاد نہیں ہوئی
بابا:کاکی۔۔!میں بڑے سرکار کے دربار پر تیرے کانام دیا جلاو ں گا
دس سال کے بعد بزرگ اسی گاوں سے گذرے اور اُسی عورت کے گھر گئے
بابا: کاکی ۔۔ کتنے بچے ہیں تیرے ۔۔؟
عورت:۔۔۔ بابا جی 12 بچے ہیں۔۔!
بابا:تمہارا شوہر کہاں ہے۔۔۔ ؟
عورت:وہ دربار ڈھونڈ کر دیا بھجانے گیا ہے
یہ لطیفہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن پر کیسے فٹ بیٹھتا ہے ۔۔ فیصلہ خود ہی کر لیں۔۔!

1 تبصرہ:

  1. بہت اعلیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بس لکھتے رہیں اور خوش رہیں ، دوسروں کو خوش رلھنے کا ہنر تو آپ کے قلم کو آ ہی گیا ھے

    جواب دیںحذف کریں