منگل، 26 ستمبر، 2017

زیرو سائز بیوی

دوسری شادی مردکی پہلی ضرورت ہوتی ہے۔بندہ دوسری شادی کرے توکسی میم سےکرے۔جتنی دیرمیم کو زبان سیکھنے۔فرفر بولنے اور گالیاں سمجھنے میں لگے گی۔شوہرکی زندگی پُر سکون رہے گی۔دیسی لڑکی سے دوسری شادی کرنا۔ایسے ہی ہے جیسے بندہ موبائل کی نئی کیسنگ خرید لے۔پہلی بیوی بدتمیز ہے تو دوسری بھی نکلے گی۔پہلی موٹی ہوگئی تو دوسری کی بھی گارنٹی نہیں۔بلکہ ممکن ہے۔پہلی طلاق لے لے اور۔دوسری نہ لے۔طلاق کےلئےسب سےزیادہ ضروری چیزشادی ہے۔شادی ایسا تعلق ہے۔جس میں ایک ہمیشہ درست ہوتاہے۔اور۔دوسرا شوہرہوتا ہے۔بیوی جب کھل کے سونا چاہتی ہے۔ شوہرسےلڑائی کرلیتی ہے۔ ’’پھردونوں ہنسی خوشی رہنےلگے‘‘۔کے اخلاقی سبق صرف نصابی کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ خواتین کاحُسن ان کی خاموشی میں چھپا ہوتا ہے۔اسی لئے خاتون جب تک بیوی نہ بن جائے

 اچھی لگتی ہے۔شوہر نیک ہو جائے توبیوی سمجھتی ہے کہ یہ ناٹھا۔کسی حُور کے چکر میں ہے۔؟۔جس عورت نے کہا تھا سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔اس کا شوہر چین میں گم ہو گیا تھا۔۔ اقوال زریں میرے دوست شیخ مرید کے ہیں۔جو میرے لئے سندکی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں کاروباری حالات ایسے ہیں کہ سوائے بیوی کے کچھ ڈبل نہیں ہو رہا۔ بیوی جتنی بھی زیرو سائز ہو۔شادی کے محض تین چار سال بعد گاؤ تکئیےکی جگہ لے لیتی ہے اور شوہر جتنا بھی آوارہ مزاج ہو۔ چار پانچ سال کے لئے بسترمیں جگہ بنا لیتا ہے۔گاؤ تکیہ وہاں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ شادی کا ۔سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ’’گاؤ تکیہ‘‘رکھنے کے لئے الگ کمرہ مل جاتا ہے۔ سال دو سال بعد کمرے میں چھوٹے چھوٹے’’ کُشن‘‘آنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ شوہرپہلے بستر سے نکلتا ہے اور پھر ایک دن کمرے سے ہی نکل جاتا ہے۔ شادی کی ہوا۔گیسی غبارے کی طرح جلد ہی نکل جاتی ہے۔اورعمررفتہ پچکے غبارے کی طرح گذرتی ہے۔۔میاں بیوی میں لڑائی ہیضے کی طرح پھوٹتی ہے اورالٹیوں کے بعدختم ہو جاتی ہے۔ہر خانگی جنگ کا اختتام بیوی کے اس ڈائیلاگ پرہوتا ہے کہ ’’بس میری زبان نہ کھلوا ؤ۔ منہ بند ہی رہنے دو‘‘۔۔شوہر میں لڑنے کی خواہش تو ہوتی ہے لیکن ہمت نہیں ہوتی۔
میاں بیوی آرٹ گیلری گئے شوہر ایک پینٹنگ دیکھ رہاتھا۔ جس میں لڑکی کے جسم پر صرف درخت کے پتے تھے۔
بیوی (جل کر): آگے بھی چلیں یا آندھی آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
شیخ مرید اوربھابھی نصیبو نے دس سال قبل لو میرج کی تھی ۔ اب مرید کے پاس ذاتی گاؤ تکیہ ہے۔اورتین کُشن۔وہ پانچ سال سے بیڈ روم سےباہر ہے۔ تکیہ اس کی زندگی کاکمبل بن چکا ہے۔وہ ۔ ذرا سی چوں بھی کرتا ہے تو نصیبوفورا چاں چاں کرنے لگتی ہے۔وہ چاہتا تھا۔الطاف حسین کی طرح ۔نصیبو کے خطاب پرپابندی لگ جائے۔ بیوی کے جُسے اور غصے کاڈرنہ ہوتا تو مرید کب کا کیسنگ بدل چکاہوتا۔ اسے معلوم ہے کہ ایک جیلس بیوی۔سکاٹ لینڈ یارڈسےبھی اچھی تفتیش کر سکتی ہے۔وہ جانتا ہےکہ خفیہ بیوی(دوسری)۔آف شور کمپنی کی طرح خفیہ نہیں رہتی۔ اسے پتہ ہے کہ سالے ۔اقوام متحدہ کےمعائنہ انسپکٹرز ہوتے ہیں۔جو گھر سے ہی’’کیمیائی حملے‘‘کروا سکتے ہیں۔
مالن (مالی سے) : وہ کون سی چیز ہے جوتم روزانہ دیکھتے ہو لیکن توڑ نہیں سکتے۔
مالی :تمہارا منہ
میاں اور بیوی میں منہ توڑ حملے اکثر جاری رہتے ہیں۔والدین ۔اولاد کو جو تربیت دیتے ہیں اسے جانچنے کا۔۔ سب سے بڑا امتحان شادی ہے۔جس طرح کرکٹ میچ فکس ہوتے ہیں۔ اسی طرح شادی کا نتیجہ بھی فکس ہوتا ہے۔ جس میں ہر شوہر فیل ہوتا ہے اور۔ بیوی۔فُل فیل۔اس امتحان میں۔ میاں بیوی کے پاس ہونے کی نہیں ۔البتہ پاس پاس ہونے کی گنجائش ضرور ہوتی ہے۔ بیوی روٹھ جائے تو اسے تہوار کی طرح مناناپڑتا ہے۔ اور جب وہ مان جاتی ہے تو باقی’’ تہوار‘‘ شوہرمناتے ہیں۔ مرید کہتاہے کہ خواتین کے موٹاپے کی بڑی وجہ تہوار ہیں۔لیکن ۔pregnant عورت کی زندگی کااذیت ناک لمحہ وہ ہوتا ہے۔جب لوگ مبارک دینے کے بجائے جم جانے کا مشورہ دینے لگتے ہیں۔
دنیا بھرمیں موٹاپےکی بڑی وجہ ٹینشن ہے۔اورثبوت شوہر ہے۔بیوی ٹینشن فری ہوتی ہےکیونکہ وہ کسی کا شوہرنہیں ہوتی۔ کنواری لڑکیاں۔ شادی شدہ کی نسبت پتلی ہوتی ہیں کیونکہ کنواری۔ گھرآتے ہی پہلےفریج میں دیکھےگی اور کمرےکی طرف چلی جائےگی۔ جبکہ شادی شدہ پہلےکمرہ دیکھے گی اورپھرفریج کی طرف چلی جائے گی۔شادی کے بعد خواتین کا وزن۔وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے اثاثوں کی طرح اچانک بڑھ جاتا ہے۔شادی پرسلوائےگئےسوٹ۔غبارے کی طرح پچکے لگتے ہیں۔پٹیالہ شلوارکی طرح جسم پر چربی کی تہیں چڑھ جاتی ہیں۔بیچاریوں کی باقی زندگی۔ڈریسنگ ٹیبل کےسامنے سوٹ جسم سےلگا لگا کردیکھنے میں گذرجاتی ہے۔لیکن خواتین کےلئے پتلا ہونا بائیں ہاتھ کا کام ہے۔وہ آئینہ نہ دیکھیں۔تصویر نہ بنوائیں اوروزن نہ کرائیں توپتلی رہتی ہیں۔۔جبکہ۔موٹے مرد۔جینزپہن کرپتلےہوتے ہیں۔موٹاپا اگرمرد کےجینز میں نہ بھی ہو۔توبھی موٹے جینز میں ہی ہوتے ہیں۔پاکستان کےستانوے فیصدمرد۔گھروں کے اندر موٹا ہونے میں مصروف رہتے ہیں اور۔تین فیصدپہلے ہی طاہر اشرفی ہوتے ہیں۔مریدکہتا ہےکہ۔طاہر اشرفی گوشت کا ایسا پہاڑ ہیں۔جو بیٹھا بھی ہوتو لیٹا محسوس ہوتا ہے۔
پاکستان میں۔سچے پیار، خالص دودھ اور اصلی شہدکی تلاش ہمیشہ جاری رہتی ہے۔سچا پیارتواتنا ۔ناپیدہوگیا ہےکہ چار پانچ بچوں کی ماں بھی پیار لوٹنے کےلئےبھاگ جاتی ہے۔پھررشتہ دار معاملہ دبانے میں لگ جاتے ہیں۔اگر اتنے ہی بچوں کا باپ بھاگ جائے تو’’سالے‘‘جگہ جگہ معاملہ اچھالتے پھرتے ہیں۔ہمارے ہاں ننانوے فیصد شوہر مائنس ون اور سو فیصد پلس ون کےشوقین ہیں۔مریدکہتا ہے کہ’’ آپ کسی بھی مرد کی تلاشی لے لیں۔اس سےچار پانچ غیر معیاری پیار ضروربرآمد ہو ں گے‘‘۔کہتے ہیں کہ محبت ہمیشہ موٹی لڑکی سےکرنی چاہیے کیونکہ وہ ’’بھاگ‘‘ نہیں سکتی۔اور پتلی لڑکی کا پتہ نہیں ہوتاکہ اسے پیار چاہیے یا خوراک۔شائداسی شش و پنج میں 30 ہزارپاکستانی مرد میموں سےشادی کرچکے ہیں۔
گذشتہ دنوں۔سینٹ اجلاس کے دوران پاکستانیوں کی غیرملکی خواتین سے شادی موضوع بحث رہی۔ سینیٹ کوبتایاگیا ہےکہ’’گریڈ1سے22تک کے10ہزارسےزائد ملازمین ایسے ہیں۔ جن کی بیویاں غیرملکی ہیں۔جن میں گریڈ1سے22تک 3193 ملازمین جبکہ گریڈ1سے16 تک کے3127 ملازمین شامل ہیں۔سب سےزیادہ تعدادگریڈ5کے662 شوہروں کی ہے ۔ جبکہ 20ہزارسےزائدپاکستانی ان کے علاوہ ہیں۔جوگوری زلفوں کے اسیرہوچکےہیں۔‘‘۔
معلومات کے مطابق گوریوں سے شادی کرنے والے مردوں کی اکثریت معاشی طورپرکمزورتھی۔کچھ غیرملکی شہریت لینا چاہتے تھے۔اورکچھ سمارٹ میموں کےچکر میں تھے۔جنہیں اردونہیں آتی۔جن کے منہ توڑنےکی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔جنہیں تہواروں کی طرح منانا نہیں پڑتا۔جن کے لباس پچکےغباروں جیسے نہیں ہوتے۔جوگاؤتکیہ بننے سےنفرت کرتی ہیں۔جہاں تصویروں سے پتے ہٹانے کےلئےآندھی کا انتظارنہیں کرنا پڑتا۔سب سے بڑھ کریہ کہ بندہ نئی کیسنگ لینےکے بجائے نیا موبائل بھی لے سکتا ہے۔سینٹ کی رپورٹ تومنظر عام پرآچکی ہے۔اللہ جانے اُن افسران کے پاکستانی گھروں میں کیاقیامت برپا ہوئی ہوگی۔جنہوں نےآف شورکمپنیوں کی طرح بیویوں کوچھپا رکھا تھا۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں