ہفتہ، 5 دسمبر، 2015

ایان علی ہم شرمندہ ہیں۔۔ !

غدر کےبعدمرزا غالبپکڑے  گئے۔انہیں  جب  کمانڈنگ آفیسرکے سامنے پیش کیا گیا توکرنل براؤن نےپوچھا:ویل۔ٹُم مسلمان ہے؟
مرزا: جناب۔ آدھا مسلمان ہوں۔
کرنل : کیا مطلب؟
مرزا : جناب شراب پیتا ہوں۔ سؤر نہیں کھاتا۔کرنل  ہنس پڑا اور مرزا کو چھوڑ دیا۔
میں یقین سےنہیں کہہ سکتا کہ  کرنل نے جس حق حاکمیت کو استعمال کرکےمرزاکوجانے دیا۔ مرزا کی حس لطافت اس کی وجہ بنی یا  پینے پلانے کااعتراف۔لیکن   مرزاغالب کےایسے ہی درجنوں قصے ان کے شعروں کی طرح مقبول عام  ہیں۔عاشقان ِمرزا جانتے ہیں کہ وہ  رج کے پیتے تھے۔شراب مرزا کے  حواس اور کلام  دونوں پر غالب تھی لیکن غالب کا  ادبی احترام آج بھی برابر۔ برقرار ہے کیونکہ  احترام ۔کوئی  پٹرولیم پراڈکٹ نہیں وگرنہ  اب تک تو اوگرا۔ اتار چڑھاوکر چکا ہوتا ۔بقول مرز ا۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شر م تم   کو  مگر نہیں  آتی ۔

شرم کی بات تو یہ ہے کہ ایک شرابی  سوچ رہا ہے کہ   کعبےکس منہ سے جانا ہے۔شرم ایسی نزاکت ہے جو چلی جائے تو لوٹ کر نہیں آتی ۔۔ عمیرہ احمد کہتی ہیں کہ ’’پتہ نہیں وقت زیادہ بے شرم ہے یا انسان۔۔ جو رنگت بدلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔۔ خونی رشتے بعض دفعہ طوائف جیسی اور جتنی وفاداری بھی نہیں دکھاتے۔۔ کتابیں لکھ لیں مادہ پرستی پر یا بیچ بازار میں مجمع اکٹھا کر کے مذمتی تقریریں کر کے نعرے لگوالیں یہ وہ بیماری ہے جس کا کوئی حل نہیں۔۔ جسم کی بیماریاں ہوں تو کوئی علاج کوئی حل نکلتا جو نفس کو لگ جائے وہ کیسے ختم ہو۔ ناول ’’عکس‘‘سے اقتباس
محترمہ عمیرہ کے نظرئیے سے جزوی  اور کُلی دونوں اتفاق ہوسکتے ہیں۔ ہو سکتا ہےشرم کا تعلق ضمیر سے ہو ۔ اورشرم کا اٹھ جانا بے ضمیری ہو۔ممکن ہے  باشرم کے اندرضمیر۔ دل کی طرح دھڑکتا ہواور۔دھڑک دھڑ ک کا مطلب ضمیر  کی ملامت  ہو۔لیکن شرم چلی جائےتوجسم   عجائب گھرمیں رکھی ممی جیساہوتاہے۔ بحثیت معاشرہ ہم ایک بڑے عجائب گھر کی ممیاں  ہیں۔۔ مادام تساؤ کے میوزیم جیسا معاشرہ۔جہاں  نامورلوگوں کےمومی مجسمے رکھے جاتے ہیں۔ہمارے’’ بڑے‘‘ چونکہ بڑےکرپٹ ہیں  اوراُن کی’’ بڑائی‘‘ میں ہم شریک جرم ہیں اس لئے مادام تساوکےمعاشرےمیں ہم مٹی کےباوےموم کی پتلیاں بن کرکھڑے ہیں بلکہ ہمیں کیل  ٹھونک کرٹھوک  دیا گیا ہے۔ہمارےاوپرٹکٹ لگی ہوئی ہے۔لوگ  ہمارےاوپرہنستے ہیں  اورعالم ِسپردگی  میں ہم  مزیدمومی ہوگئے  ہیں۔ بقول غالب
آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی۔
مجھےتو غالب کایہ شعراس بےشرم ضمیرکےلئے  لگتاہے جودم توڑ گیا ہے۔معروف ماڈل ایان علی۔۔ مادام تساوکےمعاشرےمیں نیا  مجسمہ  ہیں۔۔ہزاروں دیکھنےوالےبھی ہیں۔ایان علی کو14 مارچ 2015 کو منی لانڈرنگ کے جرم میں پکڑا  گیا تھا ۔5 کروڑ روپےبرآمد ہوئے تھے۔رقم دبئی منتقل کرنےکے عوض ایان کو 4 فیصد یعنی 20 لاکھ روپے  ملنا تھے ۔لیکن وہ  اڈیالہ  جیل پہنچ گئی ۔  ’’مہمان خانے ‘‘ میں اسے ۔ ۔ٹی وی، فریج اور جدید وارڈ روب ،موبائل،منرل واٹر، تازہ جوس اور مزیدار کھانوں کے ساتھ میں ایک مشقتی  بھی ملا۔ ۔ ایان  کے تانے سابق صدر زرداری سے بانے جاتے ہیں۔ ۔قصہ عام ہو ا تو پیپلزپارٹی کی سند ھ حکومت نے امان مانگنے کے بجائے  پنجاب حکومت سے  ایان مانگ لی۔۔اچانک  ایک دن ایان علی کی ضمانت ہوگئی اورپھراسےپاسپورٹ بھی  واپس مل گیا۔ عید سعید کے اس پُرمسرت موقع پر دعوتِ ایان  تو ہو ئی لیکن دعوتِ عام نہیں ہوئی۔میں تومحو حیرت  اس لئے ہوں کہ  ایان نے تومرزا غالب کی طرح کوئی اعتراف بھی نہیں کیا۔ ۔بقول غالب
ہے کچھ ایسی ہی بات، جو چپ ہوں
ورنہ  کیا     بات کر نہیں  آتی ۔
مرزا غالب کو ایک بار قرض خواہوں نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ۔پینے کے لئے پیسے نہیں تھے۔اذان مغرب ہوئی تومرزا مسجد پہنچ گئے ۔
مرزا کے ایک باخبر دوست کو صورتحال کا پتہ تھا وہ ’’انتظام ‘‘ کرکے مسجد کے باہر پہنچ گیا۔بوتل مرزا کو دکھائی تو وہ نماز کے بغیر ہی باہرآگئے۔
نمازیوں  نے پوچھا۔مرزا ابھی تو نماز بھی نہیں پڑھی اور چل دئیے؟
مرزا:جس مقصد کے لئے آیا تھاو ہ نماز پڑھے بغیر ہی پورا  ہو گیا ہے۔
ایان علی جب احاطہ کچہری پہنچی تو ’’انتظام ‘‘ہو چکا تھا۔پاسپورٹ ملا تومقصدبھی  پوراہوگیا۔انتظام اورمقصدمومی معاشرہ کی اساس ہوتے ہیں۔یہاں’’جس  کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘والا  قانون ہوتا ہے۔میں  جب بھی ایان کو کچہریوں میں خوارہوتےدیکھتاتوخوف کے مارے ’’تانگہ آگیا کچہریوں خالی سجناں نو ں قید بول گئی‘‘ والا گانا  یاد آجا تا ۔دشمنانِ ایان کے دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہےکہ وہ ہر پیشی پر مہنگے سوٹ اور اعلی ترین  میک اوورکرتی ہے۔پولیس اہلکارگارڈ بن  جاتے ہیں ۔وہ جیل سے عدالت تک کیٹ واک کرتی ہے۔مجھے ان  سارے کم ظرفوں سے رقابت ہے۔میں حسن کا مداح ہوں ۔ مجھے ایان علی  کادبئی کے بجائے  اڈیالہ جیل جانا  گھڑے پر بیٹھ کر چناب پار کرنے جیسا لگتا تھا۔احاطہ کچہری میں  اور بھی کئی مومی مجسمے قطار اند ر قطاردیدارِ پیشی کےمنتظر رہتے تھے ۔جو  کیٹ واک دیکھ دیکھ  باگڑ بلے بن چکے ہیں۔کسی نے ایان کو ہار پہنائے کسی نے پھول دئیے۔ ایان کی ضمانت ہو ئی تو اڈیالہ جیل میں ’’پُھوڑی‘‘بچھا ئی گئی اورپاسپورٹ ملا تو احاطہ کچہری میں کالے کوٹ کی فضا طاری  ہو گئی۔ ٹی وی چینلز کی رنگین  سکرین  پھر سے شوگرفری  ہو گئی۔ اور۔اردو ادب ایک کتاب سےمحروم ہو گیا ۔ایان علی ہم شرمندہ ہیں۔ 
منی لانڈرنگ کیس میں وہ قصور وار قرار دے دی گئی ہیں۔ لیکن ایان کہتی ہیں  کہ  مجھے ملک کےعدالتی نظام پربھروسہ ہے جلد ہی  بری بھی ہوجاؤں گی۔جون ایلیا کہتے ہیں’’اگرمیں اپنے جھوٹ کےساتھ خوش ہوں توپھرتم میرے اوپر اپناسچ مسلط کرنے والے کون ہوتے ہو‘‘اور   پیپلزپارٹی کےمنحرف رہنا  ذوالفقار مرزا  کہتے ہیں ایان سےبرآمد ہونے والی  رقم آصف علی  زرداری کی تھی۔ایان اگر۔گرفتارنہ ہوتیں توفریال تالپوراور ہماری بھابھی ہوتیں۔ایان علی ہم شرمند ہ ہیں۔ریحام کےبعدقوم ایان بھابھی سے  بھی محروم ہو گئی۔ذوالفقارمرزا خواہ کچھ بھی کہیں لیکن مرزا غالب کہتے ہیں۔
کیوں نہ چیخوں؟ کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز ، گر ، نہیں آتی۔
مادام تساو کےمعاشرے  میں سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کانیا مجسمہ آیا ہے۔ مٹی دا باوا بول پڑا ہے۔اُن کے اعتراف جرم کے بعد ایم کیو ایم کے رہنما روف صدیقی، وسیم اختر اور انیس قائم خانی کی  مومی ڈمیاں بھی تیار ہو رہی ہیں۔مادام تساو کے معاشرے میں  سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اور صوبائی وزیر رانا مشہود کے مجسموں کے لئے بھی جگہ بنا جا رہی  ہے۔ 
مومی معاشرے میں ایک مجسمے نے بزرگ مجسمے سے پوچھا : دنیا فانی ہے ؟”پیسہ کی میل ہے؟۔تو پھران فانی چیزوں کے لیے دوست۔دشمن کیوں  بن جاتے ہیں۔؟
مجسمہ مسکرایا۔ اورسارے سوالوں کا جواب ایک خوبصورت جملے میں دیا۔’’جا بھئی اپنا کام کر‘‘
مجسمے کاجواب سن کر مجھے مرزا غالب کا مسجد والا واقعہ  پھر یاد آگیا۔ !

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں