پیر، 14 دسمبر، 2015

چندا برائے اراکین اسمبلی

ہمتقریبا کوپورا تصور کرتے ہیں اورشک کوسچ سمجھتے ہیں۔ جب سے پیدا ہوئےگذارا۔مانگےتانگے پرہے۔پیدا ہوئے تو مانگ کردائیہ کوٹیکس  دیااورکوئی مرا توشریکے کوننگا  پیٹ دکھا  کرکفن دفن  کرلیا۔بیٹے کی شادی رکھ لی تو ادھار اٹھا کر کوٹھا بنایا اوربیٹی کی شادی کی توبال بال قرضے میں ڈبوکرجہیز اکھٹا  کیا۔زندگی ایسے ہی چل رہی ہے اورصدشُکرکہ اچھی خاصی چل رہی ہے۔کہتے ہیں کہ ادھارمحبت کی قینچی ہے اوربہت ہی کم لوگ ہیں جو محبت کی  قینچی کےبغیر زندگی گذرا رہے ہیں۔ وگرنہ اُدھارنےمحبت کو کاٹ کاٹ  کرمقروض  اورمخیرکوواہگہ بارڈرجیسی آپسی دُشمنی پرلا کھڑا کیا ہے۔لوگ تو اُدھارمیں  روپیہ پیسہ مانگتے ہیں لیکن  اعتبارساجدتو کچھ اور ہی مانگتے ہیں۔
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ  اتار د و
میں بہت دنوں سے ادا س ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو ۔
مجھےیہ شعرصرف اس لئے ہمیشہ قابل اعتبارلگا کیونکہ یہ اعتبارکا ہے۔ویسے سچ تویہ ہےکہ مقروضوں کی زندگی مفروضوں پر گذرتی ہے۔وہ  سوتے  شیخ چلی بن کر  ہیں اوراٹھتے ہی’’شیخ ‘‘ بن جاتے ہیں۔مخیر حضرات ان کی زندگی کی وہ اُمیدہوتے ہیں  جو دن چڑھتے ہی دم توڑ جاتی ہے۔انہی مخیروں نے  معذرت کو سیاست سے  ایسانتھی کیا ہے۔جس نے کئی  بامعنی محاورےجنم دئیے  ہیں۔۔جیسے’’شیخ رشید کی شادی تک، الطاف حسین کی واپس تک۔ادھار بند ہے‘‘۔’’ادھارصرف 90 سالہ لوگوں کوملے گا۔ان کے والدین کےکہنے پر‘‘۔’’آج نقد کل ادھار‘‘وغیرہ۔
ایک فقیرکسی کنجوس کے گھرسے روتا ہوا  نکلا۔لوگوں نےپوچھا کیا ہوا۔؟
فقیر:میں نے5سو روپے مانگے تھے۔کنجوس نےمیری پٹائی کردی
شہری ( غصے سے):دس پندرہ مانگ لیتے توخیرتھی۔تم نے بھی تو اکھٹا 5سو مانگ لیا۔
فقیر روتے ہوئے:سرکار ادھارواپس مانگا تھا۔بھیک نہیں۔
مانگنا ہمارا قومی نعرہ ہے اورمانگتےکو ٹالناقومی عادت۔جھوٹ بولنا قومی مشغلہ ہے اوراثاثے چھپانا قومی  کھیل ہے۔پاکستا ن میں سب سےمحفوظ سرمایہ کاری سیاست میں  ہوتی ہے۔ لاکھوں  لگائیں جیت گئے تو کروڑوں پائیں اورپھر سیاسی اثاثے بچوں کومنتقل کرجائیں۔بچے ظاہری اثاثہ ہوتے ہیں اور۔ زیورات،کوٹھیاں،پلاٹ خفیہ۔۔اثاثے۔لیکن عام آدمی کا سب سے بڑا۔ اثاثہ  اُس کے بچے ہوتے ہیں۔اسی لئےسالوں  پہلے گھروں میں جب بھی مہمان آتے توبچے چھپا دئیے جاتے۔۔یہ لُکن میٹی مہمان کے جانےتک جاری رہتی ۔بچہ ذرا سا سرباہر نکالتا تو کوکلہ چھپاکی  شروع ہو جاتی۔مہمان کب کےجا چکے ہیں  اوربچے چُھپے چُھپے  بڑے بھی ہوچکے۔ہمیں آج تک نہیں پتہ کہ ہم  ٹوٹل کتنے ہیں۔ہم  آبادی بھی اندازے میں  بتاتےہیں۔اس لئےہم ایک  اندازا  قوم ہیں۔
ادھارکی متبادل شکل امدادہے۔اسے چندابھی کہہ سکتے ہیں۔امدادکوئی  واپس نہیں مانگتااور’’چندا‘‘کوئی واپس نہیں کرتا۔بلکہ امدادکنجوس سیٹھ کو دی ہوئی  وہ رقم  ہوتی  ہے جسے واپس مانگنے پرفقیر کی بھی پٹائی ہوتی ہے۔ایک فقیرنےکنجوس سیٹھ کےدرپر صدا بلندکی۔
فقیر :بابا بھلاکرو۔یہاں دوگے تووہاں لوگے ۔
کنجوس  ملازم سے:اوئے فیروز۔منشی جی سےکہوکہ خدمت گارمبارک سےکہےکہ  وہ  گارڈکوکہہ دے۔اورگارڈفقیرسےکہہ دے کہ۔اللہ بھلاکرے کوئی اورگھر دیکھو۔فقیراس عجیب وغریب جواب رسانی سےپریشا ن ہوااوردعا کےلئےہاتھ اٹھالئے۔
’’اے اللہ۔اپنےنبی  کےواسطےسےجبرائیل سےکہیےکہ وہ میکائیل کے ذریعہ اسرافیل کوطلب کریں اورعزرائیل  کو پیغام بھجوائیں کہ وہ  اس  کنجوس رئیس کی روح فوراقبض کرلیں۔‘‘
فقیر اورسیٹھ کےڈائیلاگ سےاندازا کیا جا سکتا ہےکہ کنجوسی ایک کیفیت کا نام ہے۔جواکثر لوگوں پرطاری رہتی ہے۔ ایسا ہی کچھ پچھلے دنوں ملک کے ایک قومی اخبار کی خبرمیں پڑھنے کو ملا۔جومقامی صحافی قدیرسکندرنے  فیصل آبادکے کنجوس مگرسیٹھ نماسیاستدانوں کےبارے میں شائع کی تھی۔ ’’فیصل آبادکے کُل11میں سے 7 ممبران قومی اسمبلی گاڑی سےمحرو م ہیں۔ان کےاہل خانہ کےپاس طلائی زیورات بھی نہیں ہیں۔ذاتی جیب خرچ صرف چند ہزار روپے ہے۔خبرکے مطابق ایم این اےطلال چوہدری  کےپاس گاڑی نہیں۔ایم این اےعاصم نزیرکےاثاثوں کی مالیت5کروڑ55 لاکھ ہےاورذاتی گاڑی سےمحروم ہیں۔ایم این اےشہباز بازکے اثاثوں کی مالیت 9 کروڑ40 لاکھ ہے لیکن وہ بھی’’پیدل ‘‘ہیں۔ایم این اے ڈاکٹر نثار احمداورایم این اے میاں فاروق  بھی ’’بے کار‘‘ ہیں۔میاں فاروق کے اثاثوں کی مالیت1کروڑ89 لاکھ ہے  ان کی فیملی کےپاس بھی طلائی زیورات نہیں ہیں۔ایم این اے رانا افضل بھی گاڑی سےمحروم ہیں۔ان کی اہلیہ نجمہ افضل   ایم پی اے کےپاس زیورات بھی نہیں۔وفاقی وزیرعابدشیرعلی کے اثاثے3 کروڑ 56 لاکھ سے زائد ہیں لیکن ان کے پاس ذاتی گاڑی ہےاورنہ ہی  اہلیہ کےپاس زیورات۔ایم این اےحاجی اکرم انصاری کی دوفیکٹریوں  کی ملکیت 8 لاکھ روپے ہے۔‘‘
ا ثاثےچھپانےوالےان ممبران اسمبلی کی طرح میں بھی فیصل آبادی ہوں لیکن میں  ظاہری  اثاثہ ہوں بلکہ بظاہراثاثہ ہوں۔ ہمدردی کےجذبات سےلبریزہوں۔فیصل آبادلٹھے اورلان کاشہرہے۔صنعتکاروں اورسرمایہ داروں کاشہر۔اس شہرنےہرسال  سیلاب اورزلزلہ زدہ افرادکی کُھل کرمددکی ہے۔انہی متاثرین میں اب آسیب زدہ  ممبران اسمبلی  کا اضافہ بھی ہوگیا۔مخیر حضرات دل کھول کراراکین اسمبلی کی مالی مددکریں، گھر،پلاٹ اورگاڑی ، فیکٹری، فارم ہاوس اورقرضے، متنازعہ پراپرٹی اور لیزکی جگہ پرقبضہ،طلائی زیوارت، رہزنی میں برآمدہونے والی گاڑیاں اورطلائی زیورات،نوکری کےعوض رشوت،ٹیکس چوری اوربنکوں سےمعاف  ہونے والاقرضہ۔ترقیاتی کاموں میں کمیشن، جوا مافیا کی سرپرستی اورکسٹم وایکسائز  ڈیوٹی میں ہیرپھیر۔سب چلے گا۔زکوۃ، فطرانہ اورصدقہ بھی۔برائے مہربانی سوچنے میں وقت ضائع نہ کریں۔امداد کریں۔اس سے پہلےکہ  عوام کی وہی حالت ہوجائے جوحاکم سیاستدانوں کی ہے۔وگرنہ  کسی روز اخبارمیں  اشتہارچھپا ہوگا’’ممبران اسمبلی کے بچے۔باپ ۔ بھائی  وغیرہ  برائےفروخت ہیں۔خواہش مندافرادفوری رابطہ کریں۔‘‘مارکیٹ میں آگئے تو یہ انمول بےمول ہو جائیں گے۔آئین کے آرٹیکل 62اور63کےتحت اراکین اسمبلی صادق اورامین ہیں۔اس فارمولے کےتحت ممبران اسمبلی جوکچھ کہتے ہیں وہ سچ ہے اورجولکھتے ہیں وہ درست ہے۔آئیں۔ہم سب مل کردعا کریں۔ممبران اسمبلی نےجواثاثےظاہرکئے ہیں اگروہ غلط ہیں تو سارے ممبران اسمبلی کنگال ہوجائیں اوراگر  اثاثے درست ہیں تو میری شہرکے مخیرحضرات سےاپیل ہے کہ وہ ان ’’آسیب زدہ سیٹھوں‘‘ کومرنےسےبچائیں۔ہمارےٹیکس گذار، ایماندار،خدمت گار،سچے،عوام کےحقیقی خادم اگربھوک،غربت اور افلاس  سےمرگئےتو۔ستے ستائے لوگ ہمیں بھی پتھروں سے ماردیں گے۔
ایک مولانا کئی روزہ غیر حاضری کے بعد  جوش صاحب کو ملنےآئے۔
 جوش صاحب:کیا ہوا  مولانا۔بہت دنوں بعدملے۔؟
مولانا:کیا بتاؤں جوش صاحب۔پہلےایک گردےمیں پتھری تھی اس کاآپریشن ہوا۔اب دوسرےگردے میں پتھری ہوگئی۔
جوش صاحب :میں سمجھ گیاالله تعالیٰ آپ کو اندرسےسنگسارکررہا ہے۔
دوستو: آپ’’ مولانا‘‘ کی صحت کے لئے دعا کریں۔ !سمجھ گئے ناں۔؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں