ہفتہ، 27 جون، 2015

بجلی استاد

شائد بےنظیر بھٹو کے دور حکومت کی بات ہے ہم ٹی وی کمرشل دیکھا کرتے تھے۔ میرے گاوں میں بجلی آئی ہے۔ آج کل نواز شریف کی حکومت ہے اس لئے بجلی مردانہ سی ہوگئی ہے۔’’بجلی استاد‘‘
معروف بیٹری برانڈ کے ٹی وی کمرشل میں کام کرنے والے عزیزی سہیل احمد کی طرح۔۔۔
لیکن جنس کا تعلق تو انسانوں سے ہوتا ہے۔۔۔ اجناس کو ماورا قرار دیا جا سکتا ہے۔۔
ہمارے ہاں تو کوثر نام کے ایک مولانا بھی رہے ہیں۔۔۔اور اے این پی کے سابق رہنما اعظم ہوتی بھی یاد ہیں جو وہ ہوتے تھے لوگ تب بھی انہیں ہوتی کہتے تھے
جیسے ہم گھروں میں آیا رکھتے ہیں لیکن وہ آئی ہوتی ہے۔۔

بقول شاعر
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے۔۔مجھے بھی الٹا دکھنے لگا ہے
نندی پور پاور پراجیکٹ سے دھڑا دھڑ بجلی تیار ہو رہی ہے۔۔ ملکی معیشت کا پہیہ چل نکلا ہے۔ دھاندلی کی شفاف تحقیقات جاری ہیں۔۔عدالتوں میں انصاف مل رہا ہے۔۔ تھانہ میں میرٹ پر ایف آئی آر اور تفتیش ہو رہی ہے۔۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے کم ہو چکے ہیں۔۔ ملاوٹ مافیا قابو میں ہے۔۔ سٹریٹ کرائم کا طوفان تھم چکا ہے۔۔ بھتہ مافیا اور کمیشن مافیا کو لگام ڈال لی گئی ہے۔۔ اسپتالوں میں مفت اور معیاری ادویات مل رہی ہیں۔۔ تعلیمی نظام درست ہو چکا ہے۔۔یورپی یونین سے ملنے والاGPS پلس کا سٹیٹس کار آمد ثابت ہو رہا ہے
لیکن یہ سب کچھ مجھے الٹا نظر آرہا ہے۔۔خیر بات ۔ بجلی استاد سے چلی تھی۔۔
بجلی استاد کے دونوں کردار سہیل احمد اور جاوید کوڈو۔۔۔ دونوں کامیڈی king ہیں۔۔اور کمرشل بجلی استاد بھی خاصا پاپولر ہے۔
مشہور تو آج کل عابد شیر علی بھی ہیں۔۔سہیل احمد کے ساتھ کوڈو ہے۔۔ توعابد شیرعلی کے ساتھ MPAمیاں طاہر جمیل۔۔
طاہر جمیل۔۔۔ عابد شیر علی کو استاد کہتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں۔۔لیکن اس اعتراف کا ہرگز مطلب نہیں کہ میاں طاہر جمیل۔۔۔جاوید کوڈو ہیں۔۔
جب میرے گاوں میں بجلی آئی ہے۔۔۔کے اشتہار ٹی وی پر چلتے تھے۔۔۔
تب کھمبوں پر روزانہ نئی تاریں ڈالنے کو ترقی سمجھا جاتا تھا۔۔پھر ملک بھر میں بے شمار تاروں کا جال بچھایاگیا۔۔ٹرانسمیشن لائنز کا۔۔لیکن اس دوران کسی کو یہ تار نہ آئی کہ بجلی کا جال بھی بچھانا ہے۔۔۔گذرے کئی سال سے قوم 24 میں سے بارہ چودہ گھنٹے انہی تاروں پر بنیانیں اور جانگھئیے سُکھا رہی ہے۔
اسی قوم نے آزادی مارچ کے دوران سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں بھی سوکھائی تھیں۔
بلکہ یہ وہی قوم ہے جس کو سیلاب میں ڈوبے دیکھ کر ترک خاتون اول نے ہیرے کا ہار اتار کر دیا تھا۔۔اور وہ ہار سابق وزیر اعظم گیلانی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
یہاں ٹائم پر بجلی جاتی اور آتی ہے۔۔صارفین نے گھڑیاں اور کلاک کا ٹائم لوڈشیڈنگ دیکھ کر سیٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔۔جیسے ۔۔۔!
لائٹ بند۔۔۔ ساڑھے تین بج گئے۔۔لائیٹ آگئی۔۔۔ ساڑھے چار ہوگئے۔
لیکن شریکوں کو تو شریفوں کا دیا ہر سُکھ۔۔ دکھ ہی لگتا ہے۔۔۔
جیسے ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا ہی دکھتا ہے۔۔
24 گھنٹے میں ہم 8 بار خوش ہوتے ہیں۔۔۔ہر 3گھنٹے بعد۔۔۔ جب بجلی آتی ہے۔اور     سکھ کا سانس نصیب ہوتا ہے۔
خوشی اور غم کی دن بھر ٹرپنگ Tripping ہوتی رہتی ہے۔دماغ کی دہی بن گئی ہے۔
لائن لاسسز جہاں زیادہ ہیں وہاں پر حالات بھی زیادہ پریشان کن ہیں۔۔
پنوں عاقل، میر پور ماتھیلو، روہڑی، خیر پور، دادو، لاڑکانہ، نوڈیرو، جیکب آباد، شکار پور ،کشمور ، بنوں، ڈی آئی خان،چارسدہ، کرک، جمرود، ٹانک اور ہنگو وغیرہ میں لائن لاسسز نوےفیصد کے قریب ہیں۔۔۔لوگ بل نہیں دیتے، کنڈے ڈال کر بجلی چوری کرتے ہیں۔۔وہاں لوڈشیڈنگ بڑھائی گئی ہے۔۔۔
24 میں سے 22 گھنٹے بجلی بند۔۔۔یہاں لوگوں نے رضائیاں، کمبل اور دریاں بھی ٹرانسمیشن لائنوں پر سوکھنے ڈال رکھی ہیں۔۔کیونکہ وہ دیر سے خشک ہوتے ہیں
پنجابیوں کے جانگھئیے اور بنیانوں کی طرح ۔۔ بجلی استاد کا سلوگن ویسے ٹھیک ہے
یاد رکھ کاکا
نشان صرف شیر کا
2008 سے 2013 تک وفاق اور سندھ میں پیپلزپارٹی کا راج تھا اور پنجاب میں ن لیگ کاپنجاب میں بجلی اور گیس کے حالات اتنے برے نہیں تھے جتنے میڈیا نے دکھائے۔۔میڈیا مجبور تھا کیونکہ صنعتکار، تاجر اور مزدور سڑکوں پر تھے۔۔وہ بھی مجبور تھے کیونکہ تاریں کہیں اور سے ہل رہی تھیں۔۔تب صنعتکاروں کے مفاداینٹی پیپلزپارٹی جماعت سے جڑا تھا۔۔تاجر ن لیگ سے جڑے تھے اورمزدور۔۔ صعنتکاروں و تاجروں دونوں سے جڑے تھے۔اور وزیر اعلی شہباز شریف نے مینار پاکستان میں کیمپ لگا رکھا تھا۔۔۔ پنکھی ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی۔
2010 میں یہ افواہ جانے کس نے اڑا دی کہ۔۔پنجاب فیصل آباد میں ن لیگ فنڈنگ کرکے مظاہرے کروا رہی ہے۔۔پیپلزپارٹی نے مظاہرین کو کچھ کہا نہ ن لیگ کی پنجاب حکومت کو
2013 کے الیکشن میں وفاق اور پنجاب میں ن لیگ کو راج ملا اور سندھ میں پیپلزپارٹی کویہ راج۔۔۔ رام راج جیسا ہے۔۔نئی حکومت کو لوڈ شیڈنگ کے خلاف پہلا بڑا مظاہرہ 12 جون 2013 کو فیس کرنا پڑا
تھانہ بلوچنی کے علاقہ میں ہزاروں مشتعل افراد شیخوپورہ روڈ پر نکل آئے۔۔ٹائر جلائے۔ گھنٹوں جی ٹی روڈ بلاک کئے رکھا۔۔۔
پولیس نے لاٹھی چارج ، ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس سب کچھ مظاہرین پر پھینکا۔۔۔
مظاہرین نے پولیس کو اینٹوں اور پتھروں سے جواب دیا

درجنوں مظاہرین پکڑے گئے۔۔مقدمہ درج ہوا۔۔۔ پولیس مزید گرفتاریوں کے لئےگھروں میں گھس گئی۔۔دروازے کھڑکیاں توڑیں۔۔عورتوں سے بدتمیزی اور بچوں پر تشدد کیا۔۔
پھر لوڈ شیڈنگ تو بہت ہوئی لیکن مظاہرہ کوئی نہ ہوا۔۔۔حکومت زیرو tolerance پر تھی۔۔اور مظاہرین کے واضح پیغام تھا کہ اب پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں ہے۔۔۔
حالات آج بھی ویسے ہیں کیونکہ بجلی استاد جو ہے۔۔۔
انسان میں کچھ شرم ہوتی ہے۔۔۔ حیا ہوتی ہے۔۔۔غیرت ہوتی ہے۔۔
ویسے شرم وہ حیا دین کا اہم جزو ہیں۔۔
اور ہمارے پٹھان بھائی خاصے دیندار ہیں۔۔۔وہ نماز کم ہی چھوڑتے ہیں۔۔
کے پی میں لوڈشیڈنگ زیادہ ہوئی تو وہ سڑکوں پر آگئے
اور عابد شیر علی کا علامتی جنازہ نکالا اور علامتی نماز جنازہ ادا کی۔۔
دین۔۔۔ بے راہوں کو راہ پر لانے کا اہم ذریعہ بھی ہے۔۔۔تبھی تو
وزیراعلی پرویز خٹک نے بجلی چوری کو شرعی چوری سے منسوب کردیا
پشاور میںPESCO نے رمضان کے ابتدائی صیام میں اخبارات میں اشتہارات شائع کروائے اور چوروں کو تبلیغ کی کہ
1۔ بجلی چوری کرنا گناہ ہے۔
2۔روزہ رکھیں، زکوٰۃ دیں، والدین کی خدمت کریں لیکن جائز بجلی کی روشنی میں۔
3۔علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ چوری شُدہ بجلی کی روشنی میں نیک کام کرنا بھی خلاف شریعت ہے۔
4۔ بجلی چوری کرنا ختم کریں تاکہ آپ کی مغفرت ہو سکے۔
کراچی میں کے الیکٹرک نے بھی 12 علماء سے بجلی چوری کے خلاف فتوٰی لے کر کم و بیش ویسا ہی اعلامیہ جاری کیا۔
البتہ سندھی علما نے کنڈے ڈالنے، میٹر slow کر نے کو بھی حرام قرار دیا ہے۔۔کفارے کے طور پر چوری شدہ بجلی کی قیمت کے برابر رقم جمع کروانے کا فتوی بھی دیا ہے
فتوی جامعہ دارالعلوم کراچی کے مفتی رفیع عثمانی،جامعہ بنوریہ کے رئیس عبداللہ شوکت،جامعہ حمادیہ کے مولانا قمرالحسن اور دارالافتاءاہلسنت کے مولانامحمد رضوان سمیت کئی علما نے جاری کیا۔۔کراچی الیکٹرک نے چوروں کے ہاتھ تو کیا کاٹنے تھے ابھی تک کنڈے بھی نہیں کاٹ سکی۔۔۔
فتوی دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ پہلے بجلی چوری کرتے تھے پھر چوروں نے ٹرانسفارمر اور تاریں چوری کرنا شروع کردیں اور پشاور میں یہ باقاعدہ کاروبار بن گیا ۔۔۔ کیونکہ چوروں کو پتہ ہوتا تھاکہ بجلی جتنی دیر بند رہی گی چوری آسانی سے ہوجائے گی۔۔آپ مجھے ضرور پوچھ سکتے ہیں کہ خواجہ آصف پانی و بجلی کے وفاقی وزیر ہیں تو بجلی استاد وزیر مملکت عابد شیر علی کیوں ۔۔؟
تو دوستو۔۔! خواجہ آصف بجلی کے علاوہ وزیر دفاع بھی ہیں۔۔۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصہ سے وہ قومی اسمبلی کے ایک رکن کے ساتھ ایسے منسوب ہیں کہ وہ اب اسٹیٹ ڈیفنس کے بجائے سیلف ڈیفنس پر زیادہ فوکس کر رہے ہیں۔۔بجلی کی ساری ذمہ داری عابد شیر علی پر ہے۔۔۔ بجلی استاد پر۔۔۔۔ اور میاں طاہر جمیل پر جنہوں نے اسے استاد بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔۔۔
جب کہیں سے نہ آئے جھونکاہوا کا
یاد رکھ کاکا نشان صرف شیر کا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں