وزیر مملکت پانی و بجلی عابد
شیر علی میرا اتنا ہی دوست ہے جتنا وہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا ہے
وہ دونوں ایک دوسرے کو زہر
لگتے ہیں اور مجھے زہر خورانی۔۔ و۔۔ زہر خوری دونوں سے نفرت ہے۔۔ تبھی تو ہماری۔۔ گاڑھی
نہیں چھنتی۔۔میں ان دنوں کے لئے ایسا زہر مار بنانے کا خواہش مند تھا جو ہمارے ہاں
صرف جنسی مریضوں کے لئے مشہور ہے۔بے جان میں جان ڈالنے والا کُشتہ۔۔۔
امید اور خواہش دلانے والا
کُشتہ
لیکن کُشتہ مارنے کے لئے
کشت ابھی پورا کٹ بھی نہ پایا تھا کہ وہ سنکھیا کے عادی ہوگئے ۔۔ نفرت اور ناامیدی
کا کُشتہ
وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز
شریف 2 مئی کو فیصل آباد آئے تو زرعی یونیورسٹی کے ہال سے افسران اور انتظامیہ کو
باہر نکال کر دروازے مار لئے گئے۔وہاں پر 19 شہریوں کا ٹارگٹ کلر نوید عرف کمانڈو زیر
بحث رہا۔۔ اس میٹنگ میں سنکھیا کے اثرات واضح طور پر سننے کو ملے
اسلام آباد میں قائم قومی
ادارۂ صحت سانپوں کا زہر نکال کر۔۔ ان کے زہر سے سانپ ڈسنے کی ویکسین تیار کرنے میں
شہرت رکھتا ہے۔
یہ بات شائد بہت سے لوگوں
کو حیرت کر دے کہ زہر کا علاج زہر سے ممکن ہے۔۔۔
زہر کی طرح ۔۔۔شیشہ شیشے
کو کاٹتا ہے، لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اور ہیرا ہیرے کو کاٹتا ہے۔۔۔
اسی لئے تو شاعر کہتا ہے
دو منفیوں کے ضرب کا مثبت
جواب ہے۔۔۔ ظالم خدا کے واسطے کہہ دے نہیں نہیں
قصہ مختصر ۔۔۔میں۔۔عابد شیر علی سے تب
ملتا ہوں ۔۔۔ جب وہ مجھے ملتے ہیں۔۔۔ کبھی کبھار۔۔اس سے زیادہ بار تو کانی(اندھی
خاتون) سال میں کجل (کاجل) ڈال لیتی ہے۔۔۔ چاہے بے فائدہ ہو۔۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ رانا
ثنااللہ سے بھی میری دوستی عابد شیر علی جتنی ہی ہے۔۔۔کانی کے کجل ڈالنے جتنی
ہم تینوں۔۔ ایک تیسرے کو نام سے جانتے ہیں اور میں تو۔۔ اُن دونوں کو شکل
سے بھی۔۔عابد شیر علی 2002, 2008
اور 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے مسلسل جیتتے آرہے ہیں۔وہ نواز کابینہ میں شہرت
کی ان بلندیوں پر ہیں جہاں آکسیجن کم ہوجاتی ہے۔۔
آکسیجن کم ہوئی تو عابدشیرعلی
کو 2008 کی اسمبلی میں۔۔ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا وینٹی لیٹر مل گیا۔۔جسٹس
صاحب کی بیٹی فرح حمید کو اضافی نمبر دلوانے کا معاملہ اٹھا لیا۔عابد تب قومی اسمبلی
کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چئیرمین تھے۔۔انہیں وہاں سے کافی افاقہ ہوا۔۔
اچانک عابد شیرعلی کا دم
دوبارہ گھُٹنے لگا تو انہوں نے سیاستدانوں کی جعلی ڈگریوں کی وہ زنبیل کھولی جس میں
رقیب سیاست خواجہ محمد اسلام کو بھی لپیٹا مارا جا سکتا تھا۔
سیاست ہمیشہ سے بے رحم فیصلوں
کا کھیل ہے۔۔کمزور کو پچھاڑنےکا کھیل۔ذاتی مفاد کے فیصلے۔۔۔دھوپ میں پاؤں جلنے پر اپنے
بچوں کے سر پر پاؤں رکھ لینے والی بندریا جیسے فیصلے۔۔دو جمع دو برابرپانچ والے فیصلے۔۔دوسروں
کی آزادی چھین کر اقتدارکا غلام بننے کے فیصلے۔۔خدمت کی آڑ میں عوام پر حکمرانی کرنے
والے فیصلے۔۔
سیاست قربانی کا کھیل بھی
ہے۔۔دوسروں کی قربانی لینے کا۔۔ ایسی قربانی جہاں پر بیمار، لاغر، کمزور، اپاہج سب
سے پہلے بلی چڑھتے ہیں۔۔ چھلارو، کھانگڑ، رنگن، پھنڈر، دوندے ، چوگے، چھگے سب کی بلی۔۔
یہ سیاستدانوں کا وڈیرا مکتب فکر ہے۔ ان وڈیروں کے گھروں میں روزانہ قربانی ہوتی ہے۔۔
لیکن دوسروں کی۔۔ شکم سیر کرنے والی سیاست۔۔ کُشتے مارنے والی سیاست
اسمبلی میں جعلی ڈگری کا معاملہ اٹھا تو کئی دستاریں۔۔ بیڑیاں بن گئیں۔۔
پھر اچانک سابق چیف جسٹس
آف پاکستان افتخار چوہدری نے جعلی ڈگریوں پر سو موٹو ایکشن لے لیا۔کسینو میں کروڑوں روپے کا
جوا اور پھر مہنگی ترین شاپنگ۔۔ جیسے الزامات کی لپیٹ میں آنے والے ارسلان افتخار۔۔
کے والد افتخار محمد چوہدری نے۔۔۔
تھانہ گلبرگ کے علاقہ میں
ایک محنت کش بچے کے قتل کا۔۔ جس کی صلح کراتے کراتے خواجہ اسلام جعلی ڈگری کی وجہ سے
نااہل ہوگئے۔۔
آکسیجن کے بھبھکے گہری دھند
کے تھپیڑوں کی طرح عابد شیر علی کے چہرے، آنکھوں، ہونٹوں سے ٹکرائے اور نتھنوں سے
اندر اترگئے۔ انرجی پوری ہو چکی تھی۔۔۔ کُشتہ کام آگیا تھا۔
عابد شیر علی کا ڈنکا ٹی
وی چینلز سمیت چہار سو بج رہا تھا۔
2013 میں عابد شیرعلی اور میں چولی اور دامن میں
بندھ گئے۔۔ بطور وزیر انہوں نے بل مانگا تو میں نے بجلی مانگ لی۔یہ ڈنکا انہیں اپنے والد
چوہدری شیرعلی سے ملا تھا۔۔وہ فیصل آباد کا سیاسی گھنٹہ گھر ہے۔۔۔۔ صوبائی اسمبلی
کے آٹھ شہری حلقے گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں جیسے ہیں۔۔ گھوم پھرکرسیاست گھنٹہ گھر
پر آکر رک جاتی ہے۔شیرعلی خود بھی میاں نواز شریف کا نگاڑا بجاتے ہیں۔۔اُن کی میاں
نواز شریف سے رشتہ داری بھی ہے اور وفاداری بھی۔۔ اسی خاندان کے نومولود سیاستدان عمران
شیر علی بھی آج کل نگاڑا کلاسسز لے رہے ہیں۔
چولی کے پیچھے کیا ہے کچھ
پتہ نہیں ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ ہم دونوں میں سے دامن کون ہے۔۔۔؟ تار تار دامن۔۔۔
ویسے تو میں انہیں تب سے
جانتا ہوں جب پرویزی دور میں چوہدری شیر علی کو الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔یہ
آمرانہ طرز حکمرانی میں پہلا جہوری الیکشن تھا۔2002 میں شیرکا قُرعہ عابد شیرعلی کے
نام پر نکلا۔انہوں نے سابق ڈپٹی مئیر اکبرغوری کےساتھ پہلی کارنر میٹنگ کی۔۔ہم بھی
وہیں موجود تھے۔
کارنر میٹنگ میں عابد شیرعلی
کا خطاب سنا تو مجھے لگا۔۔۔ لڑکے میں کافی کرنٹ ہے آج وہی لڑکا وزیر بجلی ہے۔
کئی سال پرانی بات ہے کہ
عابد شیر علی کو اچانک ایک راجپوت پھنسی نکل آئی۔
ایسی پھنسی جسے دباکر درد
ہوتا اور پھر دوبارہ چھیڑنے کو جی مچلتا۔۔بہت علاج دھندا کرایا۔۔ رائے ونڈ کے ڈرماٹالوجسٹ
کو بھی دکھایا اور اسلام آباد کے سرجن بھی دوا دارو کرتے رہے لیکن
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا
کی
انسان بعض اوقات ایسی بیماریوں
میں مبتلا ہو جاتا ہے جن کے ساتھ ہی باقی عمر بیتانے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔۔ یعنی صحت
کے ساتھ زندگی کا سمجھوتہ۔اچانک عابد شیر علی کو کسی
نے بتایا کہ رائے ونڈ اور اسلام آباد تک جا چکے ہو۔۔پی پی 69 میں ایک آرائیں ڈاکٹر
ہے۔۔ اسے بھی چیک کرا لو۔۔!
تب انہوں نے معالج بدل لیا۔
ڈاکٹر خالد امتیاز بلوچ کی جگہ پر آرائیں کلینک کھل چکا تھا۔۔ ڈاکٹر میاں طاہرجمیل
کا کلینک۔۔۔ وہ ینگ ڈاکٹرز کی طرح جذباتی ہے۔۔۔ بات بات پر لڑنے مرنے والا۔۔۔ لیکن
ہے پورا کاریگر۔۔۔۔
میاں طاہرجمیل کا طریقہ علاج
ہومیو پیتھی تھا۔۔ پھنسی کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش۔۔سائیڈ ایفکٹ کے بغیر۔۔۔
کچھ عرصہ قبل فیصل آباد
میں عطائیوں کے خلاف محکمہ صحت نے کارروائی کی تو انکشاف ہوا تھا کہ کئی ہومیو ڈاکٹرز۔۔
ایلو پیتھیک طریقہ بھی ساتھ ساتھ چلا رہے ہیں۔۔
ڈاکٹر طاہر جمیل بھی انہی
عطائیوں میں سے نکلے۔پریکٹس کو ابھی سال ہی گذرا
تھا۔۔میاں طاہر جمیل اچانک آکو پنکچرپراتر آئے۔۔عابد شیر علی کو پھنسی کے
بعد ہائی وے کے ٹھیکوں میں مبینہ کرپشن اور کمیشن نے بھی آ لیا تھا۔تب ڈاکٹر طاہر جمیل نے پھسنی
کو کئی سوئیاں ماریں۔۔آکو پنکچر کے دوران کچھ سوئیاں سابق چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی
لگیں۔
علاج کے نتائج حیرت انگیز
تھے۔ بیمارعابد شیر علی تھے لیکن آرام ڈی سی او فیصل آباد کو آگیا۔ پھنسی تو ٹھیک
نہ ہوئی ہائی وے کا ریکارڈ ٹھیک ہوگیا۔
ڈاکٹر طاہر فی سبیل اللہ
علاج کرتا ہے۔۔۔ شفا منجانب اللہ۔۔۔ کبھی دم کرتا ہے تو کبھی ایک دم کرتا ہے۔۔۔ اور
کبھی کبھی تو ناک میں دم ۔۔۔
معالج اچھا مل جائے تو پھر
مریض اور ڈاکٹر کی دوستی پکی ہوجاتی ہے۔چاہے فیس پر لاکھوں کروڑوں لگ جائیں۔
آخر جان ہے تو جہان ہے
آج کل ڈاکٹر طاہر جمیل اور
ڈی سی او نور الامین مینگل پکے دوست ہیں۔۔ ٹوکن کی ضرورت ہی نہیں فون
پر appointment والے دوست۔۔۔ بلکہ فون کی کیا
ضرورت تھی۔۔ والے دوست۔۔۔اور عابد شیر علی کے لئے
راوی چین لکھ رہا ہے
تھر میں کوئلہ نکل آیا ہے۔۔۔
لوڈشیڈنگ بہترہے۔۔۔ بڑی انڈسٹری چوبیس گھنٹے چل رہی ہے۔۔واپڈا نجکاری کے دھانے پر ہے۔۔
تو دُکھ کیسا۔۔ ؟
دماغ سکون میں ہو۔۔۔ جسم
صحت مند ہو اور دل میں لڈو پھوٹتے ہوں تو انسان نئے نئے تفریحی مواقعے ڈھونڈتا ہے
عابد شیر علی کی زندگی میں
آج کل یونس فین جیسا چین ہے۔۔۔تبھی تو وہ نت نئے ڈھنگ سے
سیلفی بنانے میں لگے رہتے ہیں۔۔ وزیر مملکت برائے پانی و سیلفی
وہ حلقے میں ہوں یا اسمبلی
میں ہر جگہ پر سیلفی ۔۔وہ جلسے میں ہوں یا میٹرو
بس میں۔۔ سیفلی ساتھ ہوتی ہے۔۔
وہ وزیراعظم کے ساتھ ہوں
یا خواجہ آصف کے ساتھ ہر جگہ پر سلیفی
وہ ورکرکے ساتھ ہوں یا ڈاکٹر
طاہر جمیل کے ہر جگہ سیلفی
وہ دیوار چین پر ہوں یا این
اے 84 کے لنگوٹئے دوستوں کے ساتھ ہر جگہ سیلفی
پریس کانفرنس ہویا انٹرنیشنل
کانفرنس ۔۔۔ صرف سیلفی
وزیر پانی و بجلی و سیلفی
8 جون 2015 کووزیر مملکت برائے پانی وسیلفی عابد
شیر علی نے سکھر میں انوکھا بیان دیا ہے۔۔۔وہ کہتے ہیں۔۔ملک بھرکے میٹر ریڈر سو فیصد
کرپٹ ہیں۔۔۔ ان کی جگہ پر سو فیصد خواتین بھرتی کی جائیں گی۔۔ تاکہ میٹر ریڈنگ میں
خورد برد نہ ہو۔۔ اور ریکوری بھی سو فیصد ہو۔۔مجھے یہ بیان سوفیصد حقائق
پر مبنی لگا کیونکہ یہ نئی سیلفی بنانے کی سو فیصد کوشش ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں