جمعرات، 24 ستمبر، 2015

اپنی کھالیں جماعت اسلامی کو دیں

عید قرباں کے لئے گھر میں چھترا۔بکرا۔بچھڑا یا اونٹ بعد میں آتا ہے۔گوشت کی بکنگ پہلے شروع ہوجاتی ہے۔گوشت کی بکنگ کے لئے آنےوالےہر مستحق کی ڈیمانڈ مختلف ہوتی ہے۔لیکن ان میں ایک قدرمشترک ہوتی ہے کہ سب مریض بن کرآتے ہیں اورانہیں  ڈاکٹر نے بتایا ہوتا ہےکہ بکرے، بیڑے یا اونٹ کے گوشت کا فلاں حصہ کھاؤگےتو شفا ملے گی۔شوربا میں روٹی بھگو کرثریدبنا کر کھانا ہے۔بونگیں چاہیں۔لحمیات کی کمی ہے۔جسم کا ٹمپریچر نارمل نہیں ۔اونٹ کا  گوشت دے دیں۔بواسیرہوگئی ہے۔۔کلیجی چاہیے کیونکہ کو لیسٹرول کم ہے۔ ہڈیوں میں گودا نہیں بن رہا۔۔ دل کو تقویت دینی ہے۔گردن کا گوشت کھاناسنت ہے۔۔مجھے پائے دے دیں ۔
شیخ صاحب نے بیل خریدا توہمسائے  محلے سے ایک لڑکا روزانہ آنے  لگا۔
شیخ صاحب:۔بیمار ہوں۔۔پائے مجھے دینے ہیں۔۔
شیخ صاحب:اچھا بیٹا۔۔مل جائیں گے ۔۔اگلے دن پھر
بیمار:شیخ صاحب پائے مجھے دینے ہیں۔۔
 شیخ صاحب:ٹھیک ہے کاکے ۔دے دوں گا۔۔تیسرے دن شیخ صاحب ستے ہوئے تھے
بیمار:شیخ صاحب پائے کا یاد ہے ناں۔۔؟
شیخ صاحب نے اپنے بیٹے کو آواز دی اور بولے۔بیٹا بچھڑا۔ اینٹوں پر کھڑا کر دو۔۔ پائے اسے دے دو۔
طویل عرصہ تک ہم جانوروں کی کھال اتارتے رہے۔ اچانک ’’جانوروں‘‘ نے ہماری کھال اتارنا شروع کر دی۔آج کل  قربانی کاموسم ہے اور کھالیں اکھٹی کرنے کی وبا بھی سر اٹھا رہی ہے۔ یہ چھوت جیسی وبا ہے۔۔دیکھنے سے بھی لگ جاتی ہے۔۔عام ہو جائے تو  کئی۔مزید وباؤں کو  جنم دیتی ہے۔اس برس  کھال اکھٹی کرنے کی وبا پہلے کی نسبت تھوڑی کم پھیلی ہے۔۔کیونکہ کراچی سمیت پورے ملک میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز  نے  اسے سر اٹھانے ہی نہیں دیا۔ یہ کوئی عام سا  معالج  نہیں ہے۔۔ پورے یونیفارم میں ہے اور بوٹ بھی پہنے ہوئے ہیں۔آج کل ڈاکٹر صاحب راونڈ پر ہیں۔ طبی لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب راونڈ پر ہوں تو وارڈ کی اہمیت کیا  ہوتی ہے ۔۔اور جب  ڈاکٹر صاحب راونڈ پر نہیں ہوتے تو وارڈ منڈی منڈی سا لگتا ہے۔ بھائیوں کی آمد و رفت جاری ر ہتی ہے۔کئی قصاب کھالیں اتارنے پہنچے ہوتے ہیں۔۔لیکن  آج کل صورتحال  زیر سطر لطیفے جیسی ہے۔۔
ایک شخص نے سیکٹرانچارج کو فون کیا۔ ’’برائے مہربانی کوئی بندہ بھیج کر چرم (کھال) قربانی اٹھو ا لیں‘‘
سیکٹر انچارج: ہم لینے نہیں آ  رہے سکتے۔۔تھوڑی دے کے لئے آپ خود ہی بندا بن جائیں۔ کھال  بھجوا دیں گے تو مہربانی ہو گی ۔۔۔
قربانی خالصتا اسلامی فریضہ ہے اور کھالیں اکھٹی کرنے کا رجحان جماعت اسلامی نے  متعارف کروایا ۔جماعت اسلامی نے 1941 میں جنم لیا تھا۔۔تب کسی کے وہم میں بھی نہ تھا کہ قوم جلد ہی  ایک ایسی جماعت کو بھی دیکھے گی ۔۔جسے انصار بن کر ہم نے خود پالا لیکن وہ  مہاجر نکلے۔انہوں نے انصار کو باہر نکال کر خیمے پر قبضہ کر لیا ۔بالکل سردی سےٹھٹرنے والےعربی کے اونٹکی طرح۔اب عربی باہر ہےاوراونٹ خیمے کے اندر۔جماعت اسلامی سالہا سال سمجھتی رہی کہ ان کے علاوہ  باقی سب غیر اسلامی ہیں۔چونکہ وہ اسلامی تھے۔اس لئے انہوں نےقربانی کی کھالیں جماعت اسلامی کو دیں۔ کانعرہ متعارف کروایا۔پھر اچانک نعرے میں اسلامی جھلک آ گئی ۔۔ ’’جان اللہ دی۔۔کھل جماعت دی‘‘
جماعت کا یہ کام اچھاخاصا جماعتی انداز میں جاری تھا اچانک بھائی لوگ بیچ میں آگئے۔انہوں نے کھالنہ دینے والوں کی کھال کھینچنے کا نظام متعارف کروایا ۔ان کا نظریہ ۔بالکل شیخ صاحب کے زندہبچھڑے کےپائےجیساتھا۔عوام پہلے سےخوفزدہ تھے۔۔کیونکہ ان کے سامنے وردی کو کھال کہنے والے کی کھال بھی اتر چکی تھی۔۔نیا نظام متعارف ہو چکا تھا۔۔جان بھی بھائی کی اور کھال بھی  بھائی کی۔ والا فارمولہ سامنے آگیا۔۔لوگ اپنی کھالیں لئے بھائیوں کے پیچھے پیچھے پھرنے لگے۔۔جانیں تو پہلے ہی ان کےہاتھوں میں تھیں۔کھال کی پرچیاں بھتے کی طرح بٹنے لگیں۔۔ساتھ گولی بھی ہوتی۔۔جس کا واضح مطلب تھا۔ جانورکی نہیں دو گےتوتمہاری اتاریں گے۔لوگوں سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے کہ شیخ نے جس طرح  پائے اتروانے  کا کہا تھا ہم اسی طرح بچھڑے کی کھال اتروا دیں۔۔
میں کوئی عالمہوں اورناں ہی علم سےخاص رغبت ۔بلکہ میرا تعلق اس قبیل سے ہے جن  کے بارے میں جون ایلیا  کہتے ہیں کہ
’’کئی ایسے لوگ ہیں۔۔ جنہیں پڑھنا چاہیے مگر وہ لکھ رہے ہیں۔۔ ‘‘
جون ایلیا صاحب کا یہ قول چونکہسینہ بہ سینہ میرے پاس پہنچا ہے اس لئے میرا یقین محکم کہ باتیں ٹریول کرتی ہیں۔میں نے جب سے آنکھ کھولی ہے۔تب سے ہی میرےدونوں ۔کانوں کی سرنگ کے اندرشاہرائے عام موجود ہے۔ہرنصیحت کے لئے۔۔ایک کان سے داخل ہوکر۔دوسرے سےنکل جاتی ہیں۔لیکن سالوں پہلے کی ایک بات میرے دماغ کےنہا خانے میں موٹر وے کےسروس ایریاکی طرح ٹھہر گئی ہے۔
’’اللہ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز کو وقف کر دینا قربانی ہے۔اگر عید الالضحی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھرمفہوم بے معنی ہے۔‘‘
 تازہ خبریہ آئی ہےکہ ملک کےبڑے بڑے شہروں میں بعض ’’بڑے‘‘قربانی کےخوبصورت۔اونچےلمے ڈیل ڈول والےجانورکرائےپرلیتے ہیں۔محلے میں شوروغوغا کراتے ہیں۔۔ محلےدار جب بڑوں کے قربانی جانوروں سے  جب بخوبی آشنا ہو جاتا ہے۔تو کرایہ ادا کرکے جانور اصل مالک کے حوالے کردیا جاتا ہے اور پھر شور مچا یا جاتاہے کہ قربانی فارم ہاوس پر ہو گی۔۔ فارم ہاوساگرکوئی ہو تو وہاں پر کھالپہلے سے خریدکررکھی ہوتی ہے اوراسے بھائی لوگوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آبادکےداخلی دروازے پر کچھ عرصہ قبل ایک بیل کا ڈھانچہ نصب کیا گیا تھا ۔ اچانک کوئی بھائی اس کی بھائی اتار کر لے گیا ۔تب عید بھی قریب نہیں تھی لیکن کھال اتارنے والے بھائی کی شائد عید ہو گئی تھی۔
میڈیسن کا پروفیسر یونیورسٹی کے طلبہ کو لیکچر دے رہاتھا کہ
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طریقہ علاج ایلوپیتھی ہو، ہو میو پیتھی ہو یاطب یونانی۔۔۔ کیونکہ سارے راستے قبر کی طرف ہی جاتے ہیں۔‘‘
کرائے پر قربانی لے کر قربانی کے بجائے کرایہ ادا کرنے والوں پرپروفیسر کا مقولہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے لیکن اصل مزا تو قربانی کے بعد آنے والا ہے۔جب حکومت کی اجازت سےکھالیں اکھٹی کرنے والے اربوں روپے کما چکے ہوں گے۔انہیں محفوظ کرنے کے لئے نمک کا چھڑکاو ہو رہا ہوگا۔۔ یہ نمک کھالیں جمع کرنے کی سعادت  سے محروم رہ جانے والوں کےلئے نمک پاشی جیساہوگا۔۔لیکن کرائے پرقربانی خریدنے والوں کوکوئی  مسئلہ نہیں  کیونکہ ان کی کھالیں پہلے سےنمک زدہ ہیں۔

3 تبصرے:

  1. اس بار کا احوال سنائیے۔۔۔کھال کی کس نے بکنگ کروائی یا پھرخودہی دے آئے؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بس کچھ نہ پوچھئیے۔۔۔ اعوان صاحب۔۔۔ جماعت اسلامی نے انتظامیہ سے تحریری اجازت نامہ لیا تھا۔۔ محلے کے مدرسے نے اسی اجازت نامے کی فوٹو اسٹیٹ دکھا کر کھال لے لی۔۔۔ :)

      حذف کریں
  2. بہت اعلی سر۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب کی بار کئی علاقوں میں کھالیں اس وعدہ کے ساتھ وصول کی گئی ہیں کہ اگرکوئی پنگا ہو گیا تو یہ کہنا ہے کہ کھال مولانا کو فروخت کر کے پیسوں کے عوض دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں