زندگی
میں دو ہی گھڑیاں مجھ پر گزری ہیں کٹھن
اک
تیرے آنے سے پہلے،اک تیرے جانے کے بعد
یہ
شعر ۔ امام دین گجراتی کا ہے ۔ انہوں نے جانےکس پیرائے میں کہا تھا لیکن ابا کا دامن
چھوڑکر جب سے میں نے خود کام دھندہ شروع کیا ہے مجھے یہ گجراتی شعر اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ بیوی بچے
، بجلی ، گیس اور فون کے بل ، سکولوں کی فیس، دال، روٹی ، دوا ۔۔ دارو۔اُجلے پہناوے، موبائل کے دکھلاوے،
ٹمٹماتی موٹر سائیکل اور بنیادی ضروریات ۔ مجھے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عید الفطرابھی
چند روز پہلے ہی گذری تھی کہ عید الالضحی سیدھی کنپٹی پر آ کر لگی ہے۔خرچے پہ خرچہ
اور عید کا چرچہ۔انتہائی کٹھن حالات۔شعر کے دوسرے مصرے
اک
تیرے آنے سے پہلے ، اک تیرے جانے کے بعد ۔۔کی طرح
ہم
صحافی بیورو کریسی، وزرا ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے روزانہ ملتے ہیں ہمارا ہر
دن عید سعید ہوتا ہے۔ میڈیا انڈسٹری اب خرکار کیمپ بھی نہیں رہی۔۔ تنخواہیں بھی اچھی
خاصی ملتی ہیں اور اوپر بھی ہتھ مار لیتے ہیں۔لیکن ہڈوں میں گھسی کنجوسی ختم نہیں ہوتی۔۔ہمیشہ
میرا ہاتھ اوپر والا نہیں نیچے والا رہا ہے۔صحافی کی عید تب شروع ہوتی ہے جب بازاروں
میں سیل ، سیل کی آوازیں گونجنےلگتی ہیں۔ سیل سال کےکسی بھی مہینے میں لگی ہو۔جونہی
سیل لگتی ہے ہم عید کی شاپنگ تبھی کر لیتے ہیں اورشاپر کھونٹی پر سارا سال عید کے انتظار
میں لٹکا رہتا ہے ۔ یہ صرف میرا معاملہ نہیں ۔میرے اہل و عیال بھی عیدایسے ہی مناتے
ہیں۔ لیکن بڑی عید پرجانوروں کی سیل نہیں لگتی ۔ کریڈٹ کارڈ بھی پاس ہے، اے ٹی ایم
کارڈ بھی۔ لیکن ہمت اور حوصلہ کہاں سے لاوں۔
ایک
صحافی قربانی کے لئے بکرا خریدنے گیا۔
بیوپاری:یہ
25 ہزار کا ہے یہ والا 20 ہزار اور یہ 15 ہزار کا
صحافی:کوئی
5 یا 6 ہزار والا نہیں ہے۔۔؟
بیوپاری
:ہے صاحب۔لیکن کوئی گارنٹی نہیں۔۔ممکن ہے وہ گھر جاکر بھونکنے لگے
میں
یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بکرے بھونکتے بھی ہیں لیکن ٹی وی ٹاک شوز دیکھ کر مجھے اکثر
بیوپاری کی گارنٹی ذہن میں آتی ہے۔صحافی سستی اشیا خریدنے اور تحفوں لینے کے رسیا
ہوتے ہیں۔ ہم سماجی تقریبات میں وی آئی پی بن کر جاتے ہیں۔۔شادی ، بیاہ پر سلامی دینے
سے کنی کتراتے ہیں ۔کھانا اچھے نہ ملے تو روٹھ جاتے ہیں۔۔ہمارے پیٹ اونٹ کی طرح کئی
کئی دن خوراک ذخیرہ کرلیتے ہیں ۔بیٹھنے کو کرسی نہ ملے تو استحقاق مجروح ہو جاتا ہے
۔ سرکاری دفاتر میں بغیر اجازت داخل ہو نا ہمارا حق ہوتا ہے ۔ہم خود ستائشی کے مریض
ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ ہمیں فضول لگتے ہیں اور دانشوروں کو جاہل سمجھتے ہیں۔ ۔ ہمیں
لوگوں میں شمار نہیں کیا جاتا۔تقریبات میں کھانا کھلتے ہی آواز آتی ہے مہمان اس طرف
آجائیں اور صحافی دوسری طرف۔ گھر آتے ہی ساری غیرت کافور ہو جاتی ہے ۔۔
بیوی:آپ
قربانی کا جانور کب لاو گئے۔؟
شوہر:بیگم
مجھے ہی ذبح کر لو
بیو:گدھے
کی صرف کمائی حلال ہے۔ قربانی نہیں۔
صحافیوں اور طوائفوں میں کئی قدریں
مشترک ہوتی ہیں۔دونوں رات کو جاگتے ہیں۔دونوں کا واسطہ پریشان حالوں سے ہوتا ہے۔ دونوں
کے اڈے اوپر والی منزل پر ہوتے ہیں۔ نظر دوسرے کی جیب پر ہوتی ہے۔تھانوں کچہریوں سے
بے خوف ہوتے ہیں۔وزیروں اور مشیروں سے مراسم ہوتے ہیں۔ شرفا دونوں سے خوف کھاتے ہیں
۔اوردونوں لوگوں کے گھر برباد کرتے ہیں ۔ہم سو کرتب اٹھتے ہیں جب بچے سکول جا چکے ہوتے
ہیں۔گھر تب آتے ہیں جب بچے سو چکے ہوتے ہیں۔ لوگ بچوں کا پوچھیں تو ہم ان کا قد نہیں
بلکہ لمبائی اور چوڑائی بتاتے ہیں کہ بڑے بیٹے کے پاؤں اب بیڈ کے ساتھ لگتے ہیں۔ منجلا
آدھی منجی تک آتا ہے اور چھوٹی دو فٹ کی ہے ۔بکرا خریدنے کے لئے ہم معجزوں کے منتظر
رہتے ہیں۔کئی بار یہ سننے کو جی مچلتا ہے کہ’’ ملکاں نے وی بکرا لے لیا ای ‘‘ ۔
میرے
ایک دوست شیخ ۔۔۔صاحب کرسمس پرگھومنے گرجا گھر چلے گئے۔مسیحی ۔کرسمس گیت گا رہے تھے۔
پادری
صاحب اچانک بولے یسوع مسیحی کی بھیڑیں نیچے بیٹھ جائیں۔ شیخ صاحب کے علاوہ سب بیٹھ
گئے
پادری
:بوائے۔آپ کیوں نہیں بیٹھ رہے ۔؟
شیخ:کیونکہ
ہم محمدی بکرے ہیں ۔۔
شیخ
بچپن سے ہی کاروباری ہوتے ہیں۔اورصحافی جوانی میں شیخ ہوجاتے ہیں۔۔شیخ صاحب عید سے
کئی روز پہلے سستے بکرے خریدلائے ہیں۔۔ان کی دیکھا دیکھی ۔ رانا صاحب، میاں صاحب اور
چوہدری صاحب سب قربانی خرید چکے ہیں۔انہوں نے خریدے تو بکرے ہیں لیکن محلےدار بھیڑ
کی چال چل رہے ہیں۔۔ گلی کے ہر گھر سے سر شام ہی جانوروں کی اوریجنل آوازیں آنے لگتی
ہیں ۔ان کے بچے جھانجریں چھنکاتے بکرے لے کر ہمارے گھر کے سامنے سے گذرتے ہوئے ضرور
پوچھتے ہیں ۔ انکل بکرے لے لئے۔؟۔تو میں سوچنے لگتا ہوں ۔اتنی جلدی ابا کا دامن کیوں
چھوڑ دیا۔ عید قریب آتی ہے تو جانورکچھ مختلف انداز سے ممیانے لگتے ہیں۔ کھانا پینا
کم کردیتے ہیں۔۔ لوگ کہتے ہیں انہیں چھریاں نظر آتی ہیں۔۔مجھے تو رمضان المباک سے
ذی القعد تک مسلسل چھریاں نظر آ تی رہتی ہیں۔کھانے پینے کو ذرا بھی من نہیں۔سوچتا
ہوں کہ شائد پانچ ہزار والا بکرا بھونکنے والا نہ ہی ہو۔۔؟آخر یہ شیخ، رانے اور آرائیں
اتنی جلدی قربانی کیوں خرید لیتے ہیں۔؟۔۔جنہیں دیکھ کر میرے بچے روزانہ اپنی اماں کو
ابا کی کنجوسی کے طعنے دیتے ہیں اور بیگم کو پتہ چل چکا ہے کہ میں کسی اور ہڈی کا بنا
ہوا ہوں۔۔ کنجوس ہڈی چوس ۔۔ یہ کم بخت بکرےقسطوں پر بھی دستیاب نہیں۔ کاش کن کٹے، بل
پھٹے ، دُم چڑھے، کُھنڈے، ٹُنڈے،اور پھنڈربکروں کی قربانی ہو بھی سکتی۔۔!چائنا نے آج
تک بکرے کیوں نہیں بنائے ۔منڈی میں چاہنا کا مال ہوتا تو آج میرے گھر میں بھی جھانجھریں
چھنک رہی ہوتیں۔
گذرے کئی روز سے میں روزانہ بچوں
کے ساتھ جانور دیکھنے منڈی جاتا ہوں۔بچے روزانہ کھیرے، دوندے، چوگے،چھگے سب بکرے دیکھتے
ہیں۔ وہ خریدنے آتے ہیں اور میں دیکھنے ۔اُن کے اصرار پر بھاؤ کھا کر میں بیوپاری
سے بھاو بھی کرتا ہوں۔ جب بھی سو پچاس بڑھتا ہوں تو خوف آتا ہے کہیں بیوپاری مان ہی
نہ جائے۔کئی میرے واقف بھی وہاں آتے ہیں۔۔مجھے منڈی میں دیکھ کر وہ حیران بھی ہیں
۔ ۔ گویا کوئی حرام جانور آ گیا ہو۔۔مجھے پتہ ہے وہ سب قربانی خریدنے آئے ہیں۔۔ اور
انہیں پتہ ہے کہ میں گھومنے پھرنے آیا ہوں ۔
منڈی
میں اونٹ خریدنے جائیں تو پتہ پڑتا ہے اتنے پیسوں میں مرغی ہی آئے گی اور صحافی جیب
میں مرغی کے پیسے ڈال کر اونٹ خریدنے جاتے ہیں۔ ہمیں مفت کھانے کی عادت ہوتی ہے۔منڈی
میں داخل ہوتے ہی پہلی خواہش ہوتی ہے کسی کو تین کالم خبر بیچ دیں ۔ منڈی میں کوئی
تگڑا ۔واقف مل جائے ۔تو من مچلتا ہے کہ وہ اپنی جیب سے پانچ ہزاروالے سات آٹھ کڑکتے
نوٹ نکال میرےبکرے کی ادائیگی کر دیں ۔۔ہم فورا تین کالم خبر تصویرکے ساتھ فرنٹ پیج
پرلگانے کا ذہن بنا لیتے ہیں اوراگرصحافی ٹی وی چینل کا ہو تو وہ کسی بھی بے مقصد سٹوری
میں ساٹ (انٹرویو ) بھی لگا سکتاہے ۔بکرے دو ہو جائیں تو خبریں بھی دو ہو سکتی ہیں۔
لیکن اگر بکرے کی خریداری میں کچھ حصہ ہمیں ڈالنا پڑے جائے تو خبر سنگل کالم رہ جاتی
ہے اور ٹی وی پر صرف ٹکر۔ وگرنہ لوگ کیا کہیں گے اتنا بڑا صحافی ہے اور شٹانک بھر گوشت
بھی نہیں بھیجا ۔۔
ہرمسلمان
اپنے خون پسینے کی کمائی سے قربانی خریدتا ہے ۔خبریں ہمارا خون پسینہ ہوتی ہیں۔ انہیں
بیچ کرہم بکرا کیوں نہیں خرید سکتے۔؟ ۔اس سوچ نے کچھ حوصلہ بڑھا دیا ہے ۔میرے پاس بھی
تین چار خبریں ہیں۔۔ شکر ہے بھونکنے والے بکرے سے جاں چھوٹے گی۔ لیکن نئی فکریہ لاحق
ہے کہ اس سنگل کالم بکرے کے تین حصے کرنے ہیں۔اپنا۔۔غریبوں کا اور رشتہ داروں کا۔۔
فیصل آبادکے مزاح میں نیا اضافہ آپ کا بلاگ لوگوں کوہنسنے پر مجبورکردیتاہے
جواب دیںحذف کریںشکریہ آپ جو بھی ہیں۔۔۔ حوصلہ ملا۔۔ تبصرہ پڑھ کر
حذف کریںملک جی ـــــــــــــــ ایویں شہیداں وچ نام ناں لکھوالینا
جواب دیںحذف کریںاللہ تہاڈی حفاظت فرمائے ــــــــــــــ کسے دی نظر نہ لگ جائے ، ہتھ ھولا ای رکھا کرو
اوکے۔۔۔ لیکن ہتھ تو ہولا ہی تھا ۔۔۔
حذف کریںشکریہ
جواب دیںحذف کریںGreat
جواب دیںحذف کریںملک صاحب آپ کا کالم پبلش کردیا ہے پلیز چیک کریں لنک میں۔ http://mediazonenetwork.blogspot.com/2015/09/16-09-2015.html
جواب دیںحذف کریںمحمد فاروق بھائی آپ کا شکریہ فیس بک پر بھی آپ نے لنک بھیجا ہے میں نے وہاں پر بھی شکریہ ادا کیا ہے
حذف کریں