ہفتہ، 11 جولائی، 2015

ابلیس کی مجلس شوری۔۔ ؟


بھائیو میرے سمیت بہت سے انسان شریف شائد اس لئے ہیں کہ ہمیں موقع نہیں ملا اور نیک وہ ہے جس کا داو نہیں چل رہا۔
وگرنہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابل بیان ہے چند مثالیں
ناپ تول میں ہم ڈنڈی مارتے ہیں۔۔
ہماری فیکٹریاں دودھ کے بغیر ہی دودھ تیار کررہی ہیں
جائیداد کے نام پر ہم بہنوں کا حق کھا رہے ہیں ۔
یتیموں کے مال پر نظریں گڑھ بیٹھے ہیں
لکڑی کے برادے کو ہلدی اور مرچ بنا کر بیچ رہے ہیں
آڑو اور لیچی کو رنگ کر کے بیچتے ہیں
سبزیوں کو ہرا اور تازہ رکھنے کے لئے سینتھٹک رنگ استعمال کرتے ہیں
لوکی، کریلا، تربوز، کھیرا وغیرہ کو کیمکل لگا کر جلدی جوان کر لیتے ہیں۔
پھلوں میں سیکرین ڈال کر میٹھا کرتے ہیں۔
چنے کے چھلکے پیس کر چائے کی پتی بناتے ہیں۔۔
ہلدی میں میدہ اور چاول کا آٹا رنگ کرکے ڈالتے ہیں

خراب انڈے ڈال کر کیک پکاتے ہیں۔
آلو، کدو، اراروٹ اور رنگ ڈال کر کیچپ بناتے ہیں
چھوٹے گوشت کے نام پر گدھے پکا کر بیچتے ہیں
بیمار مرغوں کا بار بی کیو کھلاتے ہیں
مردہ جانوروں کی چربی سے گھی بانتے ہیں۔
فصلوں کو گڑوں کا پانی لگاتے ہیں
رمضان پیکج کے نام پر ناکارہ اشیا سستے بازاروں میں بیچتے ہیں
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ
’’یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے (اپنے) نفس کو پاک کرلیا اور نامراد ہوا جس نے اسے خاک میں ملادیا۔‘‘
نفس کی اعلی ترین صنف تزکیہ نفس ہے
یعنی نفس انسانی میں موجود شر کے فطری غلبہ کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں سے پاک کرنا ہے جو روحانی نشوونما میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
قرآن کریم نے نفس کی چار اقسام کا ذکر کیا ہے ۔
نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس الہامہ اور نفس معطمئنہ
نفسِ امارہ۔۔۔۔۔۔سب سے خراب قسم ہے۔گناہوں سے بھرپور زندگی گزارنے والے افراد
نفسِ لوامہ۔۔۔یہ نفس امارہ سے نسبتا بہتر ہے۔ خوف خدا رکھنے والے اور گناہ سے بچنے والے لوگ
نفسِ الہامہ۔۔۔قبل الزکر دونوں سے بہتر ہے۔۔دنیا کی آلودگیوں سے بچنے والے۔۔ سچے خواب دیکھنے والے۔۔۔مجاہدات و ریاضتیں کرنے والے لوگ
نفسِ مطمئنہ۔۔۔نفس کی اعلی ترین قسم ہے۔ہر قسم کےگناہوں سے پاک۔۔اللہ کی نافرمانی سے بچنے والے۔۔عبادت میں لذت پانے والے۔۔پیغمبریا ولی۔
ﷲ تعالٰیٰ نے روح کی صورت میں انسان کے اندر ایک لطیف و نورانی چیز پھونکی ہے۔۔جبکہ جسم مٹی سے بنا ہے
اسی لئے تو روح اور جسم کے درمیان تضاد رہتا ہے۔۔پھر ہماری شخصیت میں تضادات اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔۔جو بے راہ روی، ظلم و استحصال، فسق و فجور کاسبب بنتا ہے۔۔۔ بشکریہ گوگل
بعض مفکرین کے نزدیک نفس۔۔۔روح کے مترادف ہے۔۔۔اگر ایسا ہے تو تنفس کیا ہے؟ اور اگر تنفس کا پتہ چل جائے تو پھر غور کیجئے نفیس کیا ہے۔۔ ؟
نفس ۔۔۔ تنفس اور نفیس۔۔۔۔
دنیا نفس امارہ اور نفس الہامہ کے درمیان ہے اور جنت نفس مطمئنہ کی آمیزش ہے
خیر اور شر کے تضادات ۔۔۔۔نیکی اور بدی کے تصورات ۔۔۔سچ اور جھوٹ کی تمیز۔۔ ایمانداری اور بے ایمانی کی صفات، معاش اور بد معاش کے قماش، نفرت اور محبت کے جذبات۔۔۔ رفاقت اور رقابت کے خدشات ۔۔۔اور بہت کچھ
دنیا جتنی بھی مثبت ہے یہ صرف حق پرستوں کی وجہ سے ہے اور جتنی بھی منفی ہے یہ شیطان پرستوں کی وجہ سے ہے
شیطان ۔۔۔ ایمان والوں کا تب سے دشمن ہے الله تعالی نے فرشتوں سے فرمایا
"انی جاعل فی الارض خلیفته" یعنی میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا هوں۔۔۔سورۃ البقرہ
تو فرشتوں نے اس ممکنہ نائب کو زمین میں فساد پهلانے والا اور جنات کی طرح خون ریزیاں کرنے والا کہا
فرشتے تو مان گئے لیکن شیطان نہ مانا۔۔۔
نور نے آدم کو سجدہ کر دیا اور نار نے غرور کیا۔۔ وہ منکرین سے ہوگیا ۔ پھر اللہ نے اسے کافر قرار دے دیا
جنت سے بے دخل کردیا۔۔
وہ نفرت کی علامت بن گیا۔۔۔بدی کا دوسرا نام۔۔۔ شیطان۔۔۔ برائی سے منسوب۔۔۔گناہوں کا اسیر۔۔۔۔ دوزخ کا امیر۔۔۔ شر کا مجسمہ۔۔۔ ہبل، لات، منات اور عزی کا معبود۔۔ دنیا کے پہلے قتل کا شریک جرم۔۔۔حضرت انسان کو جنت سے نکلوانے والا ۔۔۔ شیطان۔۔۔ مردود۔۔۔ ملعون۔۔
ابلیس تب سے بے دخلی کا بدلہ ہم سے لے رہا ہے۔
ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ شیطان سے میرا پہلی بار باقاعدہ تعارف اس دن ہوا جب میری ملاقات اپنے گاؤں کے مولوی صاحب سے ہوئی۔ میں نے ان کی کسی بات پر اختلاف کیا تو انہوں نے میرے والد صاحب سے کہا۔ ’’آپ کا لڑکا بڑا شیطان ہوگیا ہے۔‘‘
مجھے لگتا ہے یونس بٹ کہنا چاہتے ہیں کہ شیطان ہمارے آس پاس بستیوں میں ہی موجود ہے۔۔۔
اس نے ہمیں جنت سے نکلواکر بدلہ لیا لیکن
ہم شیطان کے آلہ کار بن گئے۔۔۔ فرینڈلی اپوزیشن
حالانکہ وہ عدو الامبین ہے۔۔۔ کھلا دشمن
حدیث نبوی ہے کہ
جب رمضان المبارک آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہيں اور
جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔صحیح بخاری
آج کل ماہ صیام کا تیسرا عشرہ ہے۔۔۔شیطان قید ہے
لیکن نفس امارہ بام پر ہے۔۔۔
ہم احترام رمضان کے نام پر ان تمام برائیوں کا شکار ہیں جن کا تذکرہ بلاگ کی ابتدا میں کیا گیا ہے
مرزا اپنے دوست کو لکھتے ہیں کہ
"دھوپ بہت تیز ہے، روزہ رکھتا ہوں مگر روزےکوبہلاتا رہتا ہوں، کبھی پانی پی لیا،کبھی حقہ، کبھی روٹی کا ٹکڑا کھا لیا، یہاں کے لوگ عجیب فہم رکھتے ہیں، میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ کہتے ہیں کہ تُو روزہ نہیں رکھتا،یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور چیز ہے۔"
بالکل مرزا کی بات سے یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے کہ شیطان کا قید ہونا اور چیز ہے اور اس کی عیال کا قید ہونا اور چیز۔۔۔۔
شیطان قید ہے تو شیطانی اعمال کون کر رہا ہے۔۔۔؟
راندہ درگاہ ہونے کی کوشش کون کر رہا ہے ۔۔۔؟
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔۔
ہم ابلیس کی مجلس شوری تو نہیں ۔۔۔ ؟
یہ تو وہی شیطان ہے ناں
جس سے ہر مسلمان پناہ مانگتا ہے
جو مرد کے دماغ اور عورت کے دل میں رہتا ہے
جسے الگ الگ طریقے سے خراج پیش کیا جاتا ہے
ابلیس خدا کے ارادوں کی مشیت کا ایک ایسا کارندہ ہے جس کے فرائض سب سے زیادہ تلخ ، ناگوار ، کڑے اور نازک ہیں۔ (منصور حلاج
شیطان اس زیرکی کا نام ہے جو عشق سے معریٰ ہو کر ادنی مقاصد کے حصول میں حیلہ گری کرتی ہے۔(مولانا روم
ابلیس ارادے میں آزاد ہے۔ ابن عربی
وہ جتنا کسی زمانے میں حسین تھا اتنا ہی اب بد شکل ہے۔ دانتے
دوزخ شیطان کے قدموں تلے کانپتی ہے۔اس نے خدا سے شکست کھائی ہے لیکن ہمت نہیں ہاری۔ جان ملٹن
لیکن علامہ اقبال کا تصور ابلیس بالکل مختلف ہے۔۔ بال جبریل۔۔۔کی نظم ”جبریل و ابلیس“ ہو یا پھر ضرب کلیم کی”ابلیس و یزداں“۔ اور یاپھر ابلیس کی مجلس شوری ہو ۔ ان کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک۔۔خودی کی ماہیت میں ذات الہٰی سے فراق۔اور ۔سعی ِ قرب و وصال۔۔
ہم نے شیطان سے بہت سی شیطانیاں سکھیں لیکن اب ہم خود شیظان ہو گئے ہیں
ایک عالی شان پلازا کے سامنے۔۔ شیطان کھڑا زارو قطار رورہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا کہ۔انسان بہت احسان فراموش مخلوق ہے۔ایک راہ گیر نے شیطان کو آہ و زاری کرتے۔۔اور انسان کو برا بھلا کہتے دیکھا۔۔تو وہ رک گیا۔۔ اور اس نے شیطان سے اس کی وجہ پوچھی۔۔۔ شیطان نے کہا۔۔۔
"کروڑوں روپے مالیت کا یہ پلازا دیکھ رہے ہو۔۔۔؟"
حاجی خدا بخش نے یہ پلازا۔۔میرے مشوروں پر عمل کے نتیجے میں حاصل شدہ سرمائے سے تعمیرکیا۔۔ مگر جب یہ پلازا مکمل ہوگیا۔۔تو میرا شکر ادا کرنے کی بجائے ۔۔۔۔ اس کی پیشانی پر موٹے لفظوں میں۔۔۔۔
"ھذا من فضل ربی" لکھوایا۔۔۔۔
راہ گیر نے۔۔۔ "ھذا من فضل ربی" پر ایک نگاہ ڈالی ۔۔۔۔ باآواز بلند پڑھا۔۔۔۔ اور آگے چل دیا۔
عطاء الحق قاسمی “ کی کتاب“ ہنسنا رونا منع ہے“ سے اقتباس

1 تبصرہ: