جمعہ، 13 نومبر، 2015

رانا ثنا اللہ مونچھوں کا خیال رکھیں ۔!

پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ چھج تاں بولے چھاننی کیوں بولے۔۔چھج پتلی کانیوں کا بنا ہوا ایسا برتن ہے  جس میں چھیدتو نہیں ہوتے لیکن کانیوں کے درمیان خلاہوتا ہے۔چھج گندم وغیرہ چھاننےکےکام آتا ہےاورچھاننی  میں ہزاروں چھید ہوتے ہیں جس سے عموما  آٹاچھانا جاتا ہے۔چھج میں اچھی  کوالٹی کی گندم اوپر بچ جاتی ہے اور چھاننی میں  اعلی کوالٹی آٹا چھن کر نیچے پرآت میں جمع ہوتا ہے۔۔ پچھلے دنوں وزیر مملکت عابد شیر علی نے صوبائی وزیر قانون  پنجاب  کے خلاف ایک بیان داغا کہ ’’رانا ثنا اللہ اپنی مونچھیں سنبھال کر رکھیں اور بیان بازی سے گریز کریں وگرنہ بات بہت دو ر تک جائے گی۔‘‘
چوہدری شیر علی تو اکثر و بیشتر رانا ثنا اللہ کے خلاف زہر افشانی کرتے رہتے ہیں لیکن عابد شیر علی   کا حالیہ بیان ۔۔ چھج تاں بولے چھاننی کیوں بولے کے متراد ف ہے ۔رانا ثنااللہ ایسےٹھنڈے  ٹھار  سیاستدان ہیں  جوشیر علی کے سو بیانوں کے بدلے لوہا ر والی  صرف ایک ہی ضرب لگاتے ہیں۔وہ بھی کاری ضرب ۔ انہوں نے چوہدری شیر علی کو بڑا بھائی بنا کر پاگل قرار دے دیا تھا اور اب عابد شیر علی کی مونچھیں سنبھالنے کی تجویز پر ان کا ردعمل بھی خاصا دلچسپ ہے۔وہ کہتے ہیں،
’’میں اپنی مونچھوں کا پہلے بھی بہت خیال رکھتا ہو ں۔ عابد شیر علی کے پاس کوئی ٹِپ ہے تو شئیر کریں اس پر عمل درآمد کروں گا۔‘‘
عابد شیر علی کے اندراگر  زبیدہ آپا کی روح ہو تو ان کے پاس ٹِپ بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا بعید القیاس ہو گا کہ  وہ اپنی ٹِپ رانا ثنا اللہ کو دے دیں گے۔؟ممکن ہے ان کے پاس ٹِپ نہ ہووگرنہ وہ کلین شیو  نہ ہوتے ۔لیکن ٹِپ کے بارے میں ایک بات سوفیصد سچ ہے کہ  اس کی شکل  ہمیشہ ٹِپ ٹِپ جیسی ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ مونچھ مرد کا زیور ہےاور کلین شیو لوگ سادگی پسند ہوتے  ہیں۔ زیور سے انہیں رغبت نہیں ہوتی۔مونچھیں منہ کا ’’لاک ‘‘ہوتی ہیں اورفرینچ شیو ۔۔ وائر لاک۔ ناک چہرے کا  سائن بورڈ  ہوتا ہے جو اشارے سے بتاتا ہے کہ مونچھیں اس طرف ہیں۔ناک اور مونچھ  کا ساتھ  چولی دامن  جتنا گہرا ہے ۔مونچھ کو مرد کے  منہ پر وہی اہمیت حاصل ہے جو سرخی کو عورت کے ہونٹوں پر۔
پنجابی کہاوت ہے کہ ’’مُچھ نہیں تے کُچھ نہیں ‘‘۔ عابد شیر علی نے جب رانا ثنا اللہ کو مونچھیں سنبھالنے کا مشورہ دیا یقینی طور پر ان کے ذہن میں قبل الذکرپنجابی کہاوت ہی تھی۔۔31 اکتوبر کو فیصل آباد میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں کئی بڑے بڑے بُرج الٹ گئے ۔عابد شیرعلی کے بھائی سابق میونسپل مئیر عامر شیر علی اپنے گھر کی یونین کونسل سے ہی  ہار گئے۔لوگوں کی مونچھیں کاٹنے کے خواب دیکھنے والوں کی اپنی ناک کٹ چکی تھی۔
ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ ’’مونچھیں تراشنا میری پسندیدہ ان ڈورگیم ہے۔اس کھیل میں سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ بندہ اپنی مرضی سےکسی بھی وقت اکیلا کھیل سکتا ہےمگریہ بچوں کاکھیل نہیں کیونکہ یہ ہاراتنی مہنگی ہےکہ ہارنے والےکوہفتوں منہ چھپائےرہنا پڑتاہے۔اس لئے تومقابلوں میں بڑی سے بڑی شرط یہی لگائی جاتی ہے کہ ہارگیاتومونچھیں منڈوا دوں گا۔ ‘‘
زبان مونچھوں کی طرح مردانہ منہ کا اہم ترین حصہ ہے۔مرد اپنی زبان سے پہچانے جاتے ہیں اورمردانگی مونچھوں سے پہچانی جاتی ہے۔مردانگی اگرچے مردوں سے منسوب ہے لیکن یہ زنانہ لفظ ہے۔زبان سے کہا۔نبھانا خاصامشکل کام ہوتا ہے۔بعض زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں۔اسی لئے اُن  زبانوں پرقینچی چلانا پڑتی ہے۔یاد ہے ناں سابق صدر زرداری کی زبان کاٹنے کی کوشش  کی گئی تھی۔ کچھ زبانوں سے پھرابھی جا سکتا ہےجیسےشریف برادران کاسعودیہ جلاوطنی کا معاہدہ۔اور کئی بار زبان غوطہ بھی کھا جاتی ہے۔ ڈاکٹر یونس بٹ کو میں نے کئی سال پہلے  تب پڑھا تھا جب شریف برداران  پرویز مشرف سے زبان کرکے باہر چلے گئے تھے۔ رانا ثنا اللہ تب بطور ڈپٹی اپوزیشن لیڈرپنجاب اسمبلی میں مونچھوں سے  انڈور گیم کھیلا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے  مونچھوں سے ایسی  انڈر گیم ڈالی  کہ تاؤ زیادہ آگیا ۔
8 مارچ 2003 ہفتے کے روز رانا ثنا اللہ کو سرکلر روڈ فیصل آباد سے اٹھا لیا گیا تھا ۔ ان کے چہرے کو کالے کپڑے سے ڈھانپا  گیا۔تقریبا چار گھنٹےبعد انہیں  پنڈی بھٹیاں موٹر وے کے قریب پھینک دیا گیا۔سُنا ہے جب رانا ثنا اللہ کو موٹروے پر پھینکا گیا تو ان میں اورفلم ’’پی  کے‘‘ کے ہیرو عامر خان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ خصوصا جب عامر خان دوسرے گولے سے ہمارے گولے پر آئے تھے۔  رانا ثنا اللہ آدھ گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد نزدیکی  پٹرول پمپ پر پہنچے وہاں سے گھر فون کیا اور پھر  انہیں ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔
راقم  اگلے روز سول ہسپتال پہنچا تو ایک بستر پر انڈین فلم ’’پا‘‘ کا کردارلم لیٹ  تھا۔ٹنڈ مُنڈ۔مونچھیں غائب۔ بھوئیں مونڈی ۔اور سینے کےبالوں پر اُسترا۔چلا  ہوا ۔پورے جسم پر درجنوں چھوٹے چھوٹے کراس شکل کے زخم تھے۔راقم نے اُس عجیب الخلقت سے پوچھا ۔ مجھے رانا ثنا اللہ سے ملنا ہے۔؟ تو’’پا‘‘نے جواب دیا۔میرے اوپر بہت تشدد ہوا ہےتمہیں مذاق سوجھا ہے۔ راقم کو  انشااللہ خان انشا کی غزل کا مصرعہ یاد آگیا ’’تجھے اٹھکیلیاں سُوجھی ہیں۔ ہم  بے زار بیٹھے ہیں۔ ‘‘
پرویز مشرف کی متعارف کروائی گئی گرایجویٹ اسمبلی کی وجہ سے 2002 میں عابد شیر علی نے نئی نئی تقریر کرنا سیکھی تھی۔الیکشن ہواتوان  کا پہلی باراسمبلی پہنچنے کا  تُکا بھی  لگ گیا۔رانا ثنااللہ کی عیادت کی آڑ میں اپوزیشن کی جماعتوں کو  سول ہسپتال کی چھت پرسیاست چمکانے کا موقع مل چکا تھا۔میڈیاوہاں سارا دن موجودرہتااورسیاستدان آتے جاتے رہتے تھے۔عابد شیر علی بھی وہاں کئی بار آئے ۔وہ تب رانا ثنااللہ کی مونچھوں کے رکھوالے تھے۔ان  کے ہونٹوں پردربان  بن کر بیٹھنےکے خواہشمند تھے۔ان کی مونچھوں  سے عابد شیر علی کو تب بھی پریشانی تھی۔ آج بھی ہے۔نیا بیان پریشانی میں ہی تو داغا ہے کہ رانا ثنا اللہ اپنی مونچھوں کا خیا ل رکھیں۔براہ مہربانی اسے دھمکی آمیز بیان نہ سمجھا جائے ۔
2002 میں رانا ثنا اللہ نے شریف برداران کی غیر موجودگی میں جو کلین شیو کرائی تھی۔وہ شیو 2008 میں شریف برداران کی وطن واپسی  کے بعد خاصی کام آئی۔ پنجاب میں  ن لیگ کی حکومت بنی توصوبائی  کابینہ میں ا’ن کا نام آگیا انہوں نے مونچھوں سے پھر انڈور گیم کھیلناشروع کر دی ۔وزارت کا قلم دان ملا تو  آوٹ ڈور  میں بھی وہی گیم تھی۔
بڑی مونچھوں والا ایک شخص سائیکل چلاتے ہوئے خاتون سے ٹکر ا گیا
خاتون: کتنی کتنی بڑی مونچھیں ہیں  سائیکل روکنا  نہیں آتا۔
آدمی:بی بی یہ مونچھیں ہیں بریکیں تو نہیں۔۔
را نا ثنااللہ کی مونچھیں آج بھی بہت سےلوگوں کو سائیکل سوارشخص جیسی  سجھائی دیتی ہیں۔ممکن ہے سائیکل پرگُلو بٹ سوار ہو ۔لیکن مونچھیں اب کلین شیوکےسفرپرچل نکلی ہیں۔مجھے تو خدشہ ہےکہ کلین شیو اگرہوگئی تورانا ثنا اللہ کومزیدشہرت مل جائے گی۔پھر تو عابد شیرعلی کی پریشانی جائزہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں