ہفتہ، 12 ستمبر، 2015

شیر بہ مقابلہ مئیر گروپ


گوگل پر آپ شیر علی اور مہر علی لکھ کر سرچ کریں تو فیصل آباد  کے رہائشی  دو قوال بھائیوں کا نام سامنے آتا ہے جن کا گھر  نڑوالا روڈ پر بڑے قبرستان کے قریب واقع ہے۔لوگ گھروں کے باہر ماشااللہ و غیرہ  کی تختی لگاتے ہیں ۔ انہوں نےنازک نگر کی تختی لگا رکھی ہے۔ نگر۔۔شہر،بستی  یا قصبہ کا مترادف ہے۔۔ میں نے تو آج تک بہاولنگر، احمد نگراور جوالا نگروغیرہ  کا نام سنا تھا۔ نازک نگر پہلی بار سنا اور اس کے بعد نگری بھی سامنے آگئی۔عیسی نگری۔مریم نگری اور۔ اندھیر نگری۔نازک  اور نگرکو اکھٹا کیا جائے تو اس کا مطلب ہے۔ نازک لوگوں کے رہنے کی جگہ۔۔ ممکن ہے وہ شیشے کے گھر میں  ہی رہتے ہوں گے۔۔لیکن گھروں کے نازک ہونے کا مطلب قطعی نہیں کہ انسان بھی نازک ہی ہوں گے۔
مولوی صاحب  اپنی بیوی کے ساتھ حجلہ عروسی میں بیٹھے تھے
بیوی:آج میرےکان میں کچھ نرم سا کچھ گرم سا کہو
مولوی سرگوشی کرتے ہوئے:حلوہ
نازک کا مفہوم ہر انسان کے نزدیک مختلف ہوتا ہے۔۔قوالی سے وابستہ یہ لوگ پتہ نہیں نازک ہیں  بھی یا نہیں لیکن ۔۔لیکن ہم نازک انہیں   ویسا ہی نازک سمجھتے ہیں۔ جوسگریٹ کی ڈبی پر برف کے پہاڑ دیکھ کر رضائی نکال لیتے ہیں۔ جن کے گھر سردیوں میں مہمان دیواریں پھلانگ کر آتے ہیں کیونکہ کُنڈی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ وہ کریلے گوشت شوق سے کھاتے ہیں۔۔قیمہ انہیں کچا بھُنا لذیز لگتا ہے ۔دانت کے نیچے آکر ادرک کرچتا ہے تو ان کا دل اُچھلتا ہے۔۔ دوسرے لقمے کی رغبت ہوتی ہے۔۔بات اچھی لگے تو ناک چڑھا کر داد دیتے ہیں۔۔زیادہ اچھی لگے تو شہادت کی انگلی کے ساتھ انگوٹھا جوڑ کر چھلا  بھی بنا لیتے ہیں اور ہاتھ کو پھنئیر بنا کر لہراتے بھی ہیں۔۔ لیکن گوگل سرچ پر مزید آپشنز پڑھیں تو ایک نام چوہدری شیرعلی  کا بھی آتا ہے ۔
چوہدری شیرعلی شہرکے معروف سیاستدان ہیں اور ان کا نام بھی شیر ہے اور جماعت  کا انتخابی نشان بھی شیر ۔۔۔وہ سابق ایم این اے بھی ہیں۔۔سابق مئیر بھی  اور شریف خاندان کے داماد بھی ۔ایم این اے ہونا ان کی سیاسی اہمیت ہے۔۔ مئیر ہونا عوامی مقبولیت ہے اور داماد ہونا۔۔ رشتہ داری ہے۔۔ انہیں وزیر اعظم نواز شریف سے رابطے کے لئے وقت لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی گفتگو کرنے کے لئے کسی تمہید کی۔۔ وہ فون پر بات کرتے ہیں اور احترام ملحوظ خاطر رکھے بغیر جو کہنا ہو کہہ دیتے ہیں۔۔عوامی جلسہ ہو۔۔پریس کانفرنس یا پھرکسی بڑے لیڈر اورافسر سے ملاقات ہو۔ان کا طرز گفتگو ہمیشہ عوامی ہوتا ہے۔۔ امام دین گجراتی کے شعروں جیسا۔۔ لوگ باتیں سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔۔کھسیانے ہوجاتے ہیں۔کنکھیوں سے ادھراُدھر دیکھتے ہیں۔لوگ اُن کے جلسے سستی تفریح  اورمزے کے لئے بھی سننے جاتے تھے۔۔سیاسی جلسوں سے بڑی تفریح ہمارے ہاں کم ہی ہے اور چوہدری شیر علی کا جلسہ ضلع کے تمام سرکٹ میں کھڑکی توڑ فلم جیسا ہٹ ہوتا ہے۔۔ویسے ہمارے ہاں شادی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔۔
دیہاتوں میں شادی سے چند روز قبل۔۔ گھروں میں مامیاں، چاچیاں، پُھپھیاں اکھٹی ہوجاتی ہیں۔۔ مامے، چاچے اور پُھوپھے گھروں سے نکال دئیے جاتے ہیں۔۔خواتین گپیں ہانکنے کے دوران اچانک دو گروپ بنا کر آمنے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ پھر دوڑھے، ٹپے اور ماہیےکا ایسا دور شروع ہو تا جس میں  گا گا کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا سلسلہ جاری رہتا۔ٹپے گانے والی خاتون پہلا مصرعہ سوالیہ انداز میں گاتی ہے اور  سننے والی خواتین اس سے پوچھتیں پھر کیا ہوا۔جس کا جواب وہ دوسرے مصرے میں دیتی ہے۔۔یہ فلبدی کلام ایسے شخص کے بارے میں ہوتا ہے جو بارہ برس کے بعد کمائی کرنے جاتا ہے۔ جیسے
بارھیں برسیں کھٹن گیا تے کھٹ کے لیایا مونجی
پھر کیا ہوا۔۔۔؟
جی کردا ترے ناں لاواں، ساہواں دی ساری پونجی
خواتین سر پر سگھی پھول سجا کر گِدھا ڈالتیں۔ہاتھ جوڑ کر پنبھیری  چلانے کے سٹال میں آگے پیچھے کرتی ہیں، ہونٹوں میں زبان دبا کر منہ سے پھرڑ۔پھرڑ کی آوازیں نکالتی ہیں۔ککلی ناچتی ہیں۔ اورعین اُس روز جب  لڑکی کا ماموں  نانک چھک لے کر آتا یا جاتا ہے۔۔جاگو کی رسم ہوتی ہے ۔۔خواتین چھج اٹھا کر گھر کی دہلیز پار کر لیتی ہیں۔ وہ ’’چھج پتاشے ونڈاں۔۔آج قیدی کر لیا ماہی نوں‘‘ گاتی گاتی پنڈ کا راونڈ شروع کر دیتی ہیں۔۔۔گاوں میں پگڈنڈی یا  پکی کے  کنارے  کوئی بھی  سوتے  نظر آتا ہے  تو اسے  مار مارکر  جگاتی ہیں۔ ہوکے دیتی ہیں۔۔ٹھینگے مارتی ہیں۔اور۔۔ ’’شاوا ۔۔وی ہن جاگو آئی اے‘‘۔۔گاتی ہیں۔۔ یہ جاگو(جاگنے)کی رات ہوتی تھی۔  نیند ٹوٹنے کے باوجود بھی  کوئی غصہ نہیں کرتا۔
چوہدری شیرعلی کے جلسوں کو فیصل آباد شہر میں جاگو کی رسم جیسی اہمیت حاصل ہے۔ وہ سر راہ، سامنے بیٹھے، آتے جاتے ہر شخص کو مذاق کرتے ہیں۔۔ لیکن کوئی ناراض نہیں ہوتا۔۔آج کل بلدیاتی الیکشن سرپر ہیں۔ اور جاگو بھی  ۔۔سگھی پھول کی طرح سر پر چڑھی ہوئی ہے۔۔ مامیوں، چاچیوں اور ماسیوں کی طرح فیصل آباد میں بھی  چوہدری شیرعلی اور رانا ثنا اللہ آمنے سامنے آ کھڑے ہیں۔و ہ ایک دوسرے کو سیاسی  طعنے دیتے ہیں۔
بارھیں برسیں کھٹن گیا تے کھٹ کے لیندا ۔لُون
دشمناں  کی کر لیا جے بن گیئے  وزیر قانون
بارھیں برسیں کھٹن گیا تے کھٹ کے لیاندی۔ گڈیری   
اگے وی  حاکم رہے۔۔ کی کرن گےمڑ لے کے مئیری 
بلدیاتی الیکشن کے سلسلے میں فیصل آباد میں مختلف سیاسی  اور مذہبی جماعتوں  کا اتحاد بنانے اور ٹوٹنے کا عمل جاری ہے۔۔جماعت اسلامی نے سیاسی اتحاد  کے لئے مسلم لیگ ن کے رہنما   چوہدری شیر علی سے اتحاد کر لیا ہے۔۔اتحاد کے لئے چوہدری شیر علی کا  انتخاب  مسلم لیگ ن کی دیگر لیڈر شپ کے لئے واضح پیغام ہے کہ جماعت اسلامی بلدیاتی الیکشن کے لئے  مسلم لیگ ن کے بجائے  چوہدری شیر علی کو اہمیت دیتی ہے۔۔وہ   بابائے بلدیات  ہیں۔ دونوں جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر متفق ہو چکی ہیں۔۔مسلم لیگ ن کے سٹی صدر شیخ اعجاز احمد ہیں  جو رانا ثنا اللہ کے دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جماعت اسلامی نے ان سے رابطہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔یہ نظر اندازی ۔۔رانا ثنا اللہ کے لئے تیر اندازی کا  واضح پیغام ہے ۔۔مائیوں کی رسم میں چاچیوں، مامیوں کے ساتھ جماعت اسلامی بھی تیسرے گروپ کی شکل میں سامنے آکھڑی ہو ئی ہے۔چوہدری شیر علی نےفیصل آباد شہر کی تمام سٹی کونسلز میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ امیدوار شیر گروپ کے بجائے مئیر گروپ کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں گے۔ الیکشن میں ن لیگ کا انتخابی نشان تو شیر ہوگا لیکن شیر علی  کے امیدواروں کا انتخابی نشان کیا ہو گا اس کے لئے وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کریں گے۔ شیر گروپ بمقابلہ مئیر گروپ  کا الیکشن ہونے والا ہے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش۔۔ خاندان میں ہی شریک پیدا  ہوگئے ہیں۔ جن میں جائیدادوں کا بٹوار ا ہے نہ اختیارات کا تنازعہ ۔۔ صرف چوہدراہٹ کا رولا ہے۔۔بالکل ویسے ہی جیسے خاندان  میں  بہت سے لوگ چوہدری  بننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔وڈے چوہدری ۔۔بلدیاتی الیکشن ہو گئے تو ن لیگ کو تحریک انصاف ، پیپلزپارٹی ، عوامی تحریک  ، جماعت اسلامی اور سنی اتحاد کونسل کے ساتھ ساتھ مئیر گروپ کی  مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ وہ امیدوار شیر علی کے ساتھ تو ہوں گے لیکن شیر کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ وہ بولیاں جو گھروں میں مامیاں، چاچیاں اور ماسیاں وغیرہ بولتی تھیں ویسی ہی بولیاں اب شیر گروپ اور مئیر گروپ کے امیدوار ایک دوسرے کے خلاف بولیں گے۔۔جیسے
بارھیں برسیں کھٹن گیا تے  کھٹ کے لیایا ۔۔فیتی
دسی نہ جائے کسے نوں ، جو یاراں  میرے نال کیتی
دوسرا ٹپہ میری طرف سے۔۔
بارھیں برسیں کھٹن گیا
تے کھٹ کے لیاندی بس!چل نس!

5 تبصرے:

  1. Rana Almas Hanif corespondent Express kot momanہفتہ, ستمبر 12, 2015

    ماشاالله سر جی بهت اچھا بلاگ هے پرھ کر مزا ا گیا

    جواب دیںحذف کریں
  2. Rana Almas Hanif corespondent Express kot momanہفتہ, ستمبر 12, 2015

    سر الله پاک زور قلم اور زیاده کرے بلاگ پرھ کر مزا ا گیا

    جواب دیںحذف کریں
  3. دیکھیئے ، کہیں ھماری ہی نظر نہ لگ جائے ـــــــــــــــ کچھ ذیا دہ ہی خوبصورت لکھنا شروع کر دیا ھے
    اللہ کر زور قلم اور زیادہ ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بارھیں برسیں کھٹن گیا تے کھٹ کے لیاندے بی
    ملک صاحب،چھا گئے او،،،،،لے دس ہور کی

    جواب دیںحذف کریں