جمعہ، 27 نومبر، 2015

ہندوستان چھوڑ دو۔۔!

خلافت ۔خلفائےراشدین کےبعدبنوامیہ اوربنوعباس سے ہوتی ہوئی ترکی میں عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی تھی۔پہلی جنگ عظیم میں ترکی نےجرمنی کا ساتھ دیا تو ہندوستانی مسلمان  پریشان تھےکہ  اگر جرمنی ہارگیا تو خلافت کا شیرازہ بکھر جائے گااورپھر جرمنی ہار گیا ۔برطانیہ بدلے لینےپر اترآیا۔ ہندوستان پر  پہلے ہی انگریز کا راج تھا۔مسلمانوں  نے خلافت بچانے کے لئے تحریک خلافت کی بنیاد رکھی،پھرتحریک ترک موالات (عدم تعاون)نےجنم لیا۔حکومتی خطابات واپس کر دئیے گئے ۔  1920میں علمانےمسلمانوں کو ہجرت  کا مشورہ دیا ۔ہزاروںمسلمان جانی اور مالی نقصان برداشت کرکےافغانستان ہجرت کر گئے۔مصطفی کمال پاشا نے اچانک ترکی میں اپنی صدارت کا اعلان کردیا۔تحریک کو شدید دھچکا لگا اور خلافت بھی دم توڑ گئی ۔

1937میں کئی سوسال کےبعدکانگرس کواقتدارملاتھا۔ کانگریسی وزارتوں نےمسلمانوں پر مظالم کا پہاڑتوڑ دیا۔گئو کشی پر پابندی لگادی۔سکولوں میں وندے ماترم بجنے لگا اورمساجدکےباہر ڈھول۔بجرنگ بلی کی جےجے کارہونے لگی۔۔انہی مظالم نے23 مارچ 1940کوقرارداد پاکستان کی راہ دکھائی۔مسلمان آج بھی  گائے ذبح نہیں کرسکتا لیکن ہندووں کا کاروبار گئوکشی  اورکھالوں پرچلتا ہے۔ہندوگائے کاگوشت کھانا گناہ سمجھتا ہے اورپیشاب پینا راحت۔یہی دوقومی نظریہ ہےمسلمان عبادت، تعلیم، کاروبار اور روزگار سمیت ہرجگہ  مذہبی تعصب کا نشانہ  ہیں۔انہیں زبردستی  ہندو بنایا جا رہا ہے۔جیلوں سے نکلوا کر شہید کیا جا رہا ہے۔مسلمان۔۔ہندوکا گیٹ اپ  اوڑھ کرنوکری رہے ہیں۔مساجد کے باہر۔مردہ خنزیر  رکھ دیا جاتا ہے۔غریب مسلمان لڑکی سے ہندو کی  شادی کرکے  زبردستی مذہب تبدیل کرایا جا رہا ہے۔جسے ’’بہو لاو ،بیٹی بچاو ‘‘مہم کا نام دیا گیا ہے۔شیوا سینا دھمکی دےچکی ہےکہ  بھارت میں رہناہےتو ہندو دھرم قبول کر لیں  وگرنہ مسلمان۔پاکستان چلے جائیں۔ خورشید  قصوری کی  تقریب کے آرگنائزرکا منہ کالاکردیاجاتا ہے۔گئو ماتا کا  گوشت کھانےکے الزام میں  مسلمان کاقتل کیا جا رہا ہے۔
تحریک آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ نے دہلی اسمبلی میں اس لئے بم پھوڑا تھا کہ بے ضمیروں کو جگا سکے۔عبدالکلام آزاد، ایم ایف حسین اور محمد رفیع نےتوبم بھی نہیں  پھوڑا۔۔شاہ رخ اورسلمان کبھی بھی۔ بی کےدت نہیں رہے۔عرفان پٹھان، یوسف پٹھان، محمد کیف ، اظہرالدین اور ثانیہ مرازانےکبھی تعصب نہیں برتا۔پھر وہ ٹارگٹ پر کیوں ہیں؟۔نصیر الدین شاہ، شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کو پوش علاقوں میں گھرنہیں ملتا۔سنجے دت کو جیل کیوں جانا پڑتا ہے۔وہاں 28 کروڑ مسلمان ہیں سارے  پریشان ہیں۔ اتنی  تو پاکستان کی کل آبادی بھی نہیں ہے۔
مودی جب  وزیراعلی تھا تو گجراتی مسلمانوں کی حالت کانگریسی وزارتوں والی تھی۔اب مودی وزیراعظم ہے اورمودی گردی کے اثرات بھی  پورے انڈیا تک پھیل چکے  ہیں۔فلم سٹار عامر خان  کہہ بیٹھے کہ’’میں اور میری اہلیہ ملک چھوڑنے پرغور کر رہے ہیں کیونکہ انتہا پسندی کی فضا سے میری اہلیہ خوفزدہ ہیں اور مجھے  ہندوستان چھوڑنے کا مشورہ دیا ہے۔‘‘عامرسےقبل شاہ رخ بھارت کا ’’سیکولر‘‘ چہرہ دنیا کو دکھا چکے ہیں۔  ہندو۔انہیں پاکستانی ایجنٹ کہتے ہیں۔ ملک چھوڑنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ شیوسینانے عامرخان کوتھپڑ مارنے کا انعام 1 لاکھ روپےمقررکر دیا ہے۔
بہو لاو اور بیٹی بچاو۔مہم  اگرچے بہت  پرانی نہیں ہےلیکن شاہ رخ خان کی بیوی  گوری۔عامر خان کی پتنی رینا دتہ۔ارباز خان کی  ملائکہ اروڑا۔سیف علی خان کی   امریتا سنگھ اور کرینہ کپور۔عمران خان کی ایونٹکا  اورسہیل خان کی دلہن سیماسچدیو سب ہندو ہیں۔ستاروں کی چالیں بھی عجیب ہیں۔۔پرستارانہیںfollowکرتےکرتےchase کرنےلگے ہیں۔مسلمان فنکاروں نے بالی وڈ پرراج کیاہے۔سلمی آغا، ندیم،محمد علی ،زیبا، طلعت حسین، زیبا بختیار،محسن خان، انیتا ایوب،سونیا جہاں،معمر رانا،میرا، ثنا، سلمان شاہد،ہمایوں سعید، وینا ملک، جاوید شیخ، علی ظفر، عاطف اسلم، میکال، مطیرہ، ایلے خان، میشا شفیع، ہمائما ملک، عمران عباس،فواد خان،عدنان سمیع ،غلام علی،نسیم وکی اورسردارکمال سمیت کئی فنکار بالی وڈ میں  پرفارم کرچکے ہیں۔ان کے علاوہ بھی بالی وڈ پرہندوستانی  مسلمانوں کا ہی راج ہے۔دلیپ کمار، قادر خان، شاہ رخ، سلیمان، عامر،عمران ، سیف، فرحان، رضا مراد، شاہد کپور اور اے آر رحمان سمیت کئی مسلمان ہیں۔یہ سب ہندوتعصب کی زد میں ہیں بلکہ  وسیم اکرم ، شعیب اختر  اورعلیم ڈار کو بھی  قتل کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔
بالی وڈ فلم ’’خوبصورت ‘‘کےایک سین میں  سونم کپورپاکستانی ہیروفواد خان کوکہتی ہے۔
’’تمہیں دیکھ کرمیرے دل میں گندے گندے خیالات آتے ہیں۔‘‘
مجھے توہرہندوکودیکھ کر۔ایسے ہی خیالات آتےہیں۔خصوصا مودی  کا خُبث باطن  صاف دکھائی دیتا ہے۔اقتصادی راہ داری کی بات جب سےچلی  ہے۔یہ باطن خُبث سے بڑ ھ کرخبیث ہو چکا ہے۔معاشروں پرزووال آتا ہےتوابتدافکری زوال سےہوتی ہے۔بھارت کے ادیبوں اوردانشوروں نے اقلیتوں پرمظالم کےخلاف  تحریک ترک موالات  شروع کردی ہے۔50 سے زائد  ادیب ، شاعر، دانشوراورسائنسدان  سرکاری ایوارڈواپس کرچکے ہیں۔سابق وزیراعظم جواہرلال نہروکی بھانجی نین تاراسہگل بھی  ان میں شامل ہے۔۔مسلمان  ہجرت  پرمجبور ہیں۔شیوسینا تو عامر خان  کی پتنی سمیت  پاکستان کی ٹکٹ بھی بک کروا چکی  ہے۔ 
1942میں گاندھی نے ہندوستان پر راج کرنے والے انگریزوں کے  خلاف ’’ہندوستان چھوڑدو‘‘ تحریک شروع کی تھی۔آج شیوسینانے ہندوستان پر راج کرنے والے مسلمانوں کو  ہندوستان چھوڑنےپرمجبورکردیا ہے۔ آزادی سے قبل سائمن کمیشن ہندوستان آیا توہرطرف سے’’ سائمن گوبیک‘‘کےنعرے لگنے شروع ہوئے۔اسی تحریک کے دوران اچانک مولانا حسر ت موہانی  نے ’’گاندھی گو بیک‘‘کا نعرہ لگا دیا۔
مودی۔گجرات میں علاقائی ولن تھے۔ہیری پوٹرفلم کےولن’’والڈی موٹ‘‘کی طرح۔برائی کا منبع۔۔وزیراعظم بننے کے بعد وہ بڑے پردےپرنمودارہوئے ہیں۔عالمی  ولن  بن کر۔کرسٹوفر  لی (ڈریکولا) کی طرح۔خون پینے والا ڈریکولا۔عالمی سفارتکاری کے دوران بھی انہوں نے بہت بدنامی سمیٹی ہے۔بھارت میں گئوماتا کے نام پر پوجا کرنے والی برہمنی الائشیں جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔ہندوستان کی اقلیتیں شودرہیں۔۔اچھوت وہاں رسم غلامی کی باقیات ہے۔ہوٹل میں اچھوت کھانا کھانےآئےتو اسے  شیشے اورچینی کےبجائے مٹی کے برتن ملتے ہیں۔بِل ہوتے ہی برتن توڑدئیے جاتے ہیں۔تاریخ گواہ ہےکہ  وسیع وعریض ہندوستان کوبہت لمبے عرصےتک ایک مرکزی حکومت کےطورپرچلاناممکن نہیں۔حتی کہ مغل اورانگریزبھی ناکام رہا۔مودی کو تو کریکٹربھی کافی ڈھیلا ہے۔’’مودی گو بیک‘‘کےنعرے پوری دنیا میں لگ رہے ہیں۔عامرخان کو کہیں نہ کہیں پناہ مل جائے گا۔مودی کا پتہ نہیں کیا بنے گا۔مجھے یقین ہے بھارت کو روس بننے سےکوئی نہیں روک سکتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں