آم پاکستان کا قومی پھل
ہے۔۔جسے انگریزی میں مینگو اور پنجابی میں امبھ کہتے ہیں۔۔۔ امبھ کھانے کے شوقین بہت
ambitious ہوتے ہیں
Ambitious کو آہستہ آہستہ پڑھیں تواس
میں امبھ بھی آتا ہے۔
آم پھلوں کا بادشاہ ہے۔ایسا
بادشاہ جس کا سارا سال رہتا ہے لیکن آم بہت خاص ہوتے ہیں۔تبھی تو اسکی گٹھلیوں کے
بھی دام ہوتے ہیں۔
شائد 26 سال پہلے۔۔۔ایام
جوانی میں ادکارہ انجمن ایک پنجابی گانے پر نچ نچ کے ہلکان ہوگئی تھی
میں امبھ چوپن لئی گئی باغ
وچ پھڑی گئی۔۔۔(میں آم چوسنے باغ میں گئی تھی لیکن پکڑی گئی)
اُنہی دنوں دوسرا پنجابی
گانا۔۔۔ چوپاں گی چوپاں گی امبھ لنگڑا (میں لنگڑا آم چوسوں گی) بھی کافی ہٹ تھا۔۔۔
لیکن مجھ کند ذہن کو ان گانوں
کی تفسیر اور امبھ کی تاثیر کا کبھی پتہ نہ چل سکا۔۔۔کیونکہ
دماغ بچہ تھا۔۔۔اور آٹیزم
کا شکار تھا۔۔وہی دماغ جو جوانی میں بھی کھلنڈرا نہ ہوا۔۔
آٹیزم ایسی بیماری ہے جس
میں دماغ۔۔عمر کے مقابلے میں کم پرورش پاتا ہے
امبھ چوپنے والے دونوں گانے
میرے لئے آٹیزم میں مبتلا ہونے جیسے تھے۔۔۔
10 جولائی 2015 کو اچانک۔۔۔مجھے آٹیزیم سے شفا
ملی۔۔گانوں کا مفہوم سمجھ آگیا
دماغ جو سالوں سے کم وولٹیج
کاشکار تھا اسے اچانک فل لوڈ کا جھٹکا لگا۔۔۔غُل بتی کے۔۔ طبق فُل روشن ہو گئے
شعور کے آگے تنی جہالت کی
چادر اٹھ گئی اور
امبھ چوپنے کے دوران پکڑی
گئی انجمن جواب بن کر سامنے آبیٹھی۔
10جولائی کو روسی شہر اوفا میں شنگھائی تعاون
تنظیم کا 15واں اجلاس ہوا۔۔اور
نواز مودی ملاقات بھی ہوئی
یہ ملاقات۔۔۔باغ میں امبھ
چوسنے کی خواہش اور اچانک پکڑے جانے کے خوف جیسی تھی۔۔۔بظاہر غیراعلانیہ۔۔۔لیکن شیڈولڈ۔۔
ملاقات کا انڈین حکومت اور
میڈیا کو تو پتہ تھا لیکن
ہمیں تب پتہ چلا جب انڈین
اسے سفارتی کامیابی کہہ چکے تھے
مودی اس ملاقات کے لئے Ambitious تھے اور ہم صرف امبھ
1947 سے آج 2015 تک پاک بھارت تعلقات Sea saw جیسے رہے۔۔۔خصوصا نواز دور
حکومت میں۔۔
فارن پالیسی عمرو عیار کی
ایسی ذنبیل ہے جس میں جب ہاتھ ڈالو کچھ نہ کچھ نکلے گا۔۔لیکن
فارن پالیسی میں کوئی دوست
یا دشمن نہیں ہوتا۔۔صرف مفادہوتا ہے۔۔۔اور وہ بھی قومی
یعنی۔۔۔فارن پالیسی اپنی
ریاست کے مفادات کو مسلسل Dominate کرنے کا نام ہے
ریاستیں آئین سے چلتی ہیں
اور
قرارداد مقاصد کا یہ جملہ۔۔۔ریاستی
آئین کی بنیاد ہے۔۔
اور پاکستان کی خارجہ پالیسی
کی بنیاد بھارت اور کشمیر ہیں۔۔
ہم نے بھارت سے weapon وار بھی لڑی۔۔۔ پراکسی وار
بھی اور کولڈ وار تو آج بھی جاری ہے
طاقت کا توازن قائم رہنے
تک دونوں ممالک میں اگلی دو بدو جنگ کا امکان نہیں۔
ہندو بنیا ہمیشہ سے عیار
اور مکار رہا ہے سو اس نے واٹر، کلچرل اور اکنامک وار بھی شروع کر دی ہے۔۔
لیکن ہمارے خارجہ پالیسی
ساز آٹیزم کا شکار ہیں۔۔
کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔جس
کو گوگل نے پاکستانی نقشے سے کاٹ دیا ہے۔۔اور ہم خاموش ہیں
پالیسی سازوں نے تو پاکستان
اسٹٹڈیز کی کُتب میں چھپے نقشے سے بھی کشمیر کو نکالنے کی سازش کی۔۔۔اور
میاں نواز شریف نے تو مودی
سے ملاقات کے ایجنڈے سے ہی کشمیر باہر نکال دیا۔۔۔بقول شاعر
بے وفا ہے وہ زمانے بھر کا
پھر بھی اچھا ہے زمانے بھر
سے
یہ سہوا نہیں ہوا۔۔۔۔1999
میں نواز۔واجپائی ملاقات سے بھی کشمیر غائب تھا۔۔جسے بعدازاں آرمی چیف پرویز
مشرف نے مشترکہ اعلامیہ میں شامل کرانے کی کوشش کی تھی۔۔
1990 میں میاں نواز شریف نے پہلی بار یوم یک جہتی
کشمیر منانے کی کال دی تھی یہ الگ بات ہے تجویز جماعت اسلامی کی تھی۔۔
کشمیر جب ہماری شہ رگ ہے
تو پھر خارجہ پالیسی سے شہ رگ کیوں کٹ گئی۔۔۔؟
مُنا کہتا ہے۔۔ یہ امبھ لینے
جانے جیسا ہے۔۔۔ لنگڑا امبھ۔۔۔
لیکن باغ وچ پھڑے گئے۔۔
اوفا ملاقات پھانسی کے مجرم
کی آخری ملاقات جیسی ہونی چاہیے تھی۔۔۔تخت یا پھر تختہ
لیکن وہاں تو رحم کی اپیلیں
کام آگئیں۔۔۔۔ قاتلوں نے رحم مانگا تھا۔۔مقتول پارٹی ہم تھے یا کشمری۔۔لیکن رحم کی
اپیل نواز شریف نے سن لی۔
ظالم سے ظلم کا تذکرہ تک
نہ کیا۔۔۔اسی ظالم سے
جس نے1947 میں دنیا کی سب
سے بڑی ہجرت کے دوران ہمارے بڑوں کا قتل کیا۔۔ماوؤں کی عزتیں لوٹیں۔۔۔بہنیں
اغوا کیں۔
جائیدادیں لوٹ لیں۔۔املاک
کو آگ لگائی۔۔وہی ظالم۔۔آج مودی کی شکل میں مسلط ہے۔۔ احمق مودی
جس نے وزارت اعلی کے دوران
گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرایا
جس نے ماووں بہنوں کو سن
47 دوبارہ یاد کرایا۔۔۔جس نے وزیراعظم بن کر پاکستان
میں گولہ باری کرائی اور متعدد بے گناہ شہری شہید کئے۔۔جس نے پاکستان توڑنے میں
اپنی شرکت کا اعتراف فتح کیا اور بنگلہ دیشں سے ایوارڈ بھی لیا
وہی ظالم۔۔۔جو گوگل پر دنیا کا احمق
ترین وزیراعظم منتخب ہوا ہے
اسی احمق نے ہمیں احمق بنا
رکھا ہے۔۔ہمارے پاس دہشت گردی میں
بھارتی involvement کے ٹھوس ثبوت ہیں
لندن پولیس کے پاس دہشت گردوں
کی مالی معاونت کے ثبوت ہیں۔۔۔اورسندھ پولیس کے پاس بھارت
سے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے اعترافی بیان بھی موجود ہے
لیکن احمق مودی نے ہمیں احمق
بنا۔۔۔
وہی مودی جو خود توڈرون بھجوا
کر جاسوسی کرواتا ہے اور پاکستان سے جانے والے کبوتر کو جاسوس سمجھ کر گرفتار کر لیتا
ہے
وہی مودی جس کے خلاف اقوام
محتدہ کی اسمبلی میں آواز اٹھانے کے فیصلہ سے یو ٹرن لے لیا گیا ہے
اُمّیدِ صُبحِ جمال رکھنا،خیال
رکھنا
خیال رکھنا۔۔۔خیال رکھنا
یہ دُھوپ اِس کی،یہ چھاؤں
اِس کی ہماری دولت
ہماری دولت
یہ خاکِ پاک اِس کی اپنی
عِزّت ہے اپنی عظمت
ہے اپنی عظمت
سفارتی تعلقات تالی کی طرح
دو ہاتھوں سے بجتے ہیں۔۔اس تالی میں دوسرا ہاتھ سرحد پار سے آتا ہے۔۔تالی بجانے کے
لئے دونوں ہاتھ برابر اٹھتے ہیں۔۔
ایک ہاتھ کو لقوہ مار جائے
تو پھر۔۔سب ختم۔۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔۔۔
میلوں ٹھیلوں میں موت کے
کنویں پر کبھی کبھار ایسا ہیجڑا بھی ناچنے آتا ہے جس کے ایک ہاتھ کو لقوہ مارا ہوتا
ہے۔۔وہ ہیجڑا اپنا بیمار ہاتھ کولہے پر رکھ کر اسے مٹکاتا ہے اور دوسرا ہاتھ چہرے کے
سامنے نچاتا ہے۔۔۔
نواز مودی ملاقات میں کشمیر
کو لقوہ زدہ ہاتھ ظاہر کیا گیا۔ایسا ہاتھ جسے کولہے پر بھی
نہیں رکھا گیا۔جو ایک آدھ شریان کے سہارے کندھے سے لٹکا ہوا ہے۔۔
ہم نے شنگھائی تعاون تنظیم
کے اجلاس میں مودی کی طرف صحت مند ہاتھ بڑھایا۔۔۔اور
ملاقات میں وزیراعظم گونگے
ہوگئے۔؟ لیکن کشمیری تو گونگے نہیں۔۔۔انہوں
نے وزیراعظم پر بیانات کی ویسی ہی بوچھاڑ کر دی
جیسی بوچھاڑ کا انہیں
1947 سے سامنا ہے۔۔انڈین فوجیوں کی گولیوں کی بوچھاڑ۔۔لیکن وہ پھر بھی زندہ ہیں
نئے دِنوں کی مُسافتوں کو
اُجالنا ہے
وفا سے آسُودہ ساعتوں کو
سنبھالنا ہے
سنبھالنا ہے۔۔۔سنبھالنا ہے
اُمّیدِ صُبحِ جمال رکھنا،خیال
رکھنا۔۔خیال رکھنا
وزیر اعظم ملاقات کے بعد
سے ابھی تک گونگے ہیں۔۔
البتہ انہوں نے اپاہیج ہیجڑے
کی طرح اشاروں میں بات سمجھا دی ہے ۔۔مودی کو آموں کا تحفہ بھیج کر۔۔
اتنے خاص آم کتنے عام بندے
کو بھجوا دئیے۔۔۔قومی آم۔۔۔لائن آف کنٹرول کے پار آم۔۔وہی
لائن آف کنٹرول کو جو جغرافیائی اور نظریاتی حدود کی لائن ہے۔
اسی مودی کو جو ہمیں دہشت
گرد بھیج رہا ہے۔۔اب تو۔۔۔پاکستانی مندوب ملیحہ
لودھی کو اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے سے منع کر دیا گیا ہے۔
تحفے دینے سے محبت بڑھتی
ہے۔تو ہندووں کے علاوہ بھی۔کئی ممالک حق ہمسائیگی کے منتظر ہیں۔
انڈیا ٹو ڈے کے نامہ نگار
اپنے مضمون ’’ضیاء الحق کا دورہ ہندوستان‘‘ میں راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر"بہرامنام"
کے تاثرات یوں لکھتے ہیں: "جنرل ضیاءبغیر دعوت کرکٹ میچ دیکھنے دہلی آ پہنچے۔تب
انڈیا پاکستان پر حملہ کرنے والا تھا۔راجیو نے ائیرپورٹ پر ضیا الحق کی آںکھوں میں
دیکھے بغیر ہاتھ ملایا۔بھگوان جانتا ہے کہ ضیا الحق اتنے آہنی اعصاب کا مالک تھا۔۔۔کہ
ہتک آمیز روئیے پر بھی مسکراتا رہا۔۔۔ چنائی جاتے وقت ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو
کہا۔۔
"مسٹر راجیو آپ پاکستان پر بے شک حملہ کریں۔لیکن
یاد رکھیں اس کے بعد دنیا چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بھول جائے گی اور صرف ضیاءالحق
اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی کیونکہ یہ روائیتی نہیں بلکہ ایٹمی جنگ ہوگی۔ممکن
ہے پاکستان تباہ ہو جائے لیکن مسلمان پھر بھی دنیا میں باقی رہیں گے لیکن ہندومت کا
پوری دنیا سے خاتمہ ہو جائے گا۔ " ضیا الحق کے الفاظ میرے جذبات جیسے ہیں۔۔میں
کبھی بھی آمریت کا حامی نہیں رہا
لیکن انڈین ملاقاتوں کے دوران
پاکستانی وزیراعظم کا رویہ مجھے جنرل ضیا جیسا چاہیے
نواز شریف پر تو ضیا الحق
کی باقیات کا الزام بھی ہے۔۔باقیات سے اتنی سی امید کچھ زیادہ تو نہیں۔۔۔؟
مُنا تو کہتا ہے
انڈیا سے سفارتی تعلقات کے
دوران وہ گردن میں اتفاق فائونڈری کا سریہ ہی ڈال لیں تو کافی ہوگا۔۔یا پھر
انڈیا کو اُس طرح ٹریٹ کریں
جیسے دو سال سے تحریک انصاف کو کیا ہے۔۔مارو یا مر جاؤ۔۔لیکن ہمیں اس طرف جا رہے
ہیں۔۔جس طرف بھارت لے جانا چاہتا ہے۔۔۔
ہم انڈیا کا اٹوٹ انگ نہیں
ہیں۔۔ہماری اپنی شناخت ہے واہگہ بارڈر والی۔۔ہم دو انتہائیں ہیں۔۔ایک نہیں ہوسکتے۔۔
ایک سردار جی فون پر: ماں
خوشخبری ھے ماں: بول بیٹا سردار: ھم دو سے تین ھو گئے ماں: مبارک ھو، بیٹا ھوا کہ بیٹی۔۔۔؟
سردار: نہیں ماں میری بیوی نے دوسری شادی کر لی ھے
نوٹ:ایسا ہو گیا تو کسی ہیجڑے
کے لئے تو قابل قبول ہوسکتا ہے۔۔۔ ہمارے لئے نہیں۔۔۔ !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں