دوسری شادی مردکی پہلی ضرورت ہوتی ہے۔بندہ
دوسری شادی کرے توکسی میم سےکرے۔جتنی دیرمیم کو زبان سیکھنے۔فرفر بولنے اور
گالیاں سمجھنے میں لگے گی۔شوہرکی زندگی پُر سکون رہے گی۔دیسی لڑکی سے دوسری شادی
کرنا۔ایسے ہی ہے جیسے بندہ موبائل کی نئی کیسنگ خرید لے۔پہلی بیوی بدتمیز ہے تو
دوسری بھی نکلے گی۔پہلی موٹی ہوگئی تو دوسری کی بھی گارنٹی نہیں۔بلکہ ممکن ہے۔پہلی
طلاق لے لے اور۔دوسری نہ لے۔طلاق کےلئےسب سےزیادہ ضروری چیزشادی ہے۔شادی ایسا
تعلق ہے۔جس میں ایک ہمیشہ درست ہوتاہے۔اور۔دوسرا شوہرہوتا ہے۔بیوی
جب کھل کے سونا چاہتی ہے۔ شوہرسےلڑائی کرلیتی ہے۔ ’’پھردونوں ہنسی خوشی
رہنےلگے‘‘۔کے اخلاقی سبق صرف نصابی کہانیوں میں ہوتے ہیں۔
خواتین کاحُسن ان کی خاموشی میں چھپا ہوتا ہے۔اسی لئے خاتون جب تک بیوی نہ بن جائے
منگل، 26 ستمبر، 2017
بدھ، 23 اگست، 2017
چائے کی پیالی میں طوفان
فیصل
آبادکاگھنٹہ گھرآٹھ بازاروں میں ویسےہی گھرا رہتا ہے۔جیسے رضیہ غنڈوں میں رہتی
ہے۔آٹھ بازاروں میں چائے کےبہت سےڈھابے ہیں۔جن میں سےکچھ سُرخوں
کےہیں۔کچھ’’سبزوں‘‘کے۔اور۔کچھ رلےملے۔ان ڈھابوں کی مشترکہ خصوصیت چائے ہے۔اعلی قسم
کی چائے۔تیز دم۔ ٹھاہ کرکے لگنے والی۔ذائقہ
اپنے پن کا۔۔تگڑا رنگ
اورجوش۔۔جیسی کئی خصوصیات والی ڈھابہ چائے۔لیکن یہاں چائےامی بناتی ہیں اورنہ ہی
امی کے گھرسےمنگوائی جاتی ہے۔اکھاڑےجب سےبندہوئےہیں۔تب سےیہ کام پہلوانوں نےسنبھال
لیا ہے۔ٹھنڈی کھوئی والےپہلوانوں نے۔میں نےاندرداخل
ہوتےہی آواز دی۔’’پہلوان ایک کڑک چائے۔ملائی مارکے‘‘۔
جمعرات، 3 اگست، 2017
آخری گنجے فرشتے
اردو ادب میں گنجے۔منٹو کی وجہ سے مشہور ہوئے اور سیاست میں’’
شریفوں‘‘کی وجہ سے۔منٹو نے گنجے فرشتے لکھ کر فلمی و غیر فلمی کرداروں
کویوں برہنہ کیا۔گویا۔وہ میامی میں کسی نیلگوں’’ بیچ‘‘ پر لیٹے سن باتھ لے رہے ہوں
۔اُسی ساحل پر جن کے بارے میں سوچ کرہی دل کمینہ ہوجائے۔اور۔خواہ مخواہ چُٹکیاں
بھرنےلگے۔گنجے فرشتے میں منٹو صاحب نے عصمت چغتائی سے لے کرفلم سٹار نسیم بانو
تک۔ سارے ملائم کردارکھردرےکرچھوڑے۔۔البتہ معروف مزاح نگار عطا الحق قاسمی نے’’مزید
گنجے فرشتے‘‘لکھ کر نہ صرف کھردروں کو ملائم کیا ۔بلکہ ان کرداروں کوکپڑے واپس
پہنائے۔جن کےمنٹو نے اتار دئیے تھے۔’’گنجے فرشتے‘‘ کے دیباچے میں منٹو خود
کہتے ہیں کہ’’میرے اصلاح خانے میں کوئی شانہ نہیں۔ میں بنائو سنگھار
کرنا نہیں جانتا۔ اس کتاب میں جوفرشتہ بھی آیا اس کا مونڈن ہوا ہے اوریہ رسم میں
نےبڑےسلیقے سےاداکی ہے‘‘۔
ہفتہ، 15 جولائی، 2017
ایک رن مرید سے مکالمہ
تمہیں پتہ ہےکہسقرا ط۔رن مریدوں کاجد امجد
تھا ۔؟۔بہت کم شوہروں پرویسا ازدواجی تشدد
ہوتاہے۔ ۔جیساسقراط پرہوتا تھا۔یہ رولنگ میرےدوست شیخ مرید نے دی تھی۔
میں
مریدکی رائے پررائے زنی کرنا چاہتا تھا۔اور۔جونہی منہ کھولا ۔توکم بخت سمجھا
۔میں جمائی لے رہا ہوں۔اور۔وہ ۔ جواب سنے بغیرہی۔۔پھربول پڑا۔کس جاہل سےمتھا۔
لگ گیا میرا۔۔تم کہیں ابوجہل کی لڑی سےتونہیں۔؟۔اس نے دوسری رولنگ دی۔تو۔میں نے
دوسری ’’جمائی‘‘ لی ۔وہ ہیٹرک چانس پر تھا ۔بولا۔بھئی میں توسقراط کی لڑی سے ہوں۔
تمہیں پتہ ہے۔سقراط کوزہرسے رغبت تھی۔؟۔ایک بار۔وہ ریاست کی سب سے بدمزاج،
بدزبان اوربدتمیزعورت کی تلاش میں نکل پڑا۔۔اور۔وہ عورت اسےمل بھی گئی۔اللہ جانے
اس میں فلسفہ تھا یا۔معرفت۔۔ کہ ’’حضور‘‘ نےاُس سے شادی کرلی۔
ہفتہ، 20 مئی، 2017
مبارک ہو طلاق ہو گئی ۔؟
یہ جولائی 2016کی بات ہے جب میرے دوست شیخ مریدنےبھری محفل
میں اعلان کردیاکہ وہ دوسری شادی
کرنے والا ہے۔اعلان سن کرہمیں دو طرح کی
فِیلنگ ہوئی۔پہلی یہ کہ’’بیوی تو ایک بھی کافی ہوتی ہے‘‘ اوردوسری یہ کہ’’بیچاری
کہیں معذورہوگی‘‘۔؟۔مرید۔
بونگیاں مارنا میں ماہر تھااورہمیں
سیاست سے نفرت تھی۔شیخ کی باتیں۔شیخیوں، بڑھکوں اورمبالغوں پرمبنی ہوتی تھیں۔اورہم ایسی سیاسی تاویلوں سے۔بےپرواہی۔بے یقینی اور۔لاتعلقی۔ظاہرکرتے تھے۔ہمارے ہاں سنجیدہ لوگ
۔ہمیشہ۔ بیوی کی باتوں
کوغیرسنجیدہ لیتےہیں۔ہم چونکہ سنجیدہ تھے۔اس لئے۔محفل میں مریدکا مقام’’بیوی‘‘والا تھا۔
منگل، 2 مئی، 2017
گنجوں کی مانگ میں اضافہ
ماں کالاڈ۔پیار۔موسمی اثرات کے زیر اثر ہوتا ہے۔اماں۔موسم سرما میںہمیں۔مٹھو،راجہ اورسوہناکہتی تھی ۔اور جونہی گرمیاں آتیں تو۔ ہم سارے بھائی ٹنڈیں کروا لیتے تولاڈ بھی
بدل جاتا۔گرمیوں میں ہم اماں کے۔ ٹینڈے، مینڈے اورکدو۔ہوتے۔ موسم گرما کی
ابتدا ہوتے ہی۔ہم گرم
پہناوں کی طرح بال بھی اتار دیتے۔کیونکہ ٹنڈکی تاثیر ستُوجتنی ٹھنڈی ہوتی
ہے۔ٹنڈ اور ختنے ہمارے ایسے تہوار ہیں۔جس کا مزہ صرف دیکھنے والےلیتے ہیں۔ مجھے یادہے۔گرمیوں میں۔ہمارے ہاں ٹنڈیں کروانے کی اجتماعی تقریب ہوتی۔تقریب کے دوران ہم رو۔روکر اور۔ بڑے ہنس ہنس کرہلکان ہوجاتے۔ہم چونکہ
جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے ۔اس لئے ہم کزنزکی ٹنڈ بھی جوائنٹلی ہوتی۔بڑوں
کوٹھولے مارنے کا شوق ہوتا تھا۔اورہمیں
بچنے کی فکر۔یوں سارا دن ٹنڈپر
ہاتھ رکھ کر میراتھن جاری رہتی۔
ہفتہ، 15 اپریل، 2017
قومی ترقی میں گدھوں کا کردار
سنو ۔! مسٹر آج کل بڑے سوٹڈبوٹڈ پھرتے ہو۔تھری پیس سوٹ ۔۔ٹائی
اورجوتے بھی برانڈڈ ہیں۔ تمہیں یاد نہیں؟ ۔ بچپن میں ہم گدھے
تھے ۔کچی جماعت سےدسویں تک۔بلکہ
ہمارے بہت سے دوست تو بڑے ہو کر بھی گدھے
ہی رہے ۔اور ہمارے بچے گدھے کے بچے ہیں۔خواہ ۔۔ تمہارے پاس ۔ نوکری۔ گاڑی۔
گھر۔بیوی اور بچے ہیں۔میرے پاس بھی ہیں۔۔لیکن ہیں تو ۔ہم گدھے۔
ہفتہ، 8 اپریل، 2017
کہانی اس مرد کی جو مرغی بن گیا۔!
تقریباً دو سال پرانی بات ہے۔بڑی عید سے چند روز پہلے میرے
دوست شیخ مرید اوربھابھی نصیبومیں لڑائی ہو گئی ۔ عید خوشیوں کا دیہاڑ ہے لیکن نصیبو
میکے جا بیٹھی۔اورنوبت علیحدگی تک پہنچ
گئی۔ہوا۔یوں کہ مرید قربانی کےلئےبیل
خریدکرلایا۔اسے کھونٹے سے باندھا ۔نصیبو بڑی
ریجھ۔سے بیل دیکھنےآئی۔لیکن ہیضے کی طرح لڑائی اچانک پھوٹ پڑی۔مرید۔دراصل چاہتا تھا کہ بیل کےلئے جو۔گانی، پٹہ، ماتھا
پٹی، نتھ اورجھانجھروہ خریدکر لایا ہے۔نصیبو
پہن کردکھائے۔آرائشی چیزیں ۔اسے پہنی ہوئی اچھی لگیں تو بیل
کو پہناؤں گا۔
ہفتہ، 1 اپریل، 2017
بوسے والے موبائل
بچپن
میں سکول سے جوئیں ڈلوا کر گھرآتے تو اللہ جانے آدھی اماں کے سر میں کیسے چلی
جاتیں۔؟۔جوئیں نکالنے کےلئے اماں۔تارا میرا۔ کا
تیل ڈال کر پہلے میرے سرمیں اور پھراپنےچمپئی کرتی۔اس کےبعد۔باریک کنگھی کے
ساتھ ایسا کومبنگ آپریشن شروع ہوتا۔کہ چٹخ پٹخ کی آواز کےساتھ لاشیں باہر گرتی جاتیں اورسرمیں
دس پندرہ دن کےلئے اتنا ہی امن ہوجاتا۔جتنا آپریشن ضرب عضب کے بعد ہوا ہے۔
سولہ سنگھار کا رواج تو اب نکلا ہے۔ تب ۔ا ماں ایک دو سنگھار ہی کرتی تھی۔اور ۔وہ بھی organic
سے ۔جیسے مہندی لگانا۔اور۔داتن کرنا ۔ مہندی تب جھاڑو کے تنکے سے لگائی جاتی تھی اور اخروٹ کی
چھال کودس بارہ منٹ تک چبانے کو داتن کرنا کہتے تھے۔
ہفتہ، 11 مارچ، 2017
بے زبان شوہر
پچھلے دنوں میرے دوست
شیخ مرید نے۔ مجھے ۔آل پاکستان رن مرید ایسوسی ایشن کا ممبر شپ فارم بھیجا ۔ ہم
دوستوں میں ایسا مذاق چلتا رہتا ہے لیکن
وہ کم بخت سیریس تھا۔مرید جب سیریس ہوجائے
تو میں پریشان ہوجاتا ہوں۔میں نے ممبر شپ
فارم الماری کے اُس دراز میں رکھ دیا تھا۔ جسے سالوں بعد صرف صفائی کے لئے کھولا جاتا ہے۔ لیکن ممبر شپ کے
لئے۔اُس کااصرار۔۔تقاضے میں بدل چکا ہے۔ کمینہ مجھےعہدہ بھی دینا چاہتا ہے میں
چپ رہوں تو۔نگوڑا۔ خاموشی کو ہاں سمجھتا ہے۔اس
لئے ہربارمیں صرف اتنا ہی کہہ پاتا ہوں۔ کہ’’میں فٹ ہوں‘‘۔
بدھ، 1 مارچ، 2017
تکیہ میراثیاں
وائسرائے ہند۔ بروس الیگزینڈر نے پٹیالہ گھرانےکے ۔موجدین۔ خان صاحب۔ فتح علی خان اور علی بخش خان کا سنگیت۔ پہلی بار سنا تو ۔پریشان ہوکر اُن کی جامہ تلاشی کا حکم دے دیا ۔کپڑے جھاڑے گئے۔اور ۔ منہ کھلوا۔
کرگلا چیک کیا گیا کہ کوئی مشین تو فٹ نہیں کر رکھی۔چوبدار جب مشین ڈھونڈنے میں
ناکام رہے تو وائسرائے نے کسبِ کمال کے اعتراف میں علی بخش خان کو جرنیل
اور فتح علی خان کوکرنیل کا خطاب دیا۔۔حالانکہ ان کی فنی ٹریننگ کسی توپ اور
بندوق کو چلانے سے نہیں۔ بلکہ ہارمونیم اور ستار بجانے سے ہوئی تھی۔ فوجی خطاب ۔ملنے پرابتدا میں تو جگ ہنسائی ہوئی ۔پھرآہستہ آہستہ۔سارا جگ معترف
ہوگیا۔جرنیل اورکرنیل۔دونوں کبھی رنگروٹ بھی بھرتی نہ ہوئے تھے لیکن کلیدی عہدوں پر پہنچ گئے ۔
بدھ، 8 فروری، 2017
بابا مسابا مرگیا۔۔!
دماغ کی طرز پر۔ اگرموبائل فون
کی کوئی ایپلی کیشن ہوتی تو اس کے صارفین کی تعداد بھی کافی زیادہ ہوتی ۔ ذرا تصور کریں۔جس کےپاس دوموبائل ہیں۔اور دونوں میں’’دماغ ایپ ‘‘ ڈاؤن لوڈ۔ہو تو دماغ کتنا چلے۔؟۔موبائل گھر والوں سے رشتہ توڑ کر دنیا والوں سے تعلق
جوڑنےوالا آزمودہ آلہ ہے۔بلکہ موبائل بچوں کی سپورٹس گراؤنڈ، بیوی کی سیرگاہ اور شوہر کی پناہ گاہ ہے۔ مرد ۔آج جتنا موبائل کے پیچھے پاگل ہے ۔اُتنا
کبھی عورت کے پیچھے ہوتا تھا۔اور عورت آج
جتنی موبائل میں گم ہے اِتنی ۔وہ کبھی
امورِخانہ داری میں ہوتی تھی۔ کہتے ہیں کہ
مرد۔بچپن سے جوانی تک دماغ کا استعمال کرتے ہیں ۔پھر شادی ہو جا تی ہے ۔شادی
کے بعدشوہر کا دماغ ۔ بیوی ۔ ہیپناٹائز کر لیتی ہے۔ ہر بیوی کے پاس دو ۔ دماغ ہوتے
ہیں۔ ۔ڈبل سم موبائل کی طرح ۔سِم ون کے سگنل پہلے ہی آوٹ ہوتے ہیں۔ہیپناٹائزہونے کے
بعد سم ٹو بھی بند ہو جاتی ہے۔۔
منگل، 31 جنوری، 2017
ٹرمپ کے بعد ٹرمپی جوتوں کی مانگ
مجھےحیرت ہوئی جب بہت سے پاکستانیوں نے ہیلری
کی ہارپر افسوس سے زیادہ ٹرمپ کی جیت پر دکھ
کا اظہار کیا۔ ہیلری اپنی خالہ ہے اور نہ ہی ٹرمپ ماسڑ ۔ ۔پھر بھی ہم نے
چوہےبلی کا کھیل پورا کھیلا۔’’بے لذت گناہ‘‘ میں سے اپنا حصہ سمیٹا۔یہ سارے نامراد مسلمانوں کےدشمن ہیں۔ کھلے دشمن۔ عد
و المبین۔۔مسلمانوں کو لڑا۔کے حکمرانی
کرنے کے فارمولے پر گامزن۔۔۔امریکیوں نے الیکشن میں دو برائیوں میں سے ایک کا
انتخاب کرنا تھا۔سو ہیلری ہار گئی۔ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف جو ۔ مغلظات بکیں۔ وہ ۔ واضح اشارہ تھا کہ امریکہ کا ۔سر پھرا۔ حکمران۔طرزحکمرانی کے کس نظرئیے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کے باوجود
امریکیوں نے ایک بدتمیز شخص کو اپناصدر چنا ۔ٹرمپ کی جیت نے ثابت کیا کہ امریکی۔ بھی بدتمیز ہیں۔کیونکہ پرانی کہاوت ہے
کہ ’’جیسی قوم۔ ویسے حکمران۔‘‘بالکل ویسے ہی جیسےہندوؤں نے ہندوستان میں
انتہاپسند مودی کو جتوایا ۔ ۔اس حساب سے
تو ہم پاکستانی کرپٹ قوم ہوئے۔ میرا دوست
شیخ مرید مسلسل بولے جا رہا تھا۔
منگل، 24 جنوری، 2017
کیا بلاول۔ بھٹوکوزندہ کر لیں گے۔؟
میں سیاسی طور پر دھریا ہوں۔۔میرےمن نے آج تک۔ایسا کوئی سیاسی بُت نہیں تراشا۔ جس کا
میں پجاری بن جاؤں۔ ماتھے پر قشقہ لگاؤں۔رتے۔رنگ کا چوغا۔ پہنوں۔
بن میں ۔جوگی بن کے پباں بھار ۔ ناچتا پھروں۔۔ سیاست کے بت کدے میں بھگوان بنے
بیٹھے لوگ مجھے کبھی نہیں بھائے۔لیکن میری یہ خواہش ضرور رہی کہ کو ئی سلطان محمود غزنوی آئےاور ناخداؤں کےسارے
سومنات پاش پاش کردے۔ پھر وہ نئے حرم کی
بنیاد رکھے۔ ایسا حرم جس کی بنیادوں۔
میں۔توحید اوروطن پرستی کا مکسچر
ڈالا جائے۔تاکہ سارے دھریئے۔ایمان لے آئیں۔وطن سے محبت میرا ایمان ہے۔بلکہ میں
اور پاکستان عشق ۔مجازی میں مبتلا ہیں۔مجھے وطن سے عشق کرنے والے رقیب چاہیں۔سب
سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ۔قلب
اطہر سے۔پاکستان کھپے۔والا نعرہ لگانے والے ۔
ہفتہ، 14 جنوری، 2017
خواجہ سرا۔ ناچنا چھوڑ دیں گے۔؟
مغل بادشاہ۔شاہ جہان
نے اپنے بڑے بیٹے دارہ شکوہ کوسلطنت کا ولی
عہد نامزد کیا تو دوسرا بیٹا اورنگزیب ناراض ہو گیا۔ اس نے غصے میں آکر شاہ جہان کو گرفتار کرکے آگرہ قلعہ میں قیدکرلیا ۔تخت
مغلیہ کا حاکم اچانک تختہ کا قیدی بن گیا۔اورنگزیب نے خزانے کی نگرانی پرمعتمد نامی۔خاص الخاص خواجہ سرا کو مقررکردیا۔شاہ جہان
کو کسی قسم کی خط و کتابت کی اجازت نہ
تھی۔ایک بار۔اورنگزیب۔ قیدی باپ سے ملاقات کرنے گیا تو شاہ جہان نےپوچھا :اورنگزیب مجھے بتاؤ۔وفانامی
خواجہ سرا کا کیا ہوا۔؟
شہنشاہ :اس کا وہی حشر ہوا جوباغیوں کا ہوتا ہے۔میں تمام خواجہ
سراؤں کوتنبیہ کر چکا ہوں۔اگرکسی نے وفا جیسی کوئی حرکت کی توانجام بھی وفا جیسا ہی ہوگا۔ہاں اگر خط لکھوانا بہت ضروری ہے تومیں ایک خواجہ سرا۔مقررکروں
گا۔آپ خط کا مضمون بول دیا کریں وہ لکھ دیا کرےگا۔منٹوکے’’ ڈرامے شاہ
جہان کی موت‘‘ سے اقتباس
ہفتہ، 7 جنوری، 2017
بچے پیدا کرنا۔۔بس کر دو۔ !
’’زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گذر پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی‘‘۔
سحر لدھیانوی کا یہ مصرعہ
صرف محبوبہ کے لئے ہے۔ اور میری تو شادی ہو چکی ہے۔محبوبہ ایسا افسانوی وتخیلاتی کردار ہے۔ جس کےحصول کی آرزو ۔اور۔
جستجو توکی جا سکتی ہے۔لیکن حاصل گفتگو زیرو ہے ۔ بیویوں کوسحر لدھیانوی کے مصرعے سے استثنائی حاصل ہے ۔ میں
اگرچے شادی شدہ ہوں۔ اس کے باوجود میرے مواخذے کی تحریک جاری رہتی ہے۔بیوی سرچ انجن کی طرح کام کرتی ہے۔جیب۔دراز۔آفس بیگ۔بٹوہ۔
موبائل پیغام۔ پکچر گیلری ۔کوٹ کے کالر۔
پرفیوم کےفلیور۔وغیرہ ہر چیز کی تلاشی
سارا سال جاری رہتی ہے۔اور بیوی کا علم
ایسا کہ۔ غلط اورصحیح معلومات۔فورجی ڈیٹا سروس کی طرح۔ بیک زبان جنبش۔ فورا نکال باہر کرتی ہے۔کم و بیش ہر بیوی گوگل جیسی خصوصیات
کی حامل ہوتی ہے۔ ان سے کچھ بھی پوچھیں تووہ کچھ بھی جواب دے
دیتی ہے۔اور شوہر کچھ بھی سمجھ سکتے ہیں۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)