مغل بادشاہ۔شاہ جہان
نے اپنے بڑے بیٹے دارہ شکوہ کوسلطنت کا ولی
عہد نامزد کیا تو دوسرا بیٹا اورنگزیب ناراض ہو گیا۔ اس نے غصے میں آکر شاہ جہان کو گرفتار کرکے آگرہ قلعہ میں قیدکرلیا ۔تخت
مغلیہ کا حاکم اچانک تختہ کا قیدی بن گیا۔اورنگزیب نے خزانے کی نگرانی پرمعتمد نامی۔خاص الخاص خواجہ سرا کو مقررکردیا۔شاہ جہان
کو کسی قسم کی خط و کتابت کی اجازت نہ
تھی۔ایک بار۔اورنگزیب۔ قیدی باپ سے ملاقات کرنے گیا تو شاہ جہان نےپوچھا :اورنگزیب مجھے بتاؤ۔وفانامی
خواجہ سرا کا کیا ہوا۔؟
شہنشاہ :اس کا وہی حشر ہوا جوباغیوں کا ہوتا ہے۔میں تمام خواجہ
سراؤں کوتنبیہ کر چکا ہوں۔اگرکسی نے وفا جیسی کوئی حرکت کی توانجام بھی وفا جیسا ہی ہوگا۔ہاں اگر خط لکھوانا بہت ضروری ہے تومیں ایک خواجہ سرا۔مقررکروں
گا۔آپ خط کا مضمون بول دیا کریں وہ لکھ دیا کرےگا۔منٹوکے’’ ڈرامے شاہ
جہان کی موت‘‘ سے اقتباس
منٹو
نے ہیجڑوں کی تین خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ محافظ تھے۔ دوسری ۔ خط
نویس اور تیسری یہ کہ وہ قاصد بھی تھے ۔ ہیجڑے۔کئی
صدیوں تک درباروں اور اقتدارروں میں۔ رہے ہیں۔ ۔نواب آف اودھ پور نے محل کی
پاسبانی کے لئے۔ ہیجڑوں کی بٹالین بھی
بنائی تھی ۔ مغلوں سے سلطنت کیا چھینی۔ہیجڑوں سے چھت
چھن گئی۔ آج لوہاروں کو مغل کہا جاتا ہے
اور خواجہ سراؤں ۔کو۔ کھسرے ۔بیچارے محل سے محلے میں آگئے ہیں۔
سالوں
پہلے محلوں کے قریب ایسی بستی ہواکرتی تھی۔ جہاں عام آدمی کا جانا ممنوع اور نکلنا مشکوک ہوتا تھا۔غدر کے بعد محل سے
نکلے والوں نے یہ محلے آباد کئے تھے۔پکی
کالونیوں کے قریب ہی کچے گھر وں والی بستی۔کھُسر محلہ کے نام سےبدنام تھی ۔ڈھولکی والا۔ چمٹے والا ۔اور ناچنے والا
۔پاس پاس ہی رہتے تھے۔ اپنی’’ باجی ‘‘کے پاس پاس۔پکے گھروں کے آس پاس ۔ چوبدار۔کے
بلاوے کے انتظار میں کہ ’’خواجہ سرا حاضر ہو۔ بدائیاں لینے کے لئے ۔منڈا ۔پیدا ہوا ہے‘‘۔اب تو گھر ویلوں سے چلتے
تھے۔قاصدی تو اب موتی چورلڈو بنانے والے
حلوائی کرتے تھے جوکبھی کبھارکھسر پھسر کر دیتے کہ فلاں گھر سے لڈووں کا آرڈر ملا ہے۔حلوائیوں
اور کھسروں کے لڈو اکٹھے پھوٹتے تھے۔کھسرے جونہی محلے میں داخل ہوتے تو۔شریر انہیں زچگی والے گھر تک چھوڑ کے آتے۔گلی
گلی شور مچ جاتا۔ آ گئے ۔ آگئے۔۔ بچے کی
چاچیاں، ماسیاں۔ مامیاں۔تائیاں اور ہمسائیاں ۔کرسیاں۔ پیڑھیاں رکھ کر مجرے دیکھنے بیٹھ جاتیں ۔ نگوڑی جمہوری حکومت آئی تو نئی پریشانیاں لائی۔ ٹی وی
پر اشتہار چلا چلا کرباؤلا کر دیا کہ’’بچے دو ہی اچھے‘‘۔ایسی نس بندیاں ہوئیں کہ روزگاربھی بندہو گیا۔ غربت بڑھتی گئی اور کھسر محلے کے گھرشرفا نے خرید
لئے۔یوں خواجہ سر ا ۔ محلے اور پھر سڑکوں پر آگئے۔
بڑے
شہروں کےٹریفک سگنلز پر جو واحد چیز
تھرکتی نظر آتی ہے ۔وہ ہیجڑے ہوتے ہیں۔پی پی پاں پاں پر تھرکتے، بھاگتے ، دوڑتے ہیجڑے۔ مانگت
ہیجڑے ۔جن میں سے کچھ نہر کے
کناروں پر شفٹ ہو گئے۔اورجنہیں خود
آرائشی کا شوق تھا ۔وہ موت کے کنوئیں پر جا بیٹھے۔ وہاں جا کر وہ ۔ لیڈی بن گئے۔ لوفر
۔ ان سے ٹھٹھے بازی کرتے تو وہ چھبیاں دیتے ۔ غرارہ۔ شرارہ ۔
ساڑھی ۔ کیپری ۔شلوارسوٹ۔ میکسی۔جینز۔سکرٹ ۔ وہاں ۔انہیں ہر لباس پہننے کو ملا ۔لیکن ناچنے کے لئے ۔ گھروں سے دھتکارے ہوئے یہ لوگ ۔۔
ریاست میں بھی دھتکارے گئے ۔ انہیں ریاستی شہری بننے کے لئے طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی۔الماس
بوبی کے بعد ہیجڑوں کی سب سے بڑی جنگ سابق
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لڑی۔انہوں
نےخواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ،ووٹ اور
سرکاری نوکریوں ۔کے تین اہم فیصلے کئے۔انہیں
نرسنگ یا ۔دائی۔۔ نادہندگان سے وصولی ۔
جیسے کام پر لگانے کی ہدایت کی۔ لیکن احکامات
پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ میرا دوست مرید
کہتا ہے کہ کھسرے ناچنے کے شوقین ہیں ۔حکومت
انہیں ڈانسنگ کلب کھول کر دے تاکہ وہ عزت سے کما سکیں ۔اگر اسلامی ریاست میں
شراب کی فیکٹریاں کھل سکتی ہیں تو ڈانسنگ کلب کیوں نہیں۔؟۔
ڈانسنگ
کلب کتنے کھولنے ہیں اور ہیجڑے کتنے ہیں۔ ؟ کسی کو نہیں پتہ۔ البتہ ’ساتھی فاؤنڈیشن‘ کا دعوی ہے کہ ملک میں کھسروں کی تعداد6 لاکھ
سے زیادہ ہے۔اورپنجاب حکومت کی ایک رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ صوبہ میں تقریبا 1ہزار716
ہیجڑے ہیں۔جن میں 149افراداپنی مرضی سے ہیجڑابنے ہیں۔مجھے
تو محترمہ بشری رحمن کا جملہ یادآ گیا۔”ہیجڑے
ہوں گے قوم کا خزانہ لوٹے والے۔قرض معاف کرانے والے۔ٹیکس چور۔بجلی چور۔قانون
شکن۔ہیجڑے ہوں گے وہ جو وقت پرصحیح فیصلے نہیں کرتے۔جو غبن کرکے بھاگ جاتے
ہیں‘‘۔اورحسن عباس رضا کا کیا اعلی شعرہے۔
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے لٹ جانے کا
گویا پہرے پہ کوئی خواجہ سرا بیٹھا ہے
کھسروں
کا انسانی بستیوں سے رابطہ ان تماش بینوں کی وجہہے۔جو۔میلہ میلہ گھومتے ہیں اورپھرپارسا۔کے ۔پارسا۔پنجاب میں اب بچہ پیدا ہونےپرکھسرے نچانے کی روایت دم توڑ
چکی ہے۔مہندی کی رات طوائفیں بلانے کی
سکت نہ رکھنے والے سستے تماش بین۔کھسرے
بلاتے ہیں۔دادرا۔ اورٹھمری پرمٹکنے والے کھسرے۔کیونکہ۔یہ مردوں کا
معاشرہ ہے۔ایسے’’اوباشوں‘‘ کا جو شادی کےبعدبھی چوباروں پرتعلق رکھتے ہیں۔اوراسے شانِ مردانگی سمجھتے ہیں۔چوباروں پر’’شرفا‘‘کی حرامی اولادیں۔وہ
مائیں پال رہی ہیں۔جوکبھی بیوی نہیں بنیں۔الماس بوبی نے ایک بار کہا تھا کہ’’ جس مرد کوبچوں کی خواہش نہ ہو وہ۔ہماری
کمیونٹی میں شادی کرلے۔ اداکار دلیپ کماراورمحمدعلی نےبھی تو بغیر اولاد کے
زندگی گزاردی۔شٰیخ رشیدکوبھی اولاد کی خواہش نہیں۔ ایسے اوربھی بہت ہوں گے
۔جنہیں بچے نہیں چاہیں‘‘۔
بچپن میں ہم اکثر لڑائیوں کے فیصلے ۔ اکڑ ۔بکڑ ۔ بمبے۔ بو۔۔اسی ۔نوے ۔پورے ۔
سو ۔سے کر لیتے تھے۔اللہ جانے اکڑ ۔بکڑ۔
کامطلب کیا ہے۔لیکن فیصلے اتنے قلعہ بند ہو تے کہ کسی میں مزاحمت کی جرات نہ ہوتی۔آج پوری قوم ۔تعداد کے اعتبار سےاکڑ
بکڑ بمبے بو ہے۔ہم تقریبا ایک ہجوم ہیں۔ 20 کروڑ یا اسی ۔نوے پورے سو۔اکڑ بکڑ بمبے
بو۔ان میں خواجہ سرا شامل نہیں ہیں۔لیکن مرید کہتا ہےکہ بحثیت مجموعی ہم ہیجڑا قوم ہیں۔ہماری باجیوں نے
ہمارے حقوق سلب کر رکھے۔۔20 کروڑ ہیجڑے اور 2 ہزار باجیاں۔ہم صرف۔کھسرپھسر کرسکتے ہیں۔
خبر یہ ہےکہ حکومت نےمارچ 2017 میں
ہونے والی مردم شماری میں ہیجڑوں کوبھی شامل کرنے کاحکم دیا ہے۔ نادرا کو
ہدايات جاری کردی گئی ہيں۔1998میں قوم کو آخری
بارگنا گیا تھا۔اس کے بعد سے صرف تولا ہی گیا ہے۔اب تو خواجہ سراؤں کو شمارکرنے
کی بھی تجویز ہے۔ اب وہ ریاست کے رجسٹرڈ
شہری ہوں گے۔کیا ۔وہ ناچنا چھوڑدیں گے۔کیا وہ۔ اُن حقوق کا مطالبہ بھی کرسکیں گے جو آج تک۔ پہلے سے رجسٹرڈ شہریوں کوبھی نہیں ملے۔۔مریدتو کہتا ہے کہ حقوق تو بعد میں
پہلے تو۔ان بیچاروں کو وہ مولوی چاہیے جو
مرنے کے بعد جنازےسمیت آخری رسومات کی ادائیگی کروا سکے۔یہ مسئلہ کسی قاضی یا
چوبدار کا نہیں بلکہ ظلِ الہی کا ہے۔شاہی فرمان نہ آیاتو۔ ہیجڑےمحل سے باہر ہی
رہیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں