منگل، 24 جنوری، 2017

کیا بلاول۔ بھٹوکوزندہ کر لیں گے۔؟

میں سیاسی طور پر دھریا ہوں۔۔میرےمن نے  آج تک۔ایسا کوئی سیاسی بُت نہیں تراشا۔ جس کا میں پجاری بن جاؤں۔ ماتھے پر قشقہ لگاؤں۔رتے۔رنگ  کا چوغا۔ پہنوں۔ بن  میں ۔جوگی بن کے پباں بھار ۔  ناچتا پھروں۔۔ سیاست کے بت کدے میں بھگوان بنے بیٹھے لوگ مجھے کبھی نہیں بھائے۔لیکن میری یہ  خواہش  ضرور رہی کہ  کو ئی سلطان محمود غزنوی آئےاور ناخداؤں کےسارے سومنات پاش پاش کردے۔ پھر وہ  نئے حرم کی بنیاد رکھے۔ ایسا حرم جس کی بنیادوں۔  میں۔توحید اوروطن پرستی  کا مکسچر ڈالا جائے۔تاکہ سارے دھریئے۔ایمان لے آئیں۔وطن سے محبت میرا ایمان ہے۔بلکہ میں اور پاکستان  عشق ۔مجازی  میں مبتلا ہیں۔مجھے وطن سے عشق کرنے والے رقیب چاہیں۔سب سے پہلے پاکستان  کا نعرہ لگانے والے ۔قلب اطہر سے۔پاکستان کھپے۔والا نعرہ لگانے والے ۔
پاکستان کھپے۔یہ  نعرہ پیپلزپارٹی  کا ہے ۔جو۔ آج تاریخ کے نازک  ترین موڑ پر کھڑی ہے۔ دسمبر 2007 میں  بے نظیر بھٹو کی   شہادت کے بعد پیپلزپارٹی کواقتدار ملا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ بھٹو مر چکے ہیں لیکن یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے انہیں زندہ رکھا ہواتھا۔2008 میں ملنے والے اقتدارکے دوران پیپلزپارٹی نےخاصی محنت سےبھٹو کو دفن کردیا ۔اب کوئی’’یدبیضا‘‘ ہی مردے میں جان ڈال سکتا ہے۔ صدر۔ زرداری، وزیراعظم  گیلانی اور۔وزیراعلی قائم علی شاہ  کی انتھک محنت نے بھٹو کو پہلے دلوں سے  پھر گھر وں سے  نکالا۔زندہ ہے بھٹو کہنے والے’’تبدیلی‘‘کا شکار ہو گئے۔انہیں اقتدار تو نہ مل سکا لیکن وہ بنی گالہ کی غلام گردشوں   میں ۔کونجوں   کی ڈار کی طرح قطار اندر قطار۔ضرور کھڑے  ہیں۔میرا دوست  شیخ مرید کہتا ہے کہ سیاست ڈربی ریس  کی طرح ہوتی ہے۔جہاں  ہارس ٹریڈنگ ہوتی رہتی ہے۔ گھوڑے فی الحال تو اپنے اپنے اصطبل میں ہیں۔اس سال پپیلزپارٹی۔ہارس ٹریڈنگ کی سب سے بڑی منڈی لگائے گی۔
پاکستان ایسا ملک ہے جہاں اسمبلی  سے زیادہ  سیاست سوشل میڈیا پر ہوتی ہے۔بلکہ فیس بک تو ملکی سیاست کا ہائیڈ پارک ہے۔جہاں تبصرے کرنے والے بھی موجود ہیں اورتنقید والے بھی۔جہاں نواز شریف کو وزیر اعظم ماننے والے اور۔رسیدیں مانگنے والے بھی ہیں۔عمران خان کوتبدیلی کی امیدسمجھنے والے اور یوٹرن  خان کہنے والےبھی ہیں۔جہاں بلاول کو لیڈرماننے والے اور بلو رانی کہنے والےسبھی بیٹھے ہیں۔ سوشل میڈیا پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی اسمبلی ہے۔جہاں  روزانہ ہزاروں ، لاکھوں لوگ سیاست کرتے ہیں۔جہاں لڑکے ۔لڑکیاں بن کر جعلی اکاونٹس چلا رہےہیں۔ مرید کہتا ہے کہ فیس بک پرجعلی اکاونٹس بنانے والے لڑکے ۔ لڑکی تو بن گئےہیں لیکن یہ کم بخت عمر بھر ماں نہیں بن سکتے‘‘۔
پیپلزپارٹی پاکستانی سیاسی جماعتوں کی ایسی ماں ہے۔جسےکبھی پھانسی دے کررنڈوا کیا گیا اورکبھی بم دھماکے۔ کرکے بےاولاد ۔ستم رسیدہ پیپلزپارٹی کی باگ دوڑ آج بلاول زرداری کے ہاتھ میں ہے۔وہ پیپلزپارٹی کی حیات نوکاعزم لے کر نکلے ہیں۔2013 کے انتخابات میں طالبان کی دھمکیوں کی  وجہ سے  پیپلز پارٹی انتخابی مہم نہیں چلا سکی تھی۔خوف ایسالرزہ خیز  تھا کہ جیالوں  نے ووٹ بھی  دوسری  جماعتوں کو  ڈال دئیے۔پیپلزپارٹی کو احساس ہوچکا ہے کہ مکئی بیج کر گندم  نہیں کاٹی جا سکتی۔بھینس بیچ کر گھوڑی کوئی نہیں  خریدتا۔۔سندھ جیت کر اسلام آباد نہیں ملتا۔پنجاب میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا   جوحشر  ہو چکا ہے۔  اسے نشر کرنا مشکل کام نہیں۔ اور۔حشربرپاکرکے پارٹی بلاول کو تھما دی گئی ہے۔ کلی جان  اوردکھ ہزار۔ والا معاملہ ہے۔ بلاول جانتے ہیں کہ  اسلام آبادجانا ہے تو پنجاب  جیتناضروری  ہے۔وہ عزمِ نو کے ساتھ پنجاب میں آچکے ہیں۔مردے۔زندہ کئےجا رہے ہیں۔پنجاب اچھا خاصا تھرڈ پارٹی سسٹم کی طرف جا رہا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی لاپرواہی سے۔یہاں دوبارہ ٹو پارٹی سسٹم رائج  ہو چکاہے۔ نواز لیگ پنجاب میں پہلے نمبر پر کھڑی ہے۔پی ٹی آئی۔ن لیگ کی جگہ لینا چاہتی ہے لیکن پیپلزپارٹی پنجاب میں صرف جگہ  لینا چاہتی ہے۔اسی لئے تولاہور سے فیصل آباد تک کرپشن مخالف احتجاجی  ریلی   نکالی گئی۔
بلاول۔ریلی کے لئے بحریہ ٹاؤن میں واقع  اپنے گھر  سے نکلے لیکن ریلی کا آغاز  سگیاں لاہور سے ہوا۔پھرشرکا شیخوپورہ روڈ، کوٹ عبدالمالک، فیروز وٹواں، ماناوالہ، کھڑیانوالہ، عبداللہ پور،اسٹیشن چوک  اورضلع کونسل چوک پہنچے۔یہ ماننا پڑےگا کہ ریلی شاندار تھی۔اوراستقبال پرتپاک۔ لیکن استقبال کرنے والے ریلی میں آنےکے بجائے گھروں کو چلے  گئے۔گاڑی کاانجن تو تھا لیکن بوگیاں نہ تھیں۔کاررواں ضلع کونسل چوک پہنچا۔ تو پنڈال  میں  جیالے بھی  کم تھے۔2013 کے الیکشن والا نتیجہ پھر آ چکا تھا۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں دوسری  با ر ۔ ہا ر چکی تھی۔
ایک سیاستدان نے جلسے میں خاصی لمبی  تقریر کردی اور۔لوگ  جاناشروع ہو گئے تو اسٹیج سیکرٹری نے چٹ بھیجی کہ تقریرذرا مختصر کر دیں۔
لیڈر :بس تھوڑی سی تقریر رہ گئی ہے۔
پنڈال  سے آواز آئی ہم بھی تھوڑے ہی رہ گئے ہیں۔
ضلع کونسل چوک میں رش کم  اور۔اندھیرا مسلسل  زیادہ ہو رہا  تھا۔  بلاول نے انتہائی مختصر خطاب کیا۔انکل نواز اورانکل شہباز تقریر کا موضوع رہے۔انکل الطاف،انکل شیخ رشید اور چچا عمران کو کچھ نہ کہا۔رات فیصل آباد کے نجی ہوٹل میں  بسر کی۔شو فلاپ ہونے پرمقامی قیادت کوصلواتیں بھی سنائی گئیں۔ اگلے روز کارکنوں کے ساتھ  پائے ،حلوہ پوری ،آملیٹ ،چائے اورلسی کا  ناشتہ کیا۔سابق ٹکٹ ہولڈر اعجاز چوہدری کے ڈیرے پر جیالوں سے خطاب کرنے پہنچے تو ٹانگوں سے معذور جڑانوالہ کا رہائشی  یونس انجم  بھی وہاں موجود تھا۔بلاول اسے دیکھ کرسٹیج سے نیچےآئے اورقالین پر بیٹھ گئے۔یونس نے پیپلز پارٹی سے وابستگی کا تذکرہ چھیڑا ۔ اور۔بے نظیر بھٹو سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ تو بلاول نے یونس کا ہاتھ کافی دیر تک تھامے رکھا۔ایسی شعبدہ بازیاں سارے سیاستدان کرتے ہیں۔اقتدارمیں آنے والوں کو تھرمیں سسکتی انسانیت ہمیشہ بھول جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ز ندگی میں اگرآپ کو لیموں ملے تو جا کر مالٹے کا جوس نکال لیں۔شائد بلاول نے یہ سن رکھا ہے۔اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ 2018 میں پاکستان کے صدرزرداری ہوں گے اور۔ وزیراعظم میں بنوں گا۔مرید کہتا ہے کہ’’سیاستدان ہمیشہ اقتدار پر مبنی خواب  دیکھتے ہیں۔ جھنڈے والی گاڑی، پروٹوکول والے۔خواب ‘‘۔ پنجابی جیالےتقریبا چار سال قیادت سے مایوس  رہے۔ خواب آج کل منظور وسان دیکھ رہے ہیں۔ جن کی تعبیر ڈھونڈنے بلاول میدان میں آئے ہیں۔لیکن میدان میں خواب نہیں حقیقتیں ہیں۔ تلخ حقیقتیں ۔ایفی ڈرین،اوگرا ۔اور حج سکینڈل جیسی حقیقتیں۔بیچارہ بلاول کم عمری میں ہی۔ سیاست کا روگ لگا بیٹھاہے۔سیاسی امور نے انہیں شادی بھی بھلا دی ہے اور۔پیرس ہلٹن کے ساتھ لی گئی سیلفیاں بھی۔مریدتو کہتا ہے کہ‘‘بلاول اور ایان علی۔ کسی اور کی خطاؤں کی سزا بھگت رہے ہیں‘‘۔
پنجاب کی  ن لیگی سیاست  میں  چند سال پہلے تک جو مقام  پیپلز پارٹی کو حاصل تھا۔ اب وہ  تحریک انصاف کے پاس ہے ۔ سیاستدان  روزانہ اپنی اپنی حیثیت کےمطابق دشنام گفتاری میں مصروف رہتے ہیں۔مخالف سیاستدانوں   کی ذاتی زندگی پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ مجھےخوشی ہےکہ سیاسی گولہ باری کے دوران عزیز واقارب کوبھی نہیں بخشا جا رہا۔سیاست میں ذاتی زندگی پر حملوں۔ کی صنف کا نیا نیا ارتقا ہوا ہے۔ حدود سے متجاوز گفتگو  مجھے اچھی لگتی ہے ۔ حمام میں سارے ننگے ہو رہے ہیں۔ ناخداؤں کو برہنہ دیکھ کر مزا آ رہا ہے۔اور میرا سیاسی عقیدہ مسلسل  مضبوط ہو رہا ہے لیکن  مجھےمحمود غزنوی کا انتظار ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں