ہفتہ، 15 جولائی، 2017

ایک رن مرید سے مکالمہ

تمہیں پتہ ہےکہسقرا ط۔رن مریدوں کاجد امجد تھا ۔؟۔بہت کم شوہروں پرویسا ازدواجی تشدد ہوتاہے۔ ۔جیساسقراط پرہوتا تھا۔یہ رولنگ میرےدوست شیخ مرید نے دی تھی۔
میں مریدکی رائے پررائے زنی کرنا چاہتا تھا۔اور۔جونہی منہ کھولا ۔توکم بخت سمجھا ۔میں جمائی لے رہا ہوں۔اور۔وہ ۔ جواب سنے بغیرہی۔۔پھربول پڑا۔کس جاہل سےمتھا۔ لگ گیا میرا۔۔تم کہیں ابوجہل کی لڑی سےتونہیں۔؟۔اس نے دوسری رولنگ دی۔تو۔میں نے دوسری ’’جمائی‘‘ لی ۔وہ ہیٹرک چانس پر تھا ۔بولا۔بھئی میں توسقراط کی لڑی سے ہوں۔ تمہیں پتہ ہے۔سقراط کوزہرسے رغبت تھی۔؟۔ایک بار۔وہ ریاست کی سب سے بدمزاج، بدزبان اوربدتمیزعورت کی تلاش میں نکل پڑا۔۔اور۔وہ عورت اسےمل بھی گئی۔اللہ جانے اس میں فلسفہ تھا یا۔معرفت۔۔ کہ ’’حضور‘‘  نےاُس سے شادی کرلی۔
یہ کوئی غیرمرئی شادی نہیں تھی۔۔پورےیونان نے دیکھاکہ حضورنےطوفان کو سسرال سے اپنے گھر منتقل کیا۔اسی مہم جُوئی کے دوران وہ رن مریدہوا۔ہوگا۔؟ ۔۔ یہ زہرکا پہلا پیالہ تھا  جوحضورنے پیا۔ناصرکاظمی نے حضورکے لئے۔ہی توکہا تھا۔۔

پی جا ایام کی تلخی کوبھی ہنس کر ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزارکھا ہے۔
۔تیسری جمائی۔۔لیکن میں شادی کےمعاملے میں۔۔بالکل سقراطی نہیں ہوں۔تمہاری بھابھی(نصیبو) مجھے ٹپکے کے آم کی طرح اچانک ملی تھی۔ ۔آم کوسونگھتے ہی بھوک لگ جاتی ہے۔ناں ۔؟۔ویسے ہی شادی کے ابتدائی دنوں میں مجھےبھی لگتی تھی۔۔اورمیں اسے دنیا سےچھپا چھپاکر رکھتا تھا۔ جیسے امبیوں کو بھوسے میں چھپاکر رکھتے ہیں۔پھر ایک دن وہ پک گئی۔بیوی جب پک جائے تووہ شوہرکو پکانےلگتی ہے۔پکنے کے ڈرسے۔میں خود ہی بھوسے میں چھپنے لگا تھا۔اچانک اُس کی تاثیر آم جتنی گرم ہوگئی۔سچ تو یہ ہےکہ ہربیوی کی تاثیرگرم ہوتی ہے۔مجھ احمق پر سارے بھیدشادی کے بعدکھلے تھے۔۔حضور۔چونکہ مفکرِ اعظم۔بلکہ۔مریدِ اعظم بھی تھا۔اس نے توشادی ہی باغی ڈھونڈکر کی تھی۔وہ جانتا تھاکہ صبرفلسفے کی تخلیق کابنیادی عنصرہے ۔اور۔شادی سے بڑا صبرکوئی نہیں ہوتا۔پورے یونان کی شورش اُس ’’جِیون جوگے‘‘کےگھر میں برپا تھی۔گھرکا طوفان ابھی تھما نہ تھاکہ حضورپرنوجوانوں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام لگ گیا۔جیوری بیٹھی ۔دلائل ہوئے۔صفائی بھی دی۔لیکن حضورسارے پیپروں میں فیل ہوگیا۔ جیوری نے۔اسے اپنی سزا خود چننے کا اختیار دیا۔۔مینئیومیں اس کے سامنے، عمرقید، قیدبا مشقت، جلاوطنی، کوڑے اور پھانسی شانسی کا آپشن تھا لیکن اسے خودکشی پسندتھی۔سو اس نے دوسری بار ۔زہر کا پیالہ آرڈرکر دیا۔اللہ ہی جانے۔کس سانپ کا منکا اس نے اپنے اندر فٹ کروا رکھا تھا۔؟۔ وگرنہ زہریلی بیوی کے بعدزہرکا انتخاب کون کرتا ہے؟۔ وہ جب تک زندہ رہا۔ زنداں میں رہا۔۔میں بھی سقراطی ہوں کیونکہ میں بھی زنداں میں ہوں۔مرید نےہیٹرک کرلی تھی۔ لیکن سقراط دوسرے چانس کےبعد آؤٹ ہوگیا۔  پانامہ کیس کی طرح یہ فیصلہ بھی تین دو کا نکلا تھا۔
مریدنے جتنی سقراطی میرے اوپر جھاڑی تھی۔اس کا ذمہ داربھی میں خود ہی تھا۔میں نے تو صرف اتنا پوچھا تھاکہ’’رن مریدی کیسی جا رہی ہے۔؟‘‘۔اس نے جوکہا۔  وہ۔  ابتدائیے میں درج ہے۔ایسے ابتدائیے میں کئی بار سن چکا ہوں۔ہم یک لنگوٹ اور دوقلب جیسے دوست ہیں۔مجھے وہ ٹپکے آم کی طرح اچانک ہی ملا تھا۔لنگوٹ میں۔ننگ تڑنگا۔۔نہرکے کنارے۔تب وہ درختوں کی گھنی چھاؤں تلے سن باتھ والے لباس میں تھا۔اس کی اکثر باتوں نے بھی صرف لنگوٹ پہنا ہوتا ہے۔ہم۔بچپن سے نہر کے دو  کناروں کی طرح ایک ساتھ لیکن الگ الگ رہے ہیں۔ہماری اپنی اپنی دھارا ہے۔وہ ہمیشہ ترو تازہ رہتاہے۔۔نہرکنارے کھڑے خواجہ سراؤں کی طرح۔بے فکر۔  اس کا فلسفہ حیات تھوڑا واحیات ہے۔وہ دیسی سقراط ہے۔میں مرید سے متاثر اور اس کی دوستی سے متاثرہ ہوں ۔
’’تمہارے شب وروزکیسےگذرتے ہیں۔؟‘‘۔میں نے دوسرا سوال داغا۔
’’محبت بخارجیسی ہوتی ہے۔بتانے سے پتہ چلتی ہے۔اور۔شادی خمار جیسی ۔ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے۔مجھےکبھی بخار نہیں ہوا۔ لیکن خمارکئی سال سے اترا ہی نہیں۔خلیل جبران نے کہا تھا ’’عورت کا دل وقت اور زمانے کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتا‘‘۔ دل کے معاملے میں نصیبو بھی پکی جبرانی نکلی۔کہتے ہیں کہ انسان سے بولنے کا حق چھینا جا سکتا  ہے۔ لیکن۔خاموش رہنے کا نہیں۔۔ میں نے بھی گھرمیں بولنے کا حق۔۔محفوظ رکھا ہوا ہے۔۔شادی کے بعدحق زوجیت سمیت سارے حق بیوی کے ہوتے ہیں ۔۔ٹی وی اور فریج کی طرح لڑائی جھگڑا جہیزکی بنیادی آئیٹم ہے۔گھروں کی بیشتر لڑائیاں شوہرکا ماضی جاننے کے لئے ہوتی ہیں کیونکہ مستقبل تو۔ بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔۔انسان سے بڑی دھوکہ باز اس کی زبان ہے۔۔وہی بہوجو بارات اور ولیمے کے روز پتھر بن کر بیٹھی ہوتی ہے۔اچانک پتھربن کر برسنےلگتی ہے۔۔کیونکہ۔۔دنیا خاموش آدمی کومفکر اورخاموش عورت کوپاگل سمجھتی ہے۔ عورت ہمیشہ چیخ چیخ کرثابت کرتی ہےکہ وہ عقل مندہے۔ جو مرد شادی سے قبل دھوکہ دہی کے ماسٹرہوتے ہیں۔۔ شادی کے بعد ان کی زندگی’’دھوکہ سہی‘‘ میں گذرتی ہے۔۔محترم اشفاق احمدسچ کہتے ہیں کہ دھوکے میں بڑی طاقت ہوتی ہے یہ لوٹ کرآجاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو۔ادب بھی ستم رسیدہ تخلیق ہوا ہے۔ وگرنہ ۔۔۔مشتاق احمد یوسفی کو یہ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی کہ’’عورت کی ایڑھی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سےکسی نہ کسی مردکی ناک ضرور نکلے گی‘‘۔۔۔مرید بولا۔۔!۔
لیکن ممتاز مفتی توکہتے ہیں کہ’’دنیا کی سب سے بورچیزشریف عورت ہے‘‘۔تمہیں توخوش ہونا چاہیے تمہاری زندگی میں ایڈونچرہے ۔؟۔میں نے کہا۔
مرید۔۔:۔بیوی۔ بارش میں گیلی ہونے والی چارپائی کی طرح ہوتی ہے۔جو ہروقت کسی کسی رہتی ہے۔اور۔شادی۔قسمت پُڑی کی طرح ہوتی ہے۔ٹوکن خالی نکلتے ہی ایک اور  ٹوکن نکالنےکوجی مچلتا ہے۔۔یہ تو ایسے ہی کہ’’اگربیوی تھکن کی شکایت کرے تواس کی خدمت کے لئے ایک اور بیوی لے لیں‘‘ ۔لیکن میں خوفزدہ ہوں پھردونوں منجیاں کسی کسی رہیں گی۔۔ ہندو شاستری کہتے ہیں کہ عورت کے چار سو چار چلتر ہیں۔ میں آٹھ سو آٹھ چلترکاکیاکروں گا۔؟۔اور۔انگریز کہتے ہیں۔کہ’’ مچھلی اور عورت کو دم سے پکڑ لو تو وہ ہلنا چھوڑ دیتے ہیں‘‘۔ مجھےتوکوئی سرا دکھائی نہیں دے رہا۔۔تم ہی کچھ بتاؤ۔؟۔اس نے مجھےپوچھا۔
چین میں زنگ گیاگی نامی 31سالہ انجنئیر نےروبوٹ بیوی ایجادکرلی ہے۔جس میں  زندہ خواتین والی ساری صفات ہیں۔۔صرف اورصرف خوبیاں ۔۔نہ طعنے،کوسنے، نہ بدتمیزی اوربدزبانی کی فکر۔موٹاپے کی ٹینشن بھی نہیں۔صرف ساڑھے چار کلووزنی بیوی ۔چائناکا مال ہے۔جب چاہے بدل ڈالو۔دوسری توکیا۔تیسری، چوتھی شادی بھی کرو۔جیبوں کی تلاشی کی فکر اور نہ تنخواہ چھپانے کی جھنجھٹ۔۔بیوی کی بیوی، غلام کا غلام۔۔زنگ گیاگی نے اپنی ہی تخلیق کردہ ربورٹ بیوی سے شادی کرلی ہے۔۔میں مسلسل بول رہاتھا۔اب مریدجمائیاں لے رہا تھا۔اچانک وہ اٹھ کرچلتا بنا۔اس نے جاتے جاتے دوسوال پوچھے۔
پہلا:زنگ گیاگی کی زندگی کیسی گذر رہی ہے۔؟
دوسرا:سی پیک کب تک مکمل ہو جائے گا۔؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں