بدھ، 23 اگست، 2017

چائے کی پیالی میں طوفان

فیصل آبادکاگھنٹہ گھرآٹھ بازاروں میں ویسےہی گھرا رہتا ہے۔جیسے رضیہ غنڈوں میں رہتی ہے۔آٹھ بازاروں میں چائے کےبہت سےڈھابے ہیں۔جن میں سےکچھ سُرخوں کےہیں۔کچھ’’سبزوں‘‘کے۔اور۔کچھ رلےملے۔ان ڈھابوں کی مشترکہ خصوصیت چائے ہے۔اعلی قسم کی چائے۔تیز دم۔ ٹھاہ کرکے لگنے والی۔ذائقہ اپنے پن کا۔۔تگڑا رنگ اورجوش۔۔جیسی کئی خصوصیات والی ڈھابہ چائے۔لیکن یہاں چائےامی بناتی ہیں اورنہ ہی امی کے گھرسےمنگوائی جاتی ہے۔اکھاڑےجب سےبندہوئےہیں۔تب سےیہ کام پہلوانوں نےسنبھال لیا ہے۔ٹھنڈی کھوئی والےپہلوانوں نے۔میں نےاندرداخل ہوتےہی آواز دی۔’’پہلوان ایک کڑک چائے۔ملائی مارکے‘‘۔

ڈھابے۔میں پہلے ہی چائے کی پیالی میں طوفان برپا تھا۔۔دائیں اور بائیں بازو کے حامی سیاسی ایشوزپر تقریبا ہاتھا پائی تک الجھے ہوئےتھے۔دوسرےٹیبل پر تاش کی گڈی کوپھینٹا لگ رہاتھا۔ سرنیوڑھائے میں بھی بیٹھ رہا۔ایسے ڈھابے اکثرغلیظ گفتگوکا مرکز ہوتے ہیں۔سو۔کامہ سوترا۔یہاں بھی چل رہی تھی ۔یہ شائد نفسیاتی سا مسئلہ ہےکہ گفتگو کے دوران جب زبان کو الفاظ نہ ملیں تو ہاتھ بولتے ہیں۔ڈھابے میں بھی جو جملے زبان نے ادھورے چھوڑے وہ گفتاریوں نےہاتھ کے اشاروں سے پورے کئے۔ہر’’ دلیل‘‘کی لے جہاں ٹوٹتی کچھ جانے پہچانے سے انسانی اعضا سنائی دیتے۔تو۔انتاکشری کی طرح مخالف کی باری شروع ہو جاتی۔۔منٹو کے ٹھنڈے گوشت میں ایشر سنگھ نے جو گالیاں دی تھیں۔یہاں خاصی مہذب لگ رہی تھیں۔کڑک چائے کے ساتھ پنجابی گالیاں کیک رس جیسا مزا دیتی ہیں۔رات کافی ڈھل چکی تھی۔۔چائے پی کرمیں گھرجانے کے موڈ میں تھا۔ اچانک ایک تکراری دھاڑا۔ ۔’’تیری ماں کے دودھ میں حکم کا اِکا‘‘۔
یہ گالی کرشن چندرکے افسانے ’’تین غنڈے‘‘کی زینت ہے۔لیکن ڈھابےمیں گالی سن کر۔کیک رس سے بھی زیادہ لطف آیا۔زندگی میں پہلی باراحساس ہواکہ اس گالی کےلئےچائےکی دکان سے موذوں ترین جگہ کوئی نہیں ہو سکتی ۔۔۔ دائیں اور بائیں بازو کے علاوہ وہاں پر’’بغیر بازو‘‘ افرادبھی موجود تھے۔الہڑ باتیں سن سن کر۔وہ ۔ ویسے ہی محظوظ ہو رہے تھے۔جیسے یونیورسٹی کےسالانہ سپورٹس ڈےپرخواتین کی چاٹی ریس دیکھ کر ہواکرتے تھے۔میں نے چائےکی پہلی چُسکی کے ساتھ سگریٹ کا آخری کش لگایا۔تو گفتگوکا پارا۔ سبی (کوئٹہ) کی طرح چڑھا ہوا تھا۔ سٹیٹس کو۔توڑنے کے لئے دانت توڑنے کی کوششیں جاری تھیں۔مخالفین بھی منہ زبانی سنگ باری میں لگے تھے۔ٹاک شو کا ماحول۔اُدھرتم۔اِدھرہم جیسا تھا۔ گندے میسج اورگھرسے بھاگنے سمیت سب ایشوز۔ زیربحث تھے۔جنہیں سن کر کان ویسے ہی جل رہے تھے۔ جیسے عزیز گاتن کی باتیں پرقیوم کے کان جلتے تھے۔
’’عزیز گاتن کا اوپر والا ہونٹ پیدائشی کٹا ہوا تھا۔ اسی لئے وہ ہمیشہ ہنستا دکھائی دیتا۔ وہ چھوٹی عمر سے ہی غلیظ باتیں سننے کا عادی تھا۔ پرانے بھٹے کے پاس جہاں مائی توبہ توبہ کی جھونپڑی تھی۔وہاں مجھے ۔۔۔۔۔۔ لے جاکر وہ ایسی ایسی گالیاں سکھاتاکہ ان کے معنی نہ سمجھتے ہوئے بھی کان جلنے لگتے‘‘۔ راجہ گدھ سے اقتباس۔
گالیوں کے مطلب نہیں ہوتے۔صرف تاثر ہوتی ہے۔ ۔میں نے نیا سگریٹ سلگھاتے ہوئے سوچا۔ ۔۔سرخ مرچی جیسی تیکھی تاثیر۔ ۔گالی۔ٹکا۔کے دی ہوتو سگریٹ کے پف جتنا لطف دیتی ہے۔ دھواں باہر نہ نکلے تو سگریٹ کا مزہ نہ گالی کا۔ڈھابے میں ’’ٹکاٹکا‘‘ کا سلسلہ جاری تھا۔ دودھ کے علاوہ بھی حکم کے۔اِکے ۔جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے۔ مجھے جوش ملیح آبادی یاد آگئے۔انہوں نے ایک پاکستانی وزیرکو اردو میں خط لکھا۔ لیکن وزیر نے جواب انگریزی میں دے دیا۔تو جوش نے دوبارہ خط لکھااورکہا’’جناب والا۔۔میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا۔لیکن آپ نے جواب اپنی پدری زبان میں لکھ دیا‘‘۔ڈھابے میں مادری زبان میں پدری گفتگو چل رہی تھی۔۔ چندسنسر شدہ پوائنٹس یوں ہیں۔
شکاگو سےانگریزی اخبارکی صحافی۔ کِم بارکر۔میاں نوازشریف کا انٹرویو لینےآئی تو میاں صاحب نے۔اسے ۔گرل فرینڈ بنانے کی کوشش کی۔گفتگو جب سیاست سے ازدواج میں داخل ہوئی تو میں نے چائے کا دوسرا کپ آرڈرکیا۔۔ کم بارکر۔تو چلی گئی تھی۔ ناں۔؟ ۔لیکن عمران خان نے۔تو۔ریحام خان کو جانے بھی نہیں دیا۔جواب سے۔سکور برابر ہو گیا۔مریم صفدر۔اور۔ سیتاوائٹ پر بھی۔پوائنٹ سکورنگ نہ ہوسکی۔لاہور مارچ میں گجرات کے حامدکی موت اورقاسم باغ ملتان میں جلسے کے دوران پی ٹی آئی کے سات کارکنوں کی موت نے بھی پوائنٹ برابررکھے۔۔آف شورکمپنیوں کے الزامات بھی لنکا نہ ڈھا سکے۔۔جنرل ضیا کی گود سے پرورش پانے کے قصے بھی چھڑے اور جنرل پاشا کی مدد سے جلسے کرنے کا تذکرہ بھی ہوا۔۔کلبھوشن جیسے دہشت گردکی پھانسی پربھی بات ہوئی اورکالعدم تحریک طالبان نے حکومت سےمذاکرات کے لئےجب عمران خان کواپنانمائندہ نامزدکیا۔اُس کا تذکرہ بھی ہوا۔نواز شریف کا سوال کہ مجھے کیوں نکالا۔پرنوحہ خوانی ہوئی اور۔عمران خان کےہاتھ میں وزیراعظم بننے کی لکیرنہیں ہے۔کا شوشہ بھی چھوڑاگیا۔البتہ صادق اورامین نہ ہونا نوازشریف کی ذات کا ایسا ڈینٹ تھا۔جو فی الحال ختم ہوتا نظرنہیں آرہا۔ تو۔دائیں سےجواب آیا۔عمران خان خودکوصادق اورامین ثابت کرنے کےلئے۔ڈی این اےٹیسٹ اوربلیک بیری ٹیسٹ کرائیں۔
دوسری چائے کا پہلا ’’کش ‘‘لگایا تو مجھے کرنل شفیق الرحمن یاد آ گئے ۔کہتےہیں۔’’دنیا کا سب سے فرسودہ موضوع سیاست ہے۔کچھ بھی ہو رہا ہے۔ کہیں بھی ہو رہا ہے۔ کوئی بھی کررہا ہے۔ نہ آپ اس سلسلے میں کچھ کر سکتے ہیں نہ میں۔ پھر مفت میں تلملانے کی ضرورت کیا ہے‘‘۔ لیکن مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ’’سانپ کا زہر کینچلی میں اور بچھو کو دُم میں ہوتاہے۔بھڑ کا زہر ڈنک میں ہوتا ہے۔پاگل کتے کا زبان میں۔انسان واحد حیوان ہے۔جو اپنازہر دل میں رکھتا ہے‘‘۔سیاستدانوں نے بھی اپنے کارکنوں کے دل زہر سے بھر دئیے ہیں۔ مروجہ سیاست نے سماجی روادی کو عدم برداشت میں بدل دیا ہے۔اچانک دائیں سے طعنہ آیا کہ۔ایمپائر کی ۔جس انگلی کی تلاش جاری تھی۔ وہ کیسی لگی۔ ؟۔بائیں والے بولے۔جسٹس باقر والی رپورٹ آنے دو۔ نیب میں ریفرینس جانے دو ۔پھر انگلیوں کی باتیں کریں گے۔۔
پی ٹی آئی میں فردوس عاشق اعوان ،بابر اعوان اور نذرگوندل کی تبدیلی بھی ڈسکس ہوئی تو ن لیگ میں امیرمقام، دانیال عزیز اورماروی میمن پر بحث بھی ہوئی۔موٹو گینگ،گلو بٹ، یوٹرن،پاگل خان اورمرحب جیسی باتوں سے۔فضاکا بوجھل پن ختم ہوا۔عین جب شفق پھوٹنے لگا توگفتگومیں ہلکے ہلکے شگوفے پھوٹ رہے تھے۔۔پہلوان نے دودھ ختم ہونے کا اعلان کیاتو ڈھابہ ٹرانسمیشن ختم ہوگئی۔۔تاش والے، دائیں اوربائیں والے۔سب اٹھ کھڑے ہوئے۔پہلوان کو دوکپ چائے کی ادائیگی کی بعد مجھے بھی پردیسیوں کی طرح گھرکی یادآنےلگی۔رات میں ہلکی سی خنکی اترآئی تھی۔کھلی فضامیں جھرجھریاں لینے والی راتیں شروع ہونے والی تھیں۔۔بھادوں میں دن تپتے ہیں اور۔راتیں نرم ہوتی ہیں۔یہ پوہ ماگھ (ٹھنڈ) کی نشانیاں ہیں۔نواز شریف کی نااہلی کے بعدعمران خان بھی ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔ لیکن بھادوں کے دنوں کی طرح ن لیگ ابھی تک تپ رہی ہے۔موسم کوئی بھی ہو۔نواز شریف نااہلی سے پہلے بھی ڈھابوں میں ڈسکس ہو رہے تھے۔ اب بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن ن لیگ کا بیانیہ یوٹرن لے چکا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں