یہ جولائی 2016کی بات ہے جب میرے دوست شیخ مریدنےبھری محفل
میں اعلان کردیاکہ وہ دوسری شادی
کرنے والا ہے۔اعلان سن کرہمیں دو طرح کی
فِیلنگ ہوئی۔پہلی یہ کہ’’بیوی تو ایک بھی کافی ہوتی ہے‘‘ اوردوسری یہ کہ’’بیچاری
کہیں معذورہوگی‘‘۔؟۔مرید۔
بونگیاں مارنا میں ماہر تھااورہمیں
سیاست سے نفرت تھی۔شیخ کی باتیں۔شیخیوں، بڑھکوں اورمبالغوں پرمبنی ہوتی تھیں۔اورہم ایسی سیاسی تاویلوں سے۔بےپرواہی۔بے یقینی اور۔لاتعلقی۔ظاہرکرتے تھے۔ہمارے ہاں سنجیدہ لوگ
۔ہمیشہ۔ بیوی کی باتوں
کوغیرسنجیدہ لیتےہیں۔ہم چونکہ سنجیدہ تھے۔اس لئے۔محفل میں مریدکا مقام’’بیوی‘‘والا تھا۔
اس کی اکثر۔۔باتیں۔ ایک کان سے سن کردوسرے سے نکال
دی جاتی تھیں۔جیسے۔ دل کو دل سے راہ ۔ ہوتی ہے۔ ویسے ہی۔ہم نے ۔کان کو کان سے
راہ دے رکھی تھی۔۔اور۔اس راہ پرباتیں
موٹروے کی طرح ۔ ٹریول کرتی رہتی تھیں۔دوسری شادی کا اعلان بالکل ہی غیر ضروری
ٹریولنگ تھی۔ لیکن جب
مرید نے بتایا کہ وہ پہلی بیوی سے
ہی دوسری شادی کرے گا تو یوں لگا ۔جیسے۔رختِ سفر۔ چھوٹ گیا ہو۔ نگوڑے نے تو بھابھی نصیبو کو طلاق بھی نہیں دی
تھی۔ لیکن ۔اُس کے پاس ۔بونگی مارنےکی خاصی تگڑی وجہ تھی۔
وہ بولا:’’شادیاں توساری اچھی ہوتی ہیں لیکن
بیوی کبھی کبھی اچھی نکلتی ہے۔میں نصیبو سے دوسری بار شادی اس لئےکر رہا ہوں۔کیونکہ پہلا تجربہ اچھا
نہیں رہا۔ اب زندگی کی نئی شروعات کروں گا‘‘۔
شادی حقیقتاً نئی شروعات کا نام ہے۔ایسی شروعات جو۔ مرد کی
زندگی ۔کو۔بندگی میں بدل دیتی ہیں۔اوربیویاں۔’’بندہ پروری‘‘ کی ماسٹرہوتی ہیں۔مرید۔کی۔خودسُپردگی کا یہ عالم تھاکہ وہ
دوسری بار۔پہلی بیوی کا ہوگیا تھا۔نصیبوکو فرسٹ ہینڈشوہرسیکنڈٹائم مل توگیا تھا۔لیکن وہ اپنی
ہی سوتن بن چکی تھی۔حالانکہ یہ مشقت زندگی کو خوشگوارکرنے کی کوشش تھی۔ خوشگوار ازدواجی زندگی کےراز نہیں ہوتے۔صرف سمجھوتے ہوتے ہیں۔مرید اورنصیبوکا ۔سمجھوتہ۔سمجھوتہ
ایکسپریس جیسا تھا۔کبھی چل پڑتا۔اوراکثر رکا رہتا۔ ۔پھرشادی کو۔ری کنڈیشنڈکرانے کا کیا
فائدہ۔؟۔۔
ناٹھا پھر۔بولا :ایک آدمی نےدو شادیوں کیں لیکن انتہائی تلخ تجربے ہوئے۔کیونکہ پہلی بیوی
نے طلاق لے لی اور دوسری بیوی نےنہیں لی۔اس لئے میں طلاق کے جھنجھٹ میں نہیں
پڑا‘‘۔
کہتے ہیں کہ
شادی اپنی محبوبہ سےکرنی چاہیے دوسرےکی محبوبہ سے تو والدین بھی کروا دیتے ہیں۔عاشق
۔شادی سےقبل محبوبہ میں بیوی۔۔اور۔۔
شادی کے بعدبیوی میں سےمحبوبہ تلاش کرتےکرتے زندگی گذاردیتے ہیں۔۔ لو میرج
میں نکاح سے پہلےمحبوبہ آخری بارنظر آتی ہے۔پھروہ ہمیشہ کےلئے۔۔ بیوی کے بوجھ
تلے دب جاتی ہے۔اس بوجھ میں شرح نمو کی طرح
ہر سال اضافہ ہوتا رہتا ہے۔پھر ایک
دن محبت۔بھی ذمہ داریوں تلے دب جاتی ہے۔ وہی محبت ہوتی ہے
جو انسان دبے پاؤں شروع کرتا ہے۔ایک دن۔اپنے ہی پاؤں سےدبا۔ ڈالتا ہے۔محبوبہ
کی وہی زلفیں جوگھنی چھاؤں دیتی
تھیں۔اکاس بیل کی طرح چمٹ جاتی ہیں۔ وہی ناگن۔ زلفیں۔ دوموئی سانپ کی طرح
ڈسنے لگتی ہیں۔شائد۔ شادی ۔عشق۔کی جیت کا نہیں بلکہ ہارکا نتیجہ ہوتی ہے۔ایسی ہارجس میں تن اور دھن۔ دشمن کو سونپ دیا جا تا ہے۔اسی
لئے تو۔
عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ’’ بیوی سے
محبت کرنا ایسی جگہ پرخارش کرنا ہے جہاں خارش نہ ہو رہی ہو ‘‘۔ شوہرچونکہ خارش کے شوقین ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ۔’’خارشی اڈوں‘‘ کا رُخ کرتے ہیں۔۔جہاں بیوی کی نفرت کوبنیاد بناکر خارش کا جواز تلاش کیا جاتا ہے۔ ناول نگار ۔تنزیلہ ریاض کہتی ہیں کہ ’’مردکےاندردوسری شادی کی خواہش کمرکی کھجلی کی طرح ہوتی ہے۔جس
طرح بھری محفل میں اچانک کمرمیں کھجلی پیدا ہو جائےتو انسان۔ ہزارخواہش کے باوجود
نہیں کجھا سکتا۔۔۔۔ اسی طرح دوسری شادی کی خواہش بھی مرد کو بےبس کردیتی ہے۔۔۔
اقتباس‘‘۔
لیکن مرید کہتا ہے کہ ’’میں نےنئی شادی کرکے
بچوں کا شکوہ بھی ختم کردیا ہے ۔بچے
مجھے اکثر کہتے تھےکہ ڈیڈی ہمیں شادی پرکیوں نہیں بلا یا تھا۔‘‘۔۔یہ تیسری بونگی تھی۔جس کے ساتھ لطیفہ بھی تھا۔
سردار جی:بےبے۔گُروکی۔کِرپا سے
۔۔ہم دو سے تین ہوگئےہیں۔
بےبے:واہ ۔پُتر۔۔بیٹا ہوا یا بیٹی۔؟
سردار:اماں ایسا کچھ نہیں۔۔تیری بہو
نے دوسری شادی کر لی ہے۔
شادی ہمیں دو سے تین ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ہمارے ہاں ۔اکثر مرد’’موقعے‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن موقعے کی خصوصیت یہ ہے
کہ وہ ہمیشہ ہاتھ سے
نکل جاتا ہے۔یوں۔ شوہر خود کو فرشتہ صفت ظاہر
کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔البتہ۔ خواتین۔اگر چاہتی ہیں کہ ان کے شوہر فرشتہ
صفت ہوں تو وہ۔ پہلے گھر کو جنت بنائیں
کیونکہ فرشتے دوزخ میں نہیں رہ سکتے ۔اور
۔مرد اگر چاہتے ہیں کہ ان کی بیویاں حوروں جیسی ہوں۔ تو پہلے خود کو انسان بنائیں کیونکہ حوریں
۔شیطانوں کے ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ بیویاں کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ پہلی وہ ’’جو شوہر کی بات سنتی،سمجھتی اور
مانتی ہیں۔‘‘۔اور دوسری وہ ’’ جوہم سب
کے پاس ہیں۔‘‘۔ جبکہ مرد۔تین طرح کےہوتے ہیں۔ پہلے وہ جن کی ایک بیوی اور ایک گرل
فرینڈ ہوتی ہے۔اوروہ اپنی بیوی سے پیار کرتے ہیں ۔ دوسرے وہ جن کی ایک بیوی اورایک
گرل فرینڈ ہوتی ہے لیکن وہ گرل فرینڈ سے
پیار کرتے ہیں اور تیسرے وہ جن کی ایک بیوی اورایک گرل فرینڈ ہوتی ہیں لیکن وہ
اپنی نوکرانی سے پیار کرتے ہیں۔
مالکن :رضیہ۔!۔ تم تین دن سےکہاں غائب
تھی ۔ بتایا بھی کچھ نہیں ؟
نوکرانی : باجی میں نے فیس بک پر بتایا تھا ۔۔’’ گاؤں جا رہی ہوں۔صاحب نے تو کمنٹ بھی کیا تھا ۔۔’’ مِس یو رضیہ‘‘۔۔
نوکرانی : باجی میں نے فیس بک پر بتایا تھا ۔۔’’ گاؤں جا رہی ہوں۔صاحب نے تو کمنٹ بھی کیا تھا ۔۔’’ مِس یو رضیہ‘‘۔۔
رضیہ
کو صرف وہی صاحب۔ مِس کرتے ہیں۔ جن کی
بیوی انہیں مِس کر چکی ہوتی ہے۔شادی کی کامیابی کا
کوئی طےشدہ فارمولہ نہیں ہوتا۔بس تکُے
ہوتے ہیں۔جو نشانےپر لگ جائیں تو تیر ہیں۔ وگرنہ طلاق۔۔پچھلے دنوں بھارتی گجرات کےشہر راج کوٹ سےخبر آئی کہ 26 سالہ رنکیش نامی نوجوان نےاپنی طلاق کی خوشی میں دوست احباب اورعزیزواقارب کو بلا کر
پارٹی کی اورپچاس کلومٹھائی بھی بانٹی۔ مٹھائی کے ڈبے پر لکھا تھا’’ مبارک ہو
طلاق ہو گئی‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ میری بیوی نے مجھے پر ایک سال تک تشدد کیا۔ اور۔طلاق کے لئے دو سال
دھکے کھائے۔جس کے بعد مٹھائی تو بنتی ہے‘‘۔
مٹھائی ایسا پکوان ہے۔جو شادی اور پیدائش جیسی خوشیوں سے مشروط تھا۔اب تو طلاق پر بھی۔ منہ میٹھا کروایا جا تا ہے ۔مرید۔
چونکہ عطا الحق قاسمی اورتنزیلہ ریاض ۔۔ دونوں کے
خارشی نظرئیے کا حامی ہے۔تبھی اس نےطلاق کے بغیر ہی دوسری
شادی کرلی۔ وہ کہتا ہے کہ گھر میں نئی نویلی دلہن کے آنے سے کئی مہینے سکون رہتا ہے ۔ کم بخت کا یہ چوتھا
جواز تھا۔ وہ تو کہتا ہے کہ مجھے جب سکون
کی ضرورت پڑی۔میں نصیبو سےمزید شادیاں کروں گا۔
نوٹ:سکون کی ضرورت نہ ہوتی تو ہم اس کی باتوں کو بونگیاں ہی سمجھتے رہتے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں