بدھ، 1 مارچ، 2017

تکیہ میراثیاں

وائسرائے ہند۔  بروس الیگزینڈر نے پٹیالہ گھرانےکے ۔موجدین۔ خان صاحب۔ فتح علی خان اور   علی بخش خان کا سنگیت۔ پہلی بار سنا تو ۔پریشان ہوکر اُن کی جامہ تلاشی  کا حکم دے دیا ۔کپڑے جھاڑے گئے۔اور ۔ منہ کھلوا۔ کرگلا چیک کیا گیا  کہ کوئی مشین تو  فٹ نہیں کر رکھی۔چوبدار جب مشین  ڈھونڈنے میں  ناکام رہے  تو وائسرائے نے  کسبِ کمال کے اعتراف میں علی بخش خان کو جرنیل اور فتح علی خان کوکرنیل کا خطاب دیا۔۔حالانکہ ان کی فنی ٹریننگ کسی توپ اور بندوق کو چلانے سے نہیں۔ بلکہ ہارمونیم اور ستار بجانے سے ہوئی تھی۔ فوجی خطاب ۔ملنے پرابتدا میں تو  جگ ہنسائی ہوئی ۔پھرآہستہ آہستہ۔سارا جگ معترف ہوگیا۔جرنیل اورکرنیل۔دونوں کبھی رنگروٹ بھی بھرتی نہ ہوئے تھے لیکن کلیدی عہدوں پر پہنچ گئے ۔ 
ان کے علاوہ بھی۔ جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا۔تب ۔۔جنرل یحییٰ ۔۔ ایک خاتون کے ساتھ تعلق جوڑ چکے تھے۔جو بعد میں جنرل رانی کے لقب سے مشہورہوئی۔ جنرل رانی۔ جنرل یحیی ۔۔ کوآغا جانی کہتی تھی۔اورایک دن جانی نے رانی پروطن بھی ’’نثار‘‘کر دیا۔ جنرل ایوب۔ نے میڈم  نورجہاں کی گائیکی سے متاثر ہوکرانہیں ملکہ ترنم کا خطاب دیا۔جنرل مشرف۔ جب سارے اڈے نیٹو کو دے کر مطمئن ہو گئے تب۔ استاد حامدعلی خان کےساتھ کلاسیکل گانے’’سیاں نظر تو سے لاگی‘‘۔پر جُگل بندی کی۔تاریخ گواہ ہے کہ خان صاحبان نے فوج میں کبھی براہ راست کمیشن نہیں لیا
میراثی فوج میں بھرتی ہوگیا۔ اور جنگ لڑنے  چلا  گیا۔ ایک گولی اس کے ہیلمٹ پر لگی اور وہ  بھاگ نکلا۔
کپتان : کہاں جا رہے ہو۔؟
میراثی:عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے۔
 میراثی۔سچ میں عقل مند قوم ہیں۔ میراث (ترکے) کوشجرہ نسب سمیت۔۔ کوئی بےوقوف یادنہیں رکھ سکتا۔ اِن کا تو روزگاربھی میراث کو یاد رکھنا ہی تھا۔۔ میراثیوں کی ہارڈ ۔ڈسک میں ۔۔ہزاروں۔ٹیرا بائیٹ۔ڈیٹا ۔محفوظ ہوتا ہے۔ وہ گفتگو کو۔ انترے اور استھائی ۔میں قیدکرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔راگ کی ہر بندش کا انہیں علم ہوتا ہے۔میرعالم۔میراثی ۔اور۔ڈوم ڈھاڑی ایک ہی  قبیلےکےنام ہیں۔گاؤں میں چوہدری کے بیٹے کا میوزک البم بھی ریلیز ہو جائے تو چوہدری ہی رہتا ہے اور میر عالم افسر بن کر بھی ۔میراثی ہی رہتا ہے۔ میرا دوست شیخ مریدکہتا ہے کہ ’’ہمارے ہاں۔ویلے چوہدری ہیں۔محنت  کرنے والے کمی ہیں اورحس لطافت رکھنے والے میراثی‘‘۔شہر والےجُگت بازی کرنے والوں کو میراثی کہتے ہیں۔چموٹا میراثی کا لباس ہوتا ہے۔اور چموٹے کے بغیر میراثی ننگا ننگا لگتا ہے۔ وہ میلہ میلہ گھومتے ہیں ۔اپنا میلہ لگا لیتے ہیں۔اوربھریا میلہ چھوڑ جاتے ہیں۔ میراثی گاؤں کا ہو یا شہر ۔اس کا تکیہ کلام  ہوتا ہے۔ ’’مولا خوش رکھے۔‘‘۔یہ  نازک لوگ ہوتے ہیں۔جن کےگھروں کے گیٹ پر ماشااللہ کے بجائے ’’نازک نگر‘‘کی تختی لگی ہوتی ہے۔جوسِینری میں  برف  دیکھ رضائی نکال لیتے ہیں۔جن کےگھروں کی کنڈیاں۔سردیوں میں۔ٹھنڈی ہونے کی وجہ سےاکثر۔ بند رہتی ہیں۔ مہمان  بھی دیواریں پھلانگ کرآتے۔ جاتے ہیں۔ جنہیں کھانے میں آدھ بھنا  قیمہ پسند  ہے۔۔ جن کے دل کی دھڑکن دانتوں تلے آنے والے ادرک کی کِرچ سے بڑھ جاتی ہے۔جو۔ داد۔ دینے کے لئے منہ کا آٹھا بناتے ہیں۔اور۔ طبلے کی تان جہاں ٹوٹتی ہے۔وہاں ٹھیکا بھی  لگاتے ہیں۔
میراثی کا بچہ سکول میں داخل ہو گیا۔
ٹیچر:دو کا پہاڑا سناؤ
بچہ شرما کر: مس جی تُسی فیر  نکی نکی ڈھولکی بجاؤ۔
موسیقی، ناٹک اوربذلہ سنجی ۔۔ فن لطیفہ کے سارے اسلوب میراثی کو میراث میں ملتے ہیں۔وہ سُر بکھیرکر داد سمیٹتے ہیں اور جگت مارکر نوٹ ۔انہیں گُڑھتی میں سُر اورتال کا میل ملتا ہے۔دُونی کا پہاڑا۔ بھی  ڈھولکی کے بغیر نہیں پڑھ سکتے۔ مریدکہتا ہے کہ ’’ہر سیاسی کارکن اپنے لیڈر کامیراثی ہوتا ہے۔۔اور ہر انسان کے اندر چھوٹا موٹا میراثی ضرور ہوتا ہے۔وہ گانا ضرور گاتا ہے خواہ آواز یوسف رضا گیلانی جیسی ہو اور جگت بھی مارتا ہے۔خواہ حسِ مزاح وفاقی وزیر خواجہ آصف جیسی ہو‘‘۔۔
چوہدری ( میراثی سے): اوئے۔تو  بڑا چالاک بنتا ہے۔یہ تو ۔بتا۔ میری کون سی آنکھ پتھر کی ہے۔؟
میراثی: چوہدری صاب۔سجی آکھ  ۔
چوہدری: واہ ۔ تمہیں کیسے پتہ چلا ۔؟
میراثی :کیونکہ اس آنکھ میں  تھوڑی سی شرم نظر آتی ہے۔
میراثی کسی زمانے میں اتنے ہی پاپولر تھے۔ جتنا آج کل نصرت فتح علی خان کا ۔رشک قمر۔پاپولر ہے۔کہتے ہیں کہ ۔میراثی کے وجودسے انکار اپنی قدیم تاریخ اورشناخت سے انکار ہے۔پاکستان میں بسنے والی تہذیبوں کا اپنی تاریخ سے رشتہ میراثیوں کے ذریعے ہی استوار تھا۔ روایت ہےکہ’’ لاہورکے13دروازے ہوتے تھے اورہردروازے کے باہر ایک تکیہ ہوتا تھا۔ جہاں کنواں،غسل خانہ،کمرے، مسجداور اکھاڑا وغیرہ ہوتے تھے۔ قصور۔سے بزنس مین۔ لاہور آتے۔ دن بھر کام کرتے  ۔اور رات تکئیے میں گذارتے۔ان میں سے کچھ لوگ موسیقی سے وابستہ بھی تھے۔ جنہیں برا سمجھا جاتا تھا۔ تب  موسیقی کے شوقینوں نے موچی دروازے کےسامنے۔چیمبرلین روڈ۔کےقریب زمین خرید۔کراپنا تکیہ بنا لیا۔ جو آج بھی’’تکیہ میراثیاں‘‘ کے نام سے مشہورہے‘‘۔ بحوالہ  روزنامہ دنیا۔
تکیہ سالوں پہلے جہیز کی بنیادی آئیٹم ہوتا تھا۔نوجوان  لڑکیاں ۔چار سوتی اور۔دو سوتی ٹانکے میں  غلاف پرپھولکاری شروع کرتیں  تو شریکے میں پتہ چل جاتا کہ یہ دلہن بننے والی ہے۔شادی کے بعد۔جہیز دکھائی کی رسم ہوتی تو۔خواتین۔ غلاف کی کڑھائی دیکھ کر اندازہ لگا لیتیں کہ دلہن کتنی سُگھڑ ہے۔ خواتین تب۔ اتنی شرمیلی ہوتی تھیں کہ جذبات کا اظہار بھی کڑھائی سےکیا جاتا۔کبھی۔غلاف پر خوش آمدید۔کڑھائی کرلیا۔اور۔کبھی بیڈ شیٹ پر گلاب کا پھول۔یا پھر چونچ لڑاتے پرندے۔
تکیہ دو طرح کا ہوتا ہے۔کلام والا۔اور نیند۔والا۔۔لیکن مشہوروہی تکیہ ہے۔’’جن پہ تکیہ تھا‘‘۔ نیند والا تکیہ گھریلو بھی ہوتا ہے۔اورہر شوہر کا انتخابی نشان بھی۔سارے شوہرگھرآکر۔دوبارہ باہر جانے تک  اپنے انتخابی نشان کےساتھ رہتے ہیں۔کبھی سر کے نیچے،کبھی  پہلو میں اورکبھی پیروں کے نیچے۔ ایک لوفرتکیہ بھی ہوتا ہے۔ جسے ہم محفل مجرا میں دیکھتے ہیں۔ لوفرتکیہ  کوٹھی میں ہویا کوٹھے پر اس سے ٹیک لگانے کا سٹائل ایک سا  ہوتا ہے۔شرفا اسے گاؤ تیکہ کہتے ہیں۔ سالوں پہلےمہمان گھرآتے تو احترا ماً ۔ رنگیلے پائیوں والی منجھی بچھائی جاتی۔ عزت بڑھانی ہوتی تو ادوائن پر چادربھی بچھائی جاتی اور اگر۔آنے والا مہمان خصوصی  ہوتا تو گاؤ تکیہ بھی دیا  جاتا۔ مہمان  کےجاتے ہی گاؤ تکیہ فری ہو جاتا۔ تو گھر والے۔ تکئیے سے فری ہوجاتے۔کم بخت اتنے بھاری ہوتےکہ کئی بارکمر اور ٹانگوں پر رکھ کر مساج بھی کرلیا جاتا۔
مرید کہتا ہےکہ’’اگرکوئی شخص کہے میں نے کئی سال سے گاؤ تکیہ نہیں دیکھا توسمجھ جائیں کہ وہ کبھی مہمان بن کر نہیں گیا اور اس نے مجرا دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے‘‘۔معاشرتی گھٹن میں فنون  لطیفہ کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں۔کلاسیکل موسیقی کا تو ویسے ہی گلا بیٹھ چکا ہے۔ فن کے قدر دان آپریشن میں مصروف  ہیں۔ وائسرائے برصغیر سے جا چکا ہے۔جومشینیں وہ۔ جرنیل اور کرنیل کے گلے میں ڈھونڈ رہا تھا۔ آج کل سارے’’رنگروٹ‘‘ فٹ کروا چکے ہیں۔کیونکہ  کلاسیکل موسیقی کا ’’جنم استھان‘‘ تکیہ  میراثیاں بند ہو چکا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں