بچپن
میں سکول سے جوئیں ڈلوا کر گھرآتے تو اللہ جانے آدھی اماں کے سر میں کیسے چلی
جاتیں۔؟۔جوئیں نکالنے کےلئے اماں۔تارا میرا۔ کا
تیل ڈال کر پہلے میرے سرمیں اور پھراپنےچمپئی کرتی۔اس کےبعد۔باریک کنگھی کے
ساتھ ایسا کومبنگ آپریشن شروع ہوتا۔کہ چٹخ پٹخ کی آواز کےساتھ لاشیں باہر گرتی جاتیں اورسرمیں
دس پندرہ دن کےلئے اتنا ہی امن ہوجاتا۔جتنا آپریشن ضرب عضب کے بعد ہوا ہے۔
سولہ سنگھار کا رواج تو اب نکلا ہے۔ تب ۔ا ماں ایک دو سنگھار ہی کرتی تھی۔اور ۔وہ بھی organic
سے ۔جیسے مہندی لگانا۔اور۔داتن کرنا ۔ مہندی تب جھاڑو کے تنکے سے لگائی جاتی تھی اور اخروٹ کی
چھال کودس بارہ منٹ تک چبانے کو داتن کرنا کہتے تھے۔
داتن
ختم تب ہوتی جب ہونٹ نارنجی شیڈ مارنے لگتے۔ہونٹ لال کرنے ہوتے تو لال رنگی ایک ٹھیکری
ملتی تھی۔جس پر خواتین انگلی گھساگھسا کر ہونٹوں پر پھیرلیتی تھیں۔لیکن آج کل تو لپ سٹک کادور ہے۔ ہونٹوں کی لائنیں ختم کرنےکے لئے۔۔لپ اسٹک سے
پہلے فاؤنڈیشن لگائی جاتی ہے۔ہونٹوں کومزیدقاتلانہ بنانےکے لئے لپ لائنر بھی لگایا جاتا ہے۔
میک اپ۔ اوسط درجے کی لڑکی کوحسینہ بنانے کےفن
کا نام ہے۔ بلکہ میک اپ آرائش کا ایسا بیلنس ہے۔جس میں آنکھوں کو بولنے اور
ہونٹوں کو۔گونگا۔ رہنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔حسینائیں۔پارٹیوں میں اسی لئے خاموش رہتی ہے کیونکہ زبان کامیک اپ نہیں ہوتا۔دنیا
جانتی ہے کہ آنکھوں کی اپنی زبان ہوتی ہے۔اور جب آنکھیں بول رہی ہوں تو کئی ’’کم
بخت‘‘ کانوں سے نہیں دل سے سنتے ہیں ۔میک
اوورکے بعدخواتین کا پسندیدہ مشغلہ۔سیلفی کے لئے
ڈک فیس بنانا ہوتا ہے ۔ اور۔یہ رجحان اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ بہت سی بھینسیں بھی ڈک فیس بنانے لگی ہیں۔۔ یہ سچ ہے کہ خواتین کی خوبصورتی کا راز ۔اُن کی خاموشی میں چھپا ہوتا ہے۔اسی لئے بیویاں
۔بُری لگتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’امریکی قوم پیار کا اظہار ہونٹوں سے کرتی ہے اور
اطالوی آنکھوں سے‘‘۔ میرا دوست شیخ مرید
کہتا ہے پاکستانی ۔قوم کا سٹائل تھوڑا
مختلف ہے۔پیار کے معاملے میں ہم پہلے اطالوی
اور پھر امریکی بن جاتے ہیں۔
چہرے کی خوبصورتی میں ہونٹوں کو جومقام حاصل ہے۔
اس کا جائزہ آنکھوں سے بڑھ کر کوئی نہیں لے سکتا۔ہونٹوں کو چہرے پر وہی مقام حاصل
ہے جوڈرائینگ روم کوپورےگھر میں حاصل ہے۔یوں ہم ڈرائینگ روم کوگھر کے ہونٹ کہہ سکتے ہیں۔لیکن مریدکہتا ہےکہہونٹ
ہمارے منہ کی زِپ ہیں۔اس زپ کو کنوارے۔بولنے اورکھانے پینے کے۔۔دو مقاصد کےلئے کھولتے ہیں۔جبکہ شادی افرادتین
مقصدکےلئے۔البتہ سیاستدانوں اور وکلا کے ہونٹ ویسے ہی کھلے رہتے ہیں۔
ملزم (وکیل سے):مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ مخالف وکیل جھوٹ
بھول رہا ہے۔؟
وکیل :جب
بھی اس کے لب ہلیں گے تو سمجھ لیناجھوٹ
شروع ہوگیا۔
سچ تو صرف
بسترمرگ پرپڑے شخص کے ہونٹوں پرہوتا ہے۔سارےجھوٹوں
نے۔ایل ایل بی نہیں کیا ہوتا۔ یہ اگرچے سائنسی ترقی کا دور ہے لیکن ترقی پسند۔ ہونٹوں کی بھی۔برابر ترقی کے خواہاں ہیں۔ لپ سٹک کےسینکڑوں برانڈز۔مارکیٹ میں دستیاب
ہیں۔خواتین ان۔برانڈز کی وجہ سے خاصی مصروف رہتی ہیں۔بیوی مصروف ہو تو شوہر بےفکر رہتے ہیں۔ گھروں میں پڑےسنگھار میز پرسونے سے پہلے اورجاگنے کے بعد۔کچن۔واش روم اورپارٹی جیسے کئی بہانوں۔والی
لپ سٹک ہمیشہ پڑی ہوتی ہیں۔ہر لپ سٹک کا الگ کوڈہے۔سالوں پہلے۔کوڈ صرف۔سفری بیگ کا ہوتا تھا۔ آج کل تو باتیں بھی کوڈ ۔ورڈ میں ہوسکتی ہیں۔ ذُو معنی باتیں۔۔ذاتی
معلومات کے تبادلے کی باتیں۔۔ایسی باتیں جو سب کے سامنے کر۔بھی لی جائیں اور
انہیں سمجھ بھی نہ آئے ۔جسے اردو ۔میں ف
کی بولی کہتے ہیں۔ جیسے دکاندار گاہک کے سامنے
اور۔والدین بچوں کےسامنےکوڈ ۔ورڈ میں بولتے ہیں۔ زندگی آج کل پاس ورڈ
۔اور۔کوڈ کے گردہی گھوم رہی ہے۔ موبائل ،
کمپیوٹر،اے ٹی ایم ،لاکر، دفتر،ٹی وی ،ای میل اورفیس بُک سمیت ہر چیز کا الگ الگ پاس
ورڈ ہے۔اتنے سارے پاس ورڈ یاد رکھنے سےدماغ کی دہی بن چکی ہے۔کہتے ہیں کہ ایک فیصد محبوبائیں اپنے عاشق کی بیویاں بنتی ہیں۔باقی فیس بک
کا پاس
ورڈ بن جاتی ہے۔محبوبہ چونکہ خفیہ
ہوتی ہے شائد اسی وجہ سے پاس ورڈ خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن بکنگھم پیلس نے برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کی موت کا
کوڈ جاری کر دیا ہے۔ ملکہ کی موت کی اطلاع دینے کے لئے ”لندن
برج از۔ ڈاؤن‘‘ کا پاس ورڈ رکھا گیا ہے ۔ حالانکہ ملکہ زندہ ہیں۔دنیا کا یہ پہلا پاس
ورڈ ہے جوخود لیک کردیا گیا ہے۔
قبرستان میں تدفین جاری تھا۔کہ ایک نوجوان
بولا : بھائی ہاٹ سپاٹ کاپاس ورڈ کیا ہے ۔؟
بھائی:خفگی سے ۔۔۔ شٹ اپ
نوجوان:بھائی۔!۔ کیپٹل میں لکھناہے ناں۔؟
موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ پر بیشتر لوگوں کے پاس ورڈ۔ شٹ اپ
جیسے ہی ہوتے ہیں۔لیکن جو۔ پاس ورڈ ہم موبائل پر لگاتے ہیں۔ درحقیقت اسے ہم اپنے دماغ میں لگاتے ہیں۔اور جب دماغ لاک ہو
جاتا ہے تو موبائل بھی لاک ہو جاتا ہے۔ہم پاس ورڈ کا اہتمام یوں کرتے ہیں
۔ گویا۔قومی سلامتی کے تمام راز۔موبائل میں
پڑے ہیں۔ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا سمیٹ کر ہتھیلی پر رکھ دی ہے۔سنگا پورمیں ایک سافٹ وئیر انجنیئر نے Kissinger نامی سافٹ وئیربنا کر عاشقوں کی دوری کم کر دی ہے۔کسینجر درحقیقت۔
kiss اورMessenger کا فیوژن ہے۔انجنیئرصاحب
کہتے ہیں۔اگر عاشقوں
کو دوری کی وجہ سے پیار کے اظہارمیںمشکل ہے۔ تو۔وہ ۔ بذریعہ انٹرنیٹ بوسہ دے سکتے ہیں اور
محبوب ڈیوائس سے ہونٹ لگا کر۔بوسہ
محسوس بھی کرسکتا ہے۔مرید کہتا ہے کہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے اب ۔بوسے کےلئے
ہونٹوں کی نہیں بلکہ سافٹ وئیر کی ضرورت ہے۔ لیکن اکاؤنٹ ۔ہیک ہو گیا تو۔محبوب کے بوسے کوئی اور بھی لےسکتا
ہے‘‘۔
ہانگ
کانگ میں ایک پروفیسر نے کمیپوٹر، لیپ ٹاپ اورموبائل کے لئے ’’لپ پاس ورڈ ‘‘ٹیکنالوجی متعارف کروا دی
ہے۔ان کا دعوی ہے کہ ہر انسان ہونٹوں کوالگ انداز میں حرکت دیتا ہے۔ پاس ورڈ کے لئے بولنے کی بھی ضرورت نہیں۔صرف ہونٹوں کوحرکت دیں۔ڈیوائس کھل جائے گی۔لپ سٹک کوڈ۔ کے بعد۔ لپ کوڈ۔ نئی ٹیکنالوجی ہے۔ پاس ورڈ چوری ہونے کا بھی ڈرنہیں۔ کیونکہ ہونٹ چوری نہیں ہوسکتے۔سائنسی
ترقی نے۔لب شناسی کو علم کا درجہ دے دیا
ہے۔انگریزی محاورہ ہے کہ روحیں ہونٹوں پر
ملتی ہیں۔۔بوسہ۔مسیحائی کی تاثیر ۔روح تک پہنچانے
کا اکلوتا ذریعہ ہے۔ پیار ۔ہماری ۔ روح کا پاس ورڈ ہے ۔۔ہونٹ اچھے خاصے سنگھار
میز پر پڑے ہوتے تھے۔ اب موبائل پر رکھ
دئیے گئے ہیں۔شائد لپ پاس ورڈ میچ نہ کر سکے۔کیونکہ خواتین لپ سٹک بدلتی رہتی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں