ہفتہ، 8 اپریل، 2017

کہانی اس مرد کی جو مرغی بن گیا۔!

تقریباً دو سال پرانی بات ہے۔بڑی عید سے چند روز پہلے میرے دوست  شیخ مرید اوربھابھی نصیبومیں  لڑائی ہو گئی ۔ عید خوشیوں کا دیہاڑ ہے لیکن نصیبو میکے جا بیٹھی۔اورنوبت  علیحدگی تک پہنچ گئی۔ہوا۔یوں کہ مرید قربانی کےلئےبیل خریدکرلایا۔اسے کھونٹے سے باندھا ۔نصیبو بڑی ریجھ۔سے بیل دیکھنےآئی۔لیکن ہیضے کی طرح لڑائی اچانک پھوٹ پڑی۔مرید۔دراصل  چاہتا  تھا  کہ بیل کےلئے جو۔گانی، پٹہ، ماتھا پٹی، نتھ اورجھانجھروہ خریدکر لایا ہے۔نصیبو  پہن کردکھائے۔آرائشی چیزیں ۔اسے  پہنی ہوئی اچھی لگیں  تو  بیل کو پہناؤں گا۔
وہ بیچاری شادی کے بعدسےہی کھونٹے کےساتھ بندھی تھی۔اور۔جانتی تھی کہ مرید کے دماغ میں اکثر بھوسہ بھرجاتا ہے۔ گھر بچانے کے لئے۔نصیبو ۔بیل کا زیور پہننے کوتیاربھی تھی۔احتجاج تو محض اس لئے تھا کہ مرید ۔ مزیدکوئی بونگی فرمائش نہ کردے۔ کیونکہ وہ کھل بنولہ، چوکر۔اور۔ توڑی ونڈا کھلانے پر بھی بضد ہو سکتا تھا۔ اللہ جانے۔ تب مرید کی دماغی کیفیت کیسی تھی۔ لیکن دنیا میں بہت سے لوگ خود کو جانور سمجھتے ہیں۔ جانوروں کا ۔ کاسٹیوم پہن کر گھومتے پھرتے ہیں ۔جنہیں ٹیبوز کہا جاتا ہے۔
ٹیبوز ۔۔سماج کی ایسی ممنوع اورحرام  رسومات کا نام ہے۔۔ جنہیں  کسی باطل  عقیدے کی بنیاد پرقبول کر لیتاجاتا ہے ۔۔ آج کل  یورپی شہریوں  پرکُتا بننے کا خبط سوار  ہے۔۔شاپنگ سینٹرز میں کُتا ۔کاسٹیومز کی دکانیں کھل گئی ہیں۔  لاکھوں۔ مرد و زن۔ یہ ۔کاسٹیوم پہن کرکُتی حرکتیں کر رہے ہیں۔ بیچارے خود  کو پیدائشی کُتا سمجھتے ہیں۔  روزانہ  گلے میں پٹہ ڈال کر اپنے پارٹنر  کے ساتھ  گھومنے نکلتے ہیں۔۔ انسانی کتوں کی پریڈبھی ہوتی ہے ۔جسے ”پپی پرائیڈ پریڈ“ کہا جاتا ہے۔۔ یورپ نے۔ ڈارون کاارتقائی نظریہ  صدیوں بعد غلط ثابت کردیا ہے۔ آج وہاں۔بندر کی کوئی قدرنہیں۔  
ایک آدمی کو بندر ملا ۔وہ اُسے تھانے لے گیا
انسپکٹر:اسے ہمارے پاس کیوں لائے ہو۔ چڑیا گھر لے جاؤ۔
اگلے دن  پھر  آدمی  اور بندر۔ اکھٹے گھوم رہے تھے ۔
انسپکٹر: میں نے کہا تھا چڑیا گھر لے  کرجاؤ۔تم  لے کرنہیں گئے۔؟
آدمی:  ہم گئے تھے ۔چڑیا گھر۔۔بہت مزہ آیا۔۔آج ہم ۔ فلم دیکھنے سینما جا رہے ہیں۔۔
ڈارون ۔مرنے سے پہلے  یقینناًاپنے اجداد  کو چمپینزی اور بندرہی سمجھتا  رہا ہوگا۔اس نے اپنا شجرہ  نسب بھی  کسی بندر سے جوڑا ہو گا۔کوئی سال کھنڈ پہلے کی بات ہے۔سگنل توڑنے پر ۔۔ٹریفک  وارڈن نے۔ لاہور میں ایک   شہری  کو روکا۔ تو لڑائی   ہو گئی۔شہری جرم  کی صحت سے انکار اور وارڈن چالان کےلئےاصرار کر رہا تھا۔  تلخ کلامی  بڑھتی گئی۔تو  شہری  بولا۔’’ذرا تمیز سے بات  کریں میں بھی انسان ہوں‘‘۔اور۔  وارڈن نے چالان کاٹ دیا ۔چالان فارم پرنام۔اور۔ ولدیت کے خانے میں لکھا۔’’انسان ولد جانور‘‘۔یہ چالان ۔ڈارون کےارتقائی نظرئیے کا عملی ثبوت تھا۔کیونکہ ۔ڈارون اور۔  وارڈن  کے  ہیجوں میں خاص فرق نہیں ہے۔۔
کہتے ہیں کہ معاشرتی زوال کی ابتدا۔ فکری زوال سے ہوتی ہے۔ڈارون  کے علاوہ  یونانی مفکر۔۔ارسطونے بھی  کہا تھا کہ’’ انسان ایسا جانور ہے جو دو ٹانگوں پر چلتا ہے۔لیکن اس کی قامت سیدھی ہے‘‘۔ارسطو کے عہدمیں۔۔ دیو جانسن کلبی نامی۔ایک  ۔مفکر گذرا  ہے۔ایک دن ارسطو۔ اپنے شاگردوں کے درمیان بیٹھے تھے کہ دیوجانسن ۔بغل میں مرغا دبائے  وہاں پہنچ گئے۔مرغے کو زمین کر کھڑا کیا اور اس کی چونچ پکڑ کر گردن  سیدھی  کی تو ۔ مرغ سیدھا کھڑا ہوگیا ۔ کلبی زورسے ہنسا  اوربولا ’’شاگردو۔یہ ہے تمہارے استاد کا انسان‘‘۔تاریخ گواہ ہے کہ خود ارسطو کا قہقہہ بھی نکل گیا  تھا۔
مرغے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلے دیسی، دوسرے فارمی اور تیسرےبسمل۔انسانوں کو جانور کہنے والے’’ دانشور ‘‘۔مرغِ بسمل ہیں۔جن کی سوچوں پر  رقصِ بسمل  طاری  رہتا ہے۔فارمی مرغےہم کھاتے ہیں۔ دیسی  بانگیں دیتے  ہیں۔ بلکہ دیہاتوں  میں کُتے انسانوں کو سُلانے اور مرغے جگانے کی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ بچپن میں ۔ میں نے بھی  مرغا پال رکھا تھا۔میرے دوست چاہتے تھے کہ میں  مرغی بھی پالوں تاکہ کھانے کوانڈے ملتے رہیں۔لیکن میں ہمیشہ انکارکردیتا کیونکہ  انڈے سکول سے مل جاتے تھے۔مشکل یہ تھی  کہ۔استاد جی ڈنڈے کے ساتھ انڈا دیتے تھے۔اور فائدہ یہ رہا  کہ   میں جتنی دیرپڑھتا  رہا ۔جسم کی گرمائش    کم نہیں ہوئی۔ہم نالائقوں نے  مشہورکر رکھا تھا۔کہ سکول میں استاد جی انڈے دیتے ہیں۔ایک دن انہیں پتہ چل گیا۔پھرسزا تو وہی رہی  لیکن طریقہ بدل  گیا۔نئے طریقے میں استاد جی  پہلے مرغا بناتے۔اورپھر کہتے ۔اٹھو۔نالائقو۔ اپنی اپنی کاپی پرانڈے بھی خودبناؤ۔ یوں استاد جی کی جگہ انڈےہم دینے لگے۔ استاد جی۔ جس ۔ روز خوش ہوتے۔ ہم انڈے کا ناغہ کرتے۔۔
شہرمیں انڈےکم پڑگئےتو فارم کےمالک نےحکم دیاکہ کل سے ساری مرغیاں دو،دو انڈےدیں گی۔
مرغیاں۔۔ دو ، دو انڈےدینےلگیں۔لیکن ایک مرغی نے صرف ایک ہی انڈادیا۔
مالک:تم نےایک انڈا کیوں دیا۔؟
مرغی : مالک یہ توآپ کا خوف تھا وگرنہ میں تو مرغا ہوں۔
خبر یہ ہے کہ  یورپی ملک فرانس کا  44 سالہ۔۔ابراہم کُتا بننے کے بجائے مرغی بن گیا ہے۔وہ چوزے نکالنے کےلئے رضائی لے کر انڈوں پر بیٹھ گیا ہے۔پیریس میوزیم میں ابراہم کو شیشے کا کمرہ ملا ہے۔جس میں ایک خاص قسم کی کرسی پڑی ہے۔کرسی کی سیٹ میں سوراخ کرکے  مرغی کے 10انڈے رکھے گئے ہیں۔سر پر ایک بلب لگا ہے۔ابراہم 24 گھنٹوں میں سے صرف آدھاگھنٹہ انڈوں سے اٹھتا ہے۔مرغی21 دن میں چوزے نکالتی ہے  وہ کہتا ہے۔میں 26 دنوں میں نکالوں گا۔اورجب تک چوزے نہیں نکلتے میں انڈوں  پر بیٹھا رہوں گا۔اللہ جانے وہ کیاثابت کرناچاہتا  ہے۔
لڑکی نے اپنے دوست سے پوچھا:جانو۔ تم مجھے کتنا پیار کرتے ہو۔؟
لڑکا:جتنا تم مجھے کرتی ہو۔
لڑکی (غصے سے): کمینے پہلے بتانا تھا۔ کہ تم بھی ٹائم پاس کر رہے ہو۔
ابراہم بھی۔۔شائد۔ٹائم پاس کر رہا ہے۔کیونکہ مرغی کےجسم کا ٹمپریچر۔41 سے 45 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔اور۔ نبض ایک منٹ میں  چارسو مرتبہ چلتی ہے۔ مرغی  انڈوں کومسلسل  گھما گھما  گرمائش  دیتی  ہے۔چوزے بھی 41  ڈگری پر ہی نکلتے ہیں۔ جبکہ انسانی جسم کا ٹمپریچر 37 ڈگری  ہوتا ہے۔انڈوں کوگرمائش دینے کا’’نظام‘‘ بھی کوئی نہیں۔پھر بھی ۔ابراہم  انڈوں ۔پر بیٹھا ہے۔بیچارا۔مرغی  بننے کے لئے۔مرغ بسمل بنا ہوا ہے۔مرید بھی   کئی سال تک اولاد کے لئے دعائیں کرتا رہا ۔پھر دوستوں نے سمجھایا  کہ اولاد چاہیے تو پہلے شادی کرو۔
ہمارے ہاں سب سے زیادہ ہوائی قلعے شیخ رشید اورشیخ چلی کے مشہور ہیں۔اور انڈے بھی شیخ چلی کے ہی مشہور ہیں۔دنیا میں روزانہ جتنے انڈے فرائی ہوتے ہیں۔کم و بیش اتنا ہی  ۔۔ لُچ۔۔بھی فرائی ہوتا ہے۔ابراہم نے بھی  انڈوں پر بیٹھ کر لُچ ہی فرائی کیا ہے۔اس  کی خبر پڑھ کر مجھے منٹو اور  یوسفی صاحب۔کا ایک ایک قول یاد آگیا ۔  منٹو فرماتے ہیں۔’’چنگاری کوشعلوں میں تبدیل کرنا آسان ہے مگر چنگاری پیدا کرنا بہت مشکل ہے ‘‘۔اور   یوسفی صاحب کہتے ہیں۔جن نظروں سے تم۔۔ اب  مرغی کو دیکھنے لگے ہو۔ ویسی نظروں کے لئے تمہاری بیوی برسوں سے ترس رہی ہے ۔نصیبو بھی ترس رہی ہے۔اللہ جانے مرید اپنی سوچ کب بدلے گا۔دو سال پہلے ہی تو وہ۔اپنی  بیوی  کوبیل بنانے  کی کوشش کر چکا ہے۔

1 تبصرہ: