مجھےحیرت ہوئی جب بہت سے پاکستانیوں نے ہیلری
کی ہارپر افسوس سے زیادہ ٹرمپ کی جیت پر دکھ
کا اظہار کیا۔ ہیلری اپنی خالہ ہے اور نہ ہی ٹرمپ ماسڑ ۔ ۔پھر بھی ہم نے
چوہےبلی کا کھیل پورا کھیلا۔’’بے لذت گناہ‘‘ میں سے اپنا حصہ سمیٹا۔یہ سارے نامراد مسلمانوں کےدشمن ہیں۔ کھلے دشمن۔ عد
و المبین۔۔مسلمانوں کو لڑا۔کے حکمرانی
کرنے کے فارمولے پر گامزن۔۔۔امریکیوں نے الیکشن میں دو برائیوں میں سے ایک کا
انتخاب کرنا تھا۔سو ہیلری ہار گئی۔ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف جو ۔ مغلظات بکیں۔ وہ ۔ واضح اشارہ تھا کہ امریکہ کا ۔سر پھرا۔ حکمران۔طرزحکمرانی کے کس نظرئیے سے تعلق رکھتا ہے۔اس کے باوجود
امریکیوں نے ایک بدتمیز شخص کو اپناصدر چنا ۔ٹرمپ کی جیت نے ثابت کیا کہ امریکی۔ بھی بدتمیز ہیں۔کیونکہ پرانی کہاوت ہے
کہ ’’جیسی قوم۔ ویسے حکمران۔‘‘بالکل ویسے ہی جیسےہندوؤں نے ہندوستان میں
انتہاپسند مودی کو جتوایا ۔ ۔اس حساب سے
تو ہم پاکستانی کرپٹ قوم ہوئے۔ میرا دوست
شیخ مرید مسلسل بولے جا رہا تھا۔
ستمبر
2016 کی بات ہے۔ وہ پھر بولا۔ ۔میامی میں امریکی سائنس دانوں نے ایک نئی نسل کا کیچوا۔دریافت کیا تو اس کانام
’اوبامہ ‘رکھ دیا ۔ اور دعوی کیا کہ کیچوے
کو اوبامہ کا نام دینا۔ امریکی صدر کی
خدمات کا اعتراف ہے۔اسے محض اتفاق
ہی کہیے کہ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے چند روز
بعدجنوبی کیلی فورنیا میں ۔نئی نسل کے ایک کیڑے کی دریافت ہوئی ہے۔۔جس کےسر کی رنگت سفیدی مائل پیلی سی ہے۔ٹرمپ کے بالوں جیسی۔سائنسدانوں نے کیڑے کا سائنسی نام ’’ڈونلڈ ٹرمپی ‘‘رکھاہے۔حالانکہ ٹرمپ کی ابھی تک کوئی ملی خدمات بھی
نہیں ہیں۔یہ جذباتی فیصلے ہوتے ہیں۔کیڑے
اور کیچوے سے لوگوں کی خدمات کا اعتراف
کون کرتا ہے۔پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کے دوران مخالفین کو کُتا کہا جا تا ہے۔مخالفین کی’’ خدمات کےاعتراف ‘‘میں
۔ہم۔ خواہ انہیں کُتا کہتے رہیں۔ لیکن ان
کا نام کُتا تو نہیں رکھ سکتے۔عداوتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ۔مریدکا سانس اکھڑ چکا تھا ۔سو ۔وہ دم بھرنے کےلئے رک گیا۔
مرید۔میرا دوست بہت جذباتی ہے۔اور جب بھابھی(نصیبو)
سے لڑائی ہو جائے تو اوربھی جذباتی ہو
جاتا ہے۔خانگی جنگ میں ہار کے بعد وہ صرف کُڑھتا ہے۔۔جیسے آج کل امریکی عوام ٹرمپ کی جیت پرکُڑھتے ہیں۔۔مرید اپنا
کیتھارسس کرنے کے لئے ٹرمپ اور مودی کی انتہا پسندی کے قصے چھیڑ لیتا ہے۔بے ربط
قصے۔وہ کمہار کی طرح غصہ گدھی پرنکالتا ہے۔۔آج وہ پھر۔نصیبو کی ’’انتہاپسندی ‘‘کا
شکارہے۔وہ ۔بیوی سے جوابی لڑائی کی
خواہش ضرور رکھتا ہے مگر حوصلہ نہیں ۔سو وہ سیاستدانوں کو برا بھلا کہتا ہے۔اور
میں سنتا ہوں۔کیونکہ میں انتہائی اچھا سامع ۔ ہوں ۔۔اُس کی زندگی کے دو ہی بڑے
دُکھ ہیں۔ گھریلو حالات اور ملکی حالات ۔دونوں ۔ دگر گُوں ہیں۔نصیبو گھر میں مرید کے ساتھ
وہی کچھ کرتی ہے جوملک میں تحریک
انصاف ۔ ن لیگ کے ساتھ کر رہی ہے۔بلکہ گھرمیں
مرید کا وہی مقام ہے ۔ جو پاکستان
میں اقتدار سے باہر سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔حد تو یہ کہ قومی اسمبلی کے حالیہ
اجلاس میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کےممبران میں
ہونے والی مار کٹائی بھی مرید کے
گھر کی کہانی ہے۔جہاں جوتے، چمچے ، کڑچھے، ڈوئیاں اکثر ہوا میں اڑتی رہتی ہیں اور مرید اتنا ماہرہے
کہ وہ ہر چیز کو اپنی کمر پر روکتا ہے۔بیچارہ ’’روز ِازل‘‘ سےاپنے گھر میں بیوی بن کر رہتا ہے۔ڈرا ہوا۔ سہماسہما۔محترمہ
بانو قدسیہ نے کہا تھا۔’’محبت اپنی مرضی سے کھلےپنجرے میں طوطے کی طرح بیٹھے رہنے
کی صلاحیت ہے‘‘۔(حاصل گھاٹ سے ا قتباس)۔مرید بھی
اسی نظرئیے کا قائل ہے۔ وہ اپنی
مرضی سےکھلےپنجرے میں بیٹھا ہے۔اس کے پر کٹ چکے ہیں۔نئے پنجرے تک اڈاری مارنےکی ہمت بھی نہیں رہی۔ اور عزت جوتے کی نوک پر ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی انسان کےصبر واخلاق کا اندازہ تب لگانا چاہیے۔
جب اس نے ایک جوتا پہنا ہو اور دوسرا ڈھونڈ رہا ہو۔ ۔جوتا ایک چھپا ہوا ۔ ہو تو یہ
شرارت ہوسکتی ہے لیکن دونوں چھپے ہوں تو
یہ رسم ہے۔جسے شادی میں سالیاں ادا کرتی ہیں اورمسجد میں’’ سالے‘‘۔شادی مرد کی ذمہ
داریوں اور عورت کی تفریح میں اضافے کانام بھی ہے۔بیوی کی سب سے بڑی تفریح شوہر کے
جوتے پہننا ہوتی ہے ۔یوں شوہرکاصبر واخلاق بھی چیک ہوتا رہتا ہے۔ جوتا۔ایسی ضرورت
ہےجسے پاپوش کے ساتھ ساتھ بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے۔بلکہ ایسا ہتھیار جسے کھایا بھی جا
سکتا ہے۔ اور۔نظرِ بد سے بچنے کے لئے رکشوں اور بسوں کے پیچھے لٹکایا بھی جا سکتا ہے۔۔سوشل
میڈیا کےمبصرین تو کہتے ہیں کہ ’’محبت شادی کی گاڑی کے
پیچھے لٹکا ہوا جوتا ہے‘‘۔
دنیا بھر میں گذرے چند سالوں سے جوتا کلب کا بہت چرچہ ہے۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ اس کلب کے
ممبران میں مرید جیسے شوہرشامل ہوں گے۔ جو ازدواجی۔بے توقری کے بعدگھر سے باہرجوتے
چٹخاتے پھرتے ہوں گے لیکن حقیقت میں اس کلب کے سارے عہدے سیاست کے افق پر چھائے
سیاستدانوں کے پاس ہیں۔ جوتاکلب کی تحریک پہلی بار بغداد سے اٹھی تھی۔ اور جوتا
۔سابق امریکی صدرجارج بش پر اٹھا تھا ۔یوں
ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکی صدر اور جوتے کا گہرا تعلق ہے۔یہ تعلق جارج بش سے سفر طے کرتا ہوا۔ نئے امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ گیا ہے۔مرید بولا
۔کیونکہ اس کاسانس بحال ہوچکا تھا۔۔
تمہیں پتہ ہے۔ ؟۔ٹرمپ کے بال۔سِیل مرغے کی کلغی کی طرح نمایاں ہیں۔ وہ پھر کفن
پھاڑ چکا تھا۔بولا۔۔امریکی صدر ٹرمپ کی عزت بھی جوتے کی نوک پر رکھ دی گئی ہے۔اور
یہ کارنامہ امریکہ میں ملبوسات اور جوتے بنانے والے ایک مشہور برانڈ ’’گوچی ‘‘ نے
انجام دیا ہے۔
گوچی۔۔خواتین کے لئے دلچسپ اور نئے انداز کے جوتے بنانے میں ماہر ہے۔اس بار خاص
قسم کے جوتے بنائے گئے ہیں۔ جوتوں کی
تیاری کے لئے چین سے بکریوں کے بال
منگوائے گئے ہیں۔پیلے رنگ کے ۔۔۔ایک جوڑے کی مالیت 1800 ڈالر ہے۔ یہ جوتے امریکی
صدر ٹرمپ کے بالوں سے مشابہہ ہیں۔ انہیں
ٹرمپی جوتے کہا جاتا ہے۔شائد جوتوں سے ٹرمپ
کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہو۔؟۔امریکہ
میں ٹرمپ مخالف مظاہروں میں شدت کے بعد جوتوں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔کمپنی کو دھڑا
۔دھڑ آرڈر مل رہے
ہیں۔امریکیوں کے پیروں کو پیلیا ہو گیا ہے۔ مہنگے ہونے کے باوجود ٹرمپی
جوتے پسند کئے جا رہے ہیں۔۔۔ لیکن بہت سے امریکیوں کو ٹرمپی کیڑا ۔بھی پسند ہے۔ان
کے تو دماغوں میں کیڑا ہے۔۔سوچو ذرا۔ٹرمپی جوتوں کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کی کتنی بے
عز تی ہو ئی ہو گی۔؟اس نےمجھے پوچھا ۔
مجھے پتا ہے کہ جب وہ سوال پوچھتا ہے تو نیا موضوع شروع کرلیتا ہے۔اور میں نشست سے
بے زار ہو چکا تھا۔ گھر کی یاد۔ یوں آرہی
تھی ۔گویا۔سمندر پار بیٹھا ہوں۔لیکن مریدمسلسل بول رہا تھا کیونکہ وہ
ازدواجی جنگ ہار کے آیا تھا۔میں نے آخری انگڑائی بھری اور گھر جانے کے لئے اٹھا تو ۔اس نے پھر ۔۔ٹرمپی جوتے اوربے عزتی والا سوال پوچھ لیا۔
میں نے لاپرواہی سےکہا۔میری بلا سے جتنی مرضی بے عزتی ہوئی ہو۔ ۔ٹرمپ کونسا اپنا ماسڑ ہے۔اور۔ گھرکی
طرف دوڑ لگا دی۔کیونکہ مرید نے۔ابھی مودی۔نواز
شریف اور عمران خان پر بھی تبصرے کرنے
تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں