منگل، 12 جنوری، 2016

ریحام کا گانا ۔خان کا بہانہ

بچپن میں اماں بھنڈیاں کاٹتی توبھنڈی کی ٹوپیاں چھری سے کاٹ کرالگ برتن میں رکھتی جاتی۔ہم تھوڑی تھوڑی دیربعدماں کے پاس آتے۔برتن سے ٹوپیاں اٹھا کرماتھے ، ناک،ٹھوڑی اورگالوں پر چپکالیتے پھر بےوجہ اڑتے پھرتے۔اُڑان کے  دوران بازوں کو ہم یوں کھلے رکھتے جیسےفلم ڈی ڈی ایل جےمیں راج ( شاہ رخ )، سمرن(کاجول)کے لئے کھولے رکھتا ہے۔پورا دنایسی ہی خراورشرمستیوں میں گذرجاتا تو رات کو دادی یا نانی کے ہتھے چڑھ جاتے۔دادیوں اورنانیوں کےپاس حالانکہ شہزادوں اور پریوں کی کہانیاں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ ہمیں گودمیں سمیٹ کرصرف لوری سناتیں اورسُلانے کےبہانےاپنے سُرپکےکرلیتیں۔
انہی کچی لوریوں کی وجہ سے میرے بڑے بہن بھائیوں کے کان پک گئے۔ہماری باری آئی تو سُرپکےہوچکےتھے۔میرے کان پکنےکے بجائے سُریلے ہو گئے۔لوگ گاتےبہت اچھا ہیں لیکن میں سُنتا بہت ہی اچھا ہوں۔بچپن۔موت تک زندگی کا پیچھا کرتاہے۔بچپن میں کہا ہوا بندہبھول جاتا ہےلیکن سُنا ہوا یادرکھتاہے۔حتی کہ ردھم اورلہجے بھی یاد رہ جاتے ہیں۔میراثی کا بچہ سکول میں داخل ہو گیا۔
ٹیچر:دو کا پہاڑا سناؤ
بچہ شرما کر: مس جی تُسی فیر  نکی نکی ڈھولکی بجاؤ۔
بات صرف  لو ریوں پر انحصار کرنے کی  ہوتی ہے۔لوری کے  سُر اچھے ہوں تو لوگ کلاسیکل گائیک بن جاتے ہیں اور بُرے ہو ں تو پاپ سنگر۔سنا ہے بچے اپنی مادری زبان میں روتے ہیں لیکن بعض بچے  مادر ی سے زیادہ’’ پادری‘‘ زبان سمجھتے ہیں۔یہ فارمولہ ایپلائی کیا جائے تو میراثیوں کا بچہ روتا بھی سُر میں ہے ۔کبھی اونچے نوٹ  میں  اورکبھی نچلے سُر میں۔نک چڑھی یہ نسل صرف کریلے گوشت کھانے کے لئےزندہ رہتی ہے۔ روسٹڈ قیمے کے اوپر ڈالے ہوئے ادرک کے قاشے ۔کی کرچ  کرچ کے ساتھ  ہی  ان نزاکت  نمایاں ہونے  لگتی ہے۔انہیں گانے کے لئے تہوار یا فنکشن کا انتظار نہیں ہوتا ۔ عام گھرو ں میں جیسے تھوڑی تھوڑی دیر بعد بچے کچن میں جا کر فریج کی تلاشی لیتے ہیں۔ ایسے ہی مراثی تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ڈھولکی بجاتے رہتے ہیں۔حتی کہ پہاڑے  بھی ڈھولکی پر یاد کرلیتے  ہیں۔پیدائش سے لے کر موت تک ڈھولک ساتھ ہی رہتی ہے۔ بستر مرگ پر لیٹےسینئر میراثی کی عیادت کے لئے باقی  ہمنوا اکھٹے تھے۔صبح سے دوپہر ہو گئی۔تو ایک میراثی بولا۔’’ویلے جو بیٹھے آں، پولی پولی ڈھولکی نہ وجا لیئے۔؟‘‘
بچپن کی لوریاں ہم جوانی چڑھتے ہی اپنے اوپر ایپلائی کر دیتے ہیں۔جوانی جسم پر ہمیشہ  اکاس بیل کی طرح چڑھتی ہے۔انگ انگ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔کچھ اعضا سکھ جاتے ہیں اور چند نمایاں ہو جاتے ہیں۔ چہرے پر جوانی کی نشانی مہاسے ہوتے ہیں۔ جونہی مہاسے نکلتے  ہیں ہر شخص کے  گلے میں بھگوان بولنے لگتا ہے۔عام  گھرانوں میں گانے کی سب سے زیادہ ریہرسل باتھ روم میں ہوتی تھی   کیونکہ کُنڈی نہیں ہوتی تھی لیکن  آج کل گھرانے کم ہوتے جا رہے ہیں۔موسیقی کی ماں بہن ایک ہو نے لگی ہے۔موسمی گلوکار میدان میں اتر آئے ہیں۔ایک گلوکار نے اپنے ہمسائے کو شکایت کی۔
گلوکار: میں جب بھی گانا شروع کرتا ہوں آپ کا کتا بھونکنے لگتا ہے
ہمسایہ: اس میں کتے کا کیا قصور پہل تو آپ ہی کرتے ہیں۔
پہل کوئی بھی کرے ان بے سُروں نے ہمارے کان  پکا دئیے ہیں۔ان عطائی  گلوکاروں سے بھلی تو ٹریکٹر ٹرالی پر چلنے والی ٹیپ  لگتی ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ ٹریکٹر ٹرالی پر لگی ٹیپ اور بڑھاپے کی شادی دوسروں کے لئے ہوتی ہے۔معروف سیاسی کنوارے شیخ رشید احمد نے تو اس دو شرطی جملے میں بنک کی نوکری بھی شامل کی ہے۔آپ پتہ نہیں اتفاق  کریں گے یا نہیں لیکن اتفاق یہ ہےکہ موسم سرما میں باتھ روم کے اندر ہونے والی  گلوکاری باہر بیٹھے  لوگوں کو سردی اور ٹھنڈے پانی کی شدت کا احساس کرانے کے لئے ہوتی ہے۔نہاتے ہوئے  منہ سے ’’راگِ  بے ساختہ‘‘ پھوٹتا ہے اور جھاگ منہ  میں جانے تک یہی راگ چلتا ہے۔صابن ملائم ہونے کے باوجود منہ سے ایم کیو ایم کےقائد الطاف حسین  کے رِنگنے جیسے سُر نکلتے ہیں یا پھر کیفیت مارننگ شو کی ٹی وی  اینکر عائشہ ثنا کے منہ سے نکلنے والے ’’جنتر منتر‘‘جیسی ہو جاتی ہےلیکن بعض لوگ نہانےاور گانے سمیت بہت سے کام  بیک وقت کرنے کی خوبی رکھتے ہیں ۔
پطرس بخاری کے کسی عزیز کا نکاح تھا۔ نکاح پڑھانے کے لئے مولوی کی تلاش تھی۔ بہت مشکل سے ایک دُبلا پتلا سا  شخص  ڈھونڈ کر لایاگیا ۔ پطرس صاحب دیکھ کر  بولے۔ نکاح کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔نکاح خواں کی اور چھوہارے کی۔ ماشااللہ آپ  میں دونوں صفات موجود ہیں۔
یہ ساری تمہید ایک ایسی غزل کی وجہ سے باندھی گئی ہےجوپچھلے دنوں خاتون اول بننے کی سابق امیدوارریحام خان نے گائی تھی۔ریحام جس سیڑھی پر پاؤں رکھ کر خاتون اول کے زینے تک پہنچنا  چاہتی تھیں اس سے دھڑم گر پڑی ہیں۔وہ اپنے تئیں سانپ سیڑھی گیم کھیل رہی تھیں۔ جب بھی دانا پھینکتی سیڑھی چڑھ جاتیں۔ اچانک99 پر پہنچ کر سانپ  کا  ڈنک کھایا اورمنہ کے بل آ گریں۔گیم  سے آوٹ ہو نے  کا انہیں اچھا خاصا دکھ تھا۔عالم سوگواری میں ایک دن ریحام سے  گانے کی فرمائش ہوئی  تو انہوں نے بھارتی شاعر سدھرشن فاکرکی لکھی ہوئی  غزل جسے  چترا سنگھ نے گایا تھا  گُنگنائی ۔غزل کے بول ہیں’’عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا‘‘۔غزل کی  استھائی تو بالکل ٹھیک ٹھاک گائی لیکن جب انترا ’’ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا‘‘۔گایاتو ریحام کے گلے میں سوز و گداز اتر آیا۔میں  تو منتظر  تھا کہ ریحام کا ردعمل  غزل کےمقطع پر کیسا ہوگا۔؟ لیکن مقطع پر پہنچنے سےقبل ہی محفل رنجیدہ  اور ریحام آبدیدو ہوگئیں۔مقطع یہ ہے
ایک دو روز کا صدمہ ہو تو رو لیں فاکر ؔ
ہم کو ہر روز کے صدمات نے رونے نہ دیا
ریحام خان کی یہ غزل’’ون پاؤنڈ  فش ‘‘ کی طرح جلد ہی وائرل ہوگئی۔لوگوں نےبہت پسندکیا لیکن مجھےکوئی خاص حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ جب عمران خان نےوزیراعظم نواز شریف کوالیکشن لڑنے کاچیلنج کیا تھا تب ریحام ’’آ دیکھیں ذراکس میں کتنا ہے دم‘‘۔بھی گا چکی تھیں۔بھارتی فلم میکر راکیش اوپدھیا کے ساتھ مل کرانہوں نے  فلم بنانے کا اعلان بھی کررکھا  تھا پشتو فلم بنانے کا خواب بھی انہوں نے دیکھ رکھا تھا۔ لیکن ’’عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا‘‘۔گانے کی شہرت عمران خان تک بھی پہنچ چکی تھی تو انہوں نے کہا’’سنا ہے بہت سے لوگ روئے ہیں اور گانا بھی اچھاگایا۔‘‘تاہم عمران خان نے  کہا ’’میں بھی گا سکتا تھا مگر لوگ بہت روئیں گے اورکہیں گے خدا کے واسطے گا نا بند کردو ۔‘‘
روسی ادیب ٹالسٹائی کہتے ہیں کہ’’موسیقی ۔جذبات کاشارٹ ہینڈ ا ظہار ہے  اور جارج برناڈ شاہ کہتے ہیں کہ ’’جہنم اناڑی  گلوکاروں سے بھری پڑی ہے ۔‘‘ عمران خان نے گانا  ۔گانے سے انکار کر کے خود کو جہنمی ہونے سے بچا لیا ہے اور ہمارے کان بھی پکنے سے بچ گئے۔!

10 تبصرے:

  1. بس تحریر میں ربط نہ ہونے کی وجہ سے ایک بے مقصد تحریر لگی۔۔۔۔مثال کے طور پر آپ اسی تحریر کے ساتھ اگر چترا سنگھ کی غزل کی ویڈیو اور ریحام خان والی ویڈیو بھی شامل کردیتے تو موضوع بے مقصد ہونے کے باوجود قاری تحریر کے پس منظر اور پیش منظر دیکھنے اور سننے کے بعد تحریر کا مقصد سمجھنے میں آسانی ہوتی۔

    لکھا اچھا ہے۔۔۔۔مائنڈ نہ کیجیئے گا،۔۔۔جو محسوس ہوا وہی بیان کیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. خورشید صاحب مجھے پتہ ہے اصلاح کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔۔۔۔ آپ نے جو نشاندہی کی ہے اسے آئندہ سے زہن میں رکھوں گا۔۔ مائنڈ کرنے ولی کوئی وجہ نہیں۔ مفت میں اصلاح کار مل جائیں تو اور کیا چاہیے۔۔۔ شکریہ آپ نے رائے دی۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. شی ہیز بین اے بچ .. ہو از ٹرائینگ ٹو بی کم اے دانشور ائی یوزنگ عمران خانز نیم

    جواب دیںحذف کریں
  4. اجمل ملک صاحب کمال لکھتے ہیں ان کی تحریروں میں باز اوقات روز مرہ کی زندگی کے وہ پہلو بھی مزاح کی موڈ میں ڈسکس ہو جاتے ہیں جن کو ہم اہمیت تو نہیں دیتے مگر ان کی اہمیت سے انکار کرنا محبت خلوص ،پیار،جیسی ان عبادات سے انحراف کرنا ہے جو ہماری روحوں کو پاک کرتی ہیں اور اس الجھی ہوئی دنیاکے نہ سلجھنے والے مسائل میں ان یادوں کو تازہ کرنے کا جو فن اجمل ملک کے ہاتھ لگ چکا ہے اس سے میں سمجتھا ہوں کہ نہ صرف وہ خود محظوظ ہو رہے ہیں بلکہ اس سے زیادہ قارہین اپنی یادوں کی انگیھٹی کو سلگانے میں مستفید ہیں ۔اور یم دعا گو ہیں کے وہ اپنا سفر جاری رکھتے ہوے پیار محبت اور مزاح اور اصلاح پر پر ایسی تحریروں سے ہمیں اور بھی بہیت کچھ پڑھنے سیکھنے اور یادیں تازہ کرنے کا سلسلہ جاری و ساری رکھیں گے ۔اور تنقید جیسے نوکیلے نشتر کی پروا کیے بضیر اپنی منزل کی جانب گامزن رہیں گے ۔ایک شعر کے ساتھ اجازت ۔۔۔تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب ۔۔یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے۔شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ آپ جو بھی ہیں۔۔۔ براہ کرم اپنا نام ضرور ظاہر کریں تبصرے میں ۔۔۔ آپ کے تبصرے سے اتنا حوصلہ ملا کہ اور بھی لکھنے کو من مچلنے لگا ہے

      حذف کریں
    2. ناچیز کو وجیہہ اللہ نیازی کہتے ہیں ایک بڑے نیوز ٹی وی کا چھوٹے سے علاقہ سے معملولی سا نمائندہ ہوں مگر معمولی معمولی باتوں میں بڑی بڑی باتوں کو جانچنے اور لوگوں کو سمجنے کا ہنر ایسے ہی جانتا ہوں جیسے آپ معمولی سی بات میں کھال اڈھیھڑنے کے فن سے آشنا ہیں

      حذف کریں
    3. :) ای میل پر اس سے قبل آپ کا نام تھا اور نہ ہی تصویر ۔۔۔ اب پتہ چل گیا۔۔۔ بہت شکریہ

      حذف کریں
  5. سر کمال کی تحریر ہے۔۔۔۔خاص طور پر ادبی حوالہ جات سے بہت کچھ نیا سیکھنے کے لیے ملتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں