منگل، 2 مئی، 2017

گنجوں کی مانگ میں اضافہ

ماں کالاڈ۔پیار۔موسمی اثرات کے زیر اثر ہوتا ہے۔اماں۔موسم سرما میںہمیں۔مٹھو،راجہ اورسوہناکہتی تھی ۔اور جونہی گرمیاں آتیں تو۔ ہم سارے بھائی ٹنڈیں کروا لیتے تولاڈ بھی بدل جاتا۔گرمیوں میں ہم اماں کے۔ ٹینڈے، مینڈے اورکدو۔ہوتے۔ موسم گرما کی ابتدا ہوتے ہی۔ہم گرم پہناوں کی طرح بال بھی اتار دیتے۔کیونکہ ٹنڈکی تاثیر ستُوجتنی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ٹنڈ اور ختنے ہمارے ایسے تہوار ہیں۔جس کا مزہ صرف دیکھنے والےلیتے ہیں۔ مجھے یادہے۔گرمیوں میں۔ہمارے ہاں ٹنڈیں کروانے کی اجتماعی تقریب ہوتی۔تقریب کے دوران ہم رو۔روکر اور۔ بڑے ہنس ہنس کرہلکان ہوجاتے۔ہم چونکہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے ۔اس لئے ہم کزنزکی ٹنڈ بھی جوائنٹلی ہوتی۔بڑوں کوٹھولے مارنے کا شوق ہوتا تھا۔اورہمیں بچنے کی فکر۔یوں سارا دن ٹنڈپر ہاتھ رکھ کر میراتھن جاری رہتی۔

 تب گھروں میں بجلی نہیں ہوتی تھی۔ رات کو کمرے غار بنے رہتے ۔ جونہی لالٹین چالو ہوتی تو سب سےپہلےٹنڈچمکتی ۔ساری ٹنڈیں لائن میں سوتی تھیں۔جیسے۔ ریڑھی پرتربوز پڑے ہوں۔تب اے سی صرف امرا کے ہاں ہوتے تھے۔غرباکے ہاں تو ٹنڈ ہی ہوتی تھی۔یہ سلسلہ جوانی تک  جاری رہا۔ جوانی ہمیشہ آتشِ محبت ساتھ لاتی ہے۔۔’’جرِم جوانی‘‘ میں مزیدکئی بار ٹنڈ ہوئی۔ظالموں نے سر۔کا ہرہر بال بیکا کیا۔ محبت کی تپش ہڈوں سے نکال کرچھوڑی۔ابھی ٹھنڈپوری نہ پڑی تھی کہ شادی ہوگئی۔یوں زندگی میں پہلی بار۔بال خودگرناشروع ہوئے۔پھر جرم ِضعیفی لاحق ہوگیا۔سرپہ جوتھوڑی بہت جھالرباقی تھی۔جاتی رہی۔ پالنے سے آلنے تک سرکو بال دیکھنا نصیب نہ ہوئے۔اب تو دعا ہےکہ ’’خدا۔مجھے۔ناخن نہ دے‘‘۔کہتے ہیں کہ شادی زندگی میں ٹھہراؤ لاتی ہے۔یہ ٹھہراؤ صرف سرپر ہی آیا ۔وگرنہ دل توکم بخت اب بھی’’دھڑکتا‘‘ ہے۔وہ دوست جو بچپن میں روڈا کہتے تھے۔ اب۔وہ گنجاکہتے ہیں۔میرا دوست مریدکہتا ہے کہ ٹنڈکروانی ہوتوحجام  کی دکان پر نہیں محبوبہ کی گلی میں جاناچاہیے۔لیکن شیخ صاحب  ہسپتال پہنچ گئے ۔
ہسپتال کا عملہ شیخ کے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔لوگوں نے پوچھا کیا ہوا۔ ؟
ڈاکٹر:تین بارایساہوچکاہےکہ ۔یہ بھگوڑا دماغ کا آپریشن کرانےآتا ہے اورٹنڈکرا کےبھاگ جاتا ہے۔
ٹنڈکرنے اور کرانےمیں بظاہرتو الف۔کا ہی فرق ہے لیکن اس کےاثرات۔رضا مندی اور زبردستی کی شادی جتنے بھیانک ہوتے ہیں۔اسی لئےکبھی ٹنڈکرنےوالے بھاگ جاتے ہیں اورکبھی کرانے والے۔لیکن ٹینڈےاورگنجے میں خاصا فرق ہوتا ہے۔ٹینڈاکبھی۔بھی ہوا جاسکتا ہے۔گنجا ہونےکےلئے شوہر ہونا ضروری ہے۔انسان کی عزت بالوں میں ہوتی ہے۔ ٹنڈ ۔بے شرمی کی علامت ہے ۔اسی لئے شرمیلے وِگ پہنتے ہیں۔ زبردستی کی شادی۔زبردستی کی ٹنڈ جیسی ہوتی ہے۔تبھی’’ متاثرین‘‘ شرمندہ شرمندہ رہتے ہیں۔ٹنڈ ۔ایسا پہناوا ہےجسے زبردستی پہنایا جائےتو عزت خاک میں مل جاتی ہے۔شہر۔ہوں یا دیہات ۔لوگ انا کے فیصلے ٹنڈسےکرتے ہیں۔ خطا کاروں کےسر مونڈ۔کربےعزتی کی جاتی ہے۔شادیوں پردولہے بے وجہ رومال سے ناک چھپاتےہیں ۔عزت اگر ناک میں ہوتی تو خطاکاروں کے بال کے بجائے ناک کاٹی جاتی۔مرید توکہتا ہےکہ دولہے ناک اس لئے چھپاتے ہیں کیونکہ شادی بھی ایک خطا ہے۔جس میں گدھےکو گھوڑےپربٹھایا جاتا ہے ۔
چوہدری شجاعت حسین جب وزیراعظم تھے۔بہاولپورمیں ایک خاتون سے زیادتی ہوگئی ۔تو وزیراعظم۔محمد بن قاسم بن کروہاں  پہنچے۔اور پولیس کوحکم دیا کہ’’زیادتی کے ملزم پکڑیں۔انہیں  لِتر ماریں۔ٹنڈیں کرکےکھوتے پربھٹائیں اور۔ پنڈ کا چکرلگوائیں‘‘۔پنجاب خواہ  جتنی مرضی میٹرو بسیں چلا لے۔دیہاتیوں کی  سواری ۔آج بھی خطا کار۔ والی  ہے۔کھوتوں پر بیٹھنے والے خطا کار نہ بھی ہوں پھربھی اوسان خطا ہی رہتے ہیں۔مریدکہتا ہےکہ ٹنڈ ایشیا کے مردوں کا پہناوا ہے۔جویورپی خواتین میں بھی مقبول ہو رہا ہے‘‘۔ ٹنڈ دیکھ کرہمیں تین طرح کے خیالات  آتے ہیں۔پہلا کہ آدمی عمرہ کر کے آیا ہے۔دوسرا۔ کہیں پکڑاگیا ہے۔اورتیسراکہ  اسےگرمی زیادہ لگتی ہے۔
مرحوم مستانہ(کامیڈین) کہتے ہیں کہ فلم سٹار۔نرگس نے ایک آدمی سے کہا مجھےگرمی لگتی ہے۔توآدمی نےاےسی لگوا دیا۔ تومیں(مستانہ) نےبھی انہیں کہہ دیا ۔حاجی صاحب۔گرمی تومجھےبھی بہت لگتی ہے۔ تو انہوں نے مجھے بیس روپے دےکرکہا۔’’ جاؤ ٹنڈکروا لو‘‘۔
پاکستان کےبیشتر امرا۔ بیک وقت۔نرگس اورنرگیست کا شکار ہیں۔نرگسیت انہیں ٹنڈسےبچاتی ہے اور وہ۔ نرگس کی ٹنڈ بچاتے ہیں۔سعادت حسن منٹوکبھی نرگسیت کا شکار نہیں ہوئے۔انہوں نےٹنڈکا تذکرہ گنجے فرشتے لکھ کرکیا۔وہ لکھتے ہیں کہ’’میرے شہرکے معززین کو۔ میرے شہرکی طوائفوں سے بہترکوئی نہیں جانتا‘‘۔منٹونےگنجے فرشتے کے۔ہرکردارکی۔رُوح  کوعریاں کیا ۔ایک بھی  فرشتہ نہ نکلا۔فرشتوں کی تلاش ابھی جاری تھی کہ عطاالحق قاسمی نے مزید گنجے فرشتے لکھ ڈالی۔’’امریکہ میں نشے میں دھت ایک عورت متلی کرنےکوڑے کے  ڈرم پرجھکی۔اور۔اندرجاگری۔ایک سردارجی ادھرسےگزرے۔انہیں ڈرم سے دوٹانگیں نظرآئیں۔خاتون کوباہر نکالا۔اور بولے’’یار یہ امریکی بھی عجیب  ہیں۔یہ عورت۔ابھی چار پانچ سال مزید چل سکتی تھی مگرکوڑے میں پھینک گئے‘‘۔مزید گنجے فرشتے سے اقتباس
امریکی سچ میں عجیب لوگ ہیں۔ٹائمزمیگزین توکہتا ہےکہ’’ گنجے مرد۔بال والوں کی نسبت زیادہ پراعتماد اور ذمہ دارہوتے ہیں ۔انہیں نوکری اوربڑے عہدےبھی جلدمل جاتے ہیں ۔وہ زیادہ پھرتیلے ہوتے ہیں۔جبکہ۔’’انڈی 100‘‘نامی امریکی ویب سائٹ۔توکہتی ہےکہ’’ہماری ٹیم نے درجن بھرمردوں کی تصاویر لیں۔ہرتصویرکی تین بار ایڈیٹنگ کی۔اسےگھنے بالوں والے،نیم گنجے اورمکمل گنجے میں تبدیل کردیا۔اور یہ تصاویر جب خواتین کو دکھائی گئیں توانہوں نے۔گنجے مردوں کوخوبصورت، بہادراورپراعتماد قراردیا‘‘۔شائدگنجے کی ایک رگ زیادہ ہو تی ہے۔شائد اُن کا سر ”اوپر“سے خالی ہوتا ہے۔شائداسی لئےامریکی خواتین۔گنجے پسندکرتی  ہوں۔؟ ۔لیکن مریدکہتا ہےکہ’’مردووں کی زندگی میں پریشانیاں سرسے داخل ہوتی ہیں۔ اسی لئے  اکثر شوہرگنجے ہوتے ہیں ‘‘۔
کہتے ہیں کہسرپربال لگوانے سے دماغ کی خزاں بہارمیں  نہیں بدلتی۔گنجے کے پاس سنوارنےکو ”بال“ نہیں ہوتے لیکن۔ دھونےکوکافی سارامنہ ہوتا ہے۔سرحدوں کی قید سے آزاد منہ۔۔ٹنڈ ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہے لیکن گنجے دو جیسے۔ گھریلوگنجے اور سیاسی گنجے۔گھریلو گنجے ہرجگہ پائےجاتے ہیں اورسیاسی گنجے ۔ایوانوں میں ہوتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی ٹنڈیں قوم کےمستقبل سےبھی زیادہ روشن  ہیں۔گھریلو گنجے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے ہیں۔اورسیاسی گنجے۔ازخودسزا ہیں۔مجھےتو جوؤں کے علاوہ ٹنڈکاکبھی فائدہ نہیں ہوا۔لیکن امریکی خواتین گنجوں کی ویسے ہی مداح  ہیں۔جیسی مائیں ہمارے بچپن میں تھیں۔ 

1 تبصرہ: