جمعرات، 25 دسمبر، 2014

تبدیلی ۔۔ شازیہ۔۔ شاہد بن گیا


میں بڑا ہو کر ٹرک بنوں گا۔۔۔
ایک رکشے۔۔کے پیچھے یہ تحریر پڑھی تو حیرت ہوئی ۔۔۔۔کیا ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے۔۔۔؟
پھر تو خچر۔۔ گھوڑا بننے کی ضد کرے گا۔۔۔بکرا ۔۔اونٹ کی امید لگا سکتا ہے۔۔۔۔تانگہ ۔۔۔ ٹرین بننے کاپروگرام بنا سکتا ہے ۔۔۔!
ایسا ہو گیا تو۔۔۔۔یہ خلاف وضع فطری فعل ہوگا۔۔۔۔!۔تبدیلی عموماسیاسی اصطلاح ہے۔مادر جمہوریت ۔۔برطانیہ اور امریکہ سمیت۔۔۔ جمہوریت کے گاڈ فادر ممالک میں ۔۔بر سراقتدار جماعتیں اگلا الیکشن ہار جائیں تو لوگ اسے تبدیلی سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔۔ پاکستان میں بھی تبدیلی کاشور و غوغا ہوا ۔۔۔ الیکشن کے بعد ۔۔۔تبدیلی کا بگل عمران خان کےہاتھ میں تھا۔۔۔انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو۔۔ عوامی تحریک نے آوے۔۔ای ۔۔ آوے ۔۔کہہ کر ’’خلاف وضع فعل ‘‘میں شمولیت کر لی۔۔

بگل کی آواز مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت ہر سیاسی اور غیر سیاسی حلقے میں اس شدت سےکُوکی ۔۔۔کہ چند حکومتی امور صراط مستقیم پر بھی آگئے۔۔۔اور۔۔۔وہ نعرہ ہے ’’تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آگئی ہے‘‘۔۔!
تبدیلی کیا حادثاتی عمل ہے۔۔۔۔؟
کیا یہ اتفاقیہ ممکن ہے۔۔۔۔؟
یاکسی مسلسل عمل کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔!
اس پر مزید طبع آزمائی جاری ۔۔۔ضرور ۔رہنی چاہیے ۔۔۔۔لیکن آثار تبدیلی کے ملاحظے کے لئے آنکھوں کے علاوہ بیداری ۔شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔
شعور کابلب بند ہو تو ۔۔۔۔ایسا بھی ہوتا ہے۔۔
بیوی: آپ نے جو گلاب کی قلم لگائی تھی، اس کی جڑ ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔ میاں: تمہیں کیسے معلوم؟ بیوی: میں روزانہ اس کو نکال کر دیکھتی ہوں۔
تبدیلی کاادراک۔۔۔عقل مند اور عقل بند کے لئے الگ الگ ہوتا ہے۔۔ کئی بار سامنے دکھنے والی حقیقت بھی ۔۔۔ چاک ہونے پر جھوٹ نکلتی ہے۔
بے وقوف:یہ سامنے جو گائے نظر آرہی ہے، اس کے سینگ کیوں نہیں ۔۔۔؟ دیہاتی:کچھ جانوروں کے سینگ ٹوٹ جاتے ہیں اور بعض کے ہم کاٹ دیتے ہیں۔۔۔لیکن اس گائے کے سینگ اس لیے نہیں کیونکہ وہ گھوڑا ہے۔۔۔۔!
ہمارے بدلنے سے پہلے۔۔ انداز نظر بدلنا ضروری ہے۔۔ گھوڑے اور خچر میں تمیز نہیں تو تبدیلی کا نعرہ کیوں ۔۔؟عمران خان کے نعرہ ئے۔۔۔تبدیلی سے قبل۔۔ ہم تو تبدیلی جنس کو ہی تبدیلی سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔ ۔۔۔
سرگودھا روڈ پر واقع فیصل آباد کے نجی اسپتال میں ملتان کی رہائشی۔۔ دو بہنیں تبدیلی جنس کے کامیاب آپریشن کے بعد بھائی بن گئے ہیں ۔گھر میں دو پلے پلائے بیٹے آنے پر ان کے والد اللہ دتہ خاصے خوش ہیں ۔ان کی پہلے نرینہ اولاد نہیں تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملتان کی رہائشی بہنیں جو بھائی بن گئیں۔۔۔۔۔۔
 یہ تبدیلی ۔۔۔رکشے کے پیچھے لکھی ہوئی تحریر ۔۔’’میں بڑا ہو کر ٹرک بنوں گا‘‘۔۔۔جیسی ہے۔۔ ۔ہارمونز کے تغیر کی وجہ سے۔۔۔جینون ۔۔سپئیر پارٹس کی تبدیلی۔۔!۔۔۔18 سالہ شازیہ۔۔۔ شاہد بن گیا ہے اور15 سالہ مہناز ۔۔۔ اب احمد ہے۔۔۔۔تبدیلی کا یہ عمل 15 سے 18 سال میں ممکن ہوا۔۔۔جمہوریت ہو یا آمریت پاکستان میں کسی بھی نظام حکومت کو مسلسل 15 سے 18 سال کا دورانیہ نہیں ملا۔الیکشن 2013 کے صرف ایک سال بعد 14 اگست 2014 کو جس تبدیلی کا شو ر و غوغا ہوا۔۔۔ وہ تبدیلی فی الحال شازیہ کے شاہد بننے کے درمیان کا مرحلہ ہے۔۔۔۔! اللہ دتہ نے آزادی مارچ میں حصہ لیا اور نہ ہی انقلاب مارچ میں ۔تبدیلی کے ثمرات اس تک بھی پہنچے۔۔ اسے1سال میں دو خوشیاں ملیں۔۔۔ اللہ دتہ کی امید۔۔۔ پھرامید سے ہے اسے یقین ہے اللہ اسے مزید خوشی دکھائے گا۔ کیونکہ اس کی تیسری بیٹی میں بھی ہارمونز تغیرپزیر ہیں۔۔
ایک بچے نے مُلادو پیازہ سے پوچھا: جناب انڈے سے چوزہ کیسے نکل آتا ہے؟
مُلا:میاں۔۔! میں تو سوچ رہا ہوں کہ چوزہ انڈے میں گھستا کیسے ہے؟
ہم نے کچھ چوزوں کو۔۔ انڈوں کے اندر رہنے دینا ہے ۔۔۔ اور کچھ انڈوں کو چوزوں کے اندر رکھنا ہے ۔یہ سوالیہ نشان ہی معاشرے کا حسن ہیں ۔۔سوسائٹی دفن رازوں کےساتھ ہی پروان چڑھتی رہتی ہے۔ ہر حقیقت کھول دینے کے لئے نہیں ہوتی۔۔۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں بھی ایک حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش ہو ئی تھی ۔
صدرShemale فاونڈیشن پاکستان الماس بوبی کااُس ’’دور انصاف ‘‘میں خاصا تذکرہ رہا ۔۔۔۔اچانک ۔۔ان کے حقوق۔۔۔ ووٹ۔۔۔شناختی کارڈ۔۔۔ نوکری۔۔۔ اور احترام کا چرچا ہونے لگا۔۔۔ٹی وی چینلز نے الماس بوبی کو اینکر پرسن بنا کر جاوید چوہدری اور حامد میر کے برابرلا بٹھایا ۔۔۔ شناختی کارڈ میں’’شی میل ‘‘ کی جنس کیا لکھنی ہے۔۔ دکھنے کے باوجود ۔۔ہم حققیت چاک ہونے کے منتظر رہے ۔۔۔
بیوی شوہر سے : چلیں آنکھ مچولی کھیلتے ہیں ۔۔۔ اگر آپ نے ڈھونڈ لیا ، تو ہم شاپنگ پرجائیں گے شوہر : اور اگر نہ ڈھونڈ سکا تو ۔۔؟ بیوی گھبراتے ہوئے : ایسا تو مت کہیں۔۔! میں کسی دروازے کے پیچھے ہی چھپ جاؤں گی۔۔۔؟
خواہشوں کی تکمیل کے لئے ہم نے۔۔ کوکلا۔۔ چھپاکی کا آسان سا فارمولہ ۔۔۔تلاش کر لیا ہے۔۔۔جھونپڑی کو محل بنانے کے لئے محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔بنک لوٹنے یا اغوا برائے تاوان کی نہیں ۔۔۔البتہ ۔۔۔سرے محل بنانے کے لئے ہو سکتی ہے۔۔؟ راہ چلتے چابی مل جائے تو گاڑی اپنی نہیں ہو جاتی ۔۔ چابی واپس ۔۔لوٹانا ہوتی ہے۔۔۔شارٹ کٹ ہمیشہ ازیت ناک ہوتا ہے۔۔ لڑکا لڑکی سے :۔۔
’’میں شکیل کی طرح امیر تو نہیں ، اس جیسا بنگلہ ہے ۔۔۔ نہ گاڑی ۔۔ نہ ہی اُتنی دولت ۔۔۔پھر بھی میں تمہیں خوش رکھوں گا‘‘ لڑکی : ’’اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن مجھے شکیل کے متعلق اور بھی بتاو‘‘۔۔۔اس کا ایڈریس اور فون نمبر بھی۔۔۔
شکیل کی امارت ۔۔اور۔۔ عیش و عشرت ۔۔موروثی بھی ہو سکتی ہے۔۔شارٹ کٹ سے شکیل تو مل سکتا ہے۔۔ دولت کی گارنٹی نہیں۔۔تبدیلی کے لئے مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔۔یہی تسلسل تبدیلی ۔۔اور۔۔ترقی کا زینہ ہے۔۔دو دو ۔۔موبائل فون رکھنا۔۔ اور۔۔ فیس بک اکاونٹ بنا لینا تبدیلی نہیں۔۔۔
مالکن پڑھی لکھی نوکرانی سے:رضیہ۔!۔۔ تم تین دن سے آئی نہیں اور بتایا بھی نہیں ؟ نوکرانی : باجی میں نے تو فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر دیا تھا ۔۔
" گوئنگ ۔۔گاؤں۔۔۔ فار ۔تھری۔۔ ڈیز "صاحب جی کو پتہ ہے۔۔ انہوں نے تو کمنٹ بھی کیا تھا ۔۔’’ مس یو رضیہ‘‘
صاحب تو رضیہ کو مس کررہے ہیں۔۔۔!لیکن ہم نے اخلاقیات سمیت بہت کچھ مس کر دیا ہے ۔۔ مجھے خدشہ ہے تبدیلی بھی کہیں مس ہو گئی ہے۔۔!

3 تبصرے: