جمعرات، 6 نومبر، 2014

غیرت مند اور بےغیرت


غیرت مند اوربےغیرت میں صرف غیرت کا ہی فرق ہوتا ہے ۔ ہم غیرت مند کی بجائے ضرورت مند ۔زیادہ ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنی خواہشوں کوغیرتوں کے سر پر چڑھا رکھا ہے۔ہاں! تھوڑی بہت غیر ت ہمیں آتی ہے لیکن صرف خانگی مسائل پر۔ کیونکہ امورخانہ داری نبھانہ ہوتے ہیں۔ بہت پرانی روایت ہے کہ زن، زر اور زمین جیسے بنیادی عوامل غیر ت کو جنم دیتے ہیں لیکن یہ خانگی غیرت، قتل و غارت اور امن عامہ جیسےمزید مسائل جنتی ہے۔یہی تینوں عوامل آج بھی موجود ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ہمیں آج بھی غیر ت صرف انہی تین وجوہات کی بنا پر آتی ہے۔
 غیر ت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم باہمی اختلاف بھلا کر لکڑہارے کی اس بند مُٹھی کی مانند ہو جائیں ، جس کی مثالیں ہمارے بڑھے بوڑھے بچپن میں سنایا کرتے تھے کہ ’’اتفاق میں برکت ہے‘‘ اگر معاملہ اتفاق والا ہو تو پھر 2 نومبر 2014 کو واہگہ بارڈر پر ہونے والا خود کش حملہ آخری تصور کیا جا سکتا ہے لیکن نااتفاقی کی وجہ سے یہاں سب کچھ اتفاقیہ چلتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر اتفاق حسین بھی ہو۔
سانحہ واہگہ بارڈر اتنا دل دہلا دینے و الا ہے کہ ماضی میں کبھی کسی دھماکے پر دل اتنا رنجیدہ نہیں ہوا ۔واہگہ بارڈر دو قومی نظرئیے کی نشانی ہے۔جنگ آزادی 1857 کے دس سال بعد علی گڑھ مکتبہ فکر کے بانی سرسید احمد خان نے ہندی اردو جھگڑے کے باعث 1867ء میں جو نظریہ پیش کیا ، اسے دو قومی نظریے کی بنیادتصور کیا جاتا ہے ۔ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت 1 ہزار سال پر محیط ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی شاطرانہ چالوں نے مسلمانوں کے طویل اقتدار کوراہ زوال دکھائی ۔1857 میں بہادر شاہ ظفر کے بعد ہندوستان کو کوئی مسلمان بادشاہ نصیب نہیں ہوا۔مسلمانوں کا اقتدار ہندووں کے بجائے براہ راست ملکہ برطانیہ کے قبضہ میں چلا گیا ۔مسلمان جو ہندوستان کی حاکم قوم تھی اچانک محکوم بن گئی، لیکن غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ کلمہ گویائی کے لئے کسی آزاد ریاست کے حصول کی جدوجہد کی جائے،ایک ہزارسال تک حاکم رہنے والے مسلمان انگریز تسلط میں ایک صدی بھی محکوم بن کر نہ رہ سکے۔ حضرت قائداعظم کی قیادت میں ہمارے پورکھوں نے جنگ آزادی کے ٹھیک 90 سال بعد 1947 میں لا الہ اللہ کی بنیاد پر نئی سلطنت حاصل کر لی۔
واہگہ سمیت ساری لائن آف کنٹرول پر جگہ جگہ بنے ہوئے بھارت داخلے کے گیٹ ہماری غیرت و جرات کا مینارہ ہیں۔ واہگہ لوگ جاتے تو شائد سیر سپاٹے کے لئے ہی ہیں لیکن وہاں گونجے والے نعرے حب الوطنی کا ایسا بے لوث جذبہ بیدا ر کرتے ہیں جوغیرت وطن کا حقیقی تقاضا ہے اوراسیران محبت کے نزدیک تو وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ بانو قدسیہ ’’حاصل گھاٹ‘‘میں لکھتی ہیں کہ’’محبت اپنی مرضی سےکھلے پنجرےمیں طوطے کی طرح بیٹھے رہنے کی صلاحیت ہے‘‘یہ قول صد فیصد حب الوطنی پر بھی صادق اترتا ہے۔ ہم کھلے پنجروں میں بیٹھے ہیں۔ شکاری ہمارے اطراف میں ہیں۔جو پنجروں کو لگانے کے لئے چھوٹے بڑے قفل ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ ہم الف لیلوی داستانوں کے وہ طوطے ہیں جن کی سانسیں آزاد وطن کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔ ہمیں مارنے کے لئے کسی گولی ، توپ اور بم کی ضرورت نہیں، خدا نخواستہ وطن کو کچھ ہوا تو کون کافر زندہ رہے گا ۔۔!
کہتے ہیں کہ نہر کے ایک کنارے پر چلنے والے شخص نے دوسرے کنارے پر چلنے والے پاگل کو آواز دے کر پوچھا۔ سنو ! ہم دونوں میں کیا فرق ہے۔۔؟ تو پاگل نے جواب دیا نہر کا۔۔ !وطن عزیز کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے سربراہان میں صرف نہر کا ہی فرق ہے۔ احتساب اور حکومت ٹوٹنے کے خوف سے یہ سربراہان ایک دوسرے کو نظریہ ضرورت کی چادر اوڑھا دیتے ہیں یہی سربراہان قومی خزانے کو کمبل کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔وہی ریچھ والا کمبل جس کے بارے میں ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’میں تو کمبل کو چھوڑ رہا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا‘‘۔یہ تمام آزاد منش لوگ اقتدار کی غلام گردشوں میں حکمرانی کے طوق پہن کر رہنا چاہتے ہیں۔ رائے ونڈ ، بنی گالہ، بلاول ہاوس، نائن زیرو اور منصورہ وغیرہ میں رہنے والے روزانہ کُلی اقتدار کے خواب دیکھتے ہیں ۔ شب بیداری کے بعد کئی بار تو ان کے ہاتھ میں جزوی اقتدار بھی نہیں رہتا۔اقتدار کی اٹھتی ٹیسیں دل میں لئے یہ خود ساختہ حاکم بھول بیٹھے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر ؓ تو دریائے فرات کے کنارے کُتا پیاسے مرجانے کی خوف سے بھی پریشان رہتے تھے ۔یہاں تھر میں روزانہ بھوک پیاس سے لوگ مر رہے ہیں اور جو بچ گئے ہیں وہ زندہ لاشے گھسیٹے پھرتے ہیں۔بم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والے بھی لاش بن کر بہ قید حیات ہیں۔یہاں پر بلاگ کے شروع میں لکھا گیا جملہ ایک بار پھر پڑ ھ لیں۔
پاکستان شائد دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں حصول اقتدار کاسلیقہ ہے، اختلاقیات ہیں اورنہ ہی میرٹ۔ اقتدارکے رسیا لوگوں کی ایک ہی خواہش ہوتی ہےکہ انہیں کسی طریقےسےتخت بلقیس پربٹھا دیا جائے۔ماضی میں توتین چار بارہُد ہُدایسا کر بھی چکے ہیں۔انہیں ایسا تخت بلقیس چاہیے تھا جہاں ران کھینچنےوالا کوئی نہ ہو۔ مارشل لا، دھاندلی اور وسط مدتی انتخابات سمیت شارٹ کٹ کا کوئی بھی زینہ ہو ہمارے سیاستدان اسے اپنانےکےلئےنہ صرف تیار بلکہ بے قرار رہتےہیں۔ واہگہ بارڈرپردہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ ہو یا پھرجی ایچ کیو،کامرہ ائیر بیس،نیول ہیڈ کوارٹر، کوئٹہ میں ہزارہ قبیلہ ،بسوں اور ٹرین میں ہونے والے بم دھماکے غرض دربار ، ہوٹل ، سکول، مسجد ، امام بارگاہیں، سپورٹس کمپلیکس ، ہسپتال، سکیورٹی ادارے کچھ بھی ان دہسشت گردوں کی دسترس سے محفوظ نہیں۔ہم Do more کی گردان کی وجہ سے وسائل پر قبضے کی عالمی سازش کا حصہ بن گئے ہیں۔ ہم نے پر ائی جنگ کو اپنا بنا لیا ہے جسے پنجابی میں کہتے ہیں ناں ’’پرائی جنج اچ احمق نچے‘‘ ہم نے اپنا اربوں روپے کا نقصان کروا لیا، قیمتی املاک ہم کھو چکے ہیں، ہمار ا انفراسٹرکچر تتر بتر ہو گیا، عالمی سطح پر بدنامی کرائی، اپنے عزیز و اقارب کی انمول جانیں وطن پر نچھاور کیں۔سماج کا ہر چپہ چپہ آج بھی انہی دشمنوں کے ٹارگٹ پر ہے۔ اغیا ر سے کیا گلہ ہمارے تو اپنوں نے ماڈل ٹاون لاہور میں عوامی تحریک کے دفتر پر گولیاں برسا کر 14 افراد کومار ڈالا۔غیرت کس بلا کا نام ہے ۔ پھر بھی سمجھ نہیں آرہی ۔
سانحہ ماڈل ٹاون لاہور اتنا ہی ازیت ناک ہے جتنا واہگہ بارڈر پر ہونے ولا حملہ ۔پنجاب پولیس نے اوپر سے ملنے والے اشاروں پر کیسے گولیاں چلائیں اس کا تذکرہ کرنا مندمل زخموں کو کھرچنے جیسا ہے۔اس کے محرکات جاننے کے لئے بنایا گیا جوڈیشل کمیشن آج تک جامعہ رپورٹ تیار نہیں کرسکا ۔ممکن ہے جب رپورٹ تیار ہو یہ حمود الرحمن کمیشن جیسی ہی ہو۔ غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین حکومت خود کرتی، انہیں سزا دیتی، گرفتاریاں ہوتیں اور مظلوموں کو انصاف ملتا لیکن یہاں معاملات کو سلجھانے کے بجائےدبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔شائد یہ کہنا مناسب ہو گا کہ سانحہ ماڈل ٹاون سانحہ جلیانوالہ باغ کی اگلی قسط تھا۔اس واقعے کے بعد کچھ لوگوں نے لاشوں پر سیاست کی ۔مرے ہوئے شیر پر پستول تان کر تصویر بنوانا بہت سے لوگوں کے من کو بھایا اور پھر ہزاروں تصاویر بنیں۔ ہمارے چند سیاستدانوں نے نہر کے اس طرف سے انقلاب اور آزادی مارچ شروع کئے تو نہر کے دوسری طرف سے چند سیاستدان جمہوریت بچانے کے لئے حرکت میں آگئے۔ ممکن ہے دونوں کی غیر ت کا یہی تقاضا ہو لیکن غیر ت ملی کا تقاضہ توکچھ اور ہی تھا ۔
ملی غیر ت کا تقاضا یہ تھا کہ ہم سیلاب کے دنوں میں متاثرین کے دکھ بانٹتے ، ہم بم دھماکوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بناتے، ہم آپریشن ضرب عصب کے متاثرین کی آبادکاری کا لائحہ عمل بناتے، ہم لسانی بنیادوں پر ہونے والی منافرت کو روکتے، ہم فرقہ وارایت کو روک کر مذہبی ہم آہنگی پیدا کر تے ، ہم ٹارگٹ کلنگ کے سامنے بند باندھتے، ہم معاشرے کو اسلحہ فری بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے اور سوسائٹی کے ناسوروں کے خلاف سیہ پلائی ہو دیوار بن جاتے اور دھاندلی جیسے الزامات کی تحقیقات کے لئے کسی بڑے منصف پر اتفاق کر لیتے کیونکہ غیرت کا یہی تقاضا تھا۔لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ہماری ضروریات کا تقاضا کچھ اور ہے۔آپ کو میر تقی میرکا وہ شعر تو یاد ہوگا ۔
 بعد مرنے کے میری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی میرے عیسی کو دوا میرے بعد

4 تبصرے:

  1. ویلکم جناب بلاگنگ کی دنیا میں
    نیم /یو آرل ایل کی آپشن ایکٹو کر دیں تو تبصرہ کرنے میں آسانی رہے گی

    جواب دیںحذف کریں
  2. " نہر کے ایک کنارے پر چلنے والے شخص نے دوسرے کنارے پر چلنے والے پاگل کو آواز دے کر پوچھا۔ سنو ! ہم دونوں میں کیا فرق ہے۔۔؟ تو پاگل نے جواب دیا نہر کا۔۔ !وطن عزیز کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے سربراہان میں صرف نہر کا ہی فرق ہے۔ احتساب اور حکومت ٹوٹنے کے خوف سے یہ سربراہان ایک دوسرے کو نظریہ ضرورت کی چادر اوڑھا دیتے ہیں یہی سربراہان قومی خزانے کو کمبل کی طرح چمٹے ہوئے ہیں"
    ، کیا جاندار حقیقت بیان ھے جی

    جواب دیںحذف کریں
  3. Mustafa Malik sb ap ki help ka sukriya blog k baroon tuk janay main kafi help ki May Allah bless u

    جواب دیںحذف کریں