ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

ناک پوچھنے والے کی تلاش


گو بیگم گو پر بلا گ لکھا توخانگی تشدد کا شکار بہت سے دوستوں کو اچھا لگا لیکن اہلیہ محترمہ غصے سے نیلی پیلی ہوگئیں۔میری تو انکوائری held ہو گئی۔ ۔انکوائری کے بعد انہوں نے بار دیگر پڑھا۔۔۔ ماضی کے کئی خانگی قصے بلاگ کے واقعات اور لطائف سے جوڑ جوڑ کرسہ باری پڑھا۔ اس کے بعد شروع ہوا۔۔۔میرا احتساب ۔ تفصیلی جواب کے باوجود تشفی نہ ہوئی توسزا ملی کہ ہرزہ سرائی توکر بیٹھے ہو اب مدحہ سرائی کرو۔۔۔عنوان بھی جڑ دیا۔۔۔رو شوہر رو۔۔۔ ہم خصلتا ۔۔کورنش بجا لانے والوں میں سے تھے ۔۔سو ۔ اپنی بے عزتی کا سامان خود پید ا کیا۔۔ لیکن خود احتسابی کے دوران دماغ معاوف ہوگیا۔۔۔inspiration۔۔۔ نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ۔اپنی برائیاں لکھنا بارگراں گذرتا ہے۔ بقول محسن نقوی
اس شہر میں ایسی بھی قیامت نہ ہُوئی تھی تنہا تھے مگر خود سے تو وحشت نہ ہُوئی تھی

اب سانس کا احساس بھی اک بار گراں ہے
خود اپنے خلاف ایسی بغاوت نہ ہوئی تھی
 برے سے برا شوہربھی اپنی نظرمیں فرشتہ صفت ہوتا ہے۔۔کیونکہ۔۔ اس نے خود کوکبھی بیوی کی نظر سے نہیں دیکھا ہوتا۔ میری صد ہا کوششوں کے باوجود حضور والا نہیں مانیں۔۔ میں سوچ رہا تھا کہ ۔ ۔۔ننانوے فیصد’’انڈر سٹینڈنگ‘‘والے شوہر میں آخرخامیاں۔۔۔کیسی ہو سکتی ہیں۔۔؟مجھے گمان بھی تھا کہ میری انگلیاں keyboard پر نہیں چلیں گی ۔لیکن انہیں بھی اپنی ہمزاد کا دکھ تھا۔۔سو داغ مفارقت سہنا پڑا ۔۔۔۔
برے وقت کے لئے شائد بیگم حضورنے قراۃ العین حیدر کی کتاب "یاد کی اک دھنک " کا اقتباس بھی سنبھال رکھا تھا
’’آخر عورتیں خدا کی اتنی ضرورت مند کیوں ہوتی ہیں ۔ہر جگہ مندروں اور تیرتھ استھانوں میں درگاہوں میں اور مزاروں میں ، گرجاؤں میں امام بارگاہوں میں۔۔۔۔گردواروں اور آتش کدوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ عورتیں ہی ہیں جو رو رو کر خدا سے فریاد کرتی ہیں اور دعائیں مانگتی ہیں ۔ ۔۔عورتوں نے ہمیشہ اپنے اپنے دیوتاؤں کے چرنوں۔۔۔میں سر رکھا اور کبھی یہ نہ جاننا چاہا کہ اکثر یہ پاؤں مٹی کے بھی ہیں ‘‘
اقتباس سناتو پریشانی کا عارضہ لاحق ہوا۔۔۔ آخر یا دپڑا۔۔کیوں ناں!۔ خود پر۔۔ پرائمنگ ایپلائی کروں ۔۔۔۔مارکیٹنگ سے وابستہ افراد زیادہ بہترجانتے ہوں گے کہPriming ایسی اصطلاح ہے جس میں ہم دوسروں کی مرضی سے دیکھنے لگتے ہیں۔پرائمنگ کےبعد مجھے اپنے جیسا نکھٹو، کام چھوڑ،سُست اور دل جلا کوئی نہ دکھا۔۔۔Google کے سرچ انجن کی طرح خود احتسابی کے کئی آپشن مل گئے۔ چیک میٹر۔۔۔مسدس حالی کی طرح طول پکڑنے لگا۔۔۔اپنی نقاب کشائی بے حیائی سی لگنے لگی ۔۔۔99 فیصد انڈر سٹینڈنگ کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا۔ ہم تو زن مرید بھی نہ نکل سکے۔اسی اکلوتی خودستائشی کا عارضہ تو لاحق تھا۔
کہتے ہیں کہ مرد ایک دو دن کے لئے دُولہا بنتا ہے اوررہتی عمر تک کے لئےشوہر۔۔ ۔یا آسان لفظوں میں یوں کہیے کہ دولہا بننا عارضی خوشی ہےاور شوہر بننا مستقل کیفیت ہے ۔ہم مرد تو اکثر دولہا بننے کے متمنی ہوتے ہیں لیکن زوجہ محترمہ ہمیں شوہر بنے رہنے پر مجبور رکھتی ہیں۔احتجاج کریں تو ۔۔ رو شوہر رو۔۔ سننا پڑتا ہے۔ ہمارے کئی قصوروں میں یہ بھی ایک ہے ۔
قصور نمبر 1
ایک شخص نعرے لگا رہا تھا صدر کُتا ہائے ہائے، صدر کُتا ہائے۔۔۔۔۔ پولیس نے اسے پکڑ لیا تو وہ بولا۔۔! تھانیدار صاحب
میں تو انڈیا کے صدر کو کہہ رہا تھا ۔ تھانیدار بولا :اوئے بے وقوف نہ بنا۔ ہمیں پتہ ہے کون سا صدر کتاہے۔
دو بارہ دولہا بننے کے لئے کئی شوہر سالہا سال سے ہائے ہائے پکارہے ہیں۔۔لیکن بیگموں کو پتہ چل گیا ہے’’کون سا صدر کُتا ہے‘‘۔۔!ایسے حالات میں رو شوہر رو جیسا معاملہ مزید سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ ۔۔۔
معمول کی ۔۔۔
خانگی زندگی میں بیوی سارا دن ساس اور نند کی باتیں سنتی ہے اور طعنوں کا غصہ بچوں پر نکالتی ہے۔ شوہرکام سے لوٹے تو۔۔ اس کے کان پکاتی ہے۔ یومیہ مصروفیت کو ظلم۔۔۔ ظاہر کرکے بھڑاس۔۔شوہر۔۔پرنکالتی ہے ۔پیٹ ہلکا کرکے پلک جھپکتے میں سو جاتی ہے۔ڈپریشن۔۔ ایسی خواتین کو بے خوابی میں مبتلا رکھتا ہے۔۔۔۔۔وہ کبھی جاگتی ہیں اور کبھی سوتی ہیں۔ایسی ہی حالت میں ایک بیوی نے شوہر کی خوابیدہ گفتگو سن لی ۔
قصور نمبر 2
بیوی :تم سوتے ہوئے مجھے گالیاں دے رہے تھے شوہر: تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے بیوی: کیا ۔۔؟ شوہر : یہی کہ میں سو رہا تھا۔۔۔!
کہتےہیں کہ زندگی میں آنسو پونچھنے والے۔۔ تو مل جاتے ہیں ناک پوچھنے والا نہیں ملتا۔۔۔۔میاں بیوی کی محبت ایسے ہی ہے۔۔ جیسے رومال کے بغیر زکام ۔۔۔ زکام زہ لوگ رومال کی اہمیت بخوبی جانتے ہیں۔۔۔ اور یہ اہمیت تب دوگنی ہوجاتی ہے۔۔ جب زکام تو ہو لیکن رومال نہ ہو۔۔ناک سے پانی بہہ رہا ہو تو آنکھ سے بہتا پانی بھی ۔۔۔ صاف کرنے کوئی نہیں آتا۔۔۔ شادی کو 20/25سال گذر جائیں تو بیوی نرس نرس لگنے لگتی ہے۔۔۔اورشوہر ڈاکٹر ڈاکٹر۔۔۔عرصہ مختصر ہو تو بیماری میں معالج سے رجوع کرنا پڑتا ہے ۔
قصور نمبر 3
شادی کے چند سال بعدایک شخص اپنی بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ۔ واپسی پر شوہر نے پوچھا " کیا بتایا ڈاکٹر نے ؟ بیوی بولی : اس نے کہا ہے1 ماہ تک کوئی کام نہ کروں اور آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے کوئٹہ یا مری جاؤں ۔ شوہر سن کر خاموش رہا ۔
 بیوی نے کہا : بتائیں ہم کہاں جائیں گے ؟ شوہر نے کہا :دوسرے ڈاکٹر کے پاس۔
۔۔14اگست 2014 سے16 دسمبر2014 تک پاکستان میں گو نواز گو کافی پاپولر ہوا۔۔روعمران رو کوزیادہ پزیرائی نہیں ملی۔گو نواز گو کی شہرت کے بعد پچھلا بلاگ گو بیگم گو لکھا تھا۔۔اب غیر پاپولر نعرے روعمران رو کی مناسبت سے رو شوہر رو لکھنا پڑا۔۔۔ خدشہ ہے یہ نعرہ زرو پکڑ گیا تو شوہروں کے خلاف گرینڈ الائنس نہ بن جائے۔یہ الائنس مرد کے گھر میں حق حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔۔شوہروں کومشکل پیش آسکتی ہے۔۔۔ میرا تو پیشگی ردعمل یہ ہے کہ انجمن بیویاں غیر فطری اتحاد ہو گا۔ویسے شوہر اتنے بھی بُرے نہیں ہوتے جتنے پرائمنگ دکھاتی ہے بعض شوہر تو خاصے جذباتی ہوتے ہیں
قصور نمبر4
میاں بیوی سڑک پر جارہے تھے ۔۔۔ ایک چھچھورے نے انہیں دیکھ کر فقرہ کسا۔۔۔ حور کے پہلو میں لنگور
شوہر نے غصے میں ۔۔ اس نے راہ گیر کو پھینٹی لگا دی
لوگوں نے وجہ پوچھی ۔۔۔تو بولا یہ میری بیوی کو لنگور کہہ رہا ہے
ازدواجی زندگی جتنی بھی کٹھن ہو ا س میں کبھی کبھار پیار بھرے پل آہی جاتے ہیں۔۔۔ 1991 میں علیشا چنائے اور اُدت نرائن نے فلم پھول اور کانٹے کے لئے دو گانا گایا تھا۔ ۔۔شوہر کو اچانک وہ گانا یادآگیا۔ ۔گانے کے بول یہ ہیں ۔اور۔۔۔ شوہر ترنم میں ہے۔۔۔دل یہ کہتا ہے۔۔ کانوں میں تیرے۔۔۔ تھوڑا قریب آکے۔۔ باہوں میں تیری ۔۔۔ دھیرے سے ایک بات کہوں۔۔۔۔آئی لو یو۔۔۔ آئی لو یو۔ شوہر کے آئی لو یو کہنے سے پہلے ہی ۔۔۔ بیگم نے علیشا چنائے کی طرز میں کہہ دیا۔ ۔۔۔ رو شوہر رو

4 تبصرے:

  1. اسی لئے تو کہتے ہیں۔۔۔ روز پیٹل نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟
    شادی کے بیس پچیس سالوں کا تو نہیں پتہ چار پانچ سال بعد ہی بندہ پُر باش سا ہو جاتا ہے ۔۔۔ بیس سال بعد کیا ہوتا، سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. Naeem Akram
    صاحب جی
    ہم خود بھی پندرہ سال کو پہنچ چکے ہیں اور ہمارے بڑوں نے بھی سلور اور گولڈن جوبلی مکمل کر لی ہے ۔اسی کا نام زندگی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. تم سوتے ہوئے مجھے گالیاں دے رہے تھے
    شوہر: تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے
    بیوی: کیا ۔۔؟
    شوہر : یہی کہ میں سو رہا تھا۔۔۔!
    واہ ــــــــــــ کمال کر دیا ، بس ایسے ہی لکھتے رہیں ، دل خوش کرتے رہیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. ملک مصطفی صاحب شکریہ آپ کی حوصلہ افزائی سے آگے بڑھ رہا ہوں۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں