منگل، 4 نومبر، 2014

رب کا شکر ادا کر بھائی


دودھ ، دہی، لسی، پنیر، مکھن، گھی اور بہت کچھ ہماری زندگی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں یہ مصنوعات ہمیں بھینس اور گائے کے دودھ سے حاصل ہوتی ہیں۔مگر آج کل بڑے شہروں میں گائے اور بھینسیں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے،لائل پور ویسے تو ترقی پاکر فیصل آبادکے درجے پر فائز ہو چکا ہے لیکن گاوں کو شہر بنتے دیر لگتی ہے اس کے باوجودیہاں مجھوں اور گائیوں سے شہروں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔شہرمیں ایک یا ایک سے زائد بھینسوں کے رکھنے یا جمع ہو نے پردفعہ144ت پ نافذہے۔ قانون شکنی کرنے والے ان دودھیل جانوروں کی تلاش میں سرکاری کھوجی یوں باہر پھرتے رہتے ہیں جیسےہم اکثرسُچے دودھ کی تلاش میں نکل جاتے ہیں، ویسے ’’شہروں میں سُچے دودھ اور سچے پیار کی تلاش کاسفر اکثر جاری رہتا ہے‘.شہرکی خوبصورتی،ماحولیاتی آلودگی اورسیوریج سسٹم وہ تین عوامل تھے۔

جو گائے،بھینسوں کے شہری جلا وطنی کا سبب بنے ۔لیکن یہ انتظامی ستم کوئی نئی بات نہیں۔ فیصل آباد تو ویسے ہی چھوٹا شہر ہے لیکن چھوٹےشہروں کا بجٹ ہڑپ کرکے جو شہر بڑے بن بیٹھے ہیں وہاں بھی کئی سال سےبھینسوں کووہ مقام نہیں دیا جارہا جس کی وہ مستحق ہیں ۔حالانکہ پنجاب میں بھینسوں کی تعداد رفیقوں اوررقیبو ں کے مابین شملہ اونچا ہونا کا ایک بڑا پیمانہ ہے۔کھاو کھاو گھیو(دیسی گھی) اپنے گھردا اے ، یہ جملہ تھوڑا تکبر بھرا سا تو ہے لیکن اب کم ہی سننے کو ملتا ہے۔اب تو جہیز میں بیٹیوں کوبھینس دینے کی رسم دم توڑ تی جار ہی ہے۔دکھ کی بات پتہ کیا ہے کہ تعفن، بدبواورگندگی کوجواز بناکر دودھ کےان قدرتی کارخانوں کو تو دیس نکلا دیا گیا ہے جبکہ دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجودشہر بھر میں ملزکی چمنیوں سے زہریلا دھواں اگلنے اور سیوریج سسٹم میں کیمکل زدہ پانی کادخول مسلسل جاری ہے۔
مویشی پالنےکی روایت تاریخ انسانی کی ہرتہذیب میں ملتی ہے ہم نے سنا بھی ہے اور پڑھا بھی کہ جب انسان نےشکارکےذریعے گزربسرچھوڑی تومویشی پالنے کی روایت نےجنم لیا۔انسان نےتر غیب کےجنیاتی فن کوجانوروں پرایپلائی کیاتوکئی دم ہلا ہلاکرپیچھے چلنے لگے۔درندگی جب درندوں سےنکال لی گئی توشیر بھی کتوں کی طرح گھروں میں پالنے لگے اور پھر انہیں اتنا پالا کہ شیر سرکس میں جوکر بھی بن گئےحتی کہ ہمارے انتخابی نشان میں بھی گھس گئے۔پھر ہم تہذیبیوں نے انہیں جنگلی سے گھریلوجانوروں کےعہدے پرترقی دے دی۔مرغیاں،مچھلیاں،کتے،بھیڑ،بکریاں،گھوڑےوغیرہ آج کل شہری چکا چوندکے اسیر ہوچکے ہیں۔بھینس بھی بھیڑچال چلتی ہوئی تقریبا چارہزارسال قبل ہماری بستی میں آبسی۔ہم نے گائے بھینس کادودھ پیا،گوشت کھایا،اوپلوں پرکھانا پکایا اورسیرو شکرہونے کےبعداوپلوں اورتمباکُوسے چلم تازہ کی، گُڑگُڑکےمزے لوٹےاورآج ہم مفاد پرست اسے دوبارہ جنگلوں کی طرف بھیج رہے ہیں کیونکہ’’جنگل کاقانون اب یہاں ختم ہو چکا ہے ۔‘‘
ہم نے اکثر سنا ہےکہ دودھ،دوڑاورخوبصورتی کے مقابلوں میں فلاں فلاں بھینسوں، بیلوں نے انعامات جیتے لیکن ہم نےکبھی نہیں سناکہ مقابلہ جیتنے والی بھینس ٹرافی اٹھائے باہرنکلی اوراسے لےجا کربھینس کالونی میں سجادیا۔بھینس خواہ سینگوں والی ہو،سفید تاج والی ہو یا پنج کلیان، بھوری ہویاکالی، نیلی کی ہویا راوری کی،وادی، سندھی،چنابی ہو یاجہلمی،میٹرک ہو(دس کلو دودھ دینے والی)یا پھرگریجویٹ،کاٹومال ہویا خشک بھوسہ نوش کرنےوالی ۔۔۔ ان کی ٹرافیاں مالکان کے گھروں میں ہی پڑی رہ جاتی ہیں کیونکہ بھینسوں کےاپنے گھر نہیں ہوتے۔فیصل آبادجب بڑے گاوں سے شہر میں داخل ہورہا تھا تب بھی یہاں تعینات بعض افسران کو بھینسیں ’’دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھیں‘‘تب اوورفلو بھی نہیں ہوتا تھا اور ایندھن کے طور پراوپلے جلائے جاتے تھے ۔ خالص دودھ کی موجیں تھیں۔تب دو ۔نیم سی بھینس کالونیاں بناکر بھینسوں کو ایک”گاوں“سے دوسرےگاؤں میں منتقل کردیا گیا۔1994میں سابق کمشنر تسنیم ایم نورانی کے بنائےگئے”مقدس“ماسٹرپلان نے بھینس کالونیوں کے قیام کو سہارا دیا ۔شہری ترقی کے اس راز کو ”صحیفہ“سمجھ کرکئی سال طاق نسیاں کی نذر کر دیا گیا تھا ۔
بھینسیں انسانوں کی طرح تیز ی سے بڑھتی ہیں جب ان کی تعداد بڑھی توبھینسوں نے شہروں کا رخ کیااورشہروں میں جب انسان بڑھے تو وہ دیہاتوں کی جانب پھیل گئے۔ماضی کے ماسٹر پلان میں بنوائی گئی بھینس کالونیاں بھی اب میونسپل حدودکاحصہ بن گئی ہیں۔2006 میں ہونے والی لائیو سٹاک کی آخری جانورشماری کےمطابق ملک میں مجموعی طورپر57 ملین گائیں اوربھینسیں ہیں جن میں سے47فیصد سےزائدپنجابی ہیں۔پاکستان میں مویشی پالوں کی کل تعداد 10ملین ہے جن میں سے2 ملین گھرانے ایک گائے یا بھینس کے مالک ہیں۔فیصل آباد میں1لاکھ 47 ہزار451 میویشی پال گھرانے ہیں ۔
یہ حقیقت اپنی جگہ تاریخی اہمیت کی حامل ہےکہ بھینسوں میں پاکستانی نیلی راوی بریڈکی برتری کودنیاتسلیم کرتی ہے اورنیلی کی ترویج و ترقی کےلئے یورپی وامریکی اقوام برسوں سےمصروف ہیں۔بھینسوں کے حقوق کے لئے انسانوں نے انٹرنیشنل بفلو فیڈریشن (IBF)اورایشین بفلوایسوسی ایشن (ABA) نامی تنظیمیں بنارکھی ہیں ۔جس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ بھینسیں انڈیا اورپاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہوتی ہیں۔ سالوں پہلے تو لاہورمیں (IBF) نے بھینس کانفرنس بھی کرائی تھی ۔جس میں امریکہ، چین ،برازیل ،کینیڈا،اٹلی اورجاپان سمیت کئی ممالک کے درجنوں ماہرین بھینس شریک ہوئےاور بھینسوں کی ترویج وترقی کے مقالات پڑھے گئے۔ہماری طرح ،بھینسوں کی قسمت کے فیصلے بھی ائیرکنڈیشنڈ دفاتر میں کئے گئے۔یعنی فیصلوں کے معاملے میں ہم بھی بڑے”بھینس“ ثابت ہوئے ہیں
IBFاور ABA کی وجہ سے اب تو بھینسیں بھی ناز نخرے اٹھوانے لگی ہے۔چین اورویت نام کے برعکس ہماری بھینسیں روزانہ نہاتی ہیں، چمپئی کراتی ہیں ، متھے ٹیکا لگواتی ہیں،جھانجھر، گانی پہنتی ہیں۔ہم نے دھوپ ، چھاوں کے الگ الگ کھونٹے بنائے ہیں۔اسی لاڈ پیارکی وجہ سے بھینس نے اردوادب اورپنجابی ثقافت میں نمایا ں مقام بنا لیا ہے،”عقل بڑی کہ بھینس“انہی سے منسوب ہے بلکہ مستنصر حسین تارڑ توکہتے ہیں کہ”اگر بھینس نہ ہوتی تو رومان نہ ہوتا،سوہنی مہینوال نہ ہوتے ہیراور رانجھا نہ ہوتے سوہنی کیلئےتوایک غیرملکی شہزادہ بھینسیں چرانےپرنوکرہوگیا تھااسی لیے مہینوال(یعنی بھینسوںوال) کہلایا۔جنگل بیلے میں بھینسیں نہ ہوتیں تو رانجھاکسے اپنی بانسری کی دھنیں سناتا۔بھینس کی قدرکیجئے کہ میرے نزدیک یہ ہمارا قومی جانورہے۔“
ایک معمولی سی بھینس1 سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں ملتی ہے اورغیرمعمولی دو سے چارلاکھ روپے میں۔غریب کا بھینس پالنا اورامیرکاگاڑی رکھناخرچے میں برابرہیں۔جولوگ بھینسیں نہیں خرید سکتے وہ دودھ کےلئےبکریاں پالتے ہیں۔بکری غریب کی بھینس ہوتی ہے لیکن ہم بسیارخور دودھ پینے کے بجائے شوق سےاس کا گوشت کھاتے ہیں۔بھینسوں کوپالنے اوردودھ سپلائی کا زیادہ کام گجروں کے ذمہ ہے ۔ ویسےتو جاٹ، ملک ،ڈوگر اورآرائیں سب بھینسیں پالتے ہیں لیکن ہم انہیں بھی گجر ہی سمجھتے ہیں۔بھینس واحد چوپایہ ہے جوذوق موسیقی رکھتاہے۔اسی لئے لوگ اِس کے آگے بین بجاتے ہیں اوربھینس کے اسی ذوق کی وجہ سے پنجابی سنگیت کاروں نے گانوں میں گجروں کا استعمال بڑھارکھاہے ۔
بھینس ایسی ممالیہ ہے جو اپنے کٹےاورکٹی کودودھ پلانے کے علاوہ ہمارے بچوں بھی پالتی ہے،لیکن کئی بار ہمارے بچے بھوکے رہ جاتے ہیں کیونکہ سارا دودھ کٹا پی جاتا ہے۔دودھ کے رسیا یہ کٹے جب پی پی کرہٹےکٹے ہوجاتے ہیں توگوشت کی صورت میں ہماری غذائی ضروریات پوری کر تے ہیں۔ابن انشاء کہتے ہیں کہ”بھینس کا دودھ ہماری روزمرہ کی ضروریات کے لئے جب ناکافی ہوجاتا ہے تو باقی دودھ گوالادیتا ہے۔“ڈوکے بھی دود ھ کی ایک قسم ہیں ۔ جنہیں پینے سےجسم میں بیماریوں کے خلاف مدافعت بڑھتی ہے ۔
پاکستان دودھ کی پیداوار میں دنیا کاتیسرا بڑا ملک ہےیہاں سالانہ64 ارب لیٹردودھ پیداہوتاہے۔بھینس ملکی معیشت کی بہتری کا وہ اشارعیہ ہے جوہمیں نظر نہیں آتا۔ہم زندگی کاآغاز دودھ سے کرتے ہیں اور دودھ کے دانت جھڑنے تک دودھ پیتے ہیں بلکہ بعض اوقات توپکے دانت جھڑنے پر بھی ڈاکٹر دودھ کا ہی مشورہ دیتے ہیں۔بچپن میں دودھ نہ پیا ہوتو بڑھاپے میں بچپن بہت یادآتاہے اور ہمارے اکثربوڑھوں کابڑھاپا برا گذرتا ہے اور جب بھینسوں کوشہر سے نکال دیا گیا ہو تو پھراپنی بھینس کادودھ بھی اب سوکوس دورسے ملتا ہے ۔دودھ کی سروس گوالوں سےلیں تو کوالٹی کم اور دام بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ گوالے کےپاس ریٹ بڑھنے کا جواب صرف یہ ہوتا ہےکہ جناب پٹرول بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ستم یہ کہ بھینسی مصنوعات دودھ، دہی اورمکھن وغیرہ کی قیمتیں کنٹرول کرنے کےلئےاوگراجیسی ریگولیٹری اتھارٹی بھی کوئی نہیں۔ڈبے کا دودھ عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔ دودھ کے نرخوں میں اضافہ روکنے کا سرکار ی پیمانہ اگرکوئی ہے بھی توخراب ہوچکاہے۔آپ لاکھ منت سماجت کریں، خدا کا خوف دلائیں، بچوں کی خرابی صحت کا واسطہ دیں لیکن خدا تر سی والا معاملہ کم ہی نظر آئے گا۔یہ چالاک گوالے پانی کے بھی فی کلو دودھ کے برابر ہی پیسے بٹور جاتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بھینسیں سیاسی بھی ہوتی ہیں۔سیاستدان اور وڈیرےمخالفین پربھینس چوری کےمقدمات درج کرواکر زبردستی فائدے لیتے ہیں۔ قانون ان کے گھر ہوتی ہے ۔اسی لئےقانون کےساتھ لونڈیوں جیساسلو ک ہی کرتے ہیں۔جنگل کاقانون اوربھینس والاقانون (جس کی لاٹھی اس کی بھینس)۔۔۔ ریاستی قانون کی ناجائزاولادہیں اورلاٹھی ہمیشہ کی طرح آج بھی طاقتور کے ہاتھ میں ہےوہ بھینسوں کوہانک ہانک کر شہرسے باہر نکال رہے ہیں۔حالانکہ بنگلے اور سرونٹ کوارٹر میں ایک ہی گوالہ دودھ دینے آتا ہے بلکہ چھوٹے گھروں میں توبھینس خاندان کے فردکی طرح رہتی ہےلیکن آج کل یہ آنگن سُونے ہوچکے ہیں۔کیونکہ شہر ترقی کے زینے پرچڑھ چکے ہیں۔بھینس کے آگے بین بجانے کا کیا فائدہ؟اب ڈبے کا دودھ ہی آپ کا ساتھی ہے ۔وگرنہ مولوی اسماعیل میرٹھی نےتوکہا تھا کہ
 رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
نو ٹ: بھینس کا دودھ پینے والے اس شعرمیں گائے کی جگہ بھینس پڑھیں ۔

4 تبصرے:

  1. اعلی ۔بہت خوب
    استاد جعفر حسین کا انداز لئے کٹیلی اور لطیف فیصل آبادی تحریر
    ذرا نم ہو تو فیصل آبادی مٹی کافی زر خیز ہے جناب
    امید ہے مستقل مزاجی سے ہمیں بلاگ پڑھنے کی دعوت دیتے رہیں گے۔ بہت اعلی

    جواب دیںحذف کریں
  2. بلاکنگ کی دنیا میں خوش آمدید ،
    آپ خوش قسمت ہیں ، یاسر بھائی جیسے سکہ بند بلاگر نے آپ کو بلاگر کی دنیا کے بادشاہ استاد جعفر سے تشبیہ دی ہے ، امید ہے دوستوں کا مان رکھیں گے اور اسی طرح لکھتے رہیں گے

    جواب دیںحذف کریں
  3. جی آیاں نو ں ملک صاحب، امید ہے آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت شکریہ یاسر خوامخواہ جاپانی صاحب آپ کے خیالات سے مجھ جیسے نابلد لکھاریوں کو حوصلہ ملا۔ اور مصفطی ملک صاحب آپ کا بھی شکریہ آپ نے ایک بے ادب کو باادب گروپ میں متعارف کروایا۔ آپ دونوں کے لئے ڈھیروں دعائیں

    جواب دیںحذف کریں