پیر، 10 نومبر، 2014

خود کُشی کی دعوت


محبت راہ عشق میں جنون اور مجذوبیت کا پہلا درجہ ہے۔ مجذوبیت صوفی ازم میں ایک شے کی ماہیت میں گم ہونے کی اصطلاح ہے جبکہ غیرتصوفی مکتب فکر کا خیال ہے کہ مجذوبیت دیوانگی کی ایک قسم ہے۔دائیں اوربائیں بازو کے نقطہ نظر میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن مجذوبیت کا ماخذ عربی زبان کا لفظ جذب ہے۔جس کے لغوی معنی غرق ہونے کے ہیں۔عشق انسان کو نکما بھی کر دیتا ہے اور پاگل بھی۔ پنجابی ادب کے شیکسپئیر سید وارث شاہ کوانہی کمالات عشق کا توجیسے کشف ہو جاتا تھا ۔شاہ جی نے ہمیں بھی سمجھانے کی کوشش کی لیکن ہم تب تک دیوانگی کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔یہ حدود واہگہ بارڈر جیسی قطعی نہیں تھیں جہاں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک پاؤں بھارت میں تھا اور دوسرا پاکستان میں ۔

بلکہ یہ حدود تو اُس عشق لاحاصل جیسی تھیں جس کی نشانیاں محترمہ بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں چھوڑ ی ہیں۔ اسی عشق لاحاصل کے بارے میں شاہ صاحب نے فرمایا تھا
بڑا عشق عشق تو کرنا ں اے۔۔۔۔۔۔۔کدی عشق دا گنجل ۔۔کھول تے سہی
تینوں مٹی وچ نہ رول دیوے۔۔۔۔۔۔دو پیار دے بول۔۔۔۔ بول تے سہی
سکھ گھٹ تے درد ہزار ملن۔۔۔۔۔کدی عشق نوں تکڑی ۔۔۔تول تے سہی
تیری ہسدی اکھ وی پجھ جاوے۔۔۔۔کدی سانوں اندروں ۔۔پھول تے سہی
صوفی یا غیر صوفی مکتب فکر سے ہٹ کرعشق کی آسان سی تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ ’’عشق شعور اور دیوانگی کی دو کیفیات میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ففٹی ففٹی آپشن ہے‘‘ عشق اگر دیوانگی کی سمت میں بہہ نکلے تو کرنے والا عاشق اور کروانے والا معشوق کہلواتا ہے لیکن نجبہ کے لئے یہ معاملہ اور بھی مشکل تھا کیونکہ اسے شوہر کی قید کے دور ان گلے پڑنے والے دو نئے عاشقوں میں سے کسی ایک کی معشوق بننے کا فیصلہ کر نا تھا، آپشن ففٹی ففٹی تھا۔محبت کوسرحدی خارداریوں یا ایل او سی پر لگنے والی باڑ میں الجھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے قید کیا جا سکتا ہے لیکن محبت اپنے کرنے والوں کو مقید ضرور کر لیتی ہے۔موبائل پیغامات اور فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا پر ہونے والی عہد حاضر کی آزاد اور بے لگام محبت اس موقف کی ایسی عینی شاہد گواہی ہے جس کے خلاف کوئی بھی قانون شہادت حرکت میں نہیں آتا۔۔۔لیکن بہ حیثیت مجموعی محبت ایک طرح کی قید کا نام ہے اوراگر محبت کوئی قیدی کر لے تواسیر زلف ہوکر مدت اسیری کاٹنا نسبتا آسان ہو جاتا ہے۔مزید آگے بڑھنے سے پہلے سینٹرل جیل ملتان  کا واقعہ
کہانی کا خلاصہ
نوشہرہ کی رہائشی 28 سالہ نجبہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں ہے۔ٹی وی رپورٹس کے مطابق نجبہ کی غلام محمد سے پہلی ملاقات بس میں اس وقت ہوئی جب وہ اغوا کے مقدمے میں قید اپنے شوہر کو ملنے ڈی جی خان جیل جا رہی تھی۔ بلوچستان کے ضلع بارکھان کارہائشی غلام محمدحساس ادارے کا ملازم ہے۔شوہر کی قید کے دوران روزگار کے لیے نجبہ نے قسطوں پر ویگن لی اور اس ویگن کے ڈرائیور صاحب دین کو بھی نجبہ سےعشق ہوگیا۔غلام محمد یا صاحب دین ۔؟نجبہ نے کسی ایک کا انتخاب کرناتھا۔سو اس نے موت کے لئے صاحب دین کا انتخاب کیا اورجان لینے کی ذمہ داری غلام محمد پر ڈالی ۔علامہ اقبال کہ اس شعر’’تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں‘‘کو لغوی طور پر پڑھا جائے تو غلام محمد نے انتہائے عشق میں صاحب دین کو قتل کر دیا۔غلام محمد کے ایک فائر نے دو کام کئے رقیب عشق راستے سے ہٹ گیا اور نجبہ کوایک نامراد عاشق سے نجات مل گئی۔ کانٹا راہ سے ہٹ جانے کا جشن مقتل میں ابھی جاری تھا کہ ڈرائیور قتل کیس میں نجبہ گرفتار کر لی گئی۔رفاقت عشق ٹوٹ گئی اور رفیقہ عشق کو پنجاب میں خواتین کی اکلوتی جیل ملتا ن میں منتقل کر دیا گیا۔ نجبہ نے دوران تفتیش سار ے بھید کھول دئیے، راز راز نہ رہا اور 2 نومبر2014بروز اتوار غلام محمد کو ملتان بلواکر گرفتار کر وا دیا۔ لو میرج کی خواہش مند ایک لڑکی نے مولوی صاحب سے پوچھا اگر میں اپنے کسی رشتہ دار مرد سے پیار کروں تو مجھےآخرت میں کیا ملے گا ؟ وہ بولے دوزخ ۔ لڑکی بولی اور اگر میں کسی غیر مرد سے پیار کروں تو ؟وہ پھر بولے:استغفراللہ یقیناً دوزخ ۔۔۔ لڑکی بولی : اور اگر میں آپ سے پیار کروں تو ؟انہوں نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا : بڑی چالاک ہو ۔۔ سیدھا جنت میں جانا چاہتی ہو۔۔ ایسی شعوری محبت آج کل اکثر دیکھنے میں ملتی ہے ویسے تو محبت لاشعور میں پروان چڑھتی ہےتبھی تو اندھی بھی ہوتی ہے اور شادی شدہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ نجبہ بھی چار بچوں کی ماں تھی۔ لیکن وہ اس معاملے میں بد قسمت رہی کہ اسے صراط مستقیم پر چلانے والا کوئی مولوی نہیں ملا۔ وہ بیچاری جنت کی خواہش من میں لئے جیل چلی گئی۔بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں لکھا تھا کہ ’’ جنس کے ر استے پر عورت کبھی خوار نہیں ہوتی۔وہ ہمیشہ محبت حاصل کرنے کے لئے آتی ہے اور بچہ حاصل کرکے واپس چلی جاتی ہے‘‘نجبہ چونکہ پہلے ہی چار بچوں کی ماں تھی اس لئے محبت سے محروم رہی۔غلام محمد کو ابھی جیل میں پانچواں روز تھا کہ محبت کی تڑپ اسے 2سو فٹ اونچی پانی کی ٹنکی پر لے گئی۔ پھر انڈین فلم شعلے کا ۔ری میک۔ شروع ہو گیا ۔غلام محمد نے ٹینکی سے اترنے کے لئے محبوبہ نجبہ سے ملاقات کی شر ط رکھ دی ۔نجبہ کو خواتین کی جیل سے سینٹرل جیل لایا گیا ۔غلام محمد نے مختصر ترین ملاقات میں نجبہ سے گلے شکوے بھی کئے اور دعوت دی کہ’’آو مل کر خود کشی کریں‘‘
خود کشی کی یہ اجتماعی آفردراصل اجتماعی گناہ کی دعوت تھی ۔معاشرے کی بہتری اور مضبوطی کے لئے اجتماعیت ایسی اساس ہے جو ہمیں کم ہی نظر آتی ہے۔ دین میں اجتماعیت کا تصور جتنا ابھرا ہواہے اور جتنی تاکید سے مسلمانوں کے ایک ایک فرد کو اجتماعیت سے جڑے رہنے کی تعلیم دی گئی ہے افسوس ہے کہ ہمارے اندر اس پہلو سے کافی تساہل موجود ہے۔ہاں اجماعیت ہمیں سوسائٹی کے کئی منفی پہلوں میں ضرور نظر آتی ہے۔ہمارے ہاں اجتماعی زیادتی ہوتی ہے۔ گینگ بنا کر وارداتیں ہوتی ہے، اچھائی کے خلاف برائی کا اجتماع بڑاہو جاتا ہے۔اجماع عشقان ہے کہ آج کل کی محبت بھی بہت سے برائیوں کامجموعہ ہے۔غلام محمد کی اجتماعی خودکشی کی دعوت تو پوری نہ ہو سکی لیکن اس پر دو مقدمے اور درج ہو گئے۔ اس لمبی قید کے دوران اب اس کے لئے جیل میں کتاب لکھنا ذرا آسان ہو گیا ہے۔ہمیں مل جل کر اپنے ملک، شہر اور محلے کو ٹھیک کرنا ہے کیونکہ اجتماعیت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم مل کر سوچیں ’’ جو اس زمین سے کیا تھا ہم نے وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں۔؟‘‘
 کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا۔دماغی خلیوں میں جب خلل بڑھ جاتا ہے تو بعض لوگ اس بیماری دل کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں۔سنا ہے کہ جاپان میں خود کشی کو بہادرانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ذرا ذرا سی بات پر ’’ہتک عزت ، کاروبار ، نقصان ، عشق میں ناکامی ‘‘پر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتے ہیں۔خود کشی کرتے تو بہاد ر لوگ ہی ہیں لیکن یہ انتہائی بزدل موت ہوتی ہے۔ حالات کا مقابلہ نہ کر سکنے والی موت ۔دنیا میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح سویڈن میں ہے لیکن اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں خود کشی حرام ہے۔اسلام کسی انسان کو اپنی جان خود تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اﷲ عزوجل کی عطا کردہ امانت ہیں۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔
ایک پٹھان خود کشی پر تقریر کر رہا تھا۔جذباتی ہو کر کہنے لگا۔خودکشی حرام ہے،ظلم ہے،گناہ ہے۔۔۔۔اس سےتو بہتر ہے بندہ اپنے آپ کو گولی مار لے۔پٹھان کے اس قول سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ازخود مرنے کے کچھ طریقے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں خودکشی نہیں کہا جا سکتا۔انہی میں سے ایک طریقہ معروف دانشور انور مقصود نے بیان کیا ہے۔’’پہلے زمانے میں لوگ محبت میں ناکامی پر خودکشی کرتے تھے جبکہ آج کل محبت میں کامیابی پر شادی کر کے خودکشی کرتے ہیں‘‘۔اس سے مراد یہ بھی لی جاسکتی ہے کہ محبوبہ بیوی بن سکتی ہے۔ بیوی محبوبہ نہیں رہ سکتی ۔اسی لئے محبوبہ سے شادی کے بعد بندہ پھرمحبوبہ کی تلاش میں نکل پڑتا ہےلیکن بعض اوقات یہ خود کشی اتنی حسین ہوتی ہے کہ بار بارزندہ بچنے اورپھر خودکشی کرنے کو جی مچلتا ہے۔کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بیوی سے محبت ہو سکتی ہے اگر وہ کسی دوسرے کی ہو۔ عطا الحق قاسمی کہتے ہیں کہ ’’بیوی سے محبت کرنا ایسی جگہ پر خارش کرنا ہے جہاں خارش نہ ہو رہی ہو‘‘غلام محمد کو خارش توہو رہی تھی لیکن بیوی کسی اور کی تھی۔ اس نے جیل مینوئل کو توڑا۔اسیری کے دوران جیلر کی مرضی کے بغیر خارش کرنے کی کوشش کی۔اسے شائد نہیں پتہ تھا کہ پنجاب کی کئی جیلوں میں بیوی سے خارش کے لئے بیرکس بنا دی گئی ہیں لیکن جیلر کی اجازت شرط ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا غلام محمداورنجبہ جیل سے رہائی تک محبت کو موقوف کر لیتے ۔ممکن ہےجب رہائی ہوتی تو جذبات جوانی سرد پڑ چکے ہوتے ۔جوان ہڈ۔۔ ڈھانچے میں گنڈھ چکے ہوتے ۔گال کا تل سیاہ دھبے میں ڈھل چکا ہوتا۔ویسے بھی بڑھاپے کی محبت میں بچپنا نہیں ہوتا۔جناب منیر نیازی تو محبت میں وقفے کے قائل تھے تبھی تو انہوں نے کہا تھا ۔
محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گذر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہو گی
 نوٹ:وقوف محبت کے بعد محبت Resume کر لی جائے تو منیر نیازی صاحب کا قول سچ ثابت ہو سکتاہے اور اگر شادی کر لی جائے تو انور مقصود صاحب کا بھی ۔بے چارہ غلام محمد وقوف محبت کے بعد شادی کر لیتا تو اس کا اپنا بھرم بھی رہ جاتا جس میں اس نے نجبہ کو دعوت دی تھی کہ ’’آو مل کر خود کشی کریں‘‘ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں