بدھ، 19 نومبر، 2014

ہارن آہستہ بجائیں


بسوں ٹرکوں اوررکشوں کے پیچھےہم نے اکثرلکھا ہوا پڑھا ہے’’ہارن آہستہ بجائیں قوم سورہی ہے‘‘قوم اگر سو رہی ہے تو عمران خان کیوں دعوی کرتے ہیں کہ’’قوم جاگ گئی ہے‘‘ قوم جاگ گئی ہے تو ہمارے محلے کا چوکیدار کیوں سویا رہتا ہے۔؟ چوکیدار اگر سو رہا ہو تو رات کے وقت ’’جاگتےرہو‘‘کے آوازے کون کستا ہے۔لوگ اگر جاگتے رہیں گےتوکیا پولیس سوتی رہےگی۔ پولیس سورہی ہوتو کیا ضمیربھی سویا ہوتا ہے۔ضمیر اگر سو رہا ہو تو کیا شعور بیدارہوتا ہے۔ شعور بیدار ہو توالیکشن میں ڈالے گئے ووٹ کسی اورکی صندوقڑی سےکیسےنکل سکتےہیں۔؟ووٹ عمران خان کوڈالیں تونوازشریف کیسے جیت سکتا ہے۔؟ نوازشریف اگر چار حلقے کھول لیتے توکیا سسٹم ٹھیک ہوجاتا۔؟سسٹم اگر ٹھیک ہوجاتا توکیا آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی ضرورت رہتی۔ انقلاب اور آزادی مارچ میں اگر ہزاروں،لاکھوں لوگ شریک تھےتوپھررکشےکے پیچھے کیوں لکھا ہوتا ہے’’ہارن آہستہ بجائیں قوم سو رہی ہے۔۔؟‘‘

قسمت آزما چکا ہوں، مقدر آزما رہا ہوں اک بے وفا کی خاطر رکشہ چلا رہا ہوں
رکشے پر لکھی ہوئی تحریریں ۔ ہماری قسمت کی طرح ہوتی ہیں۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد بدلنے والی۔قسمت کے کھیل تو ہماری دسترس سے باہر ہے لیکن محنت اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں تو محنت بھی اس طریق سے کرنی ہے جیسے رکشوں کے پیچھا لکھا ہو تا ہےناں’’محنت کر حسد نہ کر‘‘۔۔وہاں تو یہ بھی لکھا ہوتا ہے۔’’ تو لنگ جا ساڈی خیر اے‘‘(یعنی آپ اوور ٹیک کر لیں ہماری خیر ہے)۔۔۔یہ جملہ دراصل فروغ۔۔رواداری کامظہرہے۔ رواداری ہماری رگوں میں ناپید ہوتی جا رہی ہے۔جس کا خاتمہ عدم برداشت کوجنم دے رہا ہے اورعدم برداشت ہمیں لڑائی جھگڑے، مارکٹائی ،عزت، آبرو، مال حتی کہ مخالف کی جان لینے تک اکساتی ہے۔موجودہ ملکی سیاست ۔۔۔عدم برداشت کی باقیات میں سے ہے۔سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔بلکہ اہلیت کہنازیادہ موزوں ہوگا۔۔سوسائٹی میں جوروئیےفروغ پارہے ہیں وہ انہی سیاستدانوں کےطرز عمل کی نشانیاں ہیں۔مائیک پکڑکرسیاستدان جب جلاو، گھیراؤ، مارو، مرجاؤکے اکسانے والے بیان داغتے ہیں تو ممکن ہے لوگ اس پرعمل درآمد بھی کرلیں لیکن’’ایسی محبت سے ہم باز آئے‘‘۔۔ہمیں تو ویسی سیاسی نشانیاں چاہیں جن کا تقاضا مٹیاریں گا گا کرکرتی ہیں۔’’چھلا دے جا نشانی تیری مہربانی‘‘چھلئیے سے نشانی کےلئے مہربانی کے ساتھ درخواست کی جاتی ہے۔ ایسی مہربانی ہم سے کسی نے کی اور نہ ہی ہم سے ہو سکی۔مہربانی اردو ادب میں ہمیشہ سے ممنون لفظ رہاہے۔سال بھر پہلےتک توہم نےممنون بھی کم ہی سنا تھا۔آج کل توصدربننےکےلئے بھی ممنون ہونا ضروری ہے۔ممنون حسین پرمیاں نواز شریف نےمہربانی کی اسی لئےوہ ممنون، ممنون ہیں۔اس کےباوجودہم یقینی طورپرنہیں کہہ سکتے کہ ’’تولنگ جاساڈی خیراے‘‘کیونکہ گذرےکئی سال سے’’کتا‘‘ہماری سیاست میں خاصا اہم ہوگیا ہے۔سڑکوں پرہونےوالے مظاہروں میں ہم ہرعہدکےحاکم اورضلع کے افسرکےخلاف’’کُتے‘‘کا نعرہ سنتے آرہے ہیں۔ہم نےاپنےجائزو ناجائز مطالبات کےحق میں مظاہرے کئے، ٹائرجلائے،دھرنےدئیے،ٹریفک روکی،پتلےجلائے۔تب جاکرمسند اقتدار اورافسر شاہی کےکان پر جوں رینگی ۔ہم کتوں کے ساتھ ٹیبل ٹاک پر بیٹھے،انہوں نے ہمارے تھوڑے بہت مطالبات منظورکرلئے۔ہم نے’’کُتوں‘‘سے ریلیف لیا چونکہ یہ پیچھے پڑ جانے والے گلی کے کُتے نہیں تھے اس وجہ سے ہمیں خود ہی گھروں تک پہنچنا پڑا۔مذاکرات سے پہلے تو ہم نے کُتا ہائے ہائے کا نعرہ سنا لیکن مذاکرات کامیاب ہونےکےبعد ہم نے’’کُتا زندہ باد‘‘ کا نعرہ کبھی نہیں سنا یہ ہمارا المیہ نہیں ہے؟البتہ ہمارے’’کُتوں‘‘معاف کیجیے گا۔۔!حاکموں کا یہ المیہ ضرور ہے کہ انہیں معاشرتی مسائل کےحل کا ازخود ادراک نہیں ہوتا یہی وجہ ہےکہ ہماری برداشت کا پیمانہ اکثرلبیرزہی رہتا ہے اور پھرہم عدم برداشت کی راہ اختیار کر لیتے ہیں یہی راہ۔۔در حقیقت ۔۔ حقیقت سے راہ فرار ہے۔
برصغیر کی تاریخ پڑھیں توانڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے برداشت اور عدم تشدد کا فلسفہ دیا تھا جسے بعد میں ’’آہنسا‘‘پکار ا جانے لگا ۔ ہر سال 2 اکتوبر کو گاندھی کا جنم دن ’’یوم عدم تشدد‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے۔آہنسا کو اقوام متحدہ نے پزیرائی بخشی تھی۔وہی اقوام متحدہ جس نے امت مسلمہ کے خلاف دنیا بھر میں عدم برداشت کا فارمولہ اپلائی کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں نئے نئے محاذ کھولے جا رہے ہیں اور ہر محاز پر یہودیوں، ہندووں، عیسائیوں، بدھ مت اور دیگر غیر مسلم سازشوں کو بھڑکا یا جا رہا ہے۔ہمیں عدم تشدد کا درس دینے والے خود عدم برداشت کا شکار ہیں۔’’تُولنگ جا ساڈی خیر اے‘‘کا فلسفہ ان کےلئےقابل قبول نہیں ہے وہاں تو میرٹ یہ ہے کہ تم یہاں سے کیوں گذرے۔وہ ہمارے رکشہ فلسفے کاجنازہ نکالنے پرتُلے ہوئے ہیں۔ رکشے کے پیچھے لکھی ہوئی تحریریں جھوٹی نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ گنواروں کے تجربےکانچوڑبھی ہیں اور ہمارے جذبات کی ترجمان بھی۔
ایک شادی شدہ آدمی نے دوسرے سےپوچھا ۔تم شادی سےپہلےکیا کرتے تھے؟۔ اس نےروتے ہوئےجواب دیا’’جو میرا دل کرتا تھا‘‘۔ہمارے سیاستدانوں بھی جوجی چاہےکرتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ۔۔۔ہم ان کا تختہ مشق ہیں۔ہم ان کے تجربوں کے لئے نظریہ ضرورت، ون یونٹ، صدارتی نظام ، پارلیمانی نظام ، آمریت اورجمہوریت کی لیبارٹریاں بنے رہے۔سن 47 سے آج تک ہم عطائی سیاستدانوں کےرحم وکرم پرہیں۔معروف کالم نگار منو بھائی نےکئی برس پہلے مزاحیہ ڈرامہ سونا چاندی لکھا تھا۔جس میں چاندی (شیبا حسن)اورسونا (حامد رانا) نام کے دو کردارتھے۔یہ دونوں ڈرامائی میاں بیوی تھے۔ان کرداروں نے ڈرامے میں ایسا حقیقی رنگ بھرا کہ لوگ سونا چاندی کوسچی مُچی میاں بیوی سمجھنے لگے۔کچھ عرصہ قبل شیبا حسن نے ایک ٹی وی شومیں اعلان کیا کہ’’سونا میرا منہ بولا خاوند ہے۔‘‘یہ جواب دانستہ تھا، برجستہ تھا یا منہ سےنکل گیا لیکن چاندی آج تک اپنی بات پر قائم ہے۔دوسری جانب سیاستدان بھی ہماری سوسائٹی کا مرکزی کردارہیں لیکن یہ تمام منہ بولےسیاستدانوں ہیں۔ حلقے کو پیرس بنانے،انصاف گھرکی دہلیزتک پہنانے،صحت اورتعلیم جیسے بنیادی مسائل حل کرنےکےخواب دکھا کر یہ ہمیں شیشے میں اتارتے والے۔۔۔ ہم ہرباران کےمنہ سےنکلنے والے جھوٹ کو سچ مان لیتے ہیں۔۔ان سیاسی کرداروں کے وعدے چائنا کے کھلونوں کی طرح ہوتے ہیں جلد ٹوٹ جانے والے۔انہی دلفریب وعدوں کی بنا پر ہم خود سپردگی کی آخری منزل کو پہنچ جاتے ہیں۔ جو بربادی کی پہلی سٹیج ہے۔یہ وہی بربادی ہے جس کا ذکر اکثررکشوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے’’رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے‘‘اردو میں ۔۔۔ برباد تو ہوگئے لیکن مزہ آگیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں