جمعہ، 14 نومبر، 2014

ہوئے مر کے ہم جو رسوا

دنیا اچھے، برے،خوشحال، بدحال، بےحس، بےکس اوربے بس لوگوں سے بھری پڑی ہے۔کسی کو اپنی امارت کا اندازہ نہیں،کوئی رُکھی سوکھی کوبھی ترستا ہے۔لوگ مذہب کےلئے لڑتے اور مرتے ہیں لیکن انبیاءاور رسل نے کے احکامات بھول بیٹھے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب نے موت وحیات کا نظریہ پیش کیا ہے لیکن دین اسلام نے حیات بعدازموت کا فلسفہ بھی دیاہے۔۔ترجمہ ۔۔۔ ہرمتنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے پھرتم ہماری طرف ہی لوٹ کرآوگے ۔(القرآن)
موت کسی بھی جاندار کی ہو اس کا دکھ تو ہوتا ہےلیکن انسان کی موت ہو تو دکھ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ موت کے بعد پہلا مسئلہ کفن دفن ہوتاہے۔۔ پھر سوئم، ساتے اور چالیسویں کی رسمیں اور ان رسموں کو نبھانے کےلئے مہمانوں کے قیام و طعام کے کھلے خرچے۔

شہروں میں قبر کی تلاش ۔۔۔ روزگار ڈھونڈنے جتنی مشکل ہوتی ہے اور ایسے حالات میں جب قبرستانوں کی دیواروں پر ’’جگہ نہیں ہے مردے کہیں او ر دفنائیں ‘‘ کے بورڈ نصب ہوں اور بھی مشکل۔
مگریہ”نوشتہ دیوار“نہیں ہوتا۔۔ گورکن کی مٹھی گرم کریں تو قبر بھی تیار ہو جاتی ہے۔۔قبرستان گنجان آبادیوں کیHustle and Bustle میں خاموش شہروں کی طرح آباد ہوتے ہیں۔ بظاہر باہرسے بظاہر پرسکون۔۔۔ لیکن قبر وں کے اندر حشر برپا ہوتا ہے۔ خاموش شہر تقریبا ایک سے ہوتے ہیں اور ان شہروں کی انتظامیہ بھی ایک جیسی۔۔ بے حس
تبھی تو مردوں کو ابدی گھر الاٹ کرتے ہوئے قبرستان انتظامیہ کی اپنی جان نکلنے لگتی ہے۔
میڈیکلی کسی بھی جاندار کےتمام تر حیوی(vital) افعال کا خاتمہ موت ہے۔موت زندگی کا آخری مرحلہ ہے جوحیات کو موقوف کر دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ حیات بعداز موت کی ابتدا ہے۔ ماہرین طب کہتے ہیں کہ جانداروں کے سیل کے اندر ایسے کیمیائی تغیرات عمربھر جاری رہتے ہیں جورفتہ رفتہ موت کو رگ و جاں میں اتار دیتے ہیں۔انہی مرکبات میں ہم آہنگی زندگی ہے اوربے ترتیبی موت۔بقول شاعر
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا
طب کی تھری ڈی ترقی سےقبل دل اورسانس رک جانے کو موت تھا لیکن جدید ٹیکنا لوجی دل اور نبض کو نہیں مانتی کیونکہ اب طبیب موت کا فیصلہ برین death کی بنیاد پر کرتاہے۔دنیا بھر میں خودکشی،افلاس اور غربت موت کے دیگر بڑے اسباب ہیں۔ حادثات،بم دھماکے،سیلاب، زلزلے اور جنگیں بھی ہرسال کئی ہزار جانیں نگل جاتے ہیں۔ مرنے والےکارنگ،نسل ،مذہب اورعقیدہ کچھ بھی ہو۔ وہ زمین پر مرےیا فضا میں،یا پھر ڈوب مرے،اس کی خاک نے وہیں پہنچنا ہے جہاں کاخمیر تھا۔
موت کے بعد مسلمان کا آخری ٹھکانا قبرستان ہے۔دوسو ایکڑ پر پھیلا مامن اللہ (فلسطین) قبرستان دنیا کا قدیم قبرستان ہے۔ بیت المقدس فتح کے کئی فاتح صحابہ کی یادگاریں یہیں ہیں۔یہاں تقریبا 70 ہزار شہدا مدفون ہیں۔ 1948 میں اسرائیلی فوج نے اس کے مغربی حصےپر قبضہ کرلیاتھا۔یہودیوں نے یہاں سیرگاہ بناکر اس کانام آزادی پارک رکھ دیا ہے۔(اللہ انہیں غار ت کرے۔آمین)
صوبہ سندھ کےشہر ٹھٹہ میں مکلی قبرستان کا شمار بھی دنیاکےبڑےقبرستانوں میں ہوتاہے۔ 6سو سال قدیم ۔۔ 6 مربع میل پرپھیلا ہوا۔یہاں 10لاکھ قبریں مقبرے اور مزار ہیں۔قبروں پر بنے خدوخال اور نقش و نگار تاریخ کا وہ ورثہ ہے جو قوموں کے مٹنے کے بعد بھی ان کے ہنر کا پتہ دیتے ہیں۔ ہرسال ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں۔سندھ ہی کے علاقےگڑھی خدابخش میں بھٹو خاندان دفن ہے۔یہ ملک کا پہلا سیاسی قبرستان ہے۔جہاں ذوالفقارعلی بھٹو،بےنظیر، شاہ نواز،مرتضی اور بیگم نصرت بھٹو دفن ہیں۔
آج کل جہاں فیصل آباد۔آبادہےیہاں 1902 میں لائل پور ہوتا تھا۔4 ہزار آبادی کا شہر۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر 1903 میں ہوئی۔دوران تعمیر معمار کی کم سن بیٹی وفات پا گئی تو اسے نڑوالاروڈ پر واقع قبرستان کی ابتدائی قبروں میں دفنایا گیا ۔ اس ننھی قبر پر گھنٹہ گھر والا سرخ پتھرہی استعمال ہوا۔
یہ کم سن قبر نئی قبروں کے اندر ویسے ہی چھپی ہوئی ہے۔جیسے قدیم لائل پور جدید فیصل آبادمیں چھپا ہواہے۔ لائل پور بسانے کے لئے آنے والے گورے اگر مر جاتے تو انہیں محکمہ ایکسائزکےسامنے گورا قبرستان میں دفن کیا جاتا۔اس قبرستان کے کتبوں پر مرنے والوں کی تصاویربھی موجود ہیں۔
19ویں صدی کا پُو ابھی پھٹنا شروع ہی ہوا تھا۔شہر میں عبداللہ پور کے نام سے مسلمانوں کا پہلا محلہ آباد ہو رہا تھا۔میاں عبداللہ متحدہ ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ممبر تھے۔۔۔ آزادی کے بعد یہاں کئی قافلوں نے پڑاو ڈالا۔۔پھر خیمے پکے گھروں میں بدل گئے۔شہر کی آبادی بیٹھےبیٹھائے بڑھ گئی تھی۔آزادی کی خوشی میں ہمارےہاں آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھی۔ نئی کالونیاں اس سپیڈ سےنہیں بنیں۔نئی آبادیاں جب بننا شروع ہوئیں تو جہاں چاہ وہا ں راہ کی طرح پھیلتی گئیں۔ہم نے زندوں کے لئے جستجو نہیں کی ۔۔مردوں کو خاک اہمیت دیتے۔حالانکہ ان گونگے گھروندوں کے مکینوں نے کم سہولیات کا کبھی شکوہ کرنا تھا اور نہ ہی گلہ۔
ہمارے پورکھ تو چلو گنوار تھے لیکن نئےشہروں کے آبادکاروں کو توپتہ تھاکہ آبادیاں کیسے آباد کرنی ہیں اور قبرستان کیسے؟ کیونکہ پنجابcolonization آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912،پنجاب ڈویلپمنٹ آفcities ایکٹ 1976،پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001 اورپنجاب پرائیویٹ سائٹس ڈویلپمنٹ سکیمز رولز 2005جیسے قوانین موجودتھے۔یہ قوانین چیخ رہے تھے کہ مجوزہ کالونی کا کُل 65فیصد covered اور 35 فیصد ایریا اوپن ہوگا۔کورڈ ایریا میں گھر،سکول اور مسجد جبکہ اوپن ایریا میں گراونڈ،گلیاں،سٹرک، پارک اور قبرستان ہوں گے۔
فیصل آباد میں کالونیوں کی تعمیر امیبا کی طرح ہوئی۔کبھی ادھر کو بڑھی اور کبھی ادھر نکل گئی۔۔ لیکن قبرستان وہی رہے۔ مردےکہاں دفنائیں یہ سوال مسئلہ فیثا غورث کی طرح سلجھنے کے بجائےالجھتا ہی جارہاہے۔
ٹوکیومیں مردوں کے لئے جدیدٹیکنالوجی سےآراستہ 6 منزلہ قبرستان ہے۔8 ہزار ڈالر میں ایک قبر۔۔ اور سالانہ مرمت کے لئے 170 ڈالر۔۔۔لواحقین اے ٹی ایم کی طرح مشین میں کارڈ ڈالتے ہیں اورکچھ دیربعد تابوت باہر ہوتاہے۔ دعا مانگی اور تابوت پھر اندر۔بدھا کے ہزاروں مردوں کی راکھ ان تابوتوں میں موجود ہے۔
پاکستان میں چھ منزلہ قبرستان بنانے کی شرعی گنجائش تو نہیں ہے۔البتہ ہمارےگورکن ایک قبر میں چھ مردے دفنانے کا فن ضرور جانتے ہیں۔وہ مردے کو صرف اتنےدن ہی’’سکھ سےجینے دیتا ہے‘‘جتنے دن میں گوشت ہڈیوں سےالگ نہ ہوجائے۔ پھر ہڈیاں کہیں اور کھوپڑی کہیں۔۔قبر پھر نئی میزبانی کےلئے تیارہوتی ہے۔وہی قبر جو پہلے۔۔کسی کی والدہ یادادی کی ہوتی تھی آج وہ کسی اورکے والد یا دادا کی ہے۔۔مرنےوالوں کو تنہا چھوڑ تو قبروں اور قبروں کے اندر دفن افراد کی شناخت ختم ہو گئی۔ہم نے قبرستان جانا چھوڑا تو اس گمنامی کو اور بھی تقویت ملی۔۔
 کراچی اوراسلام آباد میں انٹرنیٹ پر آن لائن دعامانگنےکی آپشن موجودہے۔کمپیوٹر پر ایپلی کشن اوپن کی دعا مانگی اور پھر کمپیوٹر بند ۔۔۔لیکن جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں قبریں بھڑوں کےچھتوں کی طرح دکھتی ہیں۔۔ قبر کے اوپر قبر۔۔ اور قبر کے اندر قبر۔دھرتی کے سینے سےچمٹی ہوئی ان ڈھیریوں کےمکین ماضی قریب میں زمین کا زیور تھے اور آج بوجھ ہیں۔
شہروں اورخاموش شہروں میں سوائے زندگی کے۔۔کوئی فرق نہیں۔وگرنہ سڑکیں نہ شہروں میں ہیں اورنہ ہی خاموش شہروں میں۔سٹریٹ لائٹس،سائبان اور سوریج بھی ایک جیسا۔اگر یہ سچ ہے تو کیا ہم قبرستانوں میں رہتے ہیں۔۔یا پھر ہم شہروں کو زندوں کا قبرستان کہہ سکتے ہیں۔
دھواں زندگی کی علامت ہے۔۔تمام قبرستانوں سےزندگی کی صدا آرہی ہوتی ہے۔یہاں گورکن مُردوں میں زندوں کی طرح رہتے ہیں۔قابیل دنیا کا پہلاقاتل تھا۔جس نے خون ریزی اوررقابت کی بنیاد رکھی۔ روزانہ ہونے والے ہر قتل کا حصہ دار۔۔۔ اور تدفین کا ماسٹر مائنڈ۔۔اسے تدفین کا گُر سکھانے والا کوا دنیا کا پہلا گورکن تھا۔قبرستانوں میں گورکنوں کے علاوہ نشئی سوٹے لگا کر اور کالےعلم کے چلے کاٹنے والےعملیات کوہوا دے کر دھواں اڑا رہے ہوتے ہیں۔
فاتحہ خوانی کے لئے قبرستان جانا ہمیں پل صراط سےگذرنےجیسا لگتاہے۔ جن کےبغیرہم بے قرار رہتے تھے موت کے بعد وہ کم ہی یاد آتے ہیں۔ ہمارا نظریہ words worth کی نظم we are sevenکی little maid جیسا نہیں ہے۔ہم جو مر گیا اسے بھول جاؤ کے نظرئیے سےتعلق رکھتے ہیں۔ہم زیادہ سے زیادہ عیدین اور یوم عاشور پر قبرستان جاتے ہیں یا پھر کسی جنازے پر ویسے قبرمیں اترنے کاتصورانتہائی خوفناک ہے۔۔خاص کر وہ قبر جسے ہمارے اعمال نے بچھو اور سانپ کا گھر بنا رکھا ہے اور ہم اتنے ظالم ہیں کہ اپنے چہیتوں کو بچھووں اور سانپوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔معاوضے سمیت۔
قبروں ہمارےعقائد اورمسالک کی شناختی علامت بھی ہیں۔کچی پکی، ہمواریا مزار طرز کی قبریں۔۔ہموار قبریں جنت البقیع میں دکھتی ہیں۔سطح زمین سے صرف ایک ہاتھ بلند۔۔۔ان پر ڈھیری ہوتی ہےاورنہ ہی تختی۔ہم توقبرکے اوپر گنبد، چھت اور چاردیواری بھی بنواتے ہیں۔۔قبرباہر سےجیسی بھی ہو اندرسےدو طرح کی ہوتی ہے۔۔صندوق یا لحد۔
صندوق میدانی علاقوں میں بنتی ہے جسے ڈاٹ لگاتے ہیں اور لحد۔قبر کےاندر بغلی قبر ہے۔آقائےدوجہاں کی قبر مبارک لحدطرزکی ہے۔
شہروں میں قبرستان جوایک دھائی قبل سطح زمین کے برابر تھے اب قدآدم تک اونچے ہیں۔
امیدزندگی کی علامت ہے اوراس کاخاتمہ موت کا نقطہ آغاز۔
امید پر دنیا قائم ہے یہ قول شائدزندگی سے محبت کرنے والوں کا ہی ہے لیکن کچھ لوگ موت سے محبت کرتے ہیں۔یہ عاشق ہو تےہیں،سٹنٹ مین اوریاپھرایڈونچرسٹ۔۔قبرستان ہمیں زندگی کی سب سےبڑی حقیقت موت کی یاددلاتاہے۔زندگی اور موت کےدرمیان صرف روح کا فرق ہے۔
قبرستانوں کا انتظام۔۔پہلےحکومت اور پھر معاشرےکی ذمہ داری ہے۔زندہ رہنے والوں کوشہروں میں گھر بنانے کوجگہ نہیں ملتی اورمرنے والوں کو دوگز زمین کاحصول مشکل ہے۔جائیں توکہاں جائیں؟وگرنہ مرزا غالب نے تو کہہ رکھا ہے
 ہوئےمرکےہم جو رسوا،ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
 نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں