جمعہ، 29 جنوری، 2016

لیگی کارکنوں کا اللہ ہی حافظ

ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ’’شیطان مرد کے دماغ میں رہتا ہے اور عورت کے دل میں۔ہر آدمی شیطان سے پناہ مانگتا ہے اور کئی لوگوں کو وہ پناہ دے بھی دیتا ہے۔‘‘یونس بٹ  کی اس ’’شیطانی‘‘ کو میں جب بھی  پڑھتا ہوں میرے دماغ کے کینوس پرمختلف  انواع کےسیاستدان کی تصویریں  ابھرتی ہیں بلکہ  آرٹ گیلری سی  بن چکی ہے۔رسہ گیر، لٹیرے ،قاتل،ٹارگٹ کلر،رشوت خور،قرضہ خور،منشیات فروش، لینڈ مافیااورٹیکس چور۔ہرشیطان کا الگ الگ پوٹریٹ ہے۔آرٹ گیلری  کی کچھ تصویریں گرفتار ہیں۔کچھ ریمانڈ پر۔کچھ ضمانت پر ہیں اورکچھ فرار ہیں۔درجنوں خوف زدہ تصویریں  تجریدی آرٹ کی  طرح  مبہم سی ہیں ۔غیرواضح۔آڑھی ترچھی لکیریں۔ضمیرفروشوں کی اس آرٹ  گیلری میں کمی ہے توصرف ضمیرکےقیدیوں کی۔ایک وزیرتصویری نمائش  کا افتتاح کرنے پہنچے اورمصورسے کہا
وزیر:اس تصویر کوذراغور سے دیکھیں۔ خدوخال ایسے خراب،بھدے دکھائی دیتے  ہیں کہ دوبارہ دیکھنےکوجی نہیں چاہتا۔
مصور:آپ نے درست کہا لیکن یہ تصویرنہیں آئینہ ہے ۔
تصویریں ہمیشہ پازیٹو ہوتی ہیں البتہ تصویری کردار نیگٹو ہو سکتے ہیں۔آئینے جیسے۔فنون لطیفہ  ہمیں جمالیاتی حس کا اظہار کرنے کے پانچ راستہ دکھاتا ہےجن میں مصوری ، شاعری، سنگ تراشی، رقص اورموسیقی  شامل ہیں۔ڈاکٹر یونس بٹ کی شیطانی پڑھ کر میرے ذہن میں جو سیاسی آرٹ گیلری بنی تھی اس کے سارے کردارموسیقی کے دلدادہ ہیں۔شباب کے رسیا۔پان چبانے والے۔تاتا تھیا پرتھرکنے والے۔ٹھمکتے ذہنوں کے مالک۔موسیقی کےدلدادہ۔سیاسی جماعتوں کےسربراہوں کےعلاوہ یہاں ہر وزیراورمشیراپنے لیڈر کا ، کارکن ہونے کا دعویدار ہے اورضرورت آنے پر کارکنی نہیں چھوڑتا بلکہ اپنا لیڈر بدل لیتا ہے۔سیاسی جماعتوں کااصل چھتِیر وہ کارکن ہوتے ہیں جن کی پہنچ وزیروں تک تو درکنارمشیروں بلکہ عام اسمبلی ممبر تک بھی نہیں ہوتی۔کہتے ہیں کہ  سارے کارکن ’’گدھے‘‘ ہوتے ہیں جنہیں وقت آنے پر سیاستدان اپنا باپ بنا لیتے ہیں۔لیکن میرا ماننا ہے کہ  ہر کارکن اپنے لیڈر کا پٹھانے خان ہوتاہے۔کچھ کارکن شاملِ باجا ہیں، کچھ  کورس گانے والے،کچھ  سنگت والےاور کچھ  صرف تالیاں پیٹنے والےہیں۔لیڈروں کا پسندیدہ گیت’’مینڈاعشق وی توں،مینڈا یار وی توں‘‘بھی پٹھانے خان نےہی گایا ہے۔کارکن  راگ  بھیروی، درباری، پہاڑی، راگیشری اورپیلووغیرہ میں جب بھی الاپ لیتا ہے۔اس کامطلب  ہمیشہ  زندہ باد۔ آوے ہی آوےاورجیتے  گا بھئی  جیتےگا۔اخذکیا جاتا ہے۔بلکہ بقول ایوب خاور’’سات سروں کا بہتا دریاتیرے نام۔  ہرسُرمیں اک رنگ دھنک کاتیرے نام‘‘۔ایسے کلام گاتےگاتے  پٹھانےخانوں کےہاتھوں میں رعشہ اتر آیا ہے۔ایک بوڑھا’’کارکن‘‘سٹیج  پرگانے آیا تونقلی دانت گرپڑے۔بوڑھے نے جلدی سے منہ میں فٹ کئے۔ دوبارہ الاپ لیا توپھرگرپڑے۔گلوکارنےپھرفٹ کئے تو سامنے بیٹھاوزیربولا۔او۔بابا جی۔!سی ڈی ہی بدلی  جاو گے یا  گانا بھی گائو گے۔ شائد یہ  وہی وزیر  ہو جو تصویری نمائش  کا افتتاح کرنے پہنچا تھا۔
کسی نے مزاح نگار انور مقصود سے پوچھا۔سیاستدانوں کو کیسے چننا چاہیے۔؟
انورمقصود :جیسے بادشاہ اکبر نے انارکلی کو چُنا تھا۔ دیوار میں۔
انور مقصود کراچی سے ہیں اور کراچی کے تین بڑے مسئلے  ہیں ۔گولی۔ بوری اور بھتہ ۔ وال چاکنگ کو مدنظر رکھا جائے تو  ملک کے تین بڑے مسائل ہیں۔ گورا رنگ۔ کالا جادو اور مردانہ کمزور ی۔تین چیزیں  ہر پاکستانی حکومت کے ساتھ ہوتی ہیں۔ مہنگائی، کرپشن اورمولانا  فضل الرحمن۔کیونکہ جنگ اور محبت کی طرح سیاست  میں بھی  سب کچھ جائز ہے۔اسی لئے کارکنوں کے ساتھ ناجائز ہو رہا ہے ان کےصرف ایک مسئلہ ہے اور وہ بھی تین بار نظر انداز۔ نظر انداز ۔اور۔نظر انداز ۔ یہ  کلاسکیکل سیاسی نظام  ہے ۔استحصالی نظام۔’’ پٹھانے خان‘‘ اسی سیاسی سسٹم کی پیداوار ہیں۔ بازار سے تربوز لینے جائیں تو  ایک آواز  ضرور آتی ہے۔ جیڑا بھنو لال اے (کوئی بھی تربوز کاٹ  لیں  وہ  سرخ نکلے گا )۔یہ جملہ خالصتا سیاسی کلچر کا مظہر ہے  ۔ہر سیاسی جماعت کارکنوں کا استحصال کر رہی ہے۔ کارکن ہمارے سیاسی نظام کی شُودر نسل ہے۔ جو  بلی دینے کے لئے پیدا ہو ئے ہیں اور اقتدار میں بیٹھے افرادپی کے فلم کے تسپی مہاراج  کی طرح ہٹے کٹے  پڑے ہیں۔
کہتے ہیں کہ لاہور میں اگر آپ کسی سے راستہ پوچھیں اور وہ شمال کابتائے  تو آپ جنوب کی طرف  چلے جائیں۔ منزل پر پہنچ جائیں گے۔ بالکل ایسے ہی سیاستدان  پورے لاہورئیے ہوتے ہیں وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔قول و فعل کا تضاد ان کی سیاسی تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔شمال اور جنوب کے  اسی سیاسی  تضاد نے  معاشرتی تضاد کو جنم دے  رکھا  ہے۔یہی تضاد معاشرے میں اس قدر سرائیت کر چکا ہے کہ  عام آدمی جب آپس میں  وعدہ کرتا ہے تو دوسرے سے یہ عہد ضرور لیتا ہے کہ وعدہ سیاسی نہیں ہونا چاہیے۔خبر یہ ہے کہ اگلے چند روز بعد پنجاب میں مزدوروں اور کسانوں کے لئےمختص ۔مخصوص نشستوں پر بلدیاتی الیکشن ہو رہے ہیں۔ مزدور اور کسان  کی سیٹوں پر ہونے والے انتخابات  میں  سرمایہ دار اور جاگیر دار امیدوار بن گئے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ نے مزدوروں اور کسانوں کی  چھوٹے ایوانوں میں نمائندگی کے لئے بلدیاتی آرڈیننس بھی خود ہی متعارف کرایا تھا۔ اسی آرڈیننس  کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔قانون   موم کی ناک ہے۔ گھر کی لونڈی۔ وڈیروں کےپاس  لاٹھیاں ہیں۔ ساری بھینسیں انہی کی  ہیں۔اقتدار کی غلام گردشوں میں بیٹھنے کے لئے سرمایہ دار جھونپڑ پٹی کےمقیم دکھنا چاہتے ہیں ۔ بننا نہیں  چاہتے۔ کسان اور مزدور  چننے کا اختیار  سرمایہ داروں کو سونپ  تودیا گیا ہے لیکن وہ عام آدمی کو انار کلی کی طرح  چننے لگے ہیں۔ن لیگ کی ضلعی اور سٹی تنظیمیں   مزدوروں کی ایسی فہرستیں  تیار کر رہی ہیں جن میں مزدور شامل ہی نہیں ہیں۔ فہرست  تیار کرکے قیادت کو بھجوائی جا چکی ہیں۔  کارکنوں کا پھر  استحصال کر دیا گیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ پٹھانے خانوں کی رعشہ زدہ آواز اب سننے والا بھی  کوئی نہیں۔ وزرا بہرے اورپٹھانے خان بوڑھے ہو چکے ہیں ۔ آرٹ گیلری میں پھر سے ضمیر فرو شوں اور سرمایہ داروں  کے پوٹریٹ لٹک رہے ہیں۔ کارکنو ں کے چہرے تجریدی آرٹ کی طرح مبہم ہیں۔ آرٹ گیلری میں مزید گنجائش بھی نہیں ہے۔ضمیر کے قیدی  آج بھی آرٹ گیلری  سے باہر ہیں ۔
 خلیل جبران  کہتے ہیں۔ ’’اس نے کہا میں نے مان لیا۔ اس نے زور دے کر کہا مجھے شک ہوا۔ اس نے قسم اٹھائی مجھے یقین ہو گیا۔ کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ‘‘۔یہ جملہ مجھے پڑھ کر میرے دماغ کے کینوس پرپھرسے مختلف  انواع کے  سیاستدان کی تصویریں  ابھری ہیں۔ایسی تصویریں جنہیں شیطا ن نے پناہ دے رکھی ہے۔رسہ گیر، لٹیرے، قاتل، ٹارگٹ کلر،رشوت خوراور ٹیکس چور۔۔تصویریں۔ تصویری نمائش بہت جلد لگنے والی ہے امکان تو یہی  ہے  کہ یہ نمائش پورے سرکٹ میں لگ جائےگی۔اب نمائش پٹ جائے گی یا  ہٹ جائے گی۔ فیصلہ آرٹ گیلری دیکھ ہی ہو سکے گا۔ !

1 تبصرہ:

  1. سر آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔۔۔ میرے خیال میں ہر سیاسی جماعت کے کارکن گاما تانگے والا ہوتے ہیں، جو ایم اے پاس بیٹے کو کلرک بھرتی کروانے کے لیے ساری زندگی انہی سیاسی لیڈروں کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے گزار دیتے ہیں۔ اور دل میں ہمیشہ امید کی لو کو اسی آس پر جگائے رکھتے ہیں کہ اقتدار کے مزے لوٹنے والے رہنما ان کے حالات ضرور بدلیں گے۔ اور گھر والوں کے ہر سوال اور زمانے کے ہراعتراض کا جواب بس یہی ہوتا ہے کہ " وہ جانتے تو ہوں گے مجبوریاں ہماری ۔۔۔۔ ہم جن کو دیکھتے ہیں حسرت بھری نظر سے" لیکن ساری عمر گزار کر ان جیالوں اور متوالوں میں سے صرف چند ایک ہی سمجھ پاتے ہیں کہ جس درخت کی آبیاری انہوں نے برسوں کی وہ تو بانجھ نکلا اور مالی کے لیے اس کے پاس پھل نہیں ہے۔۔۔ اور تب دم آخر یہ شعر ان کا ورد ہوتا ہے کہ " ہم ہو گئے پرائے اب ان کے واسطے کیا؟ ۔۔۔۔ کہہ دے یہ کوئی ان سے گزریں نہ اب ادھر سے"۔ محمد امین۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں