استاد
محترم پطرس بخاری لکھتے ہیں کہ ’’علم الحیوانات کے پروفیسر سے پوچھا، سلوتریوں سے
دریافت کیا، خودسر کھپاتے رہے، لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا کیا
فائدہ ہے ۔گائےکو لیجئے دودھ دیتی ہے،بکری کو لیجئے دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں
بھی۔یہ کتے کیا کرتے ہیں‘‘۔؟بخاری
صاحب کتوں کےفوائدتلاشتےتلاشتے 1958
میں گذر گئے۔اُن کےبعد محققین اس
سوال کو جوابنے کے لئے نگر نگرسونگھتے پھرے۔نئی نئی طاویلیں تراشیں۔مفروضوں کی
گھڑولیاں بھی بھریں۔راقم خودانہی نیم
محققین میں شامل رہا۔’’کتوںکا فائدہ کیا
ہے۔‘‘ اس موضوع پرتحقیق کرتے کرتےاچانک میرا
مفروضہ بدل گیا
۔خارش کافائدہ کیا ہے۔نیا موضوع بن گیا۔مقام خارش پر کھرکنےکامزاکیوں آتا ہے۔قریب ہی مزید خارش
کیوں ہونےلگتی ہے۔خارشیےبےقرارکیوں رہتے ہیں۔؟عطاالحق قاسمی کے ایک
خارشی مصرعے نےمیری رہنمائی کی۔وہ
کہتے ہیں’’بیوی سےمحبت کرناایسی جگہ پر
خارش کرناہےجہاں خارش نہ ہورہی ہو‘‘
قاسمی
نظرئیے کے مطابق چند مرد ہی گھریلو خارشیےہیں۔ باقی سارے غیرگھریلو ۔1973 کا آئین
منظور ہونے سے قبل شہروں میں خارشیوں کے لئے
منڈیاں ہوتی تھیں۔جہاں پہنچتے ہی طبعیت کُتی ہوجاتی ۔فلم شعلےکےگبھرکامشہور
زمانہ ڈائیلاگ۔’’بسنتی ان کُتوں کے سامنے مت ناچنا‘‘ ذہن میں ہونے کے باوجود وہاں بسنتی نا دھن،دھن نا پرٹھمکتی۔جب تک ہےجاں۔۔میں
ناچوں گی۔پرمُصر رہتی ہے۔بسنتی، گھبرسنگھ،
کتا اور خارش جب اکھٹے دیکھے تو میرا حوصلہ بندھا کہ تحقیق درست سمت بڑھ رہی
ہے۔لیکن اگلے روڑےابن انشا نےاٹکادئیے۔وہ کہتے ہیں کہ ’’کتا اپنی گلی میں شیرہوتا ہے،جس طرح شیر کسی دوسرے کی گلی
میں کتا بن جاتاہے۔کتوں اورعاشقوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔دونوں راتوں کو
گھومتے ہیں۔اپنا اپنا کلام پڑھ پڑھ کرلوگوں کو جگاتے ہیں۔اینٹ اور پتھر کھاتے
ہیں‘‘۔
عاشقوں
اورکتوں کی مشترکہ صفت ہڈی بھی ہوتی ہے۔ٹیٹھ ہڈی۔ہڈیاں جب ہڈ بنتی ہیں تو کچھ ہڈحرام بھی بن
جاتی ہیں۔ہاتھ کئی بارمقام خارش تک بھی
نہیں پہنچے پاتے۔بالکل ایسے ہی سیاستدان جب وزیر بن جاتے ہیں تو دسترس سےباہرہو
جاتے ہیں۔حالانکہ تب ووٹرزکوخارش زیادہ ہونے
لگتی ہے۔ابن انشا۔ خارشی گلی میں جانے
والےجس شیرکو کتاکہتے ہیں شاہد وہ کوئی سیاسی
شیرہو۔؟میرا تو راسخ عقیدہ ہےکہ کتےغیرسیاسی ہوتے ہیں یہ الگ بات ہےکہ سیاست میں
کئی دن تک کتے کا تذکرہ نہ سنیں تو گدھےگونگےاورضمیر مردارلگنے لگتا ہے۔ کُتا ہمارے سیاسی احتجاج اورذاتی انتقام کا استعارہ ہے۔یہی کتا سالہا
سال سے سیاسی ٹریک کا یوٹرن بھی ہے۔جلسوں،
مظاہروں اور دھرنوں کی اینٹی اقتدارتحریک بھی کتے کےگردہی گھومتی
ہے۔صدر کُتا ہائے ہائے کے نعرے لگانے
والاایک شخص پولیس نےپکڑلیا۔تو۔وہ ڈرکے بولا!تھانیدارصاحب۔میں توانڈیا
کےصدرکوکہہ رہا تھا ۔
تھانیدار:اوئے بےوقوف نہ بنا۔ہمیں پتہ ہےکون سا صدر کتاہے۔
تھانیدار:اوئے بےوقوف نہ بنا۔ہمیں پتہ ہےکون سا صدر کتاہے۔
پولیس کوواقعی سب پتہ ہوتا ہے حتی کہ یہ بھی کہ جرم کہاں ہوتاہےاورکرتا کون کرتا ہے۔پطرس
بخاری’’کتے کا فائدہ کیا ہے‘‘یہ سوال کسی تھانیدار سے جوابتے توممکن ہے کتاحوالات
میں ہی مل جانا تھا۔سکولوں میں نالائق طلبا کو’’گدھا‘‘اورمحلوں میں شرارتی بچوں
کوسب سے زیادہ کتے لفظ کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔میری نیم تحقیق کےمطابق گدھا نصابی لفظ ہےاورکتا سماجی۔یہ دو اکائیاں معاشرتی دھائیاں
ہیں۔ہم نےتوکتوں کےحق میں نعرے مارتے گدھے بھی دیکھے ہیں۔
چوہدری
کمی سے :او گدھے۔تم میرا احترام کیوں نہیں کرتے۔ ؟
کمی:جناب
یہ کیسے ممکن ہے۔آپ کا تو کتا بھی آئے
ہم سمجھتے ہیں چوہدری صاحب خودآئے ہیں۔
معاشرے
میں کمیوں اورچوہدریوں کی تعدادمسلسل بڑھ رہی ہے۔ایسےچوہدری جنہیں دیکھ کرنصابی
کہانی گریڈی ڈاگ یادآ جاتی ہے۔انگریزی کہاوت ہے کہ’’بھونکنے والے کتے کاٹنے
نہیں‘‘۔ایسے کہاوتی کتےپاکستان میں کہاں۔؟یہاں توبھونکنے اور کاٹنے کی ایک ہی
ریسی پی ہے۔بلکہ بقول پطرس بخار ی’’ہم دیسی لوگوں کے کتےبھی عجیب بدتمیزواقع
ہوئے ہیں۔اکثر تو ان میں سےایسےقوم پرست ہیں کہ پتلون اورکوٹ کودیکھ کر ہی
بھونکنے لگ جاتے ہیں۔کچھ کتے ہوتے
ہیں کچھ بہت کُتے ہوتے ہیں۔اصل کتے پالتو
ہوتے ہیں کچھ فالتوبھی ہوتے ہیں‘‘۔
دنیا
بھر میں چارسونسل کے 40 کروڑسےزیادہ کتے ہیں۔مجرم شناسی کا سب سے آسان ذریعہ بھی کتا ہی
ہے۔پچھلے
دنوں پشاور پولیس نےسراغنے والےکتوں پر بریفننگ دینےکےلئےتحریک انصاف کے
سربراہ عمران خان کو بلایا توپنجرے میں
بنددو کتے دیکھ کروہ پریشان ہوئےاورکہا’’مجھےیہ کتےسفارشی لگتے ہیں۔نئے کتے میرٹ پربھرتی کئے
جائیں‘‘۔کُتا میرٹ پشاورپولیس نے کیسے
پورا کیا دوبارہ کوئی خبر نہیں آئی۔لیکن یہ ثابت ضرورہوگیا کہ یہاں
کُتا میرٹ ہی رائج ہے۔خاتون
اول کی سابق امیدوار ریحام خا ن نےایک انٹرویو میں کہا تھا کہ’’ہماری طلاق کی ایک وجہ کتےبھی ہیں۔ میرا زیادہ وقت کپتان کےکتوں کے ساتھ گزرتا۔بنی
گالہ میں عمران کے5کتے ہیں۔ایک کتامیں ساتھ لائی تھی۔خان کاایک کتا ’’شیبرڈ‘‘ہمارے
بیڈ روم میں ہی سوتاتھا ۔ہمارے
کتےبھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔‘‘
بنی گالہ کےسارے کتے یقیننا میرٹی تھے۔پشاوری کتوں
کے ساتھ کتے والی ہوئی۔میانوالی، راہ والی اور ٹامیوالی کے بعد’’کتے والی‘‘ بالکل
نئی تحقیقی اختراح تھی۔جنرل ضیا نے ایک بار کہا تھا ’’یہ سیاستدان کیا ہیں۔میں
ذرا سا پچکاروں تو دُم ہلاتےآ جائیں گے‘‘۔یہی’’کُتے والی‘‘ہے۔کتے ہاٹ ڈاگ کے بغیر ہی دم ہلا رہے تھے۔البتہ
جرمن نسلڈابر مین‘‘والے کتے
پچکارنے سے محفوظ رہے کیونکہ وہ پیدائشی
دم کٹے ہوتے ہیں۔
اس سارے
کتیاپےکی بنیادزرعی یونیورسٹی فیصل
آباد میں ہونے والا جرمن شیفرڈ۔ ڈاگ شوہے۔جس میں ملک بھر سے170 بہت
ہی کُتوں نے شرکت کی۔کتااسمبلی دیکھنےکے
لئے انسان بھی موجودتھے۔مقابلے میں عمرکےمطابق کُتوں کی پانچ کیٹگریز بنائی
گئیں۔جسامت، خوبصورتی اورکتا واک کی بنیاد پرجن کُتوں نے پوزیشن لی ان کی ٹرافیاں مالکان لے گئے۔کتے جیت کر گاڑیوں میں بیٹھ کر
گھروں کو نکل گئے۔
آج کل کتوں
کی بڑھتی ہوئی آبادی سے لوگ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنےپر
مصُر ہیں تو ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے
ہیں۔کتے کاٹ لے تو دو علاج ہیں۔ پہلا علاج ٹیکا ہے اور دوسرا علاج ہے کُچلا زہر۔ جن
کے پاس کُچلا ہے وہ کتوں سے مل گئے اور قوم میں ٹیکے لگوانے کی حیثیت ہے اور نہ ہی
ہمت۔ کتے پالنے کے شوقین افراد
ایک بارگاڑی میں کتوں سمیت شاعرمشرق کوملنے آئے۔لوگ اندرجا بیٹھےاورکتے موٹر
کارمیں ہی رہے۔اتنے میں علامہ کی چھوٹی
بیٹی منیرہ بھاگتی ہوئی آئیں اوربولیں۔
ابا ابا،موٹرمیں کتےآئے ہیں۔علامہ نےان لوگوں کی طرف دیکھااورکہا، نہیں بیٹا
یہ تو آدمی ہیں۔
نوٹ:علامہ اقبال سچ میں فلاسفر تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں