میٹرنٹی اسپتال کے آپریشن تھیڑ یا پھر سرکاری اسپتالوں
کے لیبر روم کے باہر چکر کاٹتے مرد اورکوہلو کے بیل میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔مرد کے
پاوں میں موٹر اس لئے لگی ہوتی ہےتا کہ لیبر روم کے اندراُس کی منکوحہ کودرکارایمرجنسی
ادویات کی بروقت فراہمی ممکن ہو سکے۔زچگی کے علاوہ جب بھی ہم اسپتالوں میں جا تے ہیں
ڈاکٹر سے زیادہ نرس کا انتظارکرتے ہیں۔نرس اگرموٹی تازی ہو تو ہانپتی ہوئی اور اگر
نرم و نازک ہوتو کانپتی ہوئی تھیٹر سے باہرآکرمطلع کرتی ہےکہ مبارک ہوآپ کے ہاں
بیٹا یا بیٹی پیدا ہواہے۔’’شریک جرم ‘‘ہونےکےباوجودہم ایسی اطلاعات پراچانک۔اطلاع
والاردعمل دیتے ہیں۔ان مُخبرنرسوں کامنہ اکثر کھلا ہی ہوتاہےلیکن جب کبھی نرس
آکربتاتی ہیں کہ سوری مس کیرج ہوگیا ہےتو ہمارامنہ بھی کھلا رہ جاتاہے۔
میں بھی بنیادی طورپروسطی پنجابی ہوں اورپیدائشی
طورپرمس کیرج ۔والےپنجاب میں زندہ ہوں۔لاہورمیرادوگھنٹے دورہمسایہ ہے۔جہاں حکومت
ساراسال لیبرروم میں رہتی ہےاورہم باہرچکرکاٹتے ہیں۔حکومت کولیبرروم سےنکالنے
کے لئےادویات ڈھوتے ڈھوتےمقروض ہوگئےہیں لیکن مخبرنرس صرف مالی سال شروع ہونےپر جولائی
میں تھیٹرسےباہرآتی ہےاورپیغام ہربار کی طرح ایک ہی ہوتا ہے۔’’مبارک ہو۔لاہور
پیدا ہواہے‘‘۔باقی پنجاب کا ہربارمس کیرج ہوجاتاہے۔ہم ٹیکس،کمیشن اور فیس دے
دےکرلاہورکوپال رہے ہیں۔لیبرروم کا دروازہ جب بھی کھلتا ہےہمارااحساس محرومی
بڑھ جاتاہے۔لاہورکےعلاوہ سارےشہروینٹی لیٹرپرہیں۔مردوں کاکوہلوہروقت چلتا
رہتا ہے۔رات گئےایک آدمی نےاسپتال میں چادربچھائی نمازپڑھی اوردعا مانگی ’’اے
اللہ دیکھ میں تیری عبادت کررہا ہوں۔کچھ لوگ آرام سے بیٹھےہیں اورباقی سب سو
رہے ہیں ‘‘
دوسرا آدمی:’’اوبھائی۔اومیاں۔اپنی دعا مانگ
۔اللہ کو ہماری شکاتیں نہ لگا ۔‘‘
ہم شکایتی معاشرہ ہیں۔چُغل خورنمامعاشرہ۔رشتہ
داروں، دوستوں،ماتحتوں اورافسروں کی شکاتیں۔لیکن ریلیف نہیں مل رہا۔ ہماری حالت فیس
بک پرلڑکی کا جعلی اکاونٹ چلانے والےاس لڑکےجیسی ہو چکی ہےجولڑکی تو بن گیا لیکن
ساری عمر ماں نہیں بن سکتا۔بالکل ویسےہی ہم پنجابی توہیں لیکن ساری عمر لاہورئیے
نہیں بن سکتے۔خبریہ ہےکہ پنجاب حکومت نےلاہورمیں پبلک مقامات پرفری انٹر نیٹ
۔وائی فائی ہاٹ سپاٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔پارکس،ریلوے اسٹیشن،تاریخی مقامات،
اسپتال،سرکاری و تعلیمی ادارےاورمیٹرو بس روٹ پریہ سروس مفت ملے گی۔بیوی شاپنگ
کرکے گھر آئی۔
شوہر:سوٹ
خریدلیا۔؟
بیوی :بازارمیں اتنے اچھے اچھےسوٹ آئے ہیں۔مجھے
تو جُوتے بہت ہی پیارےلگےلیکن میں نےہینڈ بیگ خریدلیا۔
شاپنگ پرتنہاجانے والی بیوی شوہر کےساتھ جوسلوک
کرتی ہے وہی سرکارہمارےساتھ کرتی ہے۔حکومت آج تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ عوام کی
ترجیحات کیا ہیں۔انہیں ہاٹ سپاٹ۔وائی فائی چاہیے یا پھرسستی روٹی۔مفت ادویات
اورمعیاری تعلیم۔ ۔مشاہدہ یہ ہےکہ مہمان گھروں میں آکر اب چائے، پانی اورشربت مانگنے
کے بجائے۔باریک پن والاچارجراوروائی فائی کا پاس ورڈ مانگتے ہیں۔انکارکرنے والے
میزبان ہمیں بُرےاورانٹر نیٹ کابل جمع نہ کروانےوالے ہمسائے ہمیں غیر ذمہ دار لگتے
ہیں لیکن کچھ لوگ حقیقت میں غیر ذمہ دار ہوتے ہیں۔
پٹھان۔ہمسائے سے:یارا۔! میرا بیوی میرےدوست کےساتھ
بھاگ گیا ہے۔
ہمسایہ :تم تو کافی پریشان ہوگا۔؟
پٹھان:ہاں۔یارا۔میں اپنے دوست کےبغیرنہیں رہ
سکتا۔
ہماری ترجیحات کی طرح اخلاقیات کابھی جنازہ نکل
چکا ہے۔سستے انٹر نیٹ نے جنازےکو کندھا دےرکھاہے۔ رہی سہی کسر مفت وائی فائی اور ہاٹ سپاٹ سےنکال جائے گی۔کہتے ہیں کہ انسان کا کردارچیک کرنا ہوتواس کےموبائل کا
میموری کا رڈ چیک کرلو۔صدشُکرکہ ہم باکردارہیں روزانہ کارڈواش کرکےگھرجاتے ہیں۔
اوسط درجہ کےگھروں میں جہاں وائی فائی کا کنکشن نہیں ہوتا۔وہاں وائف آئی کو ہی وائی
فائی سمجھا جاتا ہے۔سالوں پہلےاوسط گھروں کےریڈیو، ٹی وی اور وی سی آر۔جوتا کلب کے
ممبر ہواکرتے تھے۔جب سگنل چھوٹتا ٹکا کرجوتے مارتے۔کبھی تصویرمزید خراب ہوجاتی اورکبھی
ایچ ڈی رزلٹ نکل آتا۔وائی فائی کا غیرشرعی استعمال اسےجوتا کلب میں شامل کرسکتا
ہے۔مفت وائی فائی کااعلان نئےسیاسی کلچر کی بنیادہے۔مسلم لیگی حکومت کےنزدیک ترقی
کاسیاسی استعارہ ہے۔یہ ترقی ہےتوپھرسیاست کے رجحان بھی بدل سکتے ہیں۔سیاسی جماعتوں
کےانتخابی وانقلابی نعرے ایسےہوسکتے ہیں۔گووائی فائی گو۔روٹی، کپڑا اور وائی فائی۔
دیکھو دیکھو وائی فائی آیا۔ وائی فائی آ نہیں رہی ، آگئی ہے۔وائی فائی دےنعرے وجن
گے۔جمہوریت بہترین وائی فائی ہے۔سب سے پہلے وائی فائی۔آج تےہوگئی۔وائی فائی۔قدم
بڑھاؤ۔وائی فائی۔زندہ ہے وائی فائی زندہ ہے۔ایک وائی فائی سب سے بھاری۔وائی فائی کُتا
ہائے ہائے۔چلوچلو وائی فائی کے ساتھ۔چہرےنہیں وائی فائی بدلو۔کیونکہ یہ وفا کا
نہیں وائی فائی کامعاملہ ہے۔
آج کل جس کالونی کاوائی فائی اوپن ہو۔وہاں چوریاں
کم ہوتی ہیں نوجوان ساری رات ویڈیو کالنگ سے چوکیدارا کرتے ہیں۔ ان کھلنڈروں کو اگلی
ٹیکنالوجی لائی فائی کا انتظار ہے۔ وہاں نیند آنکھیں بند کرنے سے نہیں بلکہ وائی فائی
بندکرنے سے آتی ہے۔ ممکن ہے اب ہائی فائی پارٹیوں کے نام وائی فائی سے منسوب ہو جائیں
۔جیسے مینگو پارٹی کے بجائے وائی فائی پارٹی۔ وائی فائی افطاری۔وائی فائی نائٹ رکھے
جانے لگیں۔نوجوان بغیر سگنل مقامات پر جانے سے ڈر نے لگیں۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کی معروف
سیاسی شخصیت نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد میری قبر کے سرہانے درخت کے بجائے وائی
فائی کا ٹاور لگا دیا جائے تاکہ لوگوں کا قبرپر آنا جانا جاری رہے۔قبروں پر رش کا
اب ایک ہی آپشن باقی ہے لیکن امکانِ غالب ہے کہ لاہور کےسارے مقبرے، پارک اورتاریخی
مقامات ویران ہو جائیں گےسگنل پورے ہوں تو گھر سے کون کافر باہر نکلے گا۔پھر لیبر روم
کے اندر سے ہی اسٹیٹس اپ ڈیٹ ہوگا۔لاہورکی مخبر نرسوں کی کمائی خطرے میں پڑ جائےگی۔مجھے
توخدشہ ہے ایسا فتوی ہی نہ جاری ہوجائے’’ بھوکےکوروٹی اورسمارٹ فون والےکووائی
فائی پاسورڈدینا کارثواب ہے۔لیکن استعمال شرعی کریں‘‘۔!آپ لاہورمیں مفت وائی فائی
کاایک فرضی واقعہ پڑھیں۔کلاس روم میں لڑکے نےاپنا فیس بک اکاونٹ کھولاتو۔اسٹیٹس
آن لائن شو ہوا۔پہلا کمنٹ آیا۔
پروفیسر:کلاس سے نکل جاؤ۔
دوست:اوئے کیفے آجا۔ وکی بھی ادھرہی ہے۔
ماں:نالائق ۔پڑھنا نہیں توسبزی لےکرگھر آجا
باپ:دیکھ لو۔اس گدھےکی حرکتیں۔
گرل فرینڈ:دھوکے
بازتم نےتوکہا تھا۔اسپتا ل میں ہوں دادی آخری اسٹیج پرہے
دادی:لکھ دی لعنت تیرےتے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں