جمعہ، 8 جنوری، 2016

پی ٹی آئی کی بلی چور ی

سلامتی کونسل کے اجلاس  میں پولینڈ کی وہ قراردادجوسیز فائر اور اقتدار کی منتخب نمائندوں کومنتقلی سےمتعلق تھی۔ پھاڑ کر جب  زوالفقار علی بھٹو واپس   پاکستان آئے تو انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا اور  کہا تاشقند میں ایوب خان نے بھارت کی غلامی قبول کر لی ہے۔میں تاشقند کی بلی تھیلے سےخود باہر نکالوں گا۔طویل عرصہ تک میں  سوچتا رہا کہ تاشقندی  بلی کا رنگ کیسا ہوگا، سائز کتنا ہو گا اور وہ  تھیلے کے اندر گئی کیسے ہوگی۔؟اس کے بعد پیپلزپارٹی کا جنم ہوا  دو دفعہ  اقتدار بھی ملا لیکن بلی تھیلےکے اندر ہی رہی ۔بھٹو مرحوم کا ایفائےعہد جوں جوں لیٹ ہوتا گیاتُوں تُوں مجھے خوف آتا گیا  کہ ’’تاشقند سے لاڑکانہ آتے آتے بلی کا دم ہی نہ گھُٹ جائے؟‘‘۔

تاشقند ی بلی دیکھنے کی تشنگی کئی سال تک برقرار رہی اور اپنی حالت بھی  کھسیانی ہو گئی۔ عین الیقین کی حد تک  یہ سچ ہےکہ   میں عالم لاشعوری  میں تھیلے سے نکلنے والی سچی مُچی کی بلی اور اس کی میاؤں،میاؤووں کا ہی  منتظر تھا۔لیکن تاریخ کےپرت الٹے تو اندازہ ہوا کہ  سانحہ مشرقی پاکستان، حمود الرحمن کمیشن ، راولپنڈی سازش کیس، ضیاالحق طیارہ حادثہ ، اوجڑی کیمپ،  کارگل   اور سیاچن سمیت کئی اور بلیاںبھی سالوں سے تھیلوں میں ہی بندہیں ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ   فیصل آباد میں تحریک انصا ف کی بلی نہ صرف تھیلے سےبلکہ گھر سے بھی باہر نکل گئی۔ بلی کیا  گمُ ہوئی گھروالوں کی تو سیٹی ہی  گمُ ہوگئی ۔
2013 کےالیکشن کے بعدشروع ہو نے والے تحریک کے دوران تحریک انصاف کےسربراہ عمران خان   نے کئی الزام لگائے زیادہ تر   مسلم لیگ ن کے خلاف تھے۔ جیسے  ن لیگ نے ہمارا مینڈیٹ اور ووٹ چوری کئے ہیں۔ٹیکس چوری کیا ہے۔قومی خزانے کی  چوری کی ہے۔اسی طویل الزاماتی فہرست میں بلی چوری کا الزام بھی ن لیگ کے حصے میں آگیا  ہے۔لیکن یہ الزام  پی ٹی آئی کی ایک خاتون  کارکن کی طرف  سے لگایا گیا ہے۔خبر یہ ہےکہ  صوبائی وزیر قانو ن رانا ثنا اللہ کی محلہ دار ۔خاتون  امتیاز آصف  کی دو ماہ قبل بلی چوری ہو گئی۔بلی اور مالکن دونوں پی ٹی آئی ۔ کے لانگ مارچ اور دھرنوں  میں بھی شریک رہے۔چوری کا مقدمہ تھانہ سمن آباد میں درج ہوا۔ایف آئی آر کامتن ہے کہ’’ن لیگ نے مجھے اور میری بلی کو تحریک انصاف چھوڑ کر ن لیگ  میں شامل ہونے پر مجبورکیا۔انکارکیا تون لیگ کے تین کارکنوں نے  میری بلی  چوری کر لی۔ بلی کا نام کیٹی۔ماں کا نام ۔امتیاز آصف ۔ عمر تین سال ۔۔ قیمت دو لاکھ روپے۔۔رنگ سفید ۔۔نسل  فارسی جبکہ سیاسی وابستگی تحریک انصاف سے ہے۔بلی چوری کے بعدامتیاز آصف کی نیند حرام ہو گئی ۔ایسی ہی حالت  میں ایک خاتون نے تھانے فون کیا
خاتون:ایس ایچ او صاحب  میری بلی  گم ہو گئی  ہے۔ مجھے نیند نہیں آرہی
ایس ایچ او:جل کر۔بی بی آپ  فون کان کو لگاکر لیٹ جائیں میں لوری سُناتا ہوں۔
بلی  حلال  تونہیں لیکن  پاکیزہ ضرورہوتی  ہے ۔گھروں میں پال کرہم بلی  کی پارسائی کے رکھوالےبھی بن جاتے ہیں۔وہ پیدائش سے ہی  کوٹھےٹپنی ہوتی ہے۔کم بختوں   کوگھروں کی منڈیریں اوربرآمدوں کے بنیرے  ریڈ کارپٹ جیسے لگتے ہیں۔نگوڑیاں وہاں ٹھمکتی پھرتی کیٹ  واک کرتی ایان علی بننے کی جستجو کرتی  ہیں۔ممکن ہے  یہ تحریکی بلی کہیں بنیرے سے  نکل گئی ہو۔ منی لاندرنگ کا شُبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔شیر پر بلی چوری کا الزام یہاں جنگل کےقانون کی طرف اشارہ ہے  وگرنہ بھانجا  اپنی  خالہ کو کیوں چرانے لگا۔ مجھےتو یہ الزام باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی جیسا لگتا ہے۔ بلی اپنی زبان میں  جب  بھی میاؤں  بولتی ہے تو  اس کا لہجہ ہماری زبان  کے۔ میں آؤں۔؟جیسا سُجھائی دیتا  ہے۔میاؤں اورمیاں میں صرف ’’وائو‘‘کا فرق ہو تا ہے۔وگرنہ سارے میاں ۔میاؤں ہوتے۔چندرے بِلے اپنی اپنی  بلیوں کے سامنے میاؤں ، میاؤں کرتے پھرتے۔ان چوہوں کو  خوابوں میں بھی بلیاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔
سردارجی:ڈاکٹر مجھے رات کو نیند میں بلیاں فٹ بال کھیلتے نظر آتی ہیں۔
ڈاکٹر:آپ یہ دوائی کھا لیں ٹھیک ہو جائے گا
سردار:ڈاکٹر کل  نہ کھالوں دوائی۔؟
ڈاکٹر :کیوں ۔؟
سردار :آج بلیوں کا فائنل ہے۔
سالوں پہلےپڑھی ہوئی انگلش  کلاسیکل شاعر الیگزنڈر پاپ  کی کتاب Rape of the lock اچانک یا د آگئی۔کتاب کی ہیروئن  بلنڈا نامی  انتہائی خوبصورت  دوشیزہ  ہے۔جس  کےحُسن  کی حفاظت مافق الفطرت مخلوق کے ذمہ ہے۔ایک روزبلنڈا نے خواب میں اپنا بد نما چہرہ دیکھا ۔صبح وہ  دریائے ٹیمز کی سیرپر نکلی۔کنارے پر نوجوان رئیس زادوں کی  پارٹی چل رہی ہے۔جن میں بگڑا رئیس بارون  بھی شامل ہے وہ قینچی سے بلنڈا کی زلف کا کُنڈل کاٹ لیتا ہے ۔حسن کو گرہن لگ جاتا ہے اور پوری مافوق الفطرت کائنات میں ماتم برپا ہوجاتا ہے۔پھر  زُلف کا کُنڈل واپس کرانے کی کوششیں  ہو تی ہیں۔نظم کےآخر میں بلنڈا کو دلاسہ دیا جاتا  ہے کہ   زُلف جنت میں آرام کر رہی ہے۔
ایف آئی آر درج ہوئی تو میڈیا مافوق الفطرت مخلوق کی طرح بلی کی حفاظت پر مامور ہو گیا۔خاتون کے ہاںماتم برپا تھا ۔وہ رو رو کر میڈیا کو کالز کر رہی تھیں کہ میں کیٹی کی مما بول رہی ہوں۔ میری بیٹی کا کچھ پتہ نہیں  چل رہا۔اس دوران پولیس کو   بلی پکڑنے کا موقع مل گیا ۔ مجھے غالب یقین  تھا کہ پولیس اہلکار چوہے بن جائیں گے لیکن وہ شیر بن گئے اور شیر جوانوں نے شیر کے تین نامزد کارکن پکڑ لئے۔ اگلے روز پولیس نے سرسید ٹاون سے بلی پکڑ لی۔ پولیس بلی لے کر امیتاز آصف کے گھر پہنچی تو ماں نے بیٹی کو پہچاننے سے انکارکردیا۔حالانکہ ایس ایچ او نے رات فون پر لوری سنائی تھی اور نہ ہی اُس رات  بلیوں کا فائنل تھا۔نئی پکڑی گئی بلی بھی اچھی خاصی قیمتی  تھی۔شائد سیامی نسل تھی لیکن گمُ ہونے والی بلی فارسی تھی۔پولیس نے تفتیش کے دوران ہاتھی کو ہرن بھی نہیں بنایا تھا ۔لیکن ایس ایچ او کا  نیا امتحان شرو ع ہو گیا۔ بلی  رکھنے والا کے شوقین  ایک نئے شخص  کوراتوں رات اشتہار ی کی طرح  تلاش کیا گیا ۔رات گذاری کے لئے سیامی بلی وہاں منتقل کرکے پولیس نے سُکھ کا سانس لیا ہی تھا ’’اشتہاری شخص ‘‘ کے گھر سے بلی کے بجائے بِلا نکل آیا۔پولیس کو رات بھر ایک اور مقدمہ درج کرنے کا دھڑکا لگا رہا۔
کہتے ہیں کہ عورت اگر ضد پر آجائے تو  اپنے والدین اور خاوند کسی  کی بات نہیں سنتی۔سرداروں کی طرح اُن کے بارہ بجے رہتے ہیں۔دماغ کے بھی اور مُنہ کے بھی۔  ایسی صورتحال میں اُن  سرداروں سےبات کرنے  کے چار  ذرائع ہوتے ہیں۔ 1درزی۔2 فوٹو گرافر۔3 میک اپ آرٹسٹ۔4سیاسی لیڈر ۔ امتیاز آصف نے پولیس پر دروازہ بند کر دیا تھا اوربات چیت کے لئے چوتھا ذریعہ اپنا یا ۔انہوں نے مطالبہ کر دیا  کہ عمران خان فیصل آباد آئیں اورن لیگ کی طرف سے چوری کی جانے والی  بلی تلاش کرنے میں مدد کریں۔ستم یہ کہ  عمران خان خودبھی پریشان ہیں کیونکہ دھاندلی کے تھیلوں  سے بلی ابھی تک  باہر نہیں آئی۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ  بلنڈا کی زُلف کی طرح کیٹی  جنت میں آرام کررہی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں