ہفتہ، 16 جنوری، 2016

عشق کے لئے ۔جنسی تبدیلی۔؟

ویشنو ہندو مت کا سب سے بڑادیوتا ہے۔وشنو کےانسانوں اورجانوروں پرمشتمل دس اوتار(دنیاوی روپ )ہیں۔نواوتارپرتھوی پر ظاہرہوچکےجبکہ دسویں اوتار۔ کالکی۔کا انتظار ہے۔کرشنا۔ وشنو کا آٹھواں  اوتار ہے۔ جو 3228قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ہندومت کی قدیم منظوم داستان ’’مہابھارت ‘‘کے 17 ابواب  کوگیتا کہا جاتا ہے۔گیتاہندووں کی مقدس ترین کتاب ہے۔جس کے سارےشلوک  کرشنا کی بہادری  سےمتعلق ہیں اور کرشنا نےبانسری پکڑرکھی ہے۔ہندو کلینڈر کےچھٹے مہینے  بھادوں کےآٹھویں دن کرشنا کاجنم   اُترپردیش  میں ہوا۔بشکریہ گوگل
کرشنا کی بھگت میرا بائی ۔کا جنم1498میں  راجھستان کےشاہی خاندان میں ہوا۔چارسال کی  عمرمیں میرانےاپنی  ماں سےپوچھا ۔میرا دلہا کون ہو گا۔؟تو ماں نےکرشناکی مورتی  کی طرف اشارہ کیا ۔میرا تب سےہی  کرشنا کی ہوگئی۔اسےمحبوب  بھی بنا لیا اورشوہربھی۔اچانک میرا۔کی شادی کہیں  اورہوگئی  لیکن وہ  کرشنا کےفراق میں سلگتی رہی۔وہ مہارانی تھی لیکن عشق  اسے تھیا تھیا کرکے نچاتا رہا ۔شوہرنے  گھر سےنکال دیاتو میرا۔کرشنا کےمندرپہنچ گئی۔جہاں عورتوں کےداخلےپرپابندی تھی۔میرا گارڈز کو ناچ دکھا کراندرچلی گئی  لیکن  پنڈت نےباہرنکال دیا تو میرانے بھاشن دیا۔’’میرےعلم کے مطابق پرتھوی پرخداکے علاوہ ہر انسان عورت ہے۔تم بھی اورمیں بھی۔کرشنا کی 30سال عبادت کرکےتم  خودکومردکیسےسمجھ سکتے ہو۔؟‘‘۔بھاشن سن کر پنڈت بولا۔’’ہاں ایسا ہی ہے۔اگرکوئی محبت میں اتنی انتہا تک چلا جائے تو وہ عورت بن جاتا ہے۔‘‘
ہم آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کےدورمیں زندہ ہیں۔یہاں کمپیوٹرپربیٹھاہرشخص  ای میل کا منتظر ہےاورگلیوں میں پھرتا ہر شخص فی میل کا۔اورمِیرا۔کےنظرئیے کے مطابق تویہاں عورتوں کوعورت کاہی  انتظارہے۔ٹیکنالوجی کی ترقی دیکھ کرتو لگتا  ہے کہ اب نکاح فیس بک اسٹیس کوسنگل سےمیرڈ کرنےپرہوجایا کریں گے۔مولوی صاحب پوچھیں گے۔کیا آپ کواپنا فیس بک سٹیٹس سنگل سے میرڈکرنا منظورہے۔ہاں  کی صورت میں مبارک ہو۔مبارک ہوکی آوازیں آئیں گی۔لیکن ٹیکنالوجی جتنی بھی تیز ہو ۔اِس کی رفتارتخیل سےکم رہےگی۔تخیل  کی بات ہو تو  میرا عقیدہ۔جون ایلیا  جیسا ہے وہ کہتے ہیں۔’’وجود خیال کا زوال ہے‘‘۔شادی کےبعدشنکراورپوجا ہنی مون پرگئےتوشنکربولا:پہاڑوں میں اگر اپنا نام زور سے لیں تو پہاڑ جواب میں محبوب کانام  لیتا ہے  اور وہ زورسےبولا شنکرررر۔جواب آیا۔پوجا
دلہن نام سن کر خاصی  خوش ہوئی اور زور سےبولی  پوجاااا۔!
پہاڑبولا:جگدیو۔پرکاش۔اجے۔۔ونود۔وجے
کہتےہیں کہ حماقت اورذہانت میں معمولی  سا فرق ہوتا ہے۔ذہانت کی حدہوتی ہے اور حماقت بےحد ہوتی ہے۔پہاڑ کا جواب سن کر شنکر کاشک۔وجودمیں آچکا تھا۔جون  ایلیا کا نظریہ اپنا کام دکھا چکا تھا۔جگدیو اورپرکاش وغیرہ وجودبن کر شنکرکےسامنےکھڑے تھے۔ذہانت مات کھا چکی تھی۔حماقت اپنی آخری حدودکوچھوچکی تھی۔ہندو  معاشرہ ایسی حماقتوں کی جنم بھومی ہے۔اڑیسہ میں 30سالہ لڑکی بمبالہ نے 2006 میں  کوبراسانپ سے شادی کرلی تھی۔جھاڑکھنڈمیں 18 سالہ لڑکی منگلی منڈا نے2014 میں گلی کےآوارہ کتے’’شیرو‘‘سےبیاہ رچا لیا۔مغربی بنگال میں ایک نواسےنا رائن نے جائیدادکے لئےاپنی  نانی سےشادی کرلی۔حتی کہ  سابق مس ورلڈ ایشوریا رائےنےابھیشک سے پہلے ایک  درخت سے شادی کی۔یہ   ساری شادیاں ایسےبیمارذہنوں کی علامت تھیں جن کےجسم تندرست تھے۔
ڈاکٹر(مریض سے):تم پاگل  تونہیں لگتے  لیکن لوگ کیوں کہتے ہیں۔؟
مریض:میں نےایک بیوہ سےشادی کی۔اس کی ایک بیٹی تھی۔اس نےمیرے باپ سے نکاح کرلیا۔یوں میری بیٹی میری ماں بن گئی۔ان کےگھربیٹی ہوئی تو وہ میری بہن بن گئی لیکن میں اس کا نانا تھا۔میرے ہاں بیٹا ہوا تو وہ اپنی دادی کا بھائی بن گیا اورمیں اپنےبیٹے کا بھانجھا  بن گیا۔یوں میرا باپ میرا دادابن گیا۔میرا بیٹا اپنے دادےکا سالا بن گیا اورمیری بیٹی۔۔
ڈاکٹر چلاکر:یہ کیا حماقت ہے چپ ہو جاؤ۔وگرنہ میں بھی پاگل ہو جاؤں گا ۔
اگلی حماقت یہ ہےکہ لکھنوکا رہائشی  ایک  کلاسکیکل ڈانسرگوروشرما۔اپنےپاکستانی محبوب رضوان کےلئےجنس تبدیل کرا کے لڑکی بن گیا ہے۔گوروکانیا نام میراہے۔میرا  بننےسےقبل گوروکےکئی لڑکیوں سے مراسم تھے۔اس کی شادی کےلئےدلہن کی تلاش جاری تھی کہ اچانک وہ خوددلہن بن گیا۔اب کئی اس سے مراسم چاہتے ہوں گے۔گورو۔اوررضوان5 سال سے فیس بک پر دوست تھے اورگورو صوفی ازم  پرپی ایچ ڈی کےلئےریسرچ کر رہاتھا۔میرا نے بتایا   
’’ایک وقت ایسا آیا  جب  ہم یک جان دوقالب  ہوگئے۔ہماری  کبھی ملاقات نہیں ہوئی  رضوان پہلی بارمارچ میں ملنےآرہا ہے۔رنگ ونسل،مذہب یہاں تک کہ جنس۔صوفی ازم  سرحدوں کوعبورکرجاتا ہے۔رضوان کی والدہ جب  اس کےلئے  بیوی  تلاش کررہی ہےتووہ میری  زندگی کا فیصلہ کن لمحہ تھا۔انٹرنیٹ پرسرچ  کی تواس  مسئلے کا حل  جنسی تبدیلی کی صورت میں نکلا۔پھر ہارمونز تھراپی شروع ہو گئی۔رضوان  کو پانےکےلئےتین میجرآپریشن کرائے۔سرجری کیلئے رضوان نے ہی مجھے 8 لاکھ روپےبھی دیئے مجھے یقین ہےکہ رضوان  دھوکہ  نہیں دے گا۔‘‘ٹائمز آف آنڈیا نےاس جنسی تبدیلی کوکرشنا اورمیرا سے منسوب کرکےبہت ہی کمال  کی  ہیڈ لائن دی ہے۔He turned Meera for his ‘Krishna’ from Pakistan.
گورو۔نےرضوان  کوپانے  کےلئےجس تبدیلی کا استعمال کیا وہ پاگل کی شادی کے لطیفے جیسی ہے۔وہ رضوان کی دل میں تو بس جائے گی۔زندگی میں کیسےبسےگی۔وہ  صوفی ازم میں جس  ڈاکٹریٹ کی متلاشی تھی۔وہ صوفی ازم توشریعت۔طریقت ۔حقیقت اورمعرفت کی بات کرتا ہے۔محبوب کا رنگ اپنے اوپر  طاری کرنے کی بات۔وہ ناچتا ہے تو تھیا تھیا  ۔بولتا ہے تو’’جھوک رانجھن دی جانا‘‘۔ اورگاتا ہے تو ’’رانجھا رانجھا کردی  ہن میں آپے رانجھا ہوئی‘‘۔
میرا کی ساری صوفیانہ تعلیم عشق لاحاصل جیسی ہے۔وہ تو کرشنا کی  بھگت تھی۔ 1498 والی میرا۔کےنظرئیے کےمطابق تو گاروشرماپہلے ہی عورت تھا اوریوں رضوان بھی مردنہیں عورت ثابت ہوا۔پی ایچ ڈی کی ساری ریسرچ چتا کی راکھ بن گئی ہے۔اس نےتصورمیں رضوان کو کرشنا کی طرح بانسری  بجاتے دیکھا ہو گا۔یہ کم بخت  بانسری ہی۔رانجھے اور کرشنا میں قدر مشترک ہے۔وگرنہ گورو۔تو میرا بننے کی کوشش  میں ہیر بھی نہ بن سکا۔البتہ یہ ممکن ہے ہندو معاشرہ اسے وشنو کا دسواں اوتار ’’کالکی‘‘ما ن لے۔!کاش گورو نےپڑھ لیا ہوتا’’وجود خیال کا زوال ہے۔‘‘ 

4 تبصرے:

  1. واہ سر بہت خوب۔۔ یہ تو وہی بات ہو گئی کہ (عبادت ہوئی قبول نہ میسر وصل کا موسم ہوا۔۔۔۔شروع کیا تھا جو لمبا سفر بے ثمر ختم ہوا)

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ ۔۔۔۔اگر آپ نے اس قابل سمجھا تو اچھا ہی ہو گا سر جی۔۔۔۔۔۔ ویسے یہ شعر آپ کے شاگرد یعنی خود میں نے لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں