منگل، 27 جنوری، 2015

پٹرول پینے والے مچھر


گلی محلوں،سڑکوں، میدانوں میں کھیلتے ہوئے جب کہیں سے آواز آتی کہ’’مچھر آ گیا ہے۔ مچھر ساڈے نال اے’’ توحیرانی ہوتی کہ مچھرکا آنا توٹھیک ہوسکتا ہے لیکن مچھراُن کی طرف کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔؟یہ بھید تب کھلا جب معلوم پڑاکہ مُبشرکاپُٹھا نام مچھر ہے۔۔ ۔لیکن مجھے توآج تک سمجھ نہیں آئی ہرمبشر بچپن میں مچھرہی کیوں ہوتا ہے۔۔۔
ہم نے مچھروں کو مبشر سمجھ کر آزادانہ پلنے پوسنےدیا ہے۔ارتقائی عمل نے مچھروں میں سے کچھ ڈینگی بنا چھوڑے ہیں اور کچھ پہلے سےکھٹمل تھے۔۔۔
مچھری زندگی چار ارتقائی مراحل۔۔انڈہ،لاروا،پیوپا اور مکمل مچھر۔۔۔پرمشتمل ہوتی ہے۔۔ان کی افزائش جوہڑوں، تالابوں ،نالیوں میں ہوتی ہے۔تالابوں میں مینڈک،ڈڈ مچھلی اور مگرمچھ بھی ہوتے ہیں۔مگرمچھ۔۔۔مینڈک۔۔اور مینڈک۔۔مچھر کھاتے ہیں۔۔۔مینڈکی لقمہ بننے سے قبل مچھر خون پیتے ہیں۔۔ہوسکتا ہے۔مچھروں کو لذیز انسانوں کی تلاش رہتی ہو۔۔ ۔۔۔ڈریکولا۔۔۔۔مچھر

مچھر ہمیں ڈینگی بخار، پیلا بخار یا ملیریا میں مبتلا کرتے ہیں۔دن کو سکون نہ رات کوچین۔مذہب، برادری،رنگ، نسل،اصناف اور اوصاف ۔۔۔مچھر سب کو ایک ہی ڈنگ سے کاٹتے ہیں۔
مچھر ویسے تو ہر گھر کا باسی ہے لیکن ان کے اپنے گھر بھی ہوتے ہیں۔جیسے کیماڑی ٹاون کراچی کی مچھر کالونی (پرانی مچھیرا کالونی) ۔۔۔کیا وہاں رہنے والے سارے مچھر ہیں ۔۔؟ سچ ہو تو مچھروں کے نام یوں ہو سکتے ہیں۔۔۔چوہدری مچھر، مچھر واہلہ، ملک مچھر ، مچھرخان، مچھر میمن،لالہ کھٹمل نیازی، مچھر وڑائچ، کھٹمل باجوہ، مچھر آفریدی وغیرہ ۔۔ ۔لیکن حققیت یہ ہے کہ کالونی کی7 لاکھ آبادی کے باسی بنگالی،سندھی، پنجابی،کشمیری، پختون، بلوچی،میمن، بوہری اور اسماعیلی ہیں۔
کالونی والے مچھر ہیں تو پھر۔۔ہم بھی مچھر تم بھی مچھر۔۔مچھروں کی مزید اقسام بھی ہیں۔۔لبرل مچھر،ماڈریٹ، کیمونسٹ، سوشلسٹ، اعتدال پسند، انتہا پسند، بنیاد پرست،باغی، سُرخیلے، بدمعاش، لٹیرے، رسہ گیر اور کن ٹُٹے مچھر۔۔۔۔پٹرول چوسنے والے،خزانہ لوٹنے والے، قرضےخور،قبضہ گروپ،ٹیکس چور، بجلی چور،سود خور،قانون شکن، جھنڈے والی گاڑی والے،سبز نمبر پلیٹوں والے۔۔اور۔۔ بلدیاتی مچھر ۔۔۔مچھر پرٹھپے۔۔مچھر کھپے۔۔ سمجھ گئے۔۔۔۔؟
مچھرصرف خون پیتے تھے ۔۔۔پیٹرول کا نیا فلیور انہیں بھاگیا ہے۔۔۔آٹا،چینی،گندم،گھی،پیاز،کھاد،بجلی،گیس وغیرہ ان کے مینو پر پرانی فوڈ آئیٹمز ہیں۔۔گو مچھر گو۔۔چلو چلو مچھر کے ساتھ۔۔ہرگھر سے مچھر نکلےگا۔۔مچھر تیرے سنگ رہیں گے۔۔مچھر ساڈا بھائی ہے۔۔قربانی کی کھالیں مچھروں کو دیں۔۔والے نعرےلگوانے والے۔۔ آوخون چوسیں ۔۔کا ماٹو رکھنے والے
ہم سو تے ہیں تو مچھر حملہ کردیتا ہے۔۔۔ان کے پاس سوئی اور سُوئے جیسا ہتھیار ہوتاہے۔۔جاگ رہے ہوں تو ہم اسے مارنے کے لئے تالیاں پیٹے ہیں۔۔سالا ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے۔
مچھروں کو شہرت پہلے مل جاتی تو شاعری ایسی ہوتی
ہم تیرے شہر میں آئے ہیں مچھر کی طرح
مچھر جا چھوڑ دے پیچھا میرا
جب سے تو نے مجھے مچھر بنا رکھا ہے
سنا ہے مچھر اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
منی بدنام ہوئی مچھر تیرے لئے
فلم،ڈرامہ،شاعری اورنثر۔مچھر۔فنون لطیفہ کی ہرصنف میں موجود ہے۔حتی کہ کھٹمل شب وصل میں گھس گئے ہیں۔بقول شاعر اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے میرے ارماں رخصت ہوگیا
یہ اچنبے کی بات نہیں کہ مچھر جیل بھی جاتے ہیں۔؟جیل ان کی تربیت گاہ ہے وہاں وہ کھٹملوں سے بھی ملتے ہیں۔۔۔وہاں سیاسی بحثوں،مطالعہ اور ادبی سرگرمیو ں چلاتے ہیں۔۔جیل میں الگ کلاس ملتی ہے۔۔مشقتی ملتے ہیں، اخبارات،کتب وغیرہ جیسی مراعات بھی،جیل ڈائری لکھنے والے مچھر۔۔دوران اسیری آنے والے ملاقاتی بھی مچھر۔۔۔
مچھر، ڈینگی، کھٹمل اور جونک عالمی کیڑے ہیں۔۔ملیریا مچھروں کی گھریلو صنعت ہے۔۔۔دنیامیں سالانہ 500 ملین افراد ملیریا کا شکار ہوتے ہیں اور ہزاروں مر بھی جاتے ہیں۔۔ایشیا متاثرین مچھر زیادہ ہیں۔ہم 20 کروڑ ملیریا زدہ ہیں۔ ۔۔سارا سال مچھروں کو خون پلانے والے۔۔۔غربت کی وجہ سے بیمار رہنے والے۔۔۔ مریض
ہمارے ہاں چار موسم ہیں۔۔لیکن مچھر میانے موسم میں نکلتے ہیں۔کیونکہ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی ۔۔الیکشن کا موسم میانہ ہوتا ہے۔۔وفاداریاں بدلنے والا۔۔ملک بھر میں 162 رجسٹرڈ مچھر پارٹیاں۔۔جن کا نعرہ ہے۔۔۔آو خون چوسیں
کھٹمل اندر رہتے ہیں۔۔۔ڈرائینگ روم سیاست۔۔۔مچھر باہر نکلتے ہیں۔۔۔جلسے،جلوس اور دھرنے۔۔ڈینگی ان کا Militant wing ہے۔۔مچھر اندر گھس جائے تو تریاق ممکن ہے لیکن تریاق ہرنام سنگھ جیسا نہ ہو۔۔

ہرنام سنگھ مچھروں سے خاصا تنگ تھا۔۔۔ایک کو بھگاتا، چار اور آ جاتے۔اچانک اسے اپنے بھائی کے سر پر کافی مچھر نظر آئے۔ہرنام نے ڈنڈا اٹھایا اور بھائی کے سر پر دے مارا۔۔ایک دو مچھر مرے اور بھائی بھی لُڑھک گیا۔لوگوں نے پوچھاؔ ہرنام .... یہ کیا۔۔کیا؟
ہرنام سنگھ۔!دشمنی میں سب چلتا ہے.... دو ان کے مرے، ایک اپنا
البتہ کھٹمل کے لئے یہ فارمولہ درست ہے۔۔کیونکہ کھٹمل پیدا ہوتے ہی خون چوسنے لگتے ہیں۔۔حتی کہ کمزور کھٹملوں کا بھی۔یہ آدم بو بھی ہوتے ہیں۔ہماری خوشبو سونگھتے ہیں۔کھٹمل کھاٹ، کھٹولی ،چارپائی،ٹرین،سینماگھر،بستر،الماری، رضائی، ڈریسنگ اور ڈائننگ سمیت ہر شگاف میں رہتے ہیں۔۔۔گھس جائیں تو ہرشے بےکار۔۔گندے ماحول کی پیداوار۔۔بھائیو۔!حوصلہ کرو۔اٹھا باہر پھینکو۔۔اپنی اور آئندہ نسلوں کی زندگی آسان بنالو۔لیکن۔۔۔۔!
کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظرنہیں آتی
 کل ہماری امید کی کرن ہے اور ہمیں اچھی کرن چاہیے۔۔کرن کے لئے کئی دوسرے بھی امید سے ہیں۔۔ہماری نظر ان کی کرن پر بھی ہے۔۔ سارے جہاں کادرد ہمارے جگر میں ہے۔۔لیکن کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔مچھر۔۔دو منہ والے سانپ کی طرح مدت پوری ہوتے ہی دوبارہ کاٹنے آ جاتے ہیں۔۔اور ہم شوق سے’’نرم ترین عضو‘‘پیش کرکے کٹوا لیتے ہیں۔۔۔وہ کان میں بھنبناتے ہیں۔۔ان سُروں پر ہم کان دھنتے ہیں۔۔اور خود سپردگی پر اُتر آتے ہیں۔۔
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ۔۔۔۔
آپھر سے مجھے کاٹ کے جانے کے لئے آ
خود سپردگی کے بعد ہم دنیا کو مچھروں کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔جھوٹے وعدے سہانے لگتے ہیں۔۔ہم خیالی پلاو پکاتے ہیں اور ہوائی قلعے بناتے ہیں۔۔اور ہرنام سنگھ کی طرح سوچتے ہیں۔۔
سردار جی کیلے سے پھسل کر چوٹ لگوا بیٹھے۔۔چند روز آرام کیا۔ایک روز اُسی راہ پر پھر نکل پڑے۔۔کیلے کا چھلکا پھر پڑا تھا۔سردار نے سر کھجا کر آہ بھری۔۔۔ آج پھر پھسلنا پڑے گا۔۔۔!۔۔سنگ از کنگ
سنا ہے۔۔۔۔ہماری جلد سے مادوں کا اخراج مچھروں کو بلڈ گروپ کا پتہ دیتا ہے۔۔ یہ مچھر پرستی کی انتہا ہے۔۔میٹھے خون کو وہ زیادہ کاٹتے ہیں۔۔۔ Oپازیٹو انہیں یمی لگتا ہے۔۔ہرغریب،مسکین، بیوہ، بے سہارا، نادرا، مفلس، بے بس، بےکس، یتیم، بیمار، کمزور کا خون۔۔ او Positive ہے۔۔ اور ہم 20 کروڑ مِٹھےہیں۔
مچھروں سے بچاو چاہتے ہیں تو الیکشن آتے ہی دروازے کھڑکیاں بند کرلیں۔روشن دان بھی۔باہر نکلنا ہو توجسم پر موسپل ملیں۔۔ گھروں کے اندر میٹ لگائیں، ہرمل کی دھونی دیں،گھروں کے داخلی دروازوں پر مچھر کُش نیلی لائٹ نصب کریں۔ تاکہ مچھر آپ سے دور رہنے پر مبجور۔۔تازہ خون نہ ملا تو خود ہی بھوکا مرجائے گا۔۔سالا ایک مچھر

1 تبصرہ:

  1. مچھر مچھر کردی نی میں آپے مچھر ہوئی۔۔۔
    مزے کی تحریر تھی البتہ پونی پڑھنے کے بعد مونو ٹونس لگنی شروع ہو گئی۔ یک رنگی، بیچ میں گیئر کہیں بدلی کر لیتے تو اور بھی مزا آ جاتا۔

    جواب دیںحذف کریں