دل توبچہ ہے،پاگل ہے،دل دیوانہ
ہے، عشق بےدردی ہے، کمینہ ہے، کم بخت ہے۔۔ پیارمحبت کوچاہےجتنابھی برا کہہ لیں لیکن
خوبصورت’’چیز‘‘دیکھ کر اچانک لگتاہے’’دل میں اک لہر سے اٹھی ہے ابھی‘‘۔دل انسان کوبےبس
کئےرکھتا ہے۔کبھی اکڑوں بیٹھ جاتاہے،کبھی کروٹ لےلیتاہے،کبھی نرم، نرم۔۔۔ کبھی سخت۔۔سخت
اورکبھی بقول بشیر بدر
مجھے حادثوں نے سجا سجا کے
بہت حسین بنا دیا
میرا دل بھی جیسے دلہن کا
ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا
عشق صحرا کا ایسا تپتا موسم
ہے جو صرف معراج محبوب سے
خوشگوار ہوتا ہے۔محب کی پہچان
کیا ہے اور محبوب کون ہوتا ہے۔ ۔؟ یہ تشریح کافی مشکل ہے۔۔۔اشفاق احمد کہتے ہیں میرے
بیٹے نےBSC سائنس کے ساتھ اردو رکھ لی۔بانو
قدسیہ اسے غالب پڑھا رہی تھیں۔ توبیٹے نےپوچھ لیا۔۔امی۔! محبوب کیاہوتاہے۔بانو کے جواب
سےتسلی نہ ہوئی۔۔ تومیں نے کہا جس سےمحبت کی جائے۔بیٹا کہنےلگا۔۔۔یہ توترجمہ ہے۔سائنس
تعریف مانتی ہے۔گھر میں دو۔۔دو ادیب
ہیں۔محبوب کا ایک کو بھی نہیں پتہ۔۔ ۔جس کے بعد ہم تینوں باباجی کے پاس چلے گئے۔۔۔انہوں
نے بتایا’’محبوب وہ ہوتاہےجس کا نہ ٹھیک بھی ٹھیک نظر آئے‘‘
Teen age میں سب کو۔۔۔ناٹھیک۔۔۔ٹھیک
نظر آتا ہے۔۔۔مجھے بھی آتاتھا۔۔اقربا ہمیں نا ٹھیک کی تمیز سکھاتے ہیں لیکن تب حد
نگاہ تک محبوب ہی محبوب ہوتاہے۔۔۔عشق کمینہ۔۔۔۔محبت مختصر مُدتی اندھا پن لاتی ہے۔۔۔تب
عشق وشق کی وجہ سےVisibility زیرو رہتی ہے۔۔۔۔انار کلی کے
دیوار میں چنے جانے تک۔۔۔زیرو ہی رہتی ہے۔۔۔کم بخت عشق
عشق تو نِراچکر ہے۔۔۔زندگی
کے اپنے چکر ہیں۔گھن چکر۔۔۔بلکہ وشنو چکر(ہندوستان کی منظوم داستان مہا بھارت میں استعمال
ہونے والا جان لیوا ہتھیار) روزگار،دال، دلیہ،بیوی بچے،ماں باپ،مرن جین۔سب چکرہیں۔۔ہمstrugglers زندگی کےکینوس پر صرف پنبھیری
ہیں۔۔۔جنس ہماری منزل ہے۔۔۔اجناس ہو یا جنس مخالف۔۔۔۔ہم ابن خلدون کے نظریہ عصبیت
(Asabiyyah) کی طرح ہیں۔۔۔گول گول گھومنے والے۔۔۔چکر میں
زندگی گذارنے والے۔!
عشق اور زندگی کے علاوہ۔۔دنیا
کا اپناچکر ہے۔۔ہرانسان کسی نہ کسی چکر میں ہے۔۔۔چکر باز۔۔۔۔گول ہمار ی منزل کا محور
ہے۔۔ ۔کلاک وائز یا اینٹی کلاک وائز۔۔۔۔زندگی کا حسن بھی گولائیوں میں ہے۔۔بقول ڈاکٹر
یونس بٹ’’عورت کاجسم مختلف گولائیوں سے مل کربناہے۔۔‘‘۔۔عشق کمینہ۔۔۔
محبت کی نشانیاں یادگار ہوتی
ہیں۔۔۔کبھی خوبصورت تاج محل جیسی اور کبھی عبرت ناک شادی جیسی۔۔۔بعض محبتی شادیوں کے
بعد ٹھیک ۔۔۔ناٹھیک لگنے لگتاہے۔۔کہتے ہیں تاج محل وقت کے گال پر لڑھکتا آنسو ہے۔
یہ آنسو مغل عاشق ۔۔۔شاہ جہان کا ہی ہوگا۔۔۔نور جہاں۔۔شاہ جہاں کی تیسری بیوی تھیں۔۔کامیاب
عشق کے بعد وہ 14ویں بچے کی ڈلیوری کے دوران مر گئی۔۔۔ شکسپئیر نے جولیس سیزر لکھ کر
دنیائے طب میں سزیرئین( cesarean) متعارف کروایا۔۔اس سے قبل نارمل ڈلیوری ہوا
کرتی تھیں۔۔۔میاں بیوی میں لڑائی معمولی بات ہے اورصلح غیر معمولی ۔۔۔ ہم بچوں کی تعداد
سے اندازا لگایا کرتےتھےکہ میاں بیوی کتنی بارلڑے ہیں۔۔۔یہ فارمولہ ہرجگہ ایپلائی کیاجائےتوشاہ
جہاں اورنورجہاں14بارلڑے۔۔عشق آپ وی اولا ایدھے کم وی اولے۔۔۔
عشق ہمیشہ صاف شفاف ہوتا
ہے۔۔۔لیکن ماڈرن عشق کبوترجاجا سے آگے نکل گیا ہے۔۔۔آج کل سوشلlove کا خمار ہے۔۔۔فیس بک کےان باکس
میں میسج بھیجنے والاپیار۔۔۔محبوب سے اس کےگھرجاکرملنے والا۔۔۔Disposable ۔۔پیار۔۔۔کو ایجوکیشن والا پیار۔۔۔ سمسٹرکے ساتھ
مُک جانے والا۔۔۔فیل ہوکریا سمسٹر فریزکرواکر previousسے ہونے والاعشق۔۔بےدردی۔۔۔۔
ایک لڑکا اپنی فرینڈ سے ملنے
اس کے گھر گیا۔۔۔۔لڑکی چائے لینے چلی گئی۔
عاشق نےصوفے پر پڑا محبوبہ
کا موبائل اُٹھا کر اپنا نمبر ڈائل کیا
تاکہ چیک کرے لڑکی نے کس
نام سے اُس کا نمبرsave کیا ہے
تو لڑکی کے موبائل کی سکرین
پر لکھا آرہا تھا مرغا نمبر 5 کالنگ۔۔
ہم سب مرغے ہیں۔۔۔دن بھربانگیں
دینے والے۔۔۔کُکڑوں کُڑوں۔۔مرغیوں کوکُڑک بٹھانے والے۔۔ہم میں سےکچھ برائلرعاشق ہیں۔۔
عشق حاضرہماری اخلاقی روایات اورسماجی ڈھانچے پرخودکش حملہ ہے۔۔ہم نے محبوبوں کو اپنے
والدین سے ملوانا شروع کر دیا ہے۔۔۔ویلنٹائن کارڈزکا تبادلہ کھلےعام ہورہا ہے۔۔ہماری
پارٹیوں میں غیروں کی شرکت بڑھ گئی ہے۔۔ Birthday پارٹی پر بیگانوں کو بلانا ہمارا فخر ہے۔۔مہندی پرعشاق
بلاکر ہم کلغی اونچی کرتے ہیں۔۔ایسے ہی ایک فنکشن کے بعد محبوبہ نےعاشق کو بتایا
لڑکا۔۔! کچھ بھی ہو مگرمیں
شادی تم سے ہی کروں گا
14 فروری ۔۔۔ ویلنٹائن ڈے۔۔۔۔ہماری اخلاقیات پر
دوسرا خودکش حملہ ہے۔۔۔ حالانکہ میں اس قبیلے کا باسی ہوں جہاں محبت کے لئے صرف ایک
دن کو۔۔۔ناکافی سمجھا جاتاہے۔محبت کے لئے دن اور وقت کی قید کیسی۔؟۔البتہ ویسی
محبت سے ہم باز آئے۔ محبت تو کسی درویش، سادھو اور بدھا کی تسبیح کی طرح ہونی چاہیے۔۔۔ان
گنت منکے والی تسبیح۔۔منکے سے منکہ جُڑا بھی ہواور جڑا بھی ۔۔خاندان اورسوسائٹی کے
تمام افراد سے محبت۔۔۔ دل دیوانہ ہے
عشق۔۔رقص سماع کی طرح سروں
پر منڈلاتا رہتا ہے۔۔۔بے خودی میں مبتلا کردینے والا۔۔۔بے دردی عشق۔۔۔حصول عشق ہمیں
بہروپیا بنا دیتا ہے۔۔۔ہم آزمائش عشق کے بعد لٹمس پیپرکی طرح رنگ بدل کر نمودار ہوتے
ہیں۔حالانہ تمام روپ ہمارے اندر پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔۔بالکل ویسے ہی جیسے فضا میں
کشش ثقل’’کن فائیکون‘‘ کے ساتھ ہی پیدا ہو گئی تھی لیکن۔۔آئزک نیوٹن کے اندر موجود
ایک روپ نے اسے gravity
of earth یعنی۔کشش ثقل کا نام دیا۔۔۔ Teenageمیں ہمارےاندر چھوٹے چھوٹے
نیوٹن پیدا ہوجاتے ہیں۔۔۔جو پہلے سے اندرموجود کشش کو باہر نکال لاتے ہیں۔لیکن کشش
بشرکو۔۔۔کم بخت عشق ۔۔۔پھر ہم مزید دریافت پرنکل پڑتے ہیں۔ ۔۔محبوب کی گلیاں۔۔عشق کمینہ
بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ محبت
سفید لباس میں ملبوس عمرو عیارھے، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کردیتی ھے۔۔۔اس کی راہ
پر ہرجگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے،محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن
سزانہیں ہوتی ہمیشہ عمرقید ہوتی ھے۔۔۔۔راجہ گدھ سے اقتباس
اردو کے ایک استاد نے گرائمر
پڑھاتے ہوئے سوال کیا۔۔۔!
اگر میں کہوں’’میں نہاتا
ہوں، تم نہاتے ہو، وہ نہاتا ہے‘‘ یہ کون سا زمانہ ہوا؟
شاگرد۔۔! ’’میں سمجھ گیا
سر! یہ عید کا زمانہ ہے‘‘
آج کل تو۔۔۔۔میں پیارکرتا
ہوں،تم پیارکرتے ہو اور وہ پیار کرتا ہے کا زمانہ ہے۔۔۔محبت سچ میں سفید لباس میں ملبوس
عمرو عیار ہے۔۔۔ لیکن یہ دل کا معاملہ ہے۔۔اور دل تو بچہ ہے۔۔!
آپ کو یہ جملہ تو یاد ہوگا
باخدا ہم محبت کے دشمن نہیں اپنے اصولوں کے غلام ہیں۔۔۔۔
فلم مغل اعظم میں شہنشاہ
نے۔۔ یہ جملہ شہزادہ سلیم اور انار کلی کی محبت پر کہا تھا
اس جملے میں بھی کا اضافہ
کرلیں۔۔۔۔با خدا ہم بھی محبت کے دشمن نہیں اصولوں کے غلام ہیں۔۔۔۔!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں