بدھ، 25 اپریل، 2018

’’ مجھے کیوں مارا۔ ؟‘‘

میرا دوست شیخ مرید آج طویل وقفے کے بعد ملا تھا۔اور۔۔اتنا خوش تھاکہ ۔خوشی۔رال کی طرح باچھوں سے جھلک رہی تھی۔
میں نےرسماً۔۔ اسےایک دھپا دیا اورپوچھا۔سناؤکیسی گذر رہی ہے؟۔
باچھ مزید پھیلی اوررال جھلکی۔۔الحمد اللہ، سبحان اللہ ، ماشااللہ۔ بہت اچھی۔ وہ بولا۔
طبعیت کچھ زیادہ ہی بشاش تھی۔کیونکہ تین تین کلمات طیبات یک مشت ادا ہوئے تھے۔

وگرنہ۔ مرید۔تو۔علامہ کے شعر’’کیا لُطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو‘‘کی تعبیر بن کر بیٹھارہتا تھا۔۔ البتہ آج اس کے دماغ کی ساری بتیاں یوں ٹمٹما رہی تھیں۔ گویا۔تان سین نےدیپک راگ چھیڑ دیا ہو۔
ہم۔یک جان۔دو لنگوٹ والے دوست ہیں۔اور ہماری یاری ایٹمی رازوں کی طرح خفیہ نہیں بلکہ اوجڑی کیمپ کی طرح دھماکے دار ہے۔۔اسی یارانے کی وجہ سے ہماری بیویاں ہی۔ ہماری رقیب بن گئی ہیں۔ انہیں اوجڑی کیمپ کےگولے بارود کے بجائے ہمارے لنگوٹ پھٹنے کا شدت سے انتظارہے۔ اور اس دوستی کا ہر راز بیویوں کے ہاتھ میں تھا۔ حتی کہ انہیں۔۔شک نہیں بلکہ یقین تھا کہ ہم ایک دوسرے کو پٹیاں پڑھاتے ہیں۔
مریدجس روز گھوڑی بیٹھا تھا۔پہلی بار۔اس کی رال۔تب۔ ٹپکی تھی۔اور دوسری بار آج۔ نگوڑا ۔خوشی میں ست ربٹی گیند بن جاتا ۔ آج وہ جگہ جگہ ٹھپےکھاتا پھر رہاتھا۔اورمیں۔۔اس کی خوشی کا سبب جاننے کے لئےبے قرار تھا۔۔
’’دراصل ۔تمہاری بھابھی کے دانت میں کئی روزسے درد ہے۔نیا تھری پیس سوٹ لےکر دیا تھا۔ابھی تو سوٹ کا پہلا دھو بھی نہیں نکالا ۔۔کہ نصیبو(بھابھی)نے۔نواں نکور ڈوپٹہ سرکو باندھ لیا۔درد کی وجہ سے وہ دونوں بتیسیاں دبائےبیٹھی تھی۔ ہنگھورا بھی نہیں بھرا جا رہا تھا۔ لانگ ۔لیچی، دار چینی۔کئی ٹوٹکے آزمائے لیکن ’’مرض برھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ مجھے بیچاری پر بڑا ترس آیا۔اور۔میں مشتاق احمد یوسفی کو سوچتا سوچتا دفتر نکل گیا۔ وہ کہتے ہیں’’مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے‘‘۔دفتر سے واپس آیا تودرد کی وجہ سے نصیبو کی زبان کا دم ختم ہو چکا تھا۔انجیکشن کا اشارہ کرکے بتایابھی کہ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔میں اس کا اشارہ سمجھ بھی گیا تھا۔لیکن میں نکل پڑا کیونکہ اشاروں پربھلا کون رکتا ہے۔؟۔جال میں پھنساہوا شکار جس طرح شکاری کو دیکھتا ہے۔ویسی مدد طلب نظروں سے وہ مجھے دیکھ رہی تھی۔ مجھے بیچاری پر بڑا ترس آیا۔اورمیں تمہارے پاس چلا آیا۔بھلا دانتوں میں ٹیکےکون لگاتا ہے؟۔‘‘۔مرید بولا۔
جواز تو اس کا گھٹیا تھا۔لیکن مجھے پسند آیا۔
ہم شوہروں کی خوشیاں کتنی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں اور کتنی عامیانہ باتوں سے جڑی ہوتی ہیں۔بطور شوہر مجھے مرید کی قسمت پررشک آ رہا تھا۔کیونکہ۔بیوی کے دانت میں دردنہ ہورہا ہو تو شوہرکے سر میں درد ہونے لگتا ہے۔ شوہر اپنی ریاست کا بادشاہ ہوتا ہے۔۔وہ حق حکمرانی میں شراکت برداشت نہیں کرتا۔اسے تابع داررعایا کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ آمروں کی طرح صرف ہاں سننے کا عادی ہوتا ہے۔ہمیشہ ہاں۔۔۔!
اور۔ناں۔؟۔۔ ناں تو بغاوت ہوتی ہے۔ریاست کی سب سے بڑی باغیہ۔ بیوی ہوتی ہے۔جس کا خمیر سرکشی  سے گوندھا ہوتا ہے ۔ہاں کہنا اس کے ہاں۔اعتراف شکست ہے۔ دوسری جانب۔بادشاہ۔۔ بادشاہ تو بغاوت کچلنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ایسے شوق۔ چٹان حوصلوں کے بغیرپورے نہیں ہوتے۔۔ شوہر ۔۔خواہ بادشاہ ہو۔۔ اور بادشاہ خواہ شوہر ہو۔۔ ان کےحوصلے پست ہی ہوتے ہیں۔مرید توکہتاہے کہ ’’خانگی محاذ پر ہربادشاہ ایک باغیہ کا اسیر ہوتا ہے ۔ جہاں باغیہ رانی ہوتی ہے اور بادشاہ۔ غلام ہوتا ہے۔۔نصیبوبھی اپنے گھرکی رانی تھی۔’’رانی جِنداں‘‘۔
دنیا بھر میں انسانوں کی پسنداور ناپسند مختلف ہوتی ہے۔کسی کو سننے میں سُرپسند ہیں تو کسی کو سنگیت پسندہے۔نصیبو کو سننے میں صرف ’’یس‘‘ پسند ہے۔ مرید بیچارے کے منہ سے اگرکبھی غلطی سے ’’نو‘‘ نکل جاتا تواس کا حشر ٹی ٹونٹی کرکٹ میچ کے نوبال جیسا ہوتا۔ جس کے بعد نصیبو کو فری ہٹ ملتی۔۔ ظاہر ہے فری ہٹ کا مطلب پھینٹی ہوتا ہے۔۔ایسی کرس گیل ٹائپ بیوی کے دانت میں درد ہو رہا ہو تو ڈاکٹر کے پاس کون کم بخت لے کر جاتا ہے۔ مجھے تو بیچارہ سچا لگ رہا تھا۔؟
جواز تو اس کا یہ بھی گھٹیا تھا لیکن مجھے اچھا لگا۔
مریدنےتین سال قبل گاڑی کےٹائربدلوائے تھے۔ان میں سےایک ٹائرگھرکےصحن میں رکھ کر مرید نےآگ لگا دی۔وہ احتجاج پر اتر آیا تھا۔۔نصیبو کو فری ہٹ ملے ابھی دو چار گھنٹے ہی اوور ہوئے تھے۔لاٹھی چارج پہلے بھی ہو چکا تھا۔ دوبارہ بھی امکان تھا۔جب ٹائرکا دھواں گھرکے اندرگیا۔تو نصیبو کی دوڑیں لگ گئیں۔نگوڑی۔سمجھی ہانڈی سڑ گئی۔ رسوئی میں پہنچی تو ہانڈی سلامت تھی۔سُکھ کا سانس لیا۔ لیکن دھواں سا اٹھ رہا تھا ۔آخر دھویں کی دم پکڑ کر وہ صحن تک پہنچ گئی۔ آگے راستہ بلاک تھا۔خاموش دھرنے میں پڑا پلے کارڈمسلسل شور مچا کر پوچھ رہا تھا۔۔’’مجھے کیوں مارا‘‘۔۔
دل ہمارےجسم کا ایساعضوہے۔جسے ہاتھ لگائے بغیر چھوا جا سکتا ہے۔۔بلکہ۔چھوناتوایک طرف اسےجنبش ِابروسے توڑا بھی جا سکتاہے۔ لیکن مریدکہتا ہے کہ ماڈرن محبت اب اخلاقیات کی دہلیز پھلانگ چکی ہے۔اب زلف و رخسار کے قصے۔بھلا۔لیل و نہارکون سناتا ہے؟۔مجنوں اب لیلی کی گلیوں کے چکرنہیں کاٹتے۔یہ عاشق توکسی اور ہی چکر میں ہیں۔یہ ٹیکنالوجی کا دورہے۔۔ لیلی اب وٹس ایپ پرڈسکس ہوتی ہے۔منی بدنام ہوکر خوش ہوتی ہے۔دل کمینہ اور عشق کم بخت ہو چکا ہے۔محبت کے طریقے اور الفت کے تقاضے سب بدل گئے ہیں۔عشق کی پیمائش۔اب۔ کیلکولیٹرسےبھی ہو جاتی ہے۔اوردنیا بھرمیں صرف محبت ہی تو ایسی پراڈکٹ ہے جس کے ترازو میں ہم پورا تُلنا چاہتے ہیں۔
میں نے اسے بتایاکہ ’’لندن میں بیوی کے تشدد، طعنوں اور لڑائی جھگڑے سےتنگ ایک شخص جنگل میں چلا گیا اور وہ دس سال سے وہیں رہ رہا ہے۔62 سالہ میلکم جب جنگل گیا تھا تو 52سال کا تھا۔ وہ کہتا ہے جب تک شادی نہیں ہوئی تھی وہ اپنی ملازمت اورزندگی سےبہت خوش تھا۔ ایک روزگھر میں شدیدلڑائی کےبعدمیلکم گھر سے نکل گیا ۔گھروالے اسے مردہ سمجھتے رہے اور وہ زندگی میں سکھ چین کے لئے جنگل میں قیام پزیررہا‘‘۔
مرید کی عمر42 سال ہو چکی ہے۔عمر کی شرط نہ ہوتی تو وہ۔میلکم کی طرح جنگل جانے والے میرٹ پر پورا اترتا تھا۔گھریلو حالات موافق تھےاور نہ ہی بہتری کی امیدتھی۔لیکن وہ پھر بھی گھر میں رہنا چاہتا ہے۔اپنی شیرنی کے پاس۔وہ کہتا ہےکہ جنگلوں کا بھی دستور ہوتا ہے۔ میرا گھربھی ایک جنگل ہے جہاں۔ شیرنی شکار کرتی ہے۔ اور شکار آس پاس ہی ہوتا ہے۔
ناٹھا جب۔گھرواپس روانہ ہوا تو خوشی اس کی باچھوں سے پھربہہ رہی تھی۔بھگوڑا ۔ جاتے ہی نصیبو کے دانت کا علاج کرائے گا۔دم ہلا ہلا کر ہاں جی ہاں جی کرتا پھرے گا۔آج وہ تیسری بار خوش نظر آ رہا تھا۔ میں اس کی خوشی کا سبب جاننا چاہتا تھا۔
اچانک مجھے یاد آیا۔ اسے جانور سدھانے کافن بھی آتا ہے۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں