ہفتہ، 27 فروری، 2016

’’بندر پبلک سکول‘‘

’’ط‘‘جب بھی  بیڈ پرتنہاسونا چاہتا۔ اپنی بیوی سےلڑائی کرلیتا اوربسترپریوںرات بھرلیٹنیاں لیتاجس طرح  مال بردار جانور دن بھرکی تھکان کھلےمیدان میں پشت رگڑکراتارتے ہیں۔ ’’ط‘‘ کی بیوی دوسرےکمرے میں سورہتی لیکن حیلے بہانے جب بھی حجلہ عروسی  میں آتی۔ کانی آنکھ شوہرپرضرورڈالتی۔جانےکیوں’’ط‘‘ کی لیٹنیاں اسےبندرکی ٹپوسیاں لگتیں۔ہرصلح کے بعد بھابھی’’ط‘‘ کوضروربتاتی کہ’’تم سوتے ہوئے بندرکی طرح ٹپوس رہےتھےاورڈبل بیڈکوبندرگاہ سمجھ رکھا تھا‘‘۔ہمارے ہاں بندروں کی دونسلیں ہیں۔پہلی  جنگلی یا۔چڑیا گھری۔اوردوسری گھریلو بندر۔گھریلو بندرقابوکرنا ہوتو’’طویلے کی بلا بندرکےسر‘‘ڈالی جاتی ہے اورجنگلی بندر کابہترین توڑ۔لنگورہے۔ہندوستان میں ہنومان  سےمشابہت  کی وجہ سے  بندربہت سر چڑھےہیں اسی لئےوہاں بندروں سے نمٹنےکےلئےلنگو رکرائے پردستیاب ہیں بلکہ بلدیہ نےلنگوربھرتی بھی کررکھےہیں۔

ہفتہ، 20 فروری، 2016

دیوارمہربانی ۔تیرا شکریہ

دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
یہ غزل  جانےنذیر قیصر کی ہے یا قیصر الجعفری کی۔پہلاشعر میں نے کئی بار سنا اورہربارسوچا  کہ دیواروں سے باتیں کیسے کی جاسکتی ہیں  اورپھر  یہ اچھی  کیسے لگ سکتی ہیں۔اس قبیل کے لوگو ں پر مجھے پاگل والا دوسرا مصرعہ زیادہ فٹ ہوتا نظر آتا تھا۔دیواروں کے کان ہوتے ہیں یہ مفروضہ اگر درست مان  لیا جائے توغزل کا پہلامصرعہ لغوی معنی میں سچا ہوسکتاہےلیکن سوال یہ ہےکہ  کیاسنتی دیواریں۔گونگی ہوتی ہیں۔حواس خمسہ کےباقی خواص ان  کےپاس کیوں نہیں  ہوتے ۔؟

ہفتہ، 13 فروری، 2016

ضرورت برائے شوہر

ٹی وی چینلز کا دس پندرہ دن بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ دہشت گردی، انرجی بحران، لاقانونیت، کرپشن اور اداکارہ  میرا کی شادی ملک کے اہم ترین مسائل ہیں۔ لیکن دہشت گردی  کے علاوہ کسی بھی مسئلے کے حل کی مربوط کوششیں نہیں ہو رہی۔  انرجی بحران۔لاقانونیت اور کرپشن پر حکومتی چال  خرگوشی ہونی چاہیے لیکن وہ کچھوی چال  چل رہی ہے۔اداکارہ میرا کی شادی اگرچہ نجی معاملہ ہے لیکن چینلز میرا کا ور ڈھونڈھنے کے لئے اسے  ریاستی معاملے جتنی ہوا دے رہے ہیں۔ صدشکر کہ میرا بھی اب سنجیدہ  ہیں انہوں نے شوہر چننے کے لئے اہل امیدواروں کے ٹیسٹ اور انٹرویو ز کاشیڈول جاری کر دیا ہے۔بظاہریہ شیڈول انرجی بحران پر قابو پانے جیسے لگتا ہے۔لیکن ’’قومی‘‘معاملات میں اثبات کی تلاش ہی  حب الوطنی ہے۔

ہفتہ، 6 فروری، 2016

بسنتی ان کُتوں کے سامنے مت ناچنا

استاد محترم پطرس بخاری لکھتے ہیں کہ ’’علم الحیوانات کے پروفیسر سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خودسر کھپاتے رہے، لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا کیا فائدہ ہے ۔گائےکو لیجئے دودھ دیتی ہے،بکری کو لیجئے دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔یہ کتے کیا کرتے ہیں‘‘۔؟بخاری صاحب  کتوں کےفوائدتلاشتےتلاشتے 1958 میں  گذر گئے۔اُن کےبعد محققین   اس سوال کو جوابنے کے لئے نگر نگرسونگھتے پھرے۔نئی نئی طاویلیں تراشیں۔مفروضوں کی گھڑولیاں بھی بھریں۔راقم خودانہی نیم محققین میں شامل رہا۔’’کتوںکا فائدہ کیا ہے۔‘‘ اس  موضوع پرتحقیق کرتے کرتےاچانک میرا  مفروضہ  بدل  گیا ۔خارش کافائدہ کیا ہے۔نیا موضوع بن گیا۔مقام خارش پر  کھرکنےکامزاکیوں آتا ہے۔قریب ہی مزید خارش کیوں  ہونےلگتی ہے۔خارشیےبےقرارکیوں رہتے ہیں۔؟عطاالحق قاسمی کے ایک خارشی مصرعے نےمیری رہنمائی کی۔وہ  کہتے ہیں’’بیوی سےمحبت کرناایسی جگہ پر خارش کرناہےجہاں خارش نہ ہورہی ہو‘‘