جمعرات، 13 اگست، 2015

مُنا آخر کہاں جائے۔۔۔ ؟

مُنا یوم آزادی پر صرف 11 سال کا تھا۔سفید زمین والی دھاری دار قمیض۔۔چاک گریبان، ٹوٹے بِیڑے، ڈولوں تک بازو،کمر پر لنگوٹ، پیروں ننگا، ٹخنوں پر آزادی کی دھول، پب پہ چھالے، دل میں لالے، آنکھوں میں امید، ہونٹوں پر نغمے، جوش ولولہ اور آزاد وطن میں کٹے پروں سے اونچی اڈاریاں بھرنے کی خواہش۔۔۔ کٹے ہوئے پر۔۔ کیونکہ۔۔مُنا پرانے جالندھر(انڈیا) کے گاؤں علی محلہ سے والدین کے ہمراہ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت پر نکلا تھا۔وہاں سے اندریش نگر پہنچا تو چھوٹا بھائی چھوٹ گیا۔۔بستی باوا خیل میں زاد راہ جاتا رہا۔۔کھوجے والا میں کُچھڑ سے بہن نکل گئی۔۔ کپورتھلہ اسٹیٹ کے قریب ابا نے بیمار دادو کو کنیڑے اٹھایا۔تو دادی نے ازخود نیچے اُتر کر ابا کو رخصت دے دی۔۔بھاونی پور میں سر سے گٹھڑی چھن گئی۔۔بھاگا تو جوتے پیچھے رہ گئے، سدھوان میں ماں بچھڑ گئی

پاکستان قریب آیا تو منڈی کھرالہ میں ابا۔۔دادو کے پاس چلا گیا۔۔اور پھر برکی بارڈر کے راستے مُنا جب لاہور پہنچا تو درجن بھر کُنبے میں سے صرف بڑی بہن بچی تھی۔۔جو مردانہ کپڑے پہن کر سفر ہجرت پر روانہ رہی۔۔ مُنا اسی کے ساتھ لاہور پہنچا تھا۔۔ہجرت کے دکھ دونوں کے چہرے پر نمایاں تھے۔۔۔آخر گلہ کیسا یہ سارے دُکھ تو غیروں نے دئیے تھے لیکن اب مُنا آزاد وطن میں تھا اپنے وطن میں۔۔آزاد فضاووں میں۔۔اپنوں سے دور۔۔ لیکن ایسی فضاووں میں جہاں خالق جہاں اور خالق پاکستان کا نام لینے سے روکنے والا کوئی نہ ہو
جب ہم نے خدا کا نام لیا
اس نے ہمیں انعام دیا
پاکستان پاکستان، پاکستان پاکستان
میرا انعام پاکستان
میرا پیغام پاکستان
محبت امن ہے اور امن کا پیغام پاکستان
پاکستان پاکستان، پاکستان پاکستان
اسی محبت، امن اور انعام کے لئے تو ہمارے بڑوں نے ہجرت کی۔۔ہوشیار پور، لدھیانہ، امرتسر، جالندھر، پٹیالہ، فرید کوٹ، فتح گڑھ، فیروز پور، گورداس پور، کپورتھلہ، اجیت گڑھ اور پٹھان کوٹ سے ہجرت۔۔ ہزاروں میل کی ابلہ پا ہجرت۔۔
جالندھر سے لاہور تک فاصلہ تو صرف 109 کلو میٹرتھا۔۔لیکن مُنے کو کئی دن لگے۔۔کبھی پیدل، کبھی گڈے پر، کبھی دوڑ کر، کبھی چھپ کر، کبھی دن کو اور کبھی کبھار رات کو، کبھی لا الہ پڑھ پڑھ کر اور کبھی منت سماجت کرکے، کبھی رو رو کر، کبھی سانس روک کر، کبھی ماں باپ کے ساتھ، کبھی بچھڑ کر۔۔ یہ آزادی کا سفر تھا۔۔
یہ کہانی ہر اس مُنے اور مُنی کی ہے۔۔جو سفر آزادی کے وقت مُنے تھے۔۔۔آزادی کی کہانی۔۔دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی کہانی۔۔سنگینوں کے سائے تلے، خون آلود کرپان سے بچ کر۔۔ تیز دھار بھالوں سے ہٹ کر۔۔آزادی کے اُس سفر کی کہانی۔۔جہاں شہدائے آزادی کا جگہ جگہ بکھرا لہو۔۔نشان منزل تھا۔۔جمے ہوئے خشک خون کے قطرے راہ سُجھاتے تھے، راہبری کے لئے لُٹے قافلوں کا سامان پڑا تھا۔۔انگلیاں پکڑنے والی ماؤوں کے بازو زمین پر پڑے تھے۔۔کُچھڑ اٹھانے والی بہنوں کی گودیں اجڑ چکی تھیں، دامن میں سمیٹنے والیاں کو صرف ایک ہی فکر دامن گیر تھی۔کہ ہندووں کے ساتھ ساتھ سکھ بھی عصمت ریزی پر اترے ہوئے تھے۔۔خون سے لکھے آزادی کے نوحے جا بجا بکھرے پڑھے تھے۔ ان نوحوں کا اسلوب بے گور اور بے کفن لاشے تھے۔ مُنے کے رشتہ داروں کے لاشے، مُنے کے نوحے۔۔میرے مُنے کے نوحے
11 سالہ مُنا آج 111 کا لگتا ہے لیکن وہ صرف 79 سال کا ہے۔۔
اسے غم عشق نے مار مُکایا ہے۔۔۔ بقول حفیظ ہوشیار پوری
زمانے بھر کے غم یا اک تیرا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
پاکستان مُنے کا عشق ہے۔۔ اور وہ عشق میں برباد ہو چکا ہے۔ہوشیار پوری کے شعروں کی طرح۔
سیاست، کرپشن، لوٹ مار، لاقانونیت، بے حسی، لاپرواہی، بم دھماکے، توڑ پھوڑ، تشدد، اندھا قانون اور نظریہ ضرورت۔۔یہ سب لعنتیں منے کے عشق میں رقیب ہیں۔۔
مُنا اقتدار کے ایوانوں میں جاتا ہے۔تو وہاں بیٹھے۔غلام وطن فروشی پر اترے ہوئے ہیں۔
وہ سرکاری اداروں میں جاتا ہےتو کمیشن، رشوت اور بھتہ چل رہا ہے۔
ترقیاتی کاموں کے نام پر ہونے والی کرپشن اور لوٹ مار مُنا روزانہ دیکھتا ہے
وہ تھانوں میں جاتا ہے تو وہاں لاقانونیت کا راج ہے
وہ افسران بالا کے پاس جاتا ہے تو وہاں بے حسی ہے
وہ سیاستدانوں کے ڈیروں پر جاتا ہے تو وہاں لا پرواہی ہے
وہ سڑکوں پر نکلتا ہے تو چور، اُچکے ہیں
مُنا تفریحی مقامات پر جاتا ہے تو وہاں بم دھماکے ہیں
وہ بچوں کو اسکول بھیجتا ہے تو قصور جیسے سانحے ہوتے ہیں
وہ ٹیوشن پر بھیجتا ہے تو بچے اغوا کر لئے جاتے ہیں
وہ عدالتوں میں جاتا ہے تو قانون بکتے دیکھتا ہے
مُنا آخر کہاں جائے۔۔۔؟
وہ تو 11 سال کی عمر میں اس لئے پاکستان آیا تھا کہ
خدا کی خاص رحمت ہے، بزرگوں کی بشارت ہے
کئی نسلوں کی قربانی، کئی نسلوں کی محنت ہے
اثاثہ ہے دلیروں کا شہیدوں کی امانت ہے
تعاون ہی تعاون ہے، محبت ہی محبت ہے
جبھی تاریخ نے رکھا ہے اس کا نام پاکستان۔۔ دو قومی نظرئیے والا پاکستان۔۔جہاں مُنے کے کانوں میں
بندے ماترم۔۔۔ بھارت ماتا! ہم تیرے بندے ہیں۔۔ نہ گونجتا ہو لیکن اسے یاد ہے کہ۔۔۔
ہندووں نے مسلم دشمنی میں کیا کیا ۔۔کِیا۔!
برہمو سماج کے نام سے ادارہ بنا کر۔۔اکبر کے دین الہی کا پرچار کیا
رام موہن رائے نے مجلس ایزدی کی بنیاد رکھی
دیانند سرسوتی نے آریہ سماج کی پرتشدد تحریک شروع کی۔۔۔ہندوستان صرف ہندووں کا ہے کا نعرہ لگایا۔۔۔
مسلمانوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لئے آر ایس ایس بنائی مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لئے شدھی تحریک شروع کی ہندو اتحاد کے لئے سنگھٹن تحریک چلائی۔۔۔
اگر اللہ نے چاہا زمانہ وہ بھی آئے گاجہاں تک وقت جائے گا، اسے آگے ہی پائےگا
ندا قائد کی ہے، اقبال کا الہام پاکستان
پاکستان پاکستان
پاکستان پاکستان
حصول آزادی کے اس سارے ہنگامے میں ۔۔۔یہ سچ کتنا جھوٹ لگتا ہے کہ آنے والی نسل پاکستان کے لے دی گی قربانیاں بھول جائے گی۔ لیکن دو قومی نظریہ جب تک زندہ ہے یہ قربانیاں یاد رہیں گی۔۔ کیونکہ پاکستان زمین پر کھنچی کوئی۔۔آڑھی، ترچھی لکیر نہیں ہے۔۔ایک سوچ اور فکر ہے۔۔وہی فکر جس کا تصور اقبال نے دیا۔۔اور تکمیل بابائے قوم نےکی ۔۔تحریک پاکستان، قرار دادپاکستان، تکمیل پاکستان اور تعمیر پاکستان۔۔ یہ وطن ہماری نظریاتی اور جغرافیائی حد ہے۔۔یہ لکیریں کلمے کا حصار ہیں۔۔کلمہ طیبہ کا۔۔ وہی کلمہ طیبہ۔۔ جو اسلام کی بنیاد ہے۔۔۔مُنے کو بھی ہمیشہ لگتا ہے کہ تحریک پاکستان کا مطلب ہےاسلام۔۔۔وطن کی نظریاتی لکیروں کے اندر ہم نے کچے پکے گھروندے بنائے۔۔جن میں سے کچھ محل بن گئے اور کچھ وقت نے مٹا دئیے۔ہم نے پھر گھروندے بنائے تو زلزلے نےگرا دئیے۔ ہم نے بار بار بنائے۔۔سیلاب نے بار بار گرائے۔آج بھی گھروندے ہی بنا رہے ہیں۔۔ جو دہشت گردی سے گرے ہیں۔۔کیونکہ گھروندے ہمارے ہیں۔۔۔اور گھر سالوں میں بنتے ہیں۔۔انہیں روزانہ سجانا اور سنوارنا ہوتا ہے۔حفاظت کرنا ہوتی ہے۔۔
کیونکہ یہ ایمان، اتحاد اور تنظیم کا معاملہ ہے۔۔۔
مُنا آج بھی پُر اُمید ہے۔۔ یہی امید اس کا عشق ہے۔۔
وہ میرا مُنا ہے اور میں مُنے کی امید ہوں۔۔۔

2 تبصرے: