ہفتہ، 11 اپریل، 2015

فرانس میں اسلامی کتب کی مانگ

دوستو۔۔۔! میں نے تو اِسے بہت سمجھایا لیکن یہ سمجھنا نہیں چاہتا۔۔۔
ایک سماجی محفل میں یہ فقرہ اُس نے میرے لئے کسا تھا۔۔۔ وہ بولا
اپنا تو عقیدہ ہے کہ ادب ہمیشہ بے ادبوں کے لئے تخلیق ہوا ہے۔۔۔ یہ ادب ہی ہے جو جاہلوں، گنواروں اور ان پڑھوں کو تہذیبی سانچے میں ڈھالتا ہے۔۔بلکہ یہ ٹکسال جیسا ہوتا ہے۔۔۔ دھات سے سکے بنانے جیسا۔۔۔ٹکسال میں کبھی کبھی سونے اور چاندی کے سکے بھی بنتے ہیں ۔۔۔ کھوٹے۔۔کھرے ہوتے ہیں۔۔۔ بالکل اِسی طرح ادب ۔۔۔ کھوٹے انسان کو ۔۔۔با ادب بنا ڈالتا ہے۔۔سونے چاندی جیسا کھرا ۔۔۔ ماتھوں پر محراب والا۔۔چمکتا دمکتا۔۔۔تہذیب و اخلاق کا پیکر۔۔۔کسی صحابی، تابی اور تبع تابی جیسا۔۔۔اخلاقیات۔۔ ادب کی میراث ہیں۔۔ ۔ وگرنہ بے ادبی۔۔۔ اخلاق کی گود سے تہذیب پروان چڑھتی ہے۔۔۔ریاست مدینہ جیسی۔۔۔ وگرنہ بدتہذیبی۔۔۔ لوگ سلجھے لگتے ہیں ۔۔۔ وگرنہ عربی بدووں جیسے الجھے۔۔۔ اور۔۔۔ معاشرے میں امن پھوٹتا ہے۔۔ وگرنہ شگوفے بھی نہیں چٹکتے۔۔ لوگ گُنی ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ وگرنہ گناہ گار۔۔۔

مثالی معاشرے کا ظہور ادب کی چادر اوڑھے بغیر ناممکن ہے۔۔ادب مزاج کا ہومیو پیتھک طریقہ علاج ہے۔۔دھیرے دھیرے بہتری ۔۔ادب برائے زندگی۔۔ آداب زندگی آ جائیں تو آداب بندگی بھی آ جاتے ہیں۔۔ اچھا دکھنے کے لئے اچھا بننا ضروری ہوتا ہے۔۔کیونکہ مشاہداتی علم انسان کا سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔۔۔ہم دیکھ کر سیکھتے ہیں۔۔۔ہماری اچھائیاں اور برائیاں مشاہداتی تعلیم و تربیت کا حصہ ہوتی ہیں بلکہ۔ ۔۔ بقول علامہ اقبال
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سیکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
صاحبو۔۔! وہ بخوبی جانتا ہے۔۔ کہ میں ادب سے کوسوں دور ہوں۔۔ بے ادب۔۔ادب تو رفیق غار ہے۔۔ رقیب یار نہیں۔۔ لیکن مجھے کتابوں سے قربت نہیں رقابت ہے۔۔ من علم و دانش سمیٹنے کے لئے مچلتا ہی نہیں ۔۔۔ میں تو کبھی بھی گُنی نہیں رہا۔۔۔ سماجی تقریبات اور نجی محفلوں میں مجھے اپنی کم مایگی نادِم کرتی رہی ہے۔۔ حصول علم کی دوڑ میں۔۔میں ہمیشہ خرگوش رہا ہوں اور میرے دوست کچھوا۔۔۔ انہوں نے سٹڈی سرکلز بنا کر ادب کی ریلے ریس کئی بار جیتی اور میں میراتھن کا کھلاڑی بن گیا۔۔۔حصے میں صرف تھکان آئی ۔۔۔ادبی دوری نے مجھے بے ادب بنا رکھا ہے۔۔ بقول علامہ اقبال
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
میں نے کہا
کتاب لکھے اور چھاپے گئے کاغذوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں۔ہومر، ڈانتے،آوسکر وائلڈ، شیکسپئیر، چارلس ڈکن، ٹالسٹائی، جین آسٹن اور ہیمنگ وےجیسے ادیب۔۔۔ ارسطو، افلاطون، سقراط، کانٹ، جان لاک، کارل مارکس، رسل، رؤسو، ہیگل، مل اور بیکن جسے مفکر ۔۔۔ بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔اس کے باوجود ہم بے ادب۔۔۔؟
لیکن وہ کہتا ہے کہ بے ادبوں کے لئے سزا ضروری سہی۔۔؟۔ ادب ملحوظ خاطر رہے تو اصلاح کا موقع بھی دینا چاہیے۔۔کیونکہ حد ادب۔۔ صرف آفاقی ادب ہے۔۔
ادب برائے اصلاح ۔۔۔ ہمیشہ اطلاع کا منتظر ہوتا ہے۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے بڑا کوئی ادب نہیں ہے۔۔۔۔ لامتناہی ادب۔۔۔ ادب برائے اصلاح، اصلاح برائے احوال، احوال برائے معاشرہ۔۔۔معاشرہ برائے قوم اور قوم برائے اقوام۔۔۔
قرآن کریم عربی ادب کا زندہ معجزہ ہے۔۔۔ جو نبی مُکرم کے قلب اطہر پر نازل ہوا۔۔۔23 سال میں ۔۔۔ اور اللہ تعالی فرماتے ہیں۔۔۔
 ترجمہ: ”اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتاردیتے تو تم دیکھتے کہ وہ لرزہ براندام ہے اور ہیبتِ الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوچکا ہے۔“سورہ الحشر
لیکن سرور کائنات کا قلب اطہر وحی جیسی پُر عظمت و پُر جلال چیز کا متحمل ہوا۔سبحان اللہ
یہ عالمگیر کتاب ہے۔۔۔دنیا بھر میں سب سے زیادہ تراجم والی کتاب۔۔۔ کتاب المبین ۔۔۔ اسے پڑھتے مسلمان ہیں اور سننے والے مسلمان ہو جاتے ہیں۔۔۔ مشرکین مکہ تبھی تو دوسرے مشرکین کو قرآن سننے ہی نہیں دیتے تھے۔۔۔
قرآن حکیم 23 سال میں نازل ہوا۔۔اتنے ہی سال عرب کے بدو معاشرے کی اصلاح میں لگے۔۔نبیِ محترم۔۔ کتاب لاریب کا نمونہ بنے۔۔۔
 آفاقی ادب نے مردہ معاشرے کو زندہ کیا۔۔۔یہ معجزہ ہے۔۔۔
قرآن کریم کا قلب اطہر میں سما جانا ازخود معجزہ ہے۔۔۔آج یہ معجزہ کروڑوں دلوں میں حفظ ہے۔۔۔میرے تو بدن میں سنسنی دوڑ گئی
لیکن بولے جا رہا تھا۔۔۔اور مجھ سے اچھاسامع اسے مل ہی نہیں سکتا
اس نے کہا۔۔۔
دنیا میرے نبی کو آئیڈیل مانتی ہے۔۔۔امریکہ عدو مبین ہے۔۔۔ لیکن امریکی سپریم کورٹ کے باہر نصب ایک تختی پر آقائے دو جہاں کو دنیا کا سب سے بڑا قانون دان تسلیم کیا گیا ہے۔۔ امریکی معاشرے میں قانون کی پاسداری اور عمل داری۔ ۔ میرے آقا کی بدولت ہے۔۔ مجھے کپکپی سے چھڑ گئی۔
وہ پھر بولا۔۔مجھے کسی امریکی شہادت کی ضرورت نہیں۔۔!
یورپ کے بہت سے ممالک میں حضرت عمر فاروق کا طرز حکمرانی law of Omar کے نام سے رائج ہے۔۔۔۔ برطانیہ نے جزوی طور پر ۔۔۔ سویڈن نے Omar law کُلی طور پر نافذ کر رکھا ہے۔۔۔ کینڈا میں بھی ہو رہا ہے۔۔۔لیکن مجھے کسی سویڈن ثبوت کی بھی ضرورت نہیں۔۔
 میں ابھی سوچ ہی رہتا تھا اسے کس چیز کی ضرورت ہے وہ پھر گویا ہوا۔۔
حضرت عمر نے60 لاکھ مربع کلومیٹر پر حکومت کی تھی۔دریائے فرات کے کنارے پیاسے کُتے کی بھی فکر مند حکومت۔۔۔ لیکن فرانس اس میں شامل نہیں تھا۔۔۔ واللّٰہ واسع علیم
عبدالرحمٰن الغافقی۔۔۔ بنو امیہ کے ایک جرنیل تھے۔ 730ء میں خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے انہیں اندلس کا گورنر اور کمانڈر مقررکیا تھا۔ کمانڈر کی قیادت میں اموی افواج نے فرانس پر حملہ کیا۔ 732ء میں جنگ ٹورس (دنیا کی 15 اہم ترین جنگوں میں شامل)۔۔ہوئی۔۔
چارلس مارٹیل کی قیادت میں فرینچ فوج نے مسلمانوں کو شکست دی۔اس ہار۔۔ نے مغربی یورپ میں اسلام کی پیش قدمی روک دی۔ ۔۔اور جنگ میں خود عبدالرحمٰن شہید ہو گئے۔
732 سے آج 2015 تک فرانس پر دوبارہ حملہ نہیں ہوا۔ مشہور مورخ ایڈورڈ گبن لکھتے ہیں۔۔۔
‘‘اگر مسلمان جنگِ ٹورس جیت جاتے تو آج آکسفورڈ میں قرآن پڑھایا جا رہا ہوتا اور اس کے میناروں سے پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی’’
یورپ کی تاریخ آج مختلف ہوتی۔ فرانس کے بعد انگلستان تھا اس سے مزاحمت نہیں ہونی تھی۔۔اور یورپ آج نیلی آنکھوں والی سفید آریائی نسل کی بجائے سیاہ آنکھوں والی سامی نسل کا مسکن ہوتا۔بشکریہ گوگل
وہ کہتا ہے۔۔۔یورپ تب سے دین اسلام کو خوفناک دشمن بنا کرپیش کر رہا ہے۔۔۔سچائی سے خوف زدہ ۔۔۔ کلیسا کی عظمت کے لئے حئی علی الصلاح اور حئی علی الفلاح سے خوفزدہ یورپ۔۔۔۔سازشی اور سہما ہوا یورپ۔۔
اس نے جنوری 2015 کا ایک قصہ مجھے سنایا جب فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو نے امت مسلمہ کے جذبات کو مجروح کیا۔۔۔گستاخانہ کارٹون چھاپے۔۔ اور پھر میگزین کے دفتر پر فائرنگ ہوئی۔چیف ایڈیٹر اور چار کارٹونسٹوں سمیت دس صحافی اور دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 20 افراد زخمی ہوئے۔پورا فرانس سہم گیا۔۔ پورا عیسائی یورپ۔ پریشان تھا۔۔۔مسلمان بھی کارٹون چھپنے پر اتنے ہی پریشان تھے۔۔
اس دہشت گردی کے خلاف ویسی ہی ریلیاں ہوئیں۔۔۔ جیسی مسلمانوں نے خاکے چھاپنے پر نکالیں۔۔۔
یہ تقدیس نبی کا مسئلہ تھا۔ملعونوں کے خلاف فرانس نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔حتی کہ یہ میگزین ماضی میں بھی کئی بار ایسا کر چکا تھا۔۔
میں پوچھا۔۔! یہ حملہ کیا کس نے۔۔؟
 وہ تو کہتا ہے۔۔۔ فرانس کی نیشنل فرنٹ پارٹی(سیاسی جماعت) کے سابق سربراہ جین میری لی کہتے ہیں کہ اخبار کے دفتر پر حملہ امریکی یا اسرائیلی ایجنسیوں کی کارروائی ہے۔پیرس میں یونٹی مارچ کے لئے اکھٹے ہونے والے 15 لاکھ افراد نے خود کو’’چارلی‘‘ کہا لیکن وہ سارے چارلی چپلن تھے۔
وہ جذبات میں بہہ رہا تھا اچانک اسے یاد آیا۔۔۔خاکے چھاپنے کے بعد فرانس میں اسلامی کتابوں کی فروخت میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔۔ غیر معمولی اضافہ۔ فرنچ یونین آف بک شاپس اور۔۔ فرانس میں اسلام اور مشرق وسطیٰ پر کتب چھاپنے والے البراق پبلشرز کا بھی یہی ماننا ہے
اسلام کی برتری سنی تو دل سے اک لہر شروع ہو کر حرام مغز کے قریب سے باہر نکل گئی۔۔۔ میں نے ابھی جھرجھری بھی نہ لی تھی وہ پھر بولا
مشل ہولے فرانسسی مصنف نے۔۔۔ سبمشن (اطاعت)۔۔۔ نامی کتاب لکھی ہے۔۔۔وہ لکھتے ہیں
فرانس آئندہ چند برسوں میں اسلامی ریاست بن جائے گا۔۔ایک اسلامی جماعت اقتدار میں آکر ایسا کرے گی۔۔کتاب میں یونیورسٹیز کو قرآن پڑھاتے، خواتین کوحجاب میں بتایا گیا ہے۔۔مردوں کی زیادہ شادیاں۔۔اور۔خواتین کے ملازمت چھوڑنے پر آمادگی بیان کی گئی ہے۔۔ تب جرائم کا خاتمہ ہو گا۔۔ اور فرانس کے بےحس۔۔ زوال پذیر لوگ کسی بھی مزاحمت کے بغیر اسلامی حکومت کو قبول کرلیتے ہیں۔ اور مصنف نے’ ڈیلی۔۔۔ ’لی فگارو نامی اخبار کو انٹر ویو میں کہا تھا کہ‘‘ آخر کار میں نے قرآن کو پڑھا،تو مجھے لگا کہ یہ کتاب میرے خیال سے خاصی اچھی ثابت ہوئی’’۔
اس نے نشست آخری بات کہہ کر برخاست کردی کہ۔۔۔۔۔ یہ کتاب فرانس میں بھی Omar law کے نفاذ کا اشارہ دے رہی ہے

2 تبصرے: