پیر، 23 مارچ، 2015

پاکستان میری گرل فرینڈ



یوم پاکستان ۔۔ دراصل یوم تجدید عہد ہے۔۔ہم بانی پاکستان کی دی گئی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے امین ہیں۔۔ ۔نظریاتی سرحد دراصل دو قومی نظریہ ہے اور جغرافیائی سرحد بھی یہی ہے۔۔ دو قومی نظریہ پاک لوگوں کے سر زمین پاکستان۔۔ اور ناپاک لوگوں کی زمین ہندوستان۔  کے درمیان کرہ ارض پر دست قدرت سے کھینچی ایسی لکیر ہے۔جس کا ظہور14 اگست 1947 کو رمضان المبارک کی 27 ویں شب قیام پاکستان کی صورت میں ہوا۔اس لکیر نے نہ صرف مسلمانوں کو ہندووں سے الگ شناخت دی ۔۔۔بلکہ کلمہ طیبہ اور رامائن کا فرق بھی واضح کیا۔قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے اغیارکو پیغام دیا کہ ہم نے برصغیر پر ہزاروں سال حکمرانی کی ہے۔۔ہم محکوم رہنے کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ ہمیں ایسی آزاد فضاووں کی ضرورت ہے جہاں پر مذہبی آزادی ۔۔۔ ملی آزادی سے مشروط ہے
آج اسلام آباد میں 7 سالہ وقفے کے بعد ہونے والی یوم پاکستان کی تقریب اور واہگہ بارڈر پر ہونے والی پُرجوش تقریب نے میرے بدن میں ملی غیرت اور محبت کے اُس جذبے کو مزید پرجوش اور توانا کر دیا ہے جو کبھی ماند پڑا ہی نہیں تھا

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے۔۔۔وہ فصل گل، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں۔۔یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
ملی محبت میرے اندر۔۔۔تاریخ قیام پاکستان پڑھ کر پیدا ہوئی۔۔1936 کی کانگریسی وزارتوں نے مسلمانان ہند پر جو مظالم ڈھائے انہوں نے 1940 میں ہند سندھ میں اتحاد بین المسلمین کو جنم دیا۔ہندووں نے ہندی کو قومی زبان قرار دے ڈالا، گائے زبح کرنے پر پابندی لگا دی۔۔۔ ترنگے کو قومی پرچم بنا دیا۔۔ اور سکولوں میں وندے ماترم ترانہ بجانے لگے
پاکستان کیوں ضروری تھا۔۔؟تاکہ اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کا قیام۔۔اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا تحفظ۔۔اسلامی جمہوری نظام کا نفاذ۔۔اردو زبان کا تحفظ و ترقی۔۔مسلم تہذیب و ثقافت کی ترقی۔۔مسلمانوں کی آزادی۔۔معاشی، سیاسی و معاشرتی ترقی۔۔رام راج کا خاتمہ۔۔انگریزوں کا انخلا ۔۔ملی و قومی اتحاد اور دو قومی نظریہ کا تحفظ۔۔ ممکن ہو سکے
البیرونی "کتاب الہند"میں لکھتے ہیں‘‘مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ ہندو مسلمانوں کو نیچ قوم سمجھتے اور ان سے کراہیت کرتے ہیں ۔حضرت مجدد الف ثانی۔۔ شاہ ولی اللہ، سرسید اور پھر علامہ اقبال نے یہی نظریہ پیش کیا۔
1930 میں علامہ اقبال نے۔۔مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔1933 میں چودھری رحمت علی نے اس تصور کو پاکستان کا نام دیا۔1938 میں سندھ مسلم لیگ نے تقسیم برصغیر کی قرار داد پاس کی۔23 مارچ 1940 کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک قرار داد منظورہوئی۔جس نے قیام پاکستان کا جواز فراہم کیا اور صرف 7 برس کے بعد ہمیں پاکستان مل گیا۔ قرارداد لاہور بنگال کے وزیراعلی مولوی فضل الحق نے پیش کی۔۔۔یوپی کے لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں، پنجاب کے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے قرار داد کی تائید کی۔
صدارت قائداعظم نے کی۔۔۔وہ دہلی سے ٹرین پر لاہور آئے ۔۔ اڑھائی گھنٹے تقریر کی اور فرمایا
’’مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں، ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں، سماجی عادات،علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ اکٹھے کھانا کھاسکتے ہیں اور یقیناً یہ لوگ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں۔یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ذرائع سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ان دونوں کے ہیروز اور قصے کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اکثر ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے۔
قرار داد پاکستان میں آزاد مسلم حکومت کا قیام۔۔۔تقسیم کے علاوہ دوسری اسکیم نامنظور۔۔اور۔۔ہندو علاقوں میں مسلمانوں کا تحفظ۔۔۔تین اہم نکات اٹھائے گئے۔۔۔
قرار داد پاکستان کے مقام پر۔۔قیام پاکستان کے 13 سال بعد۔۔ مینار پاکستان تعمیرکرنے کا فیصلہ ہوا ۔مغربی پاکستان کےگورنر اختر حسین نے23 مارچ 1960 کو افتتاح کیا۔تعمیر22 مارچ 1968 کو مکمل ہوئی۔ 5 لاکھ روپے لاگت آئی۔لمبائی 62 میٹر ہے۔۔ڈیزائن ترک آرکیٹیکٹ مورات خان نے بنایا۔ مینار کے نیچے محراب میں قرارداد لاہور۔۔۔ اللہ تعالی کے صفاتی نام،علامہ کے چند اشعار اور قومی ترانہ بھی کندہ ہے۔
انسان سے محبت نہ ہو تو وطن کی محبت بھی واہمہ ہے۔۔جس دیس میں ہمارا کوئی محبوب نہ ہواس دیس سے محبت ہو ہی نہیں سکتی۔آج کے انسان کی وطن پرستی اس لئے مشکوک ہے کہ وہ انسانوں کی محبت سے عاری ہے۔۔ زمین، مکان اور پیسے سے محبت کرنے والا انسان محبت کی اصل روح سے محروم ہے۔وطن اس لئے پیارا ہوتا ہےکہ ہمارے پیارےاس میں رہتے ہیں، ورنہ وطن کیا اور وطن کی محبت کیا..!" واصف علی واصف
لیکن وطن سے میری محبت کی وجہ۔ نعرہ تخلیق لا الہ الا اللہ ہے۔پاکستان میری گرل فرینڈ کی طرح ہے۔۔۔میرا شمار ان عاشقوں میں کر لیجئے جو لاغر وسائل کے باوجود گرل فرینڈ کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔میں ابھی تک ناکام ہوں۔۔۔ لیکن خلوص صادق کا مجھے یہ صلہ ضرور ملا کہ حب الوطنی میری رگ رگ میں اتر گئی۔۔ یہ سب اللہ کے بعد میری گرل فرینڈ کی دین ہے۔
وطن سے محبت میرے نزدیک ایمان کا حصہ ہے۔۔۔ ایمان بالقلب۔۔۔اور ایسی کوئی وجہ بھی نہیں کہ میں اس محبت کو ایمان مجمل جیسی پختگی پر نہ لےجاوں۔۔۔ہزار دلیلیں ہیں جو حب الوطنی کو مسلسل بڑھاوا دے رہی ہیں۔۔۔ یقین مانیں یہ یک طرفہ محبت تھی لیکن اب دو طرفہ ہے۔۔۔گرل فرینڈ نے مجھے سانس لینے کے لئے آزاد فضائیں دی ہیں۔۔۔ اللہ اور میرے رسول کی تابعداری کا بے پناہ موقع بھی۔ عزت، دولت، شہرت سب کچھ مجھے ملا۔۔ آخر میں اس کا چرچہ کیوں نہ کروں
پاکستان کے 5 صوبے ہیں۔۔پنجاب، سندھ،خیبرپختونخوا، بلوچستان اور نیاصوبہ گلگت بلتستان ہے۔۔
قومی زبان اردو۔۔۔ہے۔جھنڈا ہلالی، نغمہ پاک سر زمین۔۔جانور مارخور، پرندہ چکور، پھول یاسمین، درخت دیودار، پھل آم، کھیل ہاکی، قومی دن۔۔ یوم پاکستان۔۔۔ قومی شاعر علامہ اقبال، لباس شلوار قمیض، قومی مشروب - گنے کا رس، قومی نعرہ پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لا الہ الا للہ ہے
اور بانی پاکستان ۔۔۔ قائداعظم۔۔۔۔ان کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، تنظیم ہماری سرکاری تحریر ہے۔
ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ نے ایک بار مجھے فرمایاــ تم جانتے ہو کہ جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو  میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا۔میرا ایمان ہے کہ یہ رسول خدا کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں۔ تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے’’۔۔۔ پروفیسر ریاض شاہ کی کتاب میرا قائد سے اقتباس
پاکستان اللہ تعالی کی خاص نعمت ہے۔۔ یہاں سب کچھ ہے۔۔جیسے
سندھ، جہلم، چناب، ستلج، بیاس اور راوی بہتے ہیں۔۔دریائے ہنگول، توی، گومل، کرم، ٹوچی، سون،کابل، سوات، چترال، ہنزہ اور دریائے لورالائی دیگر دریا ہیں۔۔بحیرہ عرب ان دریاوں کی آغوش ہے
یہاں دھواں اگلتی چمنیاں ہیں اور سونا اگلتے کھیت ہیں۔اور۔دنیا کی حسین ترین وادیاں ہیں۔۔
وادی نیلم۔۔ وشال پہاڑیوں کے درمیان۔۔ہریالی، چشمے، نہریں، گلیشیئرز اور جھیلیں
وادی ہنزہ۔۔ گلگت بلتستان کی پہاڑی وادی۔۔۔قلعہ بلتت، بوریت اور گوجال جھیل
وادی کیلاش۔۔۔ناقابل بیان خوبصورتی اور ثقافت سے مزین
وادی سوات۔۔ ایشیاءکا سوئزرلینڈ ۔۔برفیلی چوٹیاں، جھرنے، چراگاہیں، جنگلات،جھیلیں۔سیدو شریف، مینگورہ،کالام، کوہستان، مرغزار،بونیر، سید گئی جھیل اور شانگلہ دلکش مقامات
وادی کاغان۔۔۔ دریائے کنہار، مکڑا چوٹی اور ملکہ پربت کی وادی۔۔ درۂ بابوسر جانے کا راستہ۔ شوگران، ناران، جھیل سیف الملوک، آنسو جھیل اور جھیل لولو کے سر۔۔کی وادی
وادی کوہسار۔مری۔۔برف اور بادلوں سے لپٹی وادی۔۔۔بھوربن، پتریاٹہ،پنڈی پوائنٹ، نتھیا گلی اور مال روڈ۔۔
شندور پاس ۔۔۔ ہندوکش، پامیر اور قراقرم پہاڑی سلسلوں کا سنگم۔۔۔۔دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ
راولاکوٹ۔۔۔آزاد کشمیر۔۔۔پہاڑیوں سے گھری وادی۔۔بنجوسہ جھیل، ٹولی پیر،پونچھ دریا اور تاتا پانی کی جھیل
 زیارت۔۔۔قائد کی آخری آرام گاہ۔۔۔ دنیا کا دوسرا بڑا صنوبر کا جنگل
وادی جہلم۔۔۔سرسبز پہاڑ۔۔۔’’لیپا وادی” کی ماں۔۔۔گڑھی دوپٹہ، چیناری اور چکوٹھی کی خوبصورتی کا مرکز
آنکھوں سے اوجھل چند مقامات
گورکھ ہل اسٹیشن۔۔۔یہ سندھ کا مری ہے۔۔کراچی سے 450 کلو میٹر دور۔ میٹھے پانی کے چشمے اور آبشاریں
مکش پور ۔۔۔نتھیا گلی۔۔۔ Mountain Trekking اور Camping کے شوقین سیاحوں کا مرکز
پیرغائب، سبی۔۔۔سنگلاخ پہاڑوں میں نخلستان ۔۔۔دو دھاری آبشار اور نیلے تالاب کا ٹھنڈا پانی۔۔
اروڑ۔۔ سندھ۔۔۔ راجہ داہر کی راج دھانی۔۔۔اروڑ مسجد۔۔ محمد بِن قاسم کی دھرتی۔۔۔
وادی مولہ، خضدار۔۔۔ صاف اور شفاف چشمے۔۔ بلند و بالا پہاڑ۔۔ لہلہاتی ہوئی فصلیں۔۔
اُوچالی جھیل،ضلع خوشاب۔۔وادی سون کا اہم مقام ۔۔پرندوں کی گزرگاہ اور مسکن بھی۔۔
فورٹ منرو ۔۔۔ڈی جی خان کا خوبصورت تفریحی مقام۔مری جیسا
یہاں۔۔۔۔ اودین، الہی بیاہو، التر، البروزی، بتورا، پاسو،تولتار، ٹرچ بالا، روپل، حسینی،سیرو، لونک اور میر جیسے گلیشر ہیں۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی ہمارے پاس ہے۔۔۔
دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہیں ہیں۔
 کوہ قراقرم۔۔کوہ ہمالیہ۔۔۔کوہ ہندوکش۔۔۔ کوہ پامیر۔۔۔کوہ سلیمان۔۔۔ کوہ نمک۔۔۔ کوہ مارگلہ۔۔۔کوہ ٹوبہ کاکڑ۔۔ كوه کیر تھر اور ۔۔۔کوہ اراولی پاکستان کے اہم ترین پہاڑی سلسلے ہیں۔۔۔کوہ قراقرم کی بلند ترین چوٹی کے ٹو ہے۔۔۔8611 میٹر بلند۔۔۔ کو ہ ہمالیہ میں 8126 میٹر بلند نانگا پربت ہے ان کے علاوہ گاشرم، بروڈ پیک اور بلتورو۔۔۔ وغیرہ چوٹیاں بھی 8 ہزار میٹر سے بلند ہیں۔
درۂ خیبر۔۔ 33 میل طویل۔۔خشک اور دشوار گزار پہاڑوں میں گھرا ہوا۔ ۔برصغیر میں شمال مغرب سے آنے والے ہر فاتح کا راستہ یہی درہ تھا۔یہ درہ جمرود سے تورخم تک جاتا ہے۔
درہ خنجراب۔۔۔سلسلہ کوہ قراقرم میں بلند پہاڑی درہ۔۔گلگت بلتستان، جموں و کشمیر اور چینی صوبے سنکیانگ کے لیےایک فوجی مصلحتی مقام ہے۔
پاکستان جدیدکےساتھ ساتھ قدیم تہذیب کا بھی یکساں مسکن ہے۔ یونیسکو نےکئی مقامات کوعالمی ثقافتی ورثے قرار دے رکھا ہے
صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ۔۔۔۔ کے قریب 5 ہزار سال قدیم موہن جو داڑو تہذیب ہے۔ساہیوال کے نزدیک ہڑپہ بھی اسی تہذیب کا شہر ہے۔گندھارا تہذیب 600 ق م (قبل مسیح)تک قائم رہی۔ یہ پشاور، ٹیکسلا، تخت بائی، سوات، دیر اور چارسدہ پر مشتمل تھی۔
بادشاہی مسجد۔۔ شاہی قلعہ لاہور۔۔قلعہ روہتاس۔۔(پوٹھوہار میں شیر شاہ سوری کی یادگار)۔۔ہرن مینار(شیخوپورہ)، جامع مسجد ٹھٹھہ(یہاں امام کی آوازبغیر سپیکر ہی پوری مسجد میں گونجتی ہے)۔مہر گڑھ بلوچستان۔۔۔ جنوبی ایشیاء کا پہلا علاقہ۔۔۔ جہاں گندم اور جو کی زراعت کی گئی۔
یہاں جھیل سیف الملوک اور آنسو جھیل۔۔۔۔باغ سار جھیل (ضلع بھمبر) ، بنجوسہ جھیل(ضلع پونچھ )، چیتا گاتہ جھیل (وادی شنتر آزاد کشمیر) ، عطا آباد جھیل۔(وادی ہنزہ)، جھیل کینجھر(ضلع ٹھٹھہ)، منچھر جھیل (ضلع دادو)، کلر کہار جھیل (ضلع چکوال)، شنگریلا جھیل (ضلع سکردو) بھی موجود ہیں
یہاں جامگر، گل پور، چام،پیرغائب، ہانا، چھوٹوک، ناران کاغان، بافا، گوجر خان، صوابی واٹر فال اور مروٹ وغیرہ میں آبشاریں بھی ہیں
گلگت بلتستان میں وادی شگر، دیامر، سکردو اور وادی کنار۔۔ آزاد کشمیرمیں وادی لیپا، سماہنی، خیبر پختونخواہ میں وادی چترال، بٹگرام، فاٹا میں وادی کرم، وادی تیرہ، ٹوچی، پنجاب میں وادی سون سکیسر، بلوچستان میں اوڑک وغیرہ اہم وادیاں ہیں
تیری وادی وادی گھوموں تیرا کونہ کونہ چوموں
تو میرا دلبر جان تو میرا پاکستان
ہم گرل فرینڈ کے لئے جان دینے اور لینے پر اُتر آتے ہیں کاش ہم 20 کروڑ پاکستان کو گرل فرینڈ بنالیں۔میں تو پاکستان کے لئے کافیpossessive ہوں ۔۔۔ صد اطمینان ہے کہ میرا خمیر ارض لا الہ الا اللہ سے اٹھا ہے۔۔۔
میں امن و آشتی کا پرستار ہونے کے باوجود اس کے ناموس اور تحفظ کے لئے لڑ بھی سکتا ہوں اور اس کی آن پر مر بھی سکتا ہوں۔۔(احمد ندیم قاسمی)
بلاگ کے لئے بیشتر مواد گوگل سے لیا گیا ہے،شکریہ گوگل

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں